امربیل — قسط نمبر ۱

مجھے یہ کہنا ہے

بعض کہانیاں لکھتے ہوئے آپ کو ایک مستقل خلش کا احساس ہوتا رہتا ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں، یہ کہانی کہیں کوئی تبدیلی نہیں لائے گی۔ امربیل بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے جسے لکھتے ہوئے میں اسی احساس سے دوچار ہوں پھر بھی میں اس کہانی کو اس لئے لکھ رہی ہوں تاکہ آپ لوگ زندگی کے ایک اور پہلو کو جان سکیں۔ ان لوگوں کے دلوں اور ذہنوں پرایک نظر ڈال سکیں۔ جو پاکستان کے قیام کے بعد سے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ اچھے طریقے سے یا برے طریقے سے۔ بہرحال وہ اس ملک کو چلا رہے ہیں اور خود وہ اپنی زندگیوں میں کس ابنارمیلٹی کا شکار ہیں۔ امربیل میں آپ یہی دیکھ پائیں گے۔
اس ناول کو پڑھتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ کوئی سیاسی ناول نہیں ہے، نہ ہی یہ کوئی تاریخی اور معاشرتی ناول ہے۔ یہ خواہش اور چاہ کا ناول ہے یا پھر سو دو زیاں کا۔ بعض دفعہ ساری زندگی گزارنے کے بعد بھی ہم یہ جان نہیں پاتے کہ ہمیں آخر زندگی میں کس چیز کی ضرورت تھی… کسی چیز کی ضرورت تھی بھی یا نہیں اور بعض دفعہ زندگی کے آخری لمحات میں ہمیں احساس ہوتا ہے کہ جس چیز کو ہم نے زندگی کا حاصل بنا رکھا تھا، اس چیز کے بغیر زندگی زیادہ اچھی گزر سکتی تھی۔ امربیل کے کردار بھی آپ کو آگہی کے اسی عذاب سے گزرتے نظر آئیں گے۔
میں نے اس ناول میں کرداروں کی بھیڑ اکٹھی نہیں کی۔ صرف چند لوگ ہیں جو پہلے اپنے ارد گرد انسانی رشتوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور بعد میں صرف انسانوں کی … جو کوشش انہوں نے کبھی نہیں کی، وہ اپنے آپ کو تلاش کرنے کی ہے۔
بنیادی طور پر امربیل ان ناولوں میں سے ایک ہے جو صرف ایک کردار کے لئے لکھا گیا اور یہ ایک ہی کردار کا ناول ہے۔ اب وہ کردار کس کا ہے… یہ آپ کو خود معلوم کرنا ہو گا۔ ہاں میں یہ دعویٰ کر سکتی ہوں کہ آپ اس کردار سے چاہنے کے باوجود بھی نفرت نہیں کر پائیں گے۔ حقیقت میں بھی آپ ایسے کرداروں کے ساتھ ایسی ہی محبت میں گرفتار رہتے ہیں اور … اور… یہی آپ کی غلطی ہے۔
آئیے غلطی دہرائیں۔




کوئی چھاؤں ہو
جسے چھاؤں کہنے میں
دوپہر کا گمان نہ ہو
کوئی شام ہو
جسے شام کہنے میں شب کا کوئی نشان نہ ہو
کوئی وصل ہو
جسے وصل کہنے میں ہجر رت کا دھواں نہ ہو
کوئی لفظ ہو
جسے لکھنے پڑھنے کی چاہ میں
کبھی اک لمحہ گراں نہ ہو
یہ کہاں ہوا ہے کہ ہم تمہیں
کبھی اپنے دل سے پکارنے کی سعی کریں
وہیں آرزو بے اماں نہ ہو۔
وہیں موسمِ غمِ جاں نہ ہو

عمیرہ احمد




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۲

4 Comments

  • Want to read umeera ahmad books

  • Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
    Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why

  • Ye link open nhi horaha

  • Missing umera Ahmed⁩ s novel s

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!