یاد کا بوڑھا شجر

”جی بس! آخری دن ان کے کچھ ایسے ہی گزرے ہیں۔بس اللہ کی جو مرضی۔۔!“
صبا نے ایک نظر سامنے بیٹھے، ذی ہوش لوگوں پر ڈالی تھی۔جو کتنی آسانی سے کسی کو پاگل ہونے کا سرٹیفیکٹ دے رہے تھے۔ان لوگوں کو اس بات کا کامل یقین تو تھا کہ ابامیاں ذہنی مریض بن گئے تھے مگر اس بات کے پیچھے کون سے عوامل تھے یہ جاننے کی چاہ تھی نہ غرض۔صبا کسی سے کیا کہتی کیوں کہ یہ بھی سچ تھا کہ ابامیاں پچھلے کچھ برسوں سے کسی گم شدہ چیز کی تلاش میں پریشان رہتے تھے۔پہلے پہل ابامیاں کی تلاش کی کسی کو خبر نہیں ہوئی،کیوں کہ وہ یہ کام بہت خاموشی سے کرتے تھے اور سب اپنی اپنی زندگی میں اتنے مگن اور گم تھے کہ کسی کو ابامیاں کے معمولات میں تبدیلی آنے کی خبر نہ ہوئی۔مگر جب ابامیاں کی تلاش میں تیزی اور شدت آنی لگی تو سب چونک اُٹھے۔سارے گھر میں اماں کی وفات سے کچھ پہلے ہی نیا سامان لایا گیا تھا۔ جب کہ اماں کے زمانے کی سب چیزوں کو پرانا کہہ کر گھر کے آخری کونے میں بنے سٹور روم میں پہنچا دیا تھا۔ان دنوں ابامیاں، اماں کی بیماری سے بہت پریشان اور حواس باختہ رہتے تھے کہ کسی اور بات کا ہوش ہی نہیں رہا تھا اور پھر اماں کی وفات کے کچھ عرصے بعد تک ابامیاں گم صُم رہے مگر پھر نہ جانے انہیں کیا یاد آیا کہ وہ بے چین ہو کر پرانی چیزیں کھنگالنے لگے۔اپنی تعلیمی مصروفیات کے باعث سے پہلے یہ کام چھٹی والے دن کرتے تھے۔مگر جب ابامیاں اپنی اس ذمہ داری سے بھی سبک دوش ہو گئے تو وہ اکثر ہی پرانے سٹوروم میں پائے جانے لگے تھے۔پہلے اس بات کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کر دیا گیا مگر آخر کب تک۔۔!گھر کی دونوں بہوئیں روز روز کی اس تلاش سے چڑنے لگی تھیں کیوں کہ ابامیاں اکثر گھر کے بچوں کو بھی اپنے ساتھ سامان اٹھانے یا گھسیٹنے میں لگا لیتے تھے۔بچے یہ کام بہت شوق سے کرتے اور اتنے ہی شوق سے ان کی مائیں، اس بات پر ان کی پٹائی کرتی تھیں۔ ان دنوں چھوٹے بھائی باہر جا چکے تھے اور بہت جلد اپنے بیوی،بچوں کو بھی اپنے پاس بلانے والے تھے۔وہ وقت بھی بہت جلد آگیا،جب نظر کے سامنے رہنے اور بسنے والے،پردیسی بن گئے۔ابامیاں کا آنگن بہت سی آوازوں سے خالی ہو گیا تھا۔ابامیاں کی تلاش میں اب شدت آتی جا رہی تھی۔سردی ہوتی یا شدید گرمی،وہ موسم کی سختی کی پروا کئے بغیر،سٹور روم میں پہنچ جاتے اور اپنی زندگی کے آخری دنوں تک یہی لگن لگی رہی جو ان کے ساتھ ہی مٹی کا حصہ بن گئی تھی۔
آج دو مہینے کے بعد صبا پھر اسی پرانے سٹور روم کے دروازے پر نم آنکھیں لئے کھڑی تھی۔ سٹور کا سب سامان کاٹھ کباڑ والوں کو بیچا جا چکا تھا جو تھوڑا بہت باقی تھا وہ بھی ردی کے بھاؤ بیچا جا رہا تھا۔

جب اس سامان کو استعمال کرنے والے اپنے پیارے اور عزیز لوگ ہی زندہ نہ رہیں تو اس سامان کی کیا اہمیت رہ جاتی تھی۔مگر نہ جانے کیوں صبا کو آج بھی ہر چیز پر اپنے والدین کا شفیق لمس محسوس ہو رہا تھا۔وہ آج بھی گزرے لمحوں کے لہراتے سائے، پرانے در و دیوار پر دیکھ رہی تھی۔ اماں اور ابا میاں نے کبھی بہت محبت اور چاہ سے یہ سب بنایا تھاجو آج اتنی بے دردی سے کوڑیوں کے دام بک رہا تھا۔شاید یہ ہی زمانے کا چلن ہے پرانی چیزوں کی جگہ بہت جلد نئی چیزیں لے لیتی ہیں۔
مگر کیا یادوں کی جگہ بھی کوئی چیز لے سکتی ہے؟ یہ بیٹیاں بھی ناں!ہمیشہ ماں باپ کے آنگن سے وابستہ ہر چیز سے گہری محبت اور وابستگی رکھتی ہیں۔بابل کے آنگن کی آس اور امید ہمیشہ ان کے دل کو گھیرے رکھتی ہے مگر آج صبا کی یہ آس بھی کہیں کھو گئی تھی۔صبا نے دوپٹے کے پلو سے اپنی نم آنکھوں کو آہستگی سے صاف کیا اور خاموشی سے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔جب سامان اٹھواتے، بڑے بھائی کی نظر اس پر پڑی تو وہ اپنی خجالت چھپانے کے لئے بولے:
”میں نے تو بار بار تمہیں کہا تھا کہ اگر ان چیزوں میں سے تم کچھ لینا چاہو تو شوق سے لے جاؤ Ÿگر تم نے منع کر دیا۔“
”جی بھائی! میں نے کب کہا کہ آپ نے مجھے روکا ہے کسی بات سے!“ صبا نے نرمی سے ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا جیسے کسی اپنے کے عیب پر پردہ ڈال کر اسے معتبر بنا نا چاہ رہی ہواور یہ ہنر بھی اس نے اپنے والدین سے ہی سیکھا تھا۔
”دیکھو نہ صبا ہم خوامخواہ، ہی ابا میاں پر شک کرتے رہے۔سٹور خالی کروایا تو سامان کے نیچے سے لیدر کا یہ بیگ مل ہی گیا اور مزے کی بات ہے اس میں کچھ بھی خاص نہیں ہے۔ سوائے کچھ پرانے حساب کتاب کے!ابا میاں بھی ناں۔پتا نہیں کیوں اسے ڈھونڈتے رہتے تھے۔“ بڑی بھابھی نے کھوکھلی سی ہنسی ہنستے ہوئے ہاتھ میں پکڑا بیگ اس کی طرف بڑھایا تھا۔جسے صبا نے خاموشی سے تھام لیا اور افسردہ لہجے میں بولی:
”ہم نہیں صرف آپ ابامیاں پر شک کرتی تھیں۔ہمارے لئے ابامیاں سچ اور ایماں داری کا پیکر تھے۔ویسے آپ کے منہ سے ”ابامیاں“ سن کر اچھا لگا، چاہے ان کے مرنے کے بعد ہی سہی آپ نے اپنے اور ان کے رشتے کا احترام تو کیا۔۔۔!اور اس بیگ کے لئے بہت شکریہ کہ آپ نے اسے بھی ردی سمجھ کر پھینک نہیں دیا اور اگر آپ لوگوں کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں اس انمول خزانے کو اپنے پاس رکھنا چاہوں گی۔“
”انمول خزانہ؟“اب کی بار دونوں میاں بیوی چونکے۔ان کے حساب سے اس میں سب بے کار چیزیں تھیں۔بڑے بھائی نے سوچتی ہوئی نظروں سے بیوی کی طرف دیکھا جیسے اس سے پوچھ رہے ہوں کہ تم نے اچھی طرح بیگ کی تلاشی لی تھی ناں!

”ایسا کیا ہے اس میں؟“بڑی بھابھی نے متجسس لہجے میں پوچھا۔صبا نے خاموشی سے بیگ کھولا اور چند بوسیدہ اوراق کے ساتھ ساتھ کالے رنگ کی ایک ڈائری بھی برآمد کی اور مدھم آواز میں کہنے لگی۔
”مرنے سے ایک رات پہلے ابا میاں نے اپنی تلاش کا راز کھولا تھا۔۔۔۔!“

اس کی آنکھوں سے آنسو کے شفاف قطرے نکل کر ہاتھ میں پکڑی چیزوں پر ایسے گر رہے تھے، جیسے تازہ قبر پر بکھرے سرخ پھولوں کی پتیوں پر اوس کی نمی ٹھہر جائے!
”ابامیاں نے بتایا تھا کہ جب ان لوگوں نے زندگی کا نیا سفر شروع کیا تھا تب ان کے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ اماں کی بہت سی چھوٹی بڑی خواہشوں کو پورا کر پا تے،مگر ابامیاں کو اماں سے بہت محبت تھی اور وہ ان کی ہر خواہش کو پورا کرنا چاہتے تھے اس لئے ابا میاں کے اصرار کرنے پر ہی ان دونوں نے یہ ڈائری لکھنا شروع کی تھی۔جس میں اپنے اپنے احساسات اور روزانہ کی روٹین کی چھوٹی چھوٹی بے شمار باتیں ہوتیں۔جب ابا میاں کی مصروفیات بے تحاشا بڑھ گئیں کہ وہ اماں کو وقت نہیں دے پاتے تھے، تب اماں نے یاد دھیانی کے طور پر اس ڈائری میں وہ سب کچھ محفوظ کرنا شروع کر دیا تھا!جو وہ کہنا چاہتی تھیں یا ابامیاں سے شیئر کرنا چاہتی تھیں،ابا میاں اکثر رات کو دیر سے گھر آتے اور سونے سے پہلے مطالعہ کرنا ان کی عادت میں شامل تھا۔اس ڈائری کو پڑھ کر وہ اماں کی دن بھر کی مصروفیات اور احساسات سے واقف رہتے تھے، اس لئے کبھی ان میں کسی قسم کی غلط فہمی یا ذہنی فاصلہ پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ جب جب ابامیاں اور اماں ایک دوسرے سے ناراض ہوتے،یا دوسرے کی کوئی بات بری یا تکلیف دہ لگتی تو وہ بھی اس ڈائری میں لکھ دیتے۔اس طرح دونوں زندگی کی گہماگہمی اور مصروفیت میں بھی ایک دوسرے کے دل کے حال اور سوچوں سے واقف رہتے تھے!مگر کئی سالوں کے بعد،وقت کی تیز رفتاری اور بچوں کی ذمہ داریوں میں گم ہو کر یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔پھر ابا میاں اور اماں نے اس ڈائری کو اپنے انمول خزانے کا نام دے کر بہت سنبھال کر رکھا تھا کہ جب سب ذمہ داریوں سے فراغت پا لیں گے تو ایک دوسرے کی سنگت کو پھر سے محسوس کرتے ہوئے،گزرے دنوں کو مل کر یاد کیا کریں گے۔۔۔۔!اس وقت گزرے لمحوں کو پھر سے دہرائیں گے اور اپنی تنہائی کو، اپنے ماضی سے سجائیں گے!
مگر افسوس کہ اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ بہت سال پہلے اماں کی اچانک وفات نے ابامیاں کو یک دم تنہا کر دیا تھا۔جب تک وہ اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مصروف رہے اماں کی یادوں سے لڑنا ان کے لئے آسان رہا مگر اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں وہ یادِ ماضی کے گرداب میں الجھتے،اپنے انمول خزانے کو ڈھونڈتے رہے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ جیسے جیسے ان کی تنہائی کا صحرا پھیلتا گیا، وہ یاد کی پرچھائیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے، خود یاد کا بوڑھا شجر بن گئے تھے اور آپ سب یہ سمجھتے رہے کہ وہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہو گئے ہیں،جب کہ وہ صرف اپنی تنہائی اور اکیلے پن سے لڑنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کرتے تھے۔۔۔!“صبا نے گہری سانس لے کر بات ختم کی اور گم صُم سے کھڑے، احساسات سے عاری ان بتوں پر نظر ڈالی جو محبت،ایثار،سادگی،وفاداری کے اصل ذائقوں سے بھلا کب آشنا تھے!
”اور تو سب ٹھیک ہے مگر مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔!“کچھ دیر کی خاموشی کے بعد صبا نے پرسوچ انداز میں کہا تو دونوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
”ابامیاں کی سب جائیداد اور اثاثے ان کی اولاد میں شرعی لحاظ سے تقسیم کر دیے گئے ہیں مگر اس دن سے میں اس سوچ میں ہوں کہ اس انمول خزانے کی وراثت کسے ملنی چاہیے؟ بیٹوں کو یا بیٹیوں کو؟ کون اس وراثت کا اصل حقدار ہے؟
کیا یادوں،احساسات ا ور محبت کے اثاثے بھی سب اولادوں میں برابر تقسیم کیے جا سکتے ہیں؟کیا اسے بھی دنیا کے بازار میں نیلام کیا جا سکتا ہے؟ کیا ان جذبوں کی بولی بھی لگتی ہے بازاروں میں؟ میرے پاس ان سب سوالوں کے جواب تو نہیں ہیں مگرایک خوف ضرور ہے کہ کل جب ہمارے بچے،بڑے ہو کر وراثت کے دعوے دار ہوں گے تو کیا ہماری طرح وہ بھی صرف مادی چیزوں کی ہی وراثت مانگیں گے؟کیا ہم بھی یاد کا بوڑھا شجر بن کر اپنی اپنی جان لیوا تنہائی کا آخری پہر کاٹیں گے؟ اسی لئے، میں یہ انمول خزانہ اپنے سب بچوں میں تھوڑا تھوڑا کر کے ضرور تقسیم کروں گی تاکہ آنے والے وقت میں، وہ اپنے والدین کو یاد کا بوڑھا شجر بننے سے بچا سکیں۔“
صبانے لیدر کے بیگ کو مضبوطی سیتھاما اور دہلیز پار کر گئی۔

٭٭٭٭

Loading

Read Previous

تماشا

Read Next

مدیر سے پوچھیں | سائرہ غلام نبی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!