”بختے میرے نئے جوتے نہیں مل رہے۔ ” بختاور صحن میں کپڑے دھو رہی تھی جب شریف برآمدے میں پڑی چارپائی کے نیچے جھانکتا باہر آیاتھا ۔
”وہ جبار پہن کر گیا ہے۔ ” بختاور نے آرام سے کہا۔ ”جبار … ؟ ” شریف کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔ ”اسے پورے آ گئے ؟” وہ حیران تھا۔ بختاور ہنسی۔ ”تیرا بیٹا جوان ہو گیا ہے شریف … کدھر بیٹھا ہے تو … آنکھیں کھول کر دیکھا کر۔ ” ”ہاں مگر میرے جوتے تو بہت بڑے تھے۔” شریف کو اب بھی بے یقینی تھی۔ ”میرے بیٹے کو تو چھوٹے پڑ رہے تھے … بڑی مشکل سے اٹکا کر گیا ہے پیروں میں۔” بختاور نے بے حد فخر سے کہا۔”پر کیسے … بیٹے جوان ہو گئے … پتہ ہی نہیں چلا … ” شریف کچھ حیرت سے کہتا ہوا کمرے میں واپس چلا گیا تھا۔ بختاور اس کے جملے پر ہنستی کپڑے دھوتی رہی۔
٭
عبدل کی چاروں بڑی بیٹیاں اسکول سے واپس آ گئی تھیں۔ اماں بختے نے ان کے کھلکھلانے کی آواز دور سے سن لی۔ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ ”سلام اماں ” اماں کے پاس سے گزر کر گھر کے اندر جاتے ہوئے ان چاروں نے باری باری کہا تھا۔ اماں ایک ایک کے پیروں کو گھر کے اندر جاتا دیکھتی رہی۔ سونو صحن میں چھوٹی بہن سے لپٹ رہا تھا۔ پھر بڑی بہن نے اسے اٹھا کر پیار کیا۔ … سونو کی توجہ یک دم دادی سے بہنوں پر منتقل ہو گئی تھی، اور اماں بختے کچھ بے چین ہو گئی تھی۔
”سو نو … سونو ” اس نے بے اختیار آوازیں دینا شروع کر دیا … یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے سونو کو آوازیں دیتا سن کر رضیہ بولنا شروع کر دے گی … اور ایسا ہی ہوا تھارضیہ نے اماں بختے کو جھڑکنا شروع کر دیا تھا صحن میں اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے … لیکن سونو پھر بھی باہر آ گیا تھا۔ اماں بختے کو رضیہ کے لعن طعن کی پرواہ نہیں تھی۔
”کیا ہے اماں ؟ ” سونو نے باہر آتے ہی پوچھا۔ ”تجھے دادی بھول گئی کیا ؟” اماں نے اسے آتے دیکھ کر ٹافیوں کاایک ڈبہ ٹٹولنا شروع کر دیا تھا اور سو نو نے اس کے ہاتھ کی حرکت دیکھ لی تھی۔ ”نہیں تو اماں … یہ والی ٹافی دے دو مجھے۔” سونو نے لاڈ سے کہتے ہوئے اماں کو اپنی پسند بھی بتا دی تھی۔
اماں نے ایک کی بجائے دو ٹافیاں نکال کر اسے تھما دیں۔ سونو نے بہت ہنستے ہوئے اماں سے ٹافیاں لی تھیں۔ ”اب بیٹھ جا میرے پاس۔ ” اماں بختے نے اس سے کہا۔ سو نو بڑی فرماں برداری سے اس کے پاس بیٹھ گیا۔ گلی سے یک دم ایک سکوٹر گزرا سو نو ٹافی کھولنا کچھ دیر کے لئے بھول گیا۔ وہ تب تک سکوٹر کو دیکھتا رہا جب تک سکوٹر گلی کا موڑ مڑ کر غائب نہیں ہو گیا۔
”اماں تو ابا سے کہہ… وہ سکوٹر لے لے…” سو نو نے یک دم اماں سے کہا۔ ”سکوٹر؟ … ” بختاور بری طرح چونکی۔ ”یہ سکوٹر کیسے یاد آ گیا تجھے؟” میرا دل کرتا ہے اماں … ابا کے پاس ایک سکوٹر ہو … جسے میں چلاؤں … ”
سو نو نے ٹافی کا ریپر اتار کر اسے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔”سکوٹر … ابا کا سکوٹر…” اماں بختے نے بڑبڑا نا شروع کر دیا تھا۔
٭
”اماں ابا … سکوٹر لے کر آیا ہے۔ ” جبار نے دروازے سے ہی گلا پھاڑتے ہوئے ماں کو اطلاع دی۔ کمرے میں جھاڑو لگاتی بختاور ایک دم ٹھٹھکی اور پھر جھاڑو چھوڑتی ہوئی باہر نکل آئی۔ جبار اب درروازے میں بھی نہیں تھا لیکن گلی میں کسی سکوٹر کی آواز آ رہی تھی۔ وہ لپک کر دروازے تک گئی اور تبھی دروازے کے سامنے شریف نے ایک سکوٹر روکا جس پر اس کے پیچھے جبار اور غفار بیٹھے ہوئے تھے۔ ”یہ کس کا سکوٹر اٹھا لایا ہے تو شریف۔” شریف کو سکوٹر چلاتے دیکھ کر جیسے بختاور کو یقین نہیں آ رہا تھا … پورے محلے سے عورتیں اور بچے ان کے دروازے کے باہر کھڑے ہونے لگے تھے۔ وہ محلے کا پہلا سکوٹر تھا۔
”میرا اپنا سکوٹر ہے … تھک گیا تھا بسوں کے دھکے کھاتے کھاتے اور پیدل چلتے چلتے اس لیے کام پرجانے کے لئے لیا ہے میں نے۔ ” شریف نے سکوٹر سے اترتے ہوئے اس کو بتایا۔ ”اللہ میں تو ابھی میٹھے چاول پکا کر محلے میں بانٹتی ہوں … اتنے سالوں بعد اللہ نے سواری نصیب کی ہے تجھے۔ ” بختاور جذباتی ہو رہی تھی۔ ”ابا مجھے چابی دے سکوٹر کی … میں ایک چکر لگا کر آؤں اس پر … ” جبار نے باپ کے ہاتھ سے سکوٹر کی چابی پکڑ لی۔ ”غفار کو بھی پیچھے بٹھا لینا…” بختاور نے اسے آواز ی۔ ”اماں میں تو اب سکوٹر پر ہی کالج جایا کروں گا … اپنے دوستوں کو جا کر ابھی بتاتا ہوں کہ ابا میرے لئے سکوٹر لے کر آئے ہیں۔” جبار نے سکوٹر پر بیٹھ کر اسے سٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ چند لمحوں میں بختاور اور شریف نے اپنے دونوں بڑے بیٹوں کو سکوٹر سمیت غائب ہوتے دیکھا۔”سکوٹر جبار کو ہی دے دو … دیکھو کتنا خوش ہے … کالج آنے جانے میں بھی آرام ہو جائے گا اسے … اور پھر محنت سے پڑھے گا۔ ” بختاور نے کچھ سوچ کر شریف سے کہنا شروع کیا۔ شریف بھی سر ہلانے لگا۔ ”ہاں اچھا ہے جبار ہی کو دے دیتا ہوں بھائیوں کو سکول بھی چھوڑ دیا کرے گا۔ مجھے تو اب ویسے بھی بس پر جانے کی عادت ہے … وہاں بھی میل ملاپ ہو گیا ہے میرا … اب سکوٹر کہاں لیے لیے پھروں گا۔” ”بڑھاپے ” نے ”جوانی” کے سامنے بڑی آسانی کے ساتھ سپر ڈال دی تھی۔ ”پر میٹھے چاول ضرور بانٹ دینا محلے میں اور کوئی خیرات بھی دے دینا … میرے بیٹوں کی نئی سواری آئی ہے۔” شریف اندر جاتے ہوئے اسے کہنا نہیں بھولا تھا۔ بختاور دروازے پر ہی کھڑی ان دونوں کی سکوٹر سمیت واپسی کی منتظر تھی۔ گھر کے دروازے کے سامنے اکٹھی ہونے والی بھیڑ سکوٹر کے غائب ہونے کے ساتھ ہی غائب ہو گئی تھی۔
٭
”سکوٹر۔” اماں بختے ایک بار پھر بڑبڑائی تھی۔”اور اماں پھر میں تجھے بھی سکوٹر پر بٹھایا کروں گا۔ ” سونو کو یک دم دادی کا خیال آیا۔ ”مجھے ؟ ” اماں بختے نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا۔ ”ہاں تجھے بٹھا کر پتہ کہاں لے کر جاؤں گا۔ ” سونو نے جیسے اس کے تجسس کو ہوا دی۔ ”کہاں؟” ”سمندر پر … ” سونو نے کہا۔ اماں بختے پوپلے منہ کے ساتھ ہنس پڑی۔ ”اچھا سمندر پر لے کر جائے گا تو مجھے … ؟”
”اور کیا … بس اتنی سیر کرائے گا مجھے … ؟ ” اماں بختے نے کہا۔ ”نہیں … نہیں اور بھی سیر کرواؤں گا تجھے … جہاز پر بٹھا کر۔” سونو نے فوراً کہا۔ ”جہاز پر بٹھا کر؟” اماں کچھ اور ہنسی۔ ”کون سے جہاز پر بٹھا کر … ؟” اس نے جیسے سو نو کو چھیڑا۔ ”ہوائی جہاز پر بٹھا کر … پھر تجھے … تجھے کویت لے کر جاؤں گا … جہاں تایا جی ہیں۔ ” سو نو نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ خیالی پلاؤ پکانے کی کوشش کی اور اس کوشش نے جیسے کوئی زخم ہرا کر دیا تھا۔ اماں بختے کی آنکھوں میں پانی آ یاتھا … اس عمر میں دکھ پہاڑ بھی بن جائے تو بھی آنکھیں صرف نم ہوتی ہیں ان میں سیلاب نہیں آتا۔
٭
”تو ابا سے کہہ نا مجھے ویزے کے لئے پیسے دے دے۔” جبار نے بختاور سے پھر ضد کرنی شروع کر دی تھی۔ ”شریف کے پاس کہاں ہیں پیسے … ؟ ” بختاور نے کچھ پریشان ہوتے ہوئے شوہر کی حمایت کی۔”تو ابا کسی سے قرضہ لے لے… میں باہر جا کر لوٹا دوں گا۔” جبار نے اصرار کیا۔ ”تیرے ابا اتنی سی عمر میں باہر نہیں بھیجیں گے تجھے۔ ابھی تو تو 20کا بھی نہیں ہوا جبار… ” بختاور نے اس سے کہا۔”پہلے اپنی پڑھائی کر لے … پھر چلا جانا باہر بھی۔ ” ”پڑھائی کا کیا فائدہ ہے … ؟ پڑھ لکھ کر کون سا افسر لگ جانا ہے مجھے … نوکری کے لیے دھکے کھاؤں گا اور جوتیاں چٹخاؤں گا۔ بس تو ابا سے کہہ مجھے کویت بھیج دے۔ محلے کے سارے لڑکے جا رہے ہیں وہاں۔ ” جبار نے کہا۔ ”مگر … ” بختاور نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ جبار نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔ ”میں نے تو ایک ایجنٹ سے بات بھی کر لی ہے … 20ہزار مانگ رہا ہے وہ تو بس بات کر ابا سے۔”
٭
”پر 20ہزار میں کہاں سے لاؤں گا بختے تیرے بیٹے کا دماغ خراب ہو گیا ہے بیٹھے بیٹھے۔ ” شریف جبار کا ارادہ اور مطالبہ سن کر بری طرح بگڑا تھا۔ ”تو کسی سے ادھار لے لے۔” بختاور نے کچھ تھکے انداز میں کہا۔ ”20ہزار کون ادھار دے گا مجھے۔ ” شریف کچھ اور بگڑا۔”تو کسی سے بات تو کر۔” بختاور نے اصرار کیا۔ ”بیٹے کو سمجھاتی کیوں نہیں تو … ؟ ”
”تیرا خیال ہے میں نے نہیں سمجھایا کہ… کتنے مہینے سے ہر روز یہی ایک ضد کرنے بیٹھ جاتا ہے میرے پاس اور اب تو کالج چھوڑنے کی دھمکی بھی دے دی ہے … جب پڑھنا نہیں تو پھر کام تو کرنا ہی ہے اس نے … کرنے دے اسے جا کر باہر کام۔ اس کی بھی زندگی بن جائے۔ ” بختاور نے کہا۔ وہ میدے کی سویاں سکھانے کے لئے بنا رہی تھی اور آج پہلی بار سویاںٹھیک نہیں بن رہی تھیں۔ ”جب گھر خریدنے کے لیے قرضہ لیا تھا تو یاد ہے کتنی مشکل سے چکایا تھا۔ ” شریف نے اسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔ ”سب یاد ہے … پھر چکا دیا تھا سا را قرض …پھر چکا دیں گے … وہ وعدہ کر رہا ہے کہ باہر جا کر سارے پیسے واپس کر دے گا۔ ” بختاور نے یقین سے کہا۔ ”پر بختے… ” بختاور نے شریف کو بات نہیں کرنے دی۔ ”تو بات کر کسی سے۔”
”گھر کو گروی رکھنا پڑے گا اتنی رقم قرضہ لینے کے لئے۔” بختاور شریف کی بات پر بول ہی نہیں سکی۔ کسی نے جیسے اس کی جان نکال لی تھی۔ ”تو چپ کیوں ہے؟” شریف نے اس سے کہا۔ ”کچھ نہیں ایسے ہی … ” بختاور بمشکل بولی۔ اس نے میدہ ہاتھ سے رکھ دیا تھا۔ ”تجھے اچھا نہیں لگا تو گھر کو رہنے دیتے ہیں۔ میں دکان کو گروی رکھ دیتا ہوں۔” شریف نے یک دم کہا۔ بختاور چونک گئی۔ دکان تو کاروبار تھا۔ رزق تھا۔ خدانخواستہ وہ چلی جاتی تو۔ ”نہیں ٹھیک ہے تو مکان ہی کو گروی رکھ دے… جبار نے وعدہ تو کیا ہے۔ جاتے ہی سارا قرضہ لوٹا دے گا وہ … بس ٹھیک ہے تو مکان ہی گروی رکھ دے … ” بختاور نے شریف سے زیادہ جبار کا وعدہ جیسے خود کو تسلی دینے کے لئے دہرایا۔
٭
”سو جا بختے … کتنی راتیں اسی طرح صحن کے چکر کاٹ کاٹ کر گزارے گی ؟” ہر رات کی طرح اس رات بھی اسے صحن میں چکر کاٹتے دیکھ کر شریف اندر چارپائی سے اٹھ کر باہر آ یا تھا۔ ”بس جب سے میرا جبار گیا ہے کسی شے میں میرا دل ہی نہیں لگتا۔ پتہ نہیں کیسے ر ہ رہا ہو گا وہاں۔” بختاور نے بے حد اداسی سے کہا۔ ”وہ بڑا خوش ہے وہاں اس نے فون پر بتایا ہے مجھے۔” شریف نے اسے یاد دلایا۔ ”وہ تو اس نے اس لیے کہا ہو گا کہ میں پریشان نہ ہوں ورنہ ماں اور گھر کے بغیر پردیس میں کیسے خوش رہ سکتا ہے وہ۔ ” بختاور کو یقین نہیں آیا۔ ”بختے تیرا بیٹا جوان ہو گیا ہے۔ ” شریف نے اسے جتایا۔”کتنا بھی جوان ہو جائے۔ میرے لئے بڑا تھوڑی ہو گا۔” بختاور رونے لگی تھی۔”تیرے کہنے پر ہی میں نے قرضہ لے کر اسے باہر بھجوایا اب تو ہی رو رہی ہے اس کے لئے … ” شریف بگڑا تھا۔ ”بس میرا دل نہیں لگتا کسی بھی شے میں … یاد آتا رہتا ہے وہ مجھے ہر وقت۔” وہ کچھ اور زار و قطار رونے لگی تھی۔ ”آ جائے گا وہ واپس … بس پانچ چھ سال کی بات ہے … تھوڑا پیسہ اکٹھا کر لے ،پھر آ جائے گا واپس … یہیں کوئی کام کرے گا۔ ”شریف نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔ ”تو سچ کہہ رہا ہے شریف ؟ ” بختاور کو روتے روتے جیسے کوئی آس لگی۔ ”اور کیا …اس نے خود کہا ہے مجھ سے… اور پھر دیکھ باقی بیٹے ہیں ابھی ہمارے پاس ان میں دل لگا تو۔” بختاور کے آنسو تھمنے لگے۔
٭
جب جبار کو بھیج دیا تو مجھے کیوں نہیں بھیج سکتے ؟” غفار چلا رہا تھا۔ ”اسے بھیج کر اتنی اداس رہتی ہوں تو اور اداس کرناچاہتا ہے مجھے ؟ ” بختاور کی آنکھوں میں آنسو اترنے لگے۔ ”اب تیری اداسی کے لئے میں گھر تو نہیں بیٹھ سکتا ابا سے کہہ مجھے ویزے کے لئے پیسے دیں۔ ” غفار نے بڑی بد تمیزی کے ساتھ کہا۔ ”پر غفار پیسے نہیں ہیں تیرے ابا کے پاس۔” بختاور نے بے بسی سے کہا۔”کیوں جبار نے جو پیسے بھجوائے تھے باہر سے …وہ کہاں ہیں ؟ ” وہ تو گھر گروی رکھ کر اسے باہر بھیجنے کے لئے جو قرض لیا تھا اسے اتارنے کے لئے بھیجے تھے اس نے۔” بختاور نے اس سے کہا۔”تو پھر اب گھر کو میرے لیے گروی رکھ کر رقم لیں … میں بھی کویت جا کر بھیج دوں گا آپ کو یہ پیسے واپس۔ ” غفار نے جیسے اعلان کیا تھا۔ بختاور نے بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھا وہ کتنی آسانی سے اس گھر کو گروی رکھنے کی بات کر رہا تھا جسے خریدنے اور بنانے میں اس کی ساری جوانی چلی گئی تھی۔ وہ ”گھر” تھا اس کا … یہ بات وہ انہیں سمجھا نہیں پا رہی تھی … یہ بات کوئی بھی ”مرد ” نہیں سمجھ سکتا۔
٭
”اماں میں جیلی لے لوں…؟” سونو نے اسے ایک بار پھر چونکا یا۔ وہ منہ کھول کر جماہی لیتے ہوئے کھانے پینے کے ڈبوں میں پڑی چیزوں پر نظر ڈال رہا تھا۔ ”جیلی کیا…؟” ایک لمحے کے لئے اماں بختے کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ ”یہ والی جیلی۔” سو نو نے جیلی کا پیکٹ پکڑ کر اس کے سامنے لہرایا۔ وہ اماں بختے کی دکان کا سب سے مہنگا آئٹم تھا۔ ”ساری جیلی کھائے گا ؟” اماں کچھ گریزاں ہوئی۔ ”ہاں بھوک لگ رہی ہے۔” سونو نے کہا۔ ”تو بسکٹ کھا لے۔ ” اماں نے بسکٹ کا ایک پیکٹ اٹھایا۔ ”نہیں مجھے تو جیلی ہی کھانی ہے … بس جیلی ہی … مجھے جیلی ہی کی بھوک ہے۔ ” سو نو نے دو ٹوک انداز میں اماں سے کہا۔ ”اچھا چل لے لے … بڑی ضد کرنے لگا ہے اب تو سو نو … ” اماں نے فوراً اس کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے جیلی کا پیکٹ اسے تھما دیا تھا۔ سو نو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیںرہا تھا۔ اس نے اماں کے تبصرے پر بھی غور نہیں کیا۔ وہ بس خوشی خوشی جیلی کا پیکٹ کھولنے میں مصروف تھا۔
اماں نے جو کچھ زرق برق کپڑوں میں ملبوس کچھ بچیوں کو اپنے سامنے سے گزر کر گلی کے ایک گھر میں جاتے دیکھا۔ شاید بڑی گلی کے کسی گھر میں شادی تھی کیونکہ بہت دور سے باجوں کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی۔
”اماں میں دولہا دیکھوں گا۔ ” سونو نے یک دم کھڑے ہو کر اعلان کیا۔ باجوں کی آواز اس نے بھی سن لی تھی۔ ”اماں سے پوچھ کر جانا سونو۔ ” اماں بختے نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ ”اماں کو رہنے دو۔ ” سونو تقریباً بھاگتا ہوا کہتا چلا گیا۔ محلے کے کچھ اور گھروں سے بھی بچے اور کچھ عورتیں نکل کر بڑی گلی کی طرف گئی تھیں۔ باجوں کا شور اب بہت زیادہ اور بہت قریب آ رہا تھا۔ اماں جا سکتی تو اس وقت وہ بھی گلی کے موڑ پر کھڑے مجمع میں شامل ہوتی جو بڑی گلی سے گزرنے والی بارات کو دیکھ رہا تھا۔
دس پندرہ منٹ کے بعد باجوں کا شور کم ہونے لگا پھرآہستہ آہستہ اس مجمع میں موجود عورتوں اور بچوں کی اپنے اپنے گھر کو واپسی ہونے لگی۔
اماں سونو کی منتظر تھی۔ چند لمحوں بعد اس نے بالآخر سونو کو نمودار ہوتے دیکھ لیا۔ اماں نے اطمینان کا سانس لیا۔
”دیکھ لی بارات؟” سونو کے قریب آتے ہی اماں نے پوچھا۔ ”ہاں” سو و نے قدرے پر جوش انداز میں کہا۔ ”دولہا بھی دیکھا ؟” اماں بختے نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔ ”ہاں دولہا بھی دیکھا۔” سونو نے سر ہلایا۔ ”اماں میری شادی کب ہو گی؟” سو نو نے یک دم اماں سے پوچھا۔ اماں کو ہنسی اور کھانسی کا دورہ پڑا۔ ”شادی کرے گاتو؟” اماں نے دونوں پر قابو پانے کی کوشش کی۔ ”ہاں” سونو سنجیدہ تھا۔ ”اچھا میں کہتی ہوں تیری ماں سے … کہ لڑکی ڈھونڈے تیرے لئے۔” اماں بختے نے ہنستے ہنستے کہا۔”لڑکی کیوں ڈھونڈے؟” سونو چونکا۔ ”لے لڑکی کے بغیر ہی شادی کر لے گا ؟ ” اماں کو ہنسی اور کھانسی کا ایک اور دورہ پڑا۔”پر اماں میں نے تو تیرے ساتھ شادی کرنی ہے۔” سونو نے اسی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ اس بار اماں کو صرف کھانسی کا دورہ پڑا تھا۔ مزید ہنسنے کی ہمت نہیں تھی اس میں۔ ”پر سو نو میں تو بوڑھی ہو گئی ہوں۔ ” اماں نے بالآخر اپنی ہنسی اور کھانسی دونوں پر قابو پا لیا تھا۔ ”کوئی بات نہیں۔ ” سونو کی سنجیدگی برقرار تھی۔ ”اچھا پھر کیا کرے گا؟” اماں بختے نے پوچھا۔ ”پھر میں اپنے سارے پیسے تجھے دے دوں گا۔ جیسے ابا اماں کو دے دیتا ہے … میں بھی ساری چیزیں تجھے ہی لا کر دوں گا … ” اماں کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ ”کیوں ؟ … ” اس نے بمشکل پوچھا۔ ”تا کہ تجھے گھاٹا نہ ہو۔ ” سونو نے جواب دیا۔ اماں کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔
٭
”عبدل کی شادی کر دیتے ہیں بختے۔ ” بختاورشریف کی اس بات پر جیسے کرنٹ کھا کر اچھلی تھی۔ وہ آٹا گوندھ رہی تھی۔ ”یہ بیٹھے بٹھائے تجھے عبدل کی شادی کا خیال کہاں سے آ گیا۔” بختاور کو اس کی بات اچھی نہیں لگی تھی۔ شریف کچھ دیر چپ چاپ سر جھکائے چارپائی پر بیٹھا رہا پھر اس نے گہرا سانس لے کر کہا۔”وہ بھی مجھ سے کویت بھیجنے کی ضد کر رہا ہے۔ شادی کر دیں گے تو بیوی روک لے گی اسے۔ ” آٹا گوندھتے گوندھتے بختاور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ ”اگر ماں باپ نہیں روک سکتے تو بیوی کیسے روک لے گی۔” بختاور نے جیسے کچھ تڑپ کر کہا تھا۔ ”بیویاں روک لیا کرتی ہیں بختے۔ ” شریف کے لہجے میں عجیب سی اداسی تھی۔ عبدل بھی باہر چلا گیا تو ہم اکیلے کیا کریں گے یہاں … اتنے مہینے سے جبار اور غفار نے پہلے ہی کوئی رابطہ نہیں کیا، تو عبدل کو بھی گنوانا چاہتی ہے کیا ؟ ” بختاور کو لگا شریف کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس دن پہلی بار اسے لگا شریف بوڑھا ہو گیا تھا۔
”پر شریف شادی کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا ؟ … ابھی توغفار نے وہ رقم تک واپس نہیں کی جو گھر گروی لے کر اسے دی تھی … جبار بھی کوئی پیسہ نہیں بھیج رہا …” بختاور نے بے حد تشویش کے ساتھ کہا تھا۔ ”جہاں اتنا گھاٹا … وہاں کچھ اور سہی … کچھ اور روپیہ ادھار لے لوں گا میں … شادی سادگی سے کر لیں گے۔ ” شریف نے کہا۔
٭
”دیکھ شریف میری بہو کا دوپٹہ … ” بختاور نے بڑی خوشی خوشی ایک سرخ دوپٹہ شریف کے سامنے پھیلا یا جس پر وہ گوٹا لگا رہی تھی۔ شریف تھوڑی دیر پہلے ہی کچھ سامان لے کر کمرے میں آیا تھا اور اب اپنے جوتے اتار رہا تھا۔ اس نے بڑے بے تاثرانداز میں دوپٹے پر ایک نظر ڈالی اور مدھم آواز میں کہا۔ ”اچھا ہے۔ ” بختاور نے اس کے بجھے ہوئے لہجے پر غور کئے بغیر کہا۔ ”بس آج رات مکمل کر لوں گی اسے … چاہے رات جاگنا ہی کیوں نہ پڑے مجھے۔ ” بختاور ایک بار پھر دوپٹے پر گوٹا لگانے لگی۔ ”میں سوچ رہا ہوں ہم یہ کمرہ عبدل اور اس کی دلہن کو نہ دے دیں۔” شریف نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔ بختاور نے چونک کر اسے دیکھا۔ ”کیا مطلب؟ … اپنا کمرہ عبدل کو دے دیں … تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔”وہ ناراضگی سے کہہ کر دوبارہ گوٹا لگانے لگی۔ ”ہاں … یہ ذرا اچھا کمرہ ہے … بڑا بھی ہے … ” شریف نے کہا۔ ”عبدل کا کمرہ بھی اچھا ہے۔” بختاور نے دو بہ دو کہا۔ ”یہ ذرا زیادہ اچھا سجا ہے۔ ”شریف نے کہا۔ ”میں عبدل کے کمرے کو بھی اچھی طرح سجا دوں گی رضیہ کے سامان سے تو فکر نہ کر۔” بختاور نے اس کی بات کاٹی۔ ”پھر بھی میں … ” بختاور نے اس بار پھر اس کی بات کاٹی۔ ”میں تو اپنا کمرہ کبھی نہیں چھوڑوں گی … چاہے ایک نہیں تین تین بہوئیں آجائیں … تو ایسا خیال بھی اپنے دل میں مت لانا … عبدل کو پتہ چلا تو ہنگامہ مچا دے گا وہ کہ ابا نے ایسا سوچا بھی کیوں۔ ” بختاور نے بے حد غرور سے کہا۔ ”تجھے پتہ ہے کیسے جان چھڑکتا ہے وہ مجھ پر … یہ تو برداشت بھی نہیں کرے گا کہ میری جوتی بھی ادھر سے ادھر ہو اور تو کمرہ چھوڑنے کو … ” وہ گوٹا لگاتے بڑے مان سے بولتی جا رہی تھی۔ جب شریف نے مدھم آواز میں اس کی بات کاٹی۔”عبد ل نے ہی کہا ہے مجھ سے … کہ اسے اپنی بیوی کے لئے یہ کمرہ چاہیے۔ ” گوٹا لگاتے ہوئے سوئی اس کی انگلی میں چبھی تھی پر زخم دل پر پڑا تھا۔ وہ گوٹے کے پھولوں سے نظر نہیں اٹھا سکی … نظر اٹھا کر شریف سے نظریں ملانا ایسا ہی دو بھر ہو گیا تھا اس کے لئے۔ پھر یک دم اس نے مسکرا کر سر اٹھایا اور پلکیں جھپک کر آنکھوں میں امڈتی نمی کو چھپا تے ہوئے کہا۔ ”ہاں تو … وہ … وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے … وہ کمرہ چھوٹا ہے … یہ … یہ ٹھیک ہے … ہم نے اتنا بڑا کمرہ کیا کرنا ہے … میں تو خود ہی سوچ رہی تھی کہ عبدل کو خود ہی کہوں۔”
”تو رو رہی ہے بختے … ” شریف نے اس کی آنکھوں میں آتی نمی کو دیکھ کر بے چین ہو کر پوچھا۔ ”نہ … نہ … رونا کیوں ہے میں نے … یہ سوئی لگ گئی ہے انگلی میں … تجھے تو پتہ ہے مجھ سے چوٹ نہیں سہی جاتی۔” اس نے ہنس کر دوپٹے سے آنکھوں کو رگڑا اور دوبارہ دوپٹے پر گوٹا لگانے لگی۔
٭
One Comment
ہر بار دل پر اثر چھوڑ جاتی ہیں