گھر — مدیحہ ریاض

ہم دونوں جھگڑ رہے تھے جب اس نے اچانک تیزی سے قریب آ کر میرے چہرے پر زور سے طمانچہ مارا۔ میں پیچھے صوفے پر گری تھی۔ اس سے پہلے کہ میرا ذہن کچھ سمجھ پاتا، کچھ سنبھل پاتا، اُس نے فوراً دوسری بار مارا۔ اب کی بار اس نے اپنا ہاتھ میرے چہرے پر دبا کر میرا سر لکڑی کے صوفے کی پشت پر مارا تھا۔
درد کی شدت سے میں صرف کراہ پائی تھی۔ تین سیکنڈ لگے تھے شاید، لیکن میں ایک’’ عورتــ‘‘ سے statistics کا حصہ بن گئی تھی۔
ہر سال پاکستان میں ستر سے نوے فیصد عورتیں گھروں میں مختلف طرح کے مظالم کا نشانہ بنتی ہیں۔ ان ستر سے نوے فیصد عورتوں میں سے کچھ حصہ میرا بھی ہو گیا تھا۔
اُس کے ہاتھ کی تپش مجھے اب بھی اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی اور میرے سر کے پیچھے کچھ ابھار سا بھی، لیکن مجھے اس پر کوئی غصہ نہیں آیا تھا۔ کہیں نہ کہیں امی کی بات کا یقین تھا مجھے۔ کوئی کیوں پیار کرے گا مجھ سے؟ آخر ہے کیا مجھ میں؟ میرے چہرے پر ایک عجیب سے مسکراہٹ آئی تھی۔
مجھے مار کر اور مجھے اس مار کو سہتا دیکھ کر وہ خود بھی شاک میں آ گیا تھا اور پھر اسے شرمندگی سی ہوئی تھی۔ پوری رات اور اگلا پورا دن وہ مجھ سے معافی تلافی کرتا رہا، آگے پیچھے گھومتا رہا، لیکن مجھے اس سب کی ضرورت نہیں تھی۔ میں اسے معاف نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن مجھ سے بار بار معافی کا اظہار کر کے، محبت کے مظاہرے کر، اس نے مجھے زچ کر دیا اور اپنی جان چھڑانے کے لیے میں نے اس کی معافی زبانی طور پر قبول کر لی۔
اس کے بعد یہ معمول کا وتیرہ بن گیا۔ وہ مجھے مارتا نہیں تھا، بس ڈرا دیتا تھا۔ کبھی تیزی سے غصے میں قریب آ کر، کبھی بالکل میرے چہرے کے قریب آ کر چلاتے ہوئے، کبھی کمرے کی چیزیں پھینک کر، کبھی دھاڑ سے دروازے بند کر کے اور کبھی غصے سے بھنچی ہوئی مٹھیاں بنا کر،لیکن رفتہ رفتہ میرا ڈر کم ہونے لگا۔ میں جان گئی تھی کہ وہ مجھے مارنا نہیں چاہتا، صرف ڈرانا چاہتا ہے اور بد قسمتی سے وہ بھی یہ بات جان گیا کہ میرا خوف کم ہو گیا ہے۔
اس لیے اگلی بار جب اس نے مجھے مارا، تو میں کسی بھی طرح اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی۔
جب اس نے مجھے مارا تب کمرے میں بچے بھی تھے۔ اِس بار اُس نے مجھے دھکا دیا تھا۔ لاؤنج کے دروازے کے قریب کھڑی میں اس کے دھکے کی شدت سے ڈرائنگ روم کے اندر جا گری تھی۔ میری کمر، کولہے، پیر… اس بار تکلیف زیادہ ہوئی تھی، لیکن بچے دیکھ رہے تھے اور رونے لگے تھے۔ انہیں دیکھتے ہوئے میں فوراً کھڑی ہو گئی تھی۔




’’میں ٹھیک ہوں۔ پاپا کو غصہ آ گیا ہے، آپ دونوں اندر جائیں، فوراً۔‘‘
میں نے بیڈ روم کی طرف اشارہ کیا۔ ابھی میری بات ختم ہی ہوئی تھی کہ اس نے مجھے دوسری بار دھکا دیا۔ اس بار میں اٹھ نہیں پائی تھی۔
اگلے کئی دن مجھے لنگڑا کے چلنا پڑا تھا۔
’’یار، کچھ نہیں، چلتے چلتے پیر مڑ گیا۔‘‘ پہلی بار یہ جھوٹ بولتے ہوئے لفظ حلق میں کہیں پھنس گئے تھے۔
’’تو کیا میں بھی اُن ان گنت عورتوں کی طرح ہوں جو شوہروں کے ظلم سہ کر اس طرح بہانوں سے اپنی اور اس کی عزت رکھتی ہیں۔‘‘ اور یہ عزت آخر ہوتی کیا بلا ہے! اور یہ صرف ہم عورتوں کو کیوں رکھنی ہوتی ہے۔
تیسری بار جب اس نے مجھے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا یا، تو میں ایک قدم آگے بڑھ کر اس کے سامنے آ گئی تھی۔
’’مارنا چاہتے ہو؟ مارو۔‘‘اس کا ہاتھ وہیں ہوا میں ٹھہر گیا۔ وہ مجھ سے اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اس کے چہرے پر الجھن تھی۔
اسے دیکھتے میرا منہ کڑوے ذائقے سے بھر گیا تھا۔
’’میری ایک بات دھیان سے سنو۔‘‘ میں نے ٹھہر ٹھہر کے کہا۔
’’اب کبھی بھی تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا، تو وہ آخری بار ہو گا کہ تم مجھے چھوؤ گے۔ میں تمہاری مار کھانے یہاں نہیں بیٹھوں گی۔ ‘‘
میں کہہ کر اس کے پاس سے ہٹ گئی تھی۔
اس نے دوبارہ مجھ پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔ ذلیل کرنے اور چوٹ پہنچانے کا کام اب اس کی زبان کرنے لگی تھی۔
’’تم ہو کیا چیز؟ سمجھتی کیا ہو خود کو؟ شکل دیکھی ہے اپنی؟؟‘‘ وہ تنفر سے کہتا۔
’’تم سائیکو ہو۔ نفسیاتی۔ کسی پاگل خانے میں ہونا چاہیے تمہیں۔‘‘
’’میری مرضی میں اپنے پیسے کسی کو بھی دوں، کسی سے بھی ملنے جاؤں۔ تمہارا بنا ہوا منہ دیکھنے گھر آؤں؟ یہ چاہتی ہو؟ ‘‘
’’تمہارے جیسی ہی عورتیں ہوتی ہیں جن کے میاں دوسری شادیاں کرتے ہیں۔‘‘
’’جس طرح میں نے تمہیں رکھا ہوا ہے نا، برداشت کر رہا ہوں، کوئی کر کے دکھائے۔ تھا نا تمہارا وہ یار؟ لات مار کے گیا نا۔ میرے پلے پڑ گئی ہو۔‘‘
’’تم یہی سلوک deserveکرتی ہو۔ تمہیں ایسے ہی رکھنا چاہیے۔تمہارے باپ نے تمہیں سر پہ چڑھایاہوا تھا۔ میرے ساتھ رہنا ہے، تو اپنی اوقات میں رہو۔‘‘
’’چھوڑ کے جانا ہے مجھے؟ کہاں؟ کس کے پاس؟ ماں کے پاس یا باپ کے؟ پہلے ان سے پوچھ تو لو کہ وہ ابھی تک ایک ساتھ ہیں یا الگ ہو گئے؟‘‘
’’تمہیں لگتا ہے کوئی تم سے پیار کرے گا؟ حرکتیں نہیں ہیں تمہاری ایسی۔ اس قابل نہیں ہو تم۔‘‘
میں نے اس کی باتوں پر ردِ عمل دکھانا چھوڑ دیا تھا۔ بس سنتی اور الجھتی رہتی اور اپنے روزانہ کے کام کیے جاتی۔ میں نے سمجھوتا کر لیا تھا۔ میں جان گئی تھی کہ میرے نصیب میں ’’گھر ‘‘ نہیں تھا۔
’’ٹھیک ہے۔ نا سہی۔‘‘ میں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
اور معاشرے میں ’’بیوی‘‘ کے خطاب، زندگی کے مالی معاملات سے نجات اور اپنے ماں باپ کو ایک او ردکھ نہ دینے کے عوض میں نے محبت، تحفظ، عزت اور خوشی سے اپنا دعویٰ واپس لے لیا تھا۔
لیکن، یہ…آپ سوچیں کہ بس اتنا سا بھی زندگی کو’’بہت ‘‘لگنے لگا اور میرے شوہر نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ تب مجھے ایک بات سمجھ میں آ گئی۔ اس دنیا میں عورت کا کچھ نہیں ہوتا۔ نہ گھر، نہ عزت اور نہ سمجھوتے۔
اگر آپ دوسروں کا دل رولنے کے حق میں نہیں، تو اپنے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے لیے تیار رہیے۔ اس جنگل میں survival of the fittest ہی ممکن ہے۔ مہربانی، نرم مزاجی، عزت، ہم دردی، ایمان داری، انسانیت…ہماری ان خوبیوں کو اس جنگل کی fitted species ہمارے ہی خلاف استعمال کرتی ہیں۔
اب میں سرخ اینٹوں والے گھر کے بارے میں نہیں سوچتی۔ اس ایک کمرے کے فلیٹ کے بارے میں بھی نہیں سوچتی۔
میں صرف یہ سوچتی ہوں کہ وقت بس جلدی سے گزر جائے۔ میرے بچے اپنی زندگیوں میں مشغول ہو جائیں اور میں مر جاؤں۔
میں اس دنیا کے لیے موزوں انسان کبھی تھی ہی نہیں۔ نا مجھے کبھی اس دنیا کی سمجھ آئی، نہ اس دنیا کو کبھی میری الف بے کا پتا چلا۔ میں نے اپنی ساری زندگی یہاں ایک اجنبی کی طرح رہتے ہوئے گزاری ہے۔ اس خوف میں کہ ایک دن سب ختم ہو جائے گا۔
امی گھر چھوڑ کے چلی جائیں گی۔ میں دوبارہ کبھی اپنے ابو کو نہیں دیکھ سکوں گی۔ وہ بھوری آنکھیں رخ پھیر لیں گی۔ میں ساری زندگی اکیلے گزاروں گی۔ ہر ایک خوف کے بعد ایک اور خوف۔ اس لیے اب مجھے اس دنیا سے، اس زندگی سے کچھ نہیں لینا دینا۔ بس یہ زندگی ختم ہو۔ میں اپنے سارے کام کروں اور مر جاؤں۔
٭…٭…٭
’’ماما۔‘‘ غازی آنکھیں ملتا میرے پاس آ گیا ہے۔
’’کیا ہوا بیٹا؟‘‘
’’پاس آ کے سو جائیں نا۔ کتنی دیر کام کریں گی؟ ڈھائی بج رہے ہیں۔‘‘وہ میرے لیپ ٹاپ کو خفگی اور مجبوری کے ملے جلے تاثرات سے دیکھ رہا ہے۔
’’بس تھوڑی دیر اور جاناں…آپ جا کے سوؤ۔ مجھے بس آدھا ، پوناگھنٹا لگے گا۔ ‘‘
لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا ہے۔
’’آپ کیا کر رہی ہیں؟‘‘
’’ویب سائٹ کا لے آؤٹ بنا رہی ہوں۔‘‘
میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گئی۔
’’میں آپ کے لیے چائے بنانے جا رہا ہوں۔ ساتھ کچھ کھائیں گی آپ؟‘‘کہتے ہوئے وہ مڑگیا۔
’’کچھ بسکٹس۔‘‘وہ چلا گیا اور آنسوؤں کا گولا میں نگل گئی۔
کتنے سال گزر گئے ہیں؟ میں نے سوچنے کی کوشش کی۔
شاید آٹھ یا دس۔
پہلے سب ناممکن لگ رہا تھا۔ پھر پتا نہیں کیسے ممکن ہو گیا اور پھر آسان۔
اپنے شوہر کے گھر سے نکل کر میں واپس اپنے ماں باپ کے گھر نہیں گئی۔ کچھ ماہ تک ایک دوست کے ساتھ paying guest کے طور پر رہی۔ پھر جاب ملتے ساتھ اسی سے ادھار لے کر کرائے پر گھر لے لیا۔ اب بھی کرائے پر رہتی ہوں۔ لیکن اس کا ادھار چکا دیا ہے میں نے۔ ضرورت پڑنے پر جس طرح وہ میرے کام آئی، بس وہ کبھی چکا نہیں پاؤں گی۔
زندگی میں سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ میری بہن کی شادی ہو گئی۔ چھے سال ہو گئے ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں مطمئن ہے۔ میرے بھائی نے اب تک شادی نہیں کی۔ کئی سالوں سے وہ ایک لڑکی سے محبت کرتا ہے، لیکن شادی نہیں کرنا چاہتا۔ مریم اس کی الجھنوں اور مشکلات کو سمجھتی ہے۔ دونوں ایک ساتھ بہت خوش ہیں۔
میں بھی خوش ہوں۔
مجھے آخر کار اپنا گھر مل گیا ہے۔
یہ بھی ایک فلیٹ ہے۔ داخلی دروازے کے ساتھ چھوٹا سا کوریڈور ہے۔ اس کی دونوں دیواروں پر میری اور بچوں کی تصویریں ہیں۔ کچھ تصویروں میں میرا سابقہ شوہر بھی ہمارے ساتھ ہے۔ میری بیٹی اب بھی اس کو مِس کرتی ہے۔ کوریڈور ختم ہوتے ہی لاؤنج شروع ہو جاتا ہے۔ دائیں جانب کچن ہے، اور بائیں جانب سٹڈی روم۔ لاؤنج کی دائیں جانب میرا کمرا ہے اور بائیں جانب بچوں کا۔
میرا گھر اکثر بے ترتیب اور بکھرا بکھرا رہتا ہے، لیکن میرے بچے ہر وقت خوش رہتے ہیں۔
مجھے اکثر کھانا باہر سے منگوانا پڑتا ہے، لیکن ہم تینوں ہمیشہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ آف ٹی وی کے ساتھ۔
میں دوسری مائوں کی طرح ان کے کپڑے اور جرابیں میچ کر کے نہیں رکھ سکتی، لیکن میں اپنے بچوں کے ہر دوست کو جانتی ہوں اور یہ بھی جانتی ہوں کہ ان میں سے کس کو میرے بچے زیادہ پسندکرتے ہیں اور کیوں۔
چالیس سال لگے ہیں، لیکن مجھے میرا گھر مل گیا ہے۔
ایک چھت جو ’’اپنی‘‘ ہے۔ جہاں شام کو تھکے ہارے واپس آنے کو دل کرتا ہے۔ جہاں مجھے گلے لگانے کے لیے بانہیں منتظر رہتی ہیں۔ جہاں I love You گریٹنگ کارڈز پر لکھا کوئی جملہ نہیں جو سال میں ایک دو بار ملتا ہے۔ یہاں یہ وہ اظہار ہے جو دن میں نہ جانے کتنی بار ہم تینوں ایک دوسرے سے کر کر کے ایک دوسرے کو تنگ کر دیتے ہیں۔
ہمارا ’’اپنا‘‘ گھر جہاں فجر ہر آئینے کے سامنے اتراتی پھرتی ہے اور غازی نئی نئی پینٹنگز بناتا ہے۔
جہاں میں روز ہنستی ہوں، گانے گنگناتی ہوں، کھانا پکاتے ہوئے کچن میں ڈانس بھی کرتی ہوں۔ کبھی کبھی روتی بھی ہوں، ڈانٹ بھی دیتی ہوں، چیخ بھی پڑتی ہوں، لیکن یہاں میرا ہر احساس، احساس ہوتا ہے، مجھے رد کرنے کا بہانہ نہیں۔
ہو سکتا ہے ہمیں کبھی یہ گھر چھوڑنا پڑ جائے۔ کسی اور نئے گھر کو بسانا پڑے، لیکن ہم جہاں بھی جائیں گے، ہمارا ’’گھر‘‘ ہمارے ساتھ ہو گا۔ کیوں کہ دیواریں، دروازے ، چھت اور فرش، یہ تو کبھی گھر نہیں ہوتا…گھر وہ ہوتا ہے جہاں دل محفوظ ہوتا ہے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

رانی سے گرانی تک — عائشہ تنویر

Read Next

اناہیتا — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!