گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

”اماں ٹھیک سے بیٹھ جاؤ … اماں آ رہی ہے تجھ کو دیکھنے۔ ” سونو بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا تھا۔ اماں بختے یک دم سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ اس نے میز پر پڑی چیزوں کے ڈبوں کو بھی ٹھیک کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ خود کو مصروف ظاہر کر نا چاہتی تھی۔ سو نو دوبارہ غائب ہو چکا تھا۔
چند منٹوں کے بعد وہ ماں کے ساتھ نمودار ہوا تھا۔ رضیہ دبے قدموں آئی تھی لیکن اماں کو ہوشیار بیٹھا دیکھ کر وہ جیسے کچھ مایوس ہوئی۔ ”سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے یہاں؟” اماں نے سر اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھا اور میکانکی انداز میں کہا۔ ”ہاں ” ”گاہکوں سے پیسے دو دفعہ گن کر لینے تھے۔ ” رضیہ نے کہا۔”دو دفعہ گن کر لیے ہیں۔ ” اماں نے پھر دہرایا۔ ”چیزیں احتیاط سے دینی تھیں … ” ”احتیاط سے دی ہیں۔”
”کسی کو ادھار نہیں دینا۔”
”کسی کو ادھار نہیں دیا۔ ” اماں جیسے کوئی سبق دہرا رہی تھی رضیہ کے پیچھے … ”کسی کو مفت کچھ نہیں دینا۔”
”کسی کو مفت کچھ نہیں دیا۔”
”خود بھی کچھ نہیں کھانا۔” ”خود بھی کچھ نہیں کھایا۔ ”
”آج گھاٹا نہیں ہونا چاہیے ” اماں نے اس بار سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر سو نو کو … پھر وہ بڑبڑائی۔ ”آج گھاٹا نہیں ہو گا۔”
”روز ہی کہتی ہے تویہ … یہ تو شام کو پتہ چلے گا جب میں حساب کروں گی … یہ سونو کو بسکٹ دے دے ایک پیکٹ۔ ” رضیہ نے تند و تیز آواز میں کہتے کہتے سونو کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اماں سے کہا۔ ”نہیں میں ٹافی لوں گا۔ ” سو نو نے فوراً کہا۔ ”چل ٹافی لے لے … اور ادھر ہی بیٹھ اماں کے پاس … دھیان رکھ کہ چیزیں ٹھیک سے بیچ رہی ہے۔” رضیہ کہتے ہوئے واپس اندر چلی گئی۔ سو نو نے اس بار ایک ٹافی خود اٹھا لی اور اماں کے پاس بیٹھ گیا۔ اماں نے رضیہ کے جانے پر جیسے سکون کا سانس لیا تھا۔
تبھی اماں کا ایک اور گاہک پہنچ گیا تھا۔ وہ محلے کے آخری گھر میں رہنے والی عورت زبیدہ تھی۔ کمر پر ایک سال ڈیڑھ سال کا بچہ اٹھائے اس نے اماں سے ایک بسکٹ کا پیکٹ لیا اور اسے کھول کر اپنے بیٹے کو تھما دیا۔ بچے نے چند لمحوں کے لئے منہ بسو راچند بار ٹانگیںچلائیں پھر بسکٹ کا پیکٹ تھام لیا۔ ”جبار اور غفار کا کوئی خط پتر … کوئی فون آیا … ؟ ” زبیدہ نے اپنا سر کھجاتے ہوئے اماں سے پوچھا۔ وہ گپ شپ کے موڈ میں تھی۔ ”نہیں پردیس میں وقت کہاں ملتا ہے۔ ” اماں بڑبڑائی تھی۔ ”آخری بار دس سال پہلے آئے تھے باپ کی وفات پر … ” زبیدہ نے کچھ یاد کرنے کی کوشش کی۔ اماں بختے کی رنگت کچھ پھیکی پڑی اور اس نے سر ہلا دیا۔ ”آئے ہائے دس سال میں ایک بار بھی ماں کی یاد نہیں آئی۔ ” زبیدہ نے جیسے ہمدردی کی لیکن اماں بختے تڑپ گئی۔ ”یاد کیوں نہیں آتی ہو گی … یاد تو آتی ہو گی … کوئی ماں کو تھوڑی بھول جاتا ہے … جب بھی بیویوں کے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہوں گے تو میرے ہاتھ کا کھانا یاد آتا ہو گا انہیں … ان کی بیویاں میرے جیسا تھوڑا پکا سکتی ہیں۔ ” زبیدہ نے اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اماں کی بات کی کسی دلچسپی کے بغیر تائید کی۔”ہاں یہ تو ہے۔ ” ”اور میری طرح کون کلف لگا کر کپڑے دیتا ہو گا انہیں … کھڑکھڑ کرتے کپڑے… ” اماں کچھ اور جذباتی ہوئی۔ ”پر اماں اب تو مشینوں میں کپڑے دھلتے ہیں اور باہر تو فرنگیوں جیسے کپڑے پہنتے ہیں سب لوگ … ان کو کہاں کلف لگانی پڑتی ہے۔ ” زبیدہ نے جیسے تصحیح کرنے کی کوشش کی۔”پر میری طرح کون سر میں تیل ڈال کر مالش کرتا ہو گا۔ ” اماں نے اصرار کیا۔ وہ اپنا کیس ہارنے پر تیار نہیں تھی۔ ”پر اماں تیرے بیٹوں کے سر پر تو اب چار بال ہوں گے … تیل کی ضرورت کہاں پڑتی ہو گی گنجے سر کو … وہ تو ویسے ہی چمکتا ہے۔ ” زبیدہ نے جیسے مذاق اڑایا۔ اماں بختے کو اس کی بات پر ہنسی نہیں آئی۔ ”اورکون میری طرح لوری دیتا ہوگا۔ ” زبیدہ نے اس بار کھل کر قہقہہ لگایا۔ ”لے اماں 50,50 سال کے ہو رہے ہیں تیرے بیٹے اب تیری لوریاں کہاں یاد کرتے ہوں گے۔ ” اس سے پہلے کہ اماں کچھ کہتی۔ زبیدہ کے بیٹے نے بسکٹ نیچے گرنے پر غصے میں آ کر زبیدہ کے منہ پر چانٹا مارا تھا۔ ایک لمحے کے لئے زبیدہ نے درد سے بے حال ہو کر گال پر ہاتھ رکھا۔ پھر ہنس پڑی… ”دیکھو ابھی سے کتنا غصہ آتا ہے اماں اسے … میں ذرا رضیہ سے سلام دعا کر لوں۔” وہ کہتے ہوئے دہلیز پار کر کے اندر چلی گئی۔ اماں بختے وہیں بیٹھی رہ گئی تھی۔
٭





شریف کی گود میں بیٹھی عبدل کی ڈیڑھ سالہ بیٹی شریف کے منہ پر ہلکے ہلکے طمانچے مار رہی تھی۔ شریف سر جھکائے صحن کی چارپائی پر بیٹھا تھا۔ باورچی خانے میں سالن میں کفگیر چلاتی بختاور بے حد بے بسی سے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔ عبدل پچھلے ایک گھنٹے سے صحن میں کھڑا باپ پر چلا رہا تھا۔
”سارے گھاٹے سارے عذاب میری جان کے لئے چھوڑ دیئے … وہ دونوں بڑے کویت میں بیٹھے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ عیش کر رہے ہیں … انہیں ماں باپ کو خرچہ بھیجنے کی توفیق تک نہیں ہے … خرچے کو تو چھوڑ … غفار نے مکان پر گروی لی جانے والی رقم تک نہیں بھیجی … میں بچے پالوں یا ماں باپ پالوں … اب کون اتارے گا اس گھر کے قرضے … ابا میں بتا رہا ہوں تجھے … میں نے گروی کی رقم تبھی دینی ہے۔ جب یہ گھر تو میرے یا میری بیوی کے نام کرے گا … ہر گھاٹا تو نے میرے ہی گلے میں ڈالنا ہے … ” عبدل چلا رہا تھا۔ شریف نے ایک بار بھی سر نہیں اٹھایا۔ اس کی دکان اب عبدل چلا رہا تھا اور جوڑوں کے درد کی وجہ سے اس نے پچھلے سال سے دکان پر جانا بند کر دیا تھا …
”لے مکان تیرے یا میرے نام کیوں کریں گے … وہ تو دیں گے اپنے دونوں چہیتے بیٹوں کو … اور خدمت کر کے میں اور تو مر جائیں گے۔ ” رضیہ بھی اب اندر سے آ گئی تھی۔
”تو ٹھیک ہے ابا اس بار وہ گروی والے پیسے مانگنے آئیں گے تو میں کہہ دوں گا ان سے کہ مکان پر قبضہ کر لیں وہ۔” عبدل نے باپ کو دھمکایا۔ شریف نے سر اٹھایا۔ دور باورچی خانے میں آنسو بہاتی بختاور کو اس نے دیکھا پھر شکست خوردہ انداز میں عبدل سے کہا۔ ”تو کاغذ بنوا لے … تیرے نام کردیتا ہوں میں یہ گھر۔ ” رضیہ نے یک دم فاتحانہ انداز میں باورچی خانے میں دوپٹہ آنکھوں پر رکھ کر روتی ساس کو دیکھا اور اندر چلی گئی۔
٭

”تو نے گھر عبدل کے نام کر کے اچھا نہیں کیا … جبار اور غفار کو پتہ چلے گا تو کتنا ہنگامہ اٹھائیں گے وہ … آخر ان کا بھی حصہ ہے اس گھر میں۔” بختاور نے بے حد رنج کیساتھ شریف سے کہا۔ وہ دونوں بے حد مدھم آواز میں باتیں کررہے تھے۔ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی کوئی بات سن کر بیٹا یا بہو طوفان اٹھائیں۔
”یہ گھر نہیں گھاٹا ہے بختے … اور گھاٹے میں کسی کا حصہ نہیں ہوتا … گھاٹا پورے کا پورا کسی ایک کے حصے میں آتا ہے۔ ” شریف نے تسبیح کے دانے پھیرتے ہوئے کہا۔ بختاور پھپھک کر رو پڑی ”گھر گھاٹا کیسے بن جاتا ہے شریف؟”
”گھاٹا کھانے والا آدمی کیسے جواب دے اس کا … یہ سمجھ آ جائے تو آدمی گھاٹا کیوں کھائے۔ ” شریف بے حد اداس تھا۔ بختاور نے یک دم اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ”تو لیٹ جا شریف … تیری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ” بختاور نے اپنی چادرسے آنکھیں رگڑ کر کہا۔ شریف بے حد رنج کے عالم میں اس کا چہرہ بہت دیر دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔”اب لیٹنا ہی ہے بختے … گھاٹا کھا کھا کر اب لیٹنا ہی ہے۔ ” بختاور کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔
٭
”باپ کی موت کا سنتے ہی دونوں بیٹے باہر سے آ گئے۔”
”بڑی سعادت مند اولاد ملی بھائی شریف کو۔”
”اللہ ایسی اولاد سب کو دے۔ ”
صحن میں تعزیت کرنے والی عورتیں بیٹھی ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں۔دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھی بختاور کے کانوں میں جبار اور غفار کے جھگڑے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔
”ابا نے جیتے جی ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو مر کر کیسے کرتے۔ ” یہ جبار تھا۔ ”ارے پوری کی پوری جائیداد چھوٹے کے نام کر دی یوں جیسے اکلوتی اولاد ہووہ ابا کی۔” غفار نے حلق کے بل چیخ کر کہا تھا۔ ”اور ایک ہم ہیں کہ پاگلوں کی طرح دوڑے آئے باپ کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے … کاروبار بند کر کے … جہاز کے کرائے پر بھی پیسہ برباد کیا ہم لوگوں نے۔” شریف کی تدفین کے فوری بعد دونوں بڑے بیٹوں نے مکان اور دکان میں اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا تھا، اور یہ پتہ چلنے پر کہ وہ دونوں چیزیں شریف بہت پہلے عبدل کے نام کر چکا تھا۔ وہ دونوں آگ بگولہ ہو گئے تھے۔
”میں تو اب دوبارہ اس گھر میں قدم تک نہیں رکھوں گا۔ ” جبار نے اعلان کیا تھا۔ ”ارے جس گھر میں حصہ تک نہیں ہمارا وہاں پیر بھی کیوں رکھیں ہم اپنا۔ ” ”جو کچھ تو نے ہمارے ساتھ کیا ہے اماں … سمجھ لے آج ابا نہیں تو بھی مر گئی ہمارے لیے۔ ”
بختاور یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ”ارے صبر کر اماں … جانے والے کا دکھ بڑا ہے پر صبر کر … دیکھ تیری اولاد چھوڑ کر گیا ہے وہ تیرے لیے۔ ” ایک عورت نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا تھا۔
٭
دوپٹے سے اماں بختے نے اپنی آنکھیں رگڑیں … دس سال ہو گئے تھے شریف کو گئے پر ہر بار وہ اسے یاد آتا تھا تو دل بھر آتا تھا۔
دور سے عبدل جوتا گھسیٹتے آ رہا تھا۔ اماں اب اس کے چلنے کی آواز تک پہچانتی تھی۔ وہ یک دم سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی۔
”آ گیا بیٹا …” اس نے عبدل کو قریب آنے پر کہا۔ عبدل کے ہاتھ میں پھلوں کا لفافہ تھا۔ دہلیز میں اس کے نمودار ہوتے ہی سونو بھاگتا آ گیا تھا۔ عبدل نے اماں کے سلام کا جواب نہیں دیا اس کی پوری توجہ چار سالہ سو نو پر تھی جو اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر اب اس لفافے کو اس کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کر رہا تھا۔
”لے چھین کیوں رہا ہے … تیرے لیے ہی لایا ہوں … تیرا ہی ہے سب کچھ۔” عبدل لفافہ سو نو کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے اندر چلا گیا۔ اماں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی تھی۔
٭
”تجھ سے ایک بات کرنی ہے اماں۔” عبدل کے لہجے میں ایسی مٹھاس کتنی دیر بعد سنی تھی اس نے … وہ یک دم اٹھ کر بیٹھ گئی … ”ہاں … ہاں … بول بیٹا … ”
عبدل اس کی چارپائی پر بیٹھ گیا تھا۔ ”بچے بڑے ہو رہے ہیں ہمارے … اور گھر بڑا چھوٹا ہے۔ ” عبدل نے تمہید باندھنی شروع کی۔ اماں نے سوچے سمجھے بغیر اس کی تائید کی۔ ”ہاں گھر تو چھوٹا ہے … چار بچوں کے ساتھ آسانی سے تو گزارہ نہیں ہوتا… پر تو فکر نہ کر … میں اللہ سے دعا کروں گی تجھے اور رزق دے اتنا پیسہ دے کہ تو اوپر بھی ایک کمرہ بنا لے۔ ” اماں کا خیال تھا وہ دعا لینے آیا تھا۔ ”رزق اور پیسہ تو جب آئے گا آئے گا … فی الحال تو میں یہ چاہتا ہوں کہ تو برآمدے میں سو جایا کر۔ اس کمرے میں بچوں کو رکھنا چاہتے ہیں ہم۔ ” عبدل کے لہجے میں اس بار ٹھنڈک تھی۔ ”پر برآمدے میں تو صوفہ… ” بختاور نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ عبدل نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”صوفہ وہیں رہے گا … دن کے وقت رضیہ تجھے صحن میں چارپائی ڈال دیا کرے گی اور رات کے وقت صوفہ ہٹا کر برآمدے میں۔ ”
”پر عبدل تجھے پتہ ہے مجھے برآمدے میں سونے کی عادت نہیں ہے۔ ” بختاور نے بڑی کمزور آواز میں کہا۔ ”جب سونا شروع کرو گی تو عادت ہو جائے گی اماں … اب ابا تو ہے نہیں … پورا کمرہ کیا کرنا ہے تو نے … ؟” عبدل نے کچھ بے زاری سے کہا۔ ”میں بچوں کو اپنے ساتھ سلا لوں گی۔ وہ تو پہلے بھی میرے پاس ہی سوتے ہیں۔ ” اماں نے آخری مزاحمت کی۔ ”بچوں کو پڑھائی کے لئے جگہ چاہیے … تیرے کھانسنے سے وہ تنگ ہوتے ہیں … ساری عمر کمرے میں رہی ہے تو اماں … اب برآمدے میں رہ لے گی تو کیا ہو گا … تجھے گھر سے نہیں نکال دیا ہم نے … ” عبدل دو ٹوک انداز میں کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ اماں بختے کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ روئے یا اسی طرح بیٹھی رہے … واقعی کسی نے اسے گھر سے تو نہیں نکالا تھا۔
٭
”اماں اب چیزیں اٹھا لوں۔” سو نو نے اس کا کندھا ہلا کر کہا۔ شام کی اذانیں ہونے لگی تھیں۔ گلی میں بلب جل رہے تھے۔ سو نو گم صم بیٹھی اماں بختے کے پاس کھڑا ایک بار پھر اس کا کندھا ہلانے لگا۔ ”اب تو کوئی گاہک نہیں آئے گا اماں۔ ” اماں نے تھکے ہوئے لہجے میں سو نو کا چہرہ دیکھا۔ ”ہاں اب تو کوئی … کوئی نہیںآئے گا … اٹھا لے چیزیں سو نو۔ ”
٭
رضیہ نے پیسوں کا ڈبہ پوری قوت سے اماں کے سامنے صحن میں پھینکا تھا۔ کھنکھناتے سکے ڈبے سے نکل کر پورے صحن میں لڑھکیاں کھانے لگے تھے۔
”پھر گھاٹا … آج 30روپے کا گھاٹا اور بڑھیا کہتی ہے میں نے کچھ نہیں کھایا … کسی کو مفت چیز نہیں دی … کسی کو ادھار نہیں دیا … ہر ایک سے گن کے پیسے لیے ہیں … ارے تو پھر کیا بھوت آ کر کھا جاتے ہیں چیزیں۔ ” رضیہ گلا پھاڑ پھاڑ کر صحن کے وسط میں کھڑی چلا رہی تھی اس نے کچھ دیر پہلے ہی حساب کیا تھا …
”پتہ نہیں کب جان چھوٹے گی اس بڑھیا سے اور اس گھاٹے سے … ” رضیہ بولتے ہوئے اندر چلی گئی۔ اماں بختے نے صحن میں بیٹھے بیٹھے گردن گھما کر برآمدے میں بیٹھے کھانا کھاتے ہوئے عبدل کو دیکھا جو سر جھکائے کھانے میں یوں محو تھا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
اماں بمشکل اپنی چارپائی سے کھڑی ہوئی پھر بڑی جدوجہد کے ساتھ صحن کے بیچ میں بیٹھ کر اس نے زمین پر پھیلے سکوں کو ٹٹول کر اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ وہ ساتھ بڑبڑا رہی تھی۔ ”گھاٹے کی سمجھ نہیں آئی … روز گھاٹا کیسے ہوجاتا ہے … روز تو نہیں ہونا چاہیے۔ آخر30 روپے کی چیزیں کون کھا گیا … ” وہ سکے اکٹھے کرتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔ تبھی سو نو اندر سے بھاگتا آیا۔ ”ٹھہر اماں میں جمع کرتا ہوں ”… اس نے بھاگ بھاگ کر صحن میں بکھرے وہ دس پندر ہ سکے دو منٹ میں جمع کر لیے تھے۔
اماں صحن کے وسط میں ڈبے کے پاس بیٹھی سو نو کو سکے جمع کرتی دیکھتی رہی۔ سو نو نے سکے جمع کرنے کے بعد انہیں لا کر اماں کے ڈبے میں ڈال دیا تھا۔ پھر اس نے بڑی معصومیت کے ساتھ اماں کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ ”سارے پیسے اکٹھے کر کے ڈبے میں ڈال دیے ہیں گھاٹا تو نہیں ہوا نا … ؟ ” اس کے لہجے میں عجیب سی تشویش تھی۔
اماں کی آنکھوں میں نمی جھلملانے لگی۔ پھر سر نفی میں ہلاتے ہوئے نم آنکھوں کے ساتھ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”نہیں گھاٹا نہیں ہوا … گھاٹا نہیں ہوا مجھے۔ ” سو نو کی آنکھوں میں بے حد فخریہ چمک نمودار ہوئی تھی۔
******




Loading

Read Previous

تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

Read Next

کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

One Comment

  • ہر بار دل پر اثر چھوڑ جاتی ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!