من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

”یہ کس نے بھیجے ہیں؟” زینی نے اس بے نام پیلے گلابوں کے گلدستے پر نظر ڈالتے ہوئے مڑکر سلطان سے پوچھا۔
آج تک اسے کسی نے پیلے گلاب نہیں بھیجے تھے۔ اسے ہمیشہ سرخ گلاب ہی ملتے تھے۔ خون کی طرح سرخ گلاب یہ شاید کوئی نہیں جانتا تھا کہ زینی کو صرف پیلے گلاب پسند تھے اس کو کبھی بھی گلاب کا سرخ پھول اچھا نہیں لگا تھا اور اب اس کے گھر پر بھجوائے جانے والے پھولوں میں سرخ گلابوں کی بھر مار ہوتی تھی زینی ایک نظر بھی ان میں سے کسی بکے پر نہیں ڈالتی تھی۔ صرف یہ ایک بکے تھا جس پر اس کی نہ صرف نظر ٹکی ہوئی تھی بلکہ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھا لیا تھا۔
”پتا نہیں، ساتھ یہ لفافہ آیا تھا۔”
سلطان نے ایک بند لفافہ اس کی طرف بڑھایا زینی نے پھول رکھتے ہوئے بے حد دلچسپی سے اس لفافے کو کھولا۔ اندر ایک چھوٹے سے کارڈ پر صرف دو لفظ لکھے تھے۔
”For Zaini”
ایک لمحہ کے لئے زینی کا ہاتھ کپکپایا۔ یہ زینی کو پھول بھیجنے والا کون تھا؟ کون تھا جو نہ صرف اس کا نام جانتا تھا، بلکہ اس کی پسند سے بھی واقف تھا۔ ذہن کی اسکرین پر ابھرنے والا چہرہ ایک ہی تھا، شیراز کا چہرہ مگر وہ ہینڈ رائٹنگ شیراز کی ہینڈ رائٹنگ نہیں تھی۔
وہ چند لمحے خالی خالی نظروں سے اس کارڈ کو دیکھتی رہی۔ پھر اس نے کارڈ کو دوبارہ لفافے کے اندر رکھ دیا اور اسے ایک طرف پھینک دیا۔ وہ خوش فہمیوں کے جال سے آزاد ہو چکی تھی۔
اپنے جوتے اتار کر وہ صوفے پر بیٹھ کر سگریٹ پینے لگی۔ سلطان اسے اخبارات میں آنے والے ریویوز پڑھ کر سنا رہا تھا جو اس کی فلم کے متعلق تھے۔ زینی بے حد سنجیدگی سے ان ریویوز کو سنتی رہی۔ اسے کسی تنقید یا تعریف میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن سلطان کو تھی وہ باقاعدگی سے اس کے بارے میں کسی بھی اخبار میں آنے والی ہر خبر ہر تبصرے کو اس تک پہنچاتا۔
اور زینی کا رد عمل اسے حیران کرتا یہ فلم انڈسٹری کی پہلی ہیروئن تھی جسے اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ لوگ اور اخبار والے اس کے بارے میں کیا کہہ رہے تھے۔
زینی کے ساتھ گزرنے والا ہر دن اسے زینی کے کسی نئے رخ سے آشنا کرتا تھا وہ اس کے گھر کے افراد سے واقف تھا۔ ان کی زندگیوں کے بارے میں جانتا تھا مگر جس ایک لڑکی کے ساتھ وہ دن رات گزار رہا تھا وہ کسی بھید کی طرح تھی اس کے لئے، فلم انڈسٹری میں وہ کیوں آئی تھی؟ یہ سلطان جانتا تھا۔
پیسہ کمانے کے لئے۔




مگر وہ پیسہ کس لیے کما رہی تھی۔ یہ سلطان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس نے زینی کو کبھی اپنے پیسے اپنے زیورات اپنی قیمتی چیزوں کو کسی لاکر کسی تالے میں رکھتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ باہر پڑی ہوتیں۔ ڈریسنگ ٹیبل پر، بیڈ کی درازوں میں۔ بیڈ کی سائیڈ ٹیبلز پر، لیکن باہر… سامنے دعوت عام دیتے ہوئے… سلطان اس کے زیورات اور پیسے کو سنبھالتے سنبھالتے تنگ آجاتا۔ لیکن ہر روز اس کا کسی نہ کسی سیٹ کا کچھ نہ کچھ گم ہوتا رہتا۔ اور یہ صرف اور صرف زینی کی لاپروائی کی وجہ سے ہوتا تھا۔ لیکن سلطان کو حیرت ہوتی تھی کبھی کسی رقم، کسی زیور، کسی قیمتی چیز کے گم ہونے پر اس نے زینی کو پریشان نہیں دیکھا تھا، مجال تھی کہ اس کے ماتھے پر ایک سلوٹ تک آجاتی، یوں لگتا جیسے اسے پروا ہی نہیں تھی اس کی کیا چیز کھو رہی ہے۔
”جب پیسے کو حفاظت سے نہیں رکھنا تو اسے حاصل کرنے کے لئے ہلکان کیوں ہو رہی ہیں پری جی؟”
سلطان نے اس دن جھنجھلا کر اس کے ایک سیٹ پر شوٹنگ کے دوران کہا تھا زینی کا پرس گم ہو گیا تھا اور اس میں صبح ہی سلطان نے بینک سے ایک چیک کیش کروا کر پچاس ہزار رکھے تھے۔
”پیسے کی ضرورت ہے مجھے، اس سے محبت نہیں۔” وہ زینی کے جواب پر بول نہیں سکا تھا۔
”اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی چیزیں کھوتا پھرے؟” سلطان نے کچھ دیر کے بعد خفگی سے کہا۔
”جو کھویا ہے میں نے، وہ اگر گنوا دوں تمہیں تو ان کے سامنے یہ ساری چیزیں کچھ لگیں ہی نا۔”
اس نے ہنس کر سلطان سے کہا تھا۔
سلطان کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے کیا کہے۔ وہ سننے اور سمجھنے والی شے نہیں تھی۔ وہ پری زاد تھی۔ اور وہ، وہ کرتی تھی جو اس کے دل میں آتا تھا۔
پہلی فلم کی کامیابی کے بعد اس کے سامنے آفرز کے انبار لگ گئے تھے اور زینی نے وہی کیا تھا جو اس صورت حال میں کوئی بھی ایکٹریس کرتی اس نے 25 فلمیں سائن کر لی تھیں۔ فلم انڈسٹری کے ہر بڑے چھوٹے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی فلم اس نے سائن کی تھی۔
تبریز پاشا اس پر بڑا جزبز ہوا تھا۔ وہ اگلے پانچ سالوں تک زینی کو صرف اپنی فلموں میں کام کرتے دیکھنا چاہتا تھا اور وہ بار بار زینی کو یہ بات جتانا نہیں بھولتا تھا کہ زینی کو فلم انڈسٹری میں اس کی فلم کی وجہ سے کامیابی ملی تھی۔ اس پر سب سے زیادہ ”حق” اس کا تھا۔ مگر وہ بہر حال زینی پر پہرے نہیں لگا سکتا تھا۔
اس نے فلم انڈسٹری کی ہر ہیروئن کو ایک ہٹ فلم کے بعد ایگریمنٹ توڑتے پایا تھا اور و ہ جانتا تھا کہ زینی بھی یہی کرے گی، کامیابی سیلاب کی مانند ہوتی ہے اس کے سامنے بند باندھنے والا احمق ہوتا ہے اور تبریز پاشا بہر حال احمق نہیں تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا اسے ٹھوکر مارنے کے لئے زینی کو کوئی اور زینہ مل جائے اور وہ جانتا تھا کہ اس وقت انڈسٹری کا ہر پروڈیوسر زینی کے لئے سیڑھی کا پائیدان بننے کا خواہش مند تھا۔
اور زینی کے اس طرح دھڑا دھڑ فلمیں سائن کرنے پر جزبز ہونے والا وہ اکیلا نہیں تھا۔ سلطان نے بھی زینی کو بے حد روکنے کی کوشش کی تھی۔
اس چھوٹی فلم انڈسٹری میں سال میں دو چار فلموں سے زیادہ فلموں کے ہٹ ہونے کا امکان کم تھا اور پچیس فلموں میں سے بیس فلموں کے فلاپ ہونے کا مطلب ایک نئی ہیروئن کے لئے کیا تھا۔ یہ سلطان جانتا تھا زینی نہیں۔ لیکن زینی اس معاملے میں اس کی بات سننے پر تیار نہیں تھی۔ مجبوراً سلطان نے اسے ان فلموں کو سائن کرنے دیا مگر زینی کو ڈیٹس دینے کے سلسلے میں اس نے بے حد ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان میں سے بہت سے پروڈیوسرز کو دوسرے اور تیسرے سال کی ڈیٹس دیں۔
ان میں سے کچھ پرانے پروڈیوسرز نے اس پر کچھ ہنگامہ ضرور کیا۔ مگر نئے پروڈیوسر جو صرف ایک فلم کے پروڈیوسر کے طور پر اپنا نام اور ہیروئن کے ساتھ تصویر دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ تھوڑی سی چوں چرا کے بعد ان ڈیٹس پر رضا مند ہو گئے تھے۔
پہلے سال میں پری زاد کی صرف دس فلمیں سیٹ پر تھیں اور ان میں سے کسی فلم میں سفیر اس کے ساتھ نہیں تھا۔ پہلے سفیر لوگوں کو پری زاد کو اپنے ساتھ کاسٹ کرنے سے منع کرتا تھا۔ اب یہ کام پری زاد نے کیا تھا۔ اس نے ہر پروڈیوسر سے ہیرو کا نام تبدیل کروا کر فلم سائن کی تھی۔ اور سلطان اس پر بھی خوش نہیں تھا۔
سفیر کے علاوہ باقی سارے ہیرو سیکنڈ لیڈ سمجھے جاتے تھے اور سیکنڈ لیڈ ایکٹرز کے ساتھ ہیروئن کے طور پر فلم کرنا سلطان کے نزدیک پروفیشنل خود کشی تھی اور سلطان خائف تھا کہ جیسے ہی اس کی ابتدائی کچھ فلمیں فلاپ ہوئیں پروڈیوسر نام کے پرندے اس کی دیواروں سے غائب ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اس وقت اس کو سفیر کے ساتھ فلم کی ضرورت پڑتی اور سلطان جانتا تھا کہ سفیر جیسا منتقم مزاج آدمی اس وقت پری زاد کے ساتھ کبھی فلم نہ کرتا۔
پری زاد اس وقت گرتی ہوئی دیوار ہوتی اور سفیر گرتی ہوئی دیواروں کو سہارا دینے کی شہرت نہیں رکھتا تھا۔ خاص طور پر اس صورت حال میں جب ہر پروڈیوسر سفیر کو یہ بتاتا کہ وہ اسے فلم سے اس لیے کٹ کر رہا تھا کہ پری زاد اس کے ساتھ اس کے ساتھ کام کرنا نہیں چاہتی۔ سفیر یہ سب کچھ بھولنے والا نہیں تھا اور سفیر ہی کیا اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہ سب کچھ نہیں بھولتا۔ مگر پری زاد کو سفیر سے کتنی چڑ تھی۔ یہ سلطان کو پتہ نہیں تھا اس کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے کیرئیر کی دو بڑی غلطیاں ایک ہی وقت میں کر رہی تھی اور ایک ہی وقت میں دو غلطیاں بہت تھیں، سلطان کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ ”بہت” زینی کے لئے ”بہت” نہیں تھیں۔
”میں انور حبیب کی ڈائریکشن میں کام نہیں کروں گی۔ تم صبح اخبار میں میرا بیان لگوا دو۔”
وہ اس وقت گاڑی میں تبریز پاشا کے گھر ہونے والی ایک فلمی پارٹی سے واپس آرہے تھے جب راستے میں زینی نے سلطان کے سر پر بے حد آرام سے ایک اور بم پھوڑا۔
****




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!