لبِ بام — باذلہ سردار

ایمان کا ایڈمیشن میڈیکل کالج میں ہو گیا اور وہ مٹھائی لے کے نجویٰ کے گھر آئی تھی۔ نجویٰ نے گرمجوشی سے ایمان کو مُبارکباد دی، لیکن وہ کچھ افسردہ تھی کیوں کے پہلی بار اُس نے ماں باپ کی نافرمانی کی تھی۔ جب سے رزلٹ آیا تھا میجر صاحب نے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کا وزٹ کرنا شرو ع کر دیا تھا، لیکن نجویٰ نے صاف انکار کر دیا تھا کہ اتنی زیادہ ڈونیشنز اور بھاری بھرکم فیس دے کے وہ ہر گز نہیں پڑھے گی ناجیہ بیگم نے کتنی بار نجویٰ کو سمجھایا تھا وہ جانتی تھیں کے سختی کا اس پے کوئی اثر نہیں ہو گا اور وہی ہوا تھا نجویٰ نے ماں باپ کی ناراضی مول لے لی تھی، لیکن اپنی بات پے ڈٹی ہوئی تھی۔ اب اُسے یہ پریشانی تھی کہ وہ آگے کیا پڑھے سب جگہ ایڈمیشنز بھی کلوز ہو گئے تھے اور نجویٰ سائنس کے مضامین بھی نہیں پڑھنا چاہتی تھی آخر ایمان نے اُسے مشورہ دیا ۔
”محترمہ اب سوگ منانا بند کرو تم وقت ضائع مت کرو اور کچھ نہیں تو پرائیویٹ بی اے ہی کر لو پہلے ہی تم نے اتنا وقت ضائع کیا ہے۔ آخر افسردہ کس بات پے تھی۔”
”میرا فون بھی پاپا نے لے لیا ہے۔ اب میری اس سے بات نہیں ہو سکے گی۔ کبھی تو سوچتی ہوں چھپ کے کسی کے فون سے بات کر لوں، لیکن پھر خیال آتا ہے کہ کہیں وہ مجھے غلط ہی نہ سمجھ لے شاید یہ بھی بہتر ہی ہوا اللہ مجھ سے کچھ ایسا کروانا چاہتا ہے جس سے میں محبت کی چاہ کرنے کے ساتھ محبت بانٹ بھی سکوں۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو مجھے وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے میں کتابیں لے آتی ہوں، ایڈمیشن بھیج دیتی ہوں ریگولر نہیں تو پرائیویٹ ہی سہی۔”
”تم نے سوچ لیا کہ کیا پڑھو گی۔”
”ہاں سوچ لیا اردو لٹریچر پڑھوں گی۔ ”
”واہ بھئی شا عرہ بننا ہے۔”





”پتا نہیں کیا بننا ہے، لیکن اردو پڑھنے سے مجھے یہ لگے گا کہ میں اُس سے باتیں کر رہی ہوں۔”
”مطلب تم پڑھائی میں بھی رومانس چاہتی ہو۔”
نجویٰ ایمان کی اس بات پے کھل کے ہنسی تھی۔ اُس کا موڈ بھی کافی بہتر ہو گیا تھا۔ اس نے وقت گزرنے کے ساتھ میجر صاحب اور ناجیہ بیگم کو بھی اس بات کے لیے راضی کر لیا تھا کہ اب وہ اردو پڑھے گی۔ دونوں میاں بیوی نجویٰ کے اس فیصلے پے زیادہ خوش نہیں ہوئے تھے لیکن بہرحال انہیں یہی بہتر لگا تھا۔ نجویٰ ان کی اکلوتی اولاد تھی اور وہ اسے دل و جان سے چاہتے تھے لیکن انہوں نے نجویٰ کو موبائل فون نہیں دیا تھا اور ساتھ یہ نصیحت بھی کی تھی کہ اگر وہ ایمان سے ملنا چاہتی ہے، تو اسے گھر بلا کے ملے اور فون پے کسی سے بھی بات کرنے کی اجازت اسے نہیں ملی تھی ۔نجویٰ کے لیے یہی بہت تھا کہ اس کے والدین نے اسے اس کی مرضی کے مضامین پڑھنے کی اجازت دے دی تھی۔ وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی اور اس وقت مجتبیٰ اسے بہت یاد آیا تھا۔
اس دن کے بعد کبھی مجتبیٰ نے بھی نجویٰ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ایک تو اس نے کبھی کھل کے اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ دوسرا وہ اپنی بالی عمر میں بھی کسی سمجھ دار لڑکے کی سوچ رکھتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ محبت آسمانی ہوتی ہے۔ اگر آسمان والے نے اس کے دل میں یہ نایاب احساس پیدا کیا ہے، تو وہ ایک نا ایک دن اسے ضرور اس کی محبت سے ملوائے گا۔
٭…٭…٭
وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ وقت کی یہی اچھی بات ہے کہ وہ پر لگا کے اُڑ جاتا ہے کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ بس منتظر رکھتا ہے تبھی تو قدر ہوتی ہے گزرتے ہوئے ہر لمحے ہر پل کی۔
نجویٰ نے بی۔اے بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ ایمان کے بھی ایم بی بی ایس کے دو سال پورے ہوگئے تھے اب وہ بچوں کو بھی نہیں پڑھاتی تھی ۔مجتبیٰ ایمان سے کبھی کبھی ملنے آتا رہتا تھا۔ آج جب وہ آیا، تو خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ وہ پہلے کی نسبت بڑا اور میچور لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پے ہلکے ہلکے بال تھے جو اس کی وجاہت میں اضافہ کر رہے تھے۔ ایمان اسے دیکھ کے بہت خوش ہوئی تھی۔
”مجھے یقین ہے تمہارا سلیکشن ہو گیا ہے مجتبیٰ تبھی پھولے نہیں سما رہے۔”
مجتبیٰ نے ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ سے جواب دیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک شوخی تھی۔
”میم اللہ نے مجھے چن لیا۔ آج صحیح معنوں میں مجھے لگ رہا ہے کہ میری زندگی کا مقصد پورا ہوگیا۔ ”
”اللہ تمہیں سُرخرو کرے مجتبیٰ مجھے فخر ہے تم پے۔”
”تھینک یو میم بس کچھ سال اور پھر میں اسے پرپوز کر دوں گا۔ ”
”تمہارا رابطہ ہے کیا اس سے؟”
”رابطہ تو دل کو دل سے ہوتا ہے۔ میری بات تو نہیں ہوتی، لیکن جب میں دعا کرتا ہوں وہ خود یاد آجاتی ہے۔ میں محسوس کر لیتا ہوں۔”
ایمان ہنسنے لگی ۔”ہمیشہ بات کر کے مجھے مرعوب کر دیتے ہو۔ پہلے آپ خود کو اس قابل بنا لیں کہ رشتہ مانگ سکیں۔ اس خوش نصیب کا جس کے فرشتوں کو بھی نہیں پتا ہو گا کہ ہم اس کی باتیں کر رہے ہیں۔ ”
”آپ رشتہ مانگنے چلیں گی نا میرے ساتھ۔ ”
”ہاں وقت آنے پے ضرور چلوں گی۔”
مجتبیٰ خوشی سے چلایا تھا دونوں دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔وہ انسان بلاشبہ بہت خوش قسمت ہوتا ہے جسے اس کی غیر موجودگی میں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے ۔
کچھ دن بعد نجویٰ نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا۔وہ بہت خوش تھی کیوں کہ دو سال مسلسل گھر رہنے سے وہ بہت بور ہو گئی تھی، لیکن اس وقت کو نجویٰ نے ضائع نہیں کیا تھا۔ نصاب کے علاوہ بھی اُس نے بہت سی کتابیں پڑھی تھیں جن میں سے زیادہ تر ناولز اور شاعری کی کتب تھیں اور یہی نہیں نجویٰ نے بہت سی کہانیاں اور اشعار بھی لکھے تھے جو وہ ایمان کو سنایا کرتی تھی اور داد بھی خوب وصول کرتی تھی۔ ایک شعر جو اس نے ایمان کو سنایا تھاایمان اس پے حیران ہوئی تھی اور اس دن اسے لگا تھا کہ نجویٰ جیسی شوخ لڑکی کو محبت کا جو گھاؤ بالی عمر میں لگا تھا اس کا اثر نجویٰ کی تحریروں میں نمایاں تھا، لیکن اس وقت نجویٰ نے کسی معروف شاعر کی غزل سُنائی تھی۔
بہت دنوں سے نہیں اپنے درمیاں وہ شخص
اداس کر کے ہمیں چل دیا کہاں وہ شخص
قریب تھا تو کہا ہم نے سنگدل بھی اُسے
ہوا جو دور تو لگتا ہے جان ِجاں وہ شخص
اس ایک شخص میں تھیں دلربائیاں کیا کیا
ہزار لوگ ملیں گے مگر کہاں وہ شخص
وہ جس کے نقش قدم سے چراغ جلتے تھے
جلے چراغ تو خود بھی بنادھواں وہ شخص
چھپا لیا جسے پت جھڑ کے ذرد پتوں نے
ابھی تلک ہے بہاروں پے حکمراں وہ شخص
قتیل!کیسے بھلائیں گے اہل ِدرد اسے
دلوں میں چھوڑ گیا اپنی داستاں وہ شخص
قتیل شفائی
نجویٰ نے جب اشعارسنائے تو ایمان نے نوٹ کیا تھا کہ اسکی آنکھوں میں نمی تھی اور اس وقت ایمان نے دعا کی تھی کہ نجویٰ کو اس کی محبت مل جائے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

غضنفر کریم — ارم سرفراز

Read Next

صاحب جیسے آپ کی مرضی (تحریر: شفیق ستانیزئی مترجم: قیوم مروت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!