گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

”اماں تو سو رہی ہے کیا؟” وہ سونو کی آواز پر ہڑ بڑا کر سیدھی ہو ئی۔ وہ اس کے قریب جھکا مدھم آواز میں بڑے پراسرار انداز میں پوچھ رہا تھا۔ ”نہیں نہیں سو کہاں رہی ہوں … ایسے ہی آنکھ لگ گئی۔ ” اماں بختے نے فوراً صفائی دی۔ ”اماں نے کہا تھا کہ دیکھ آ کہیں تو سو تو نہیں رہی… کوئی چیز اٹھا کر لے گیا تو گھاٹا ہو گا۔ ” سونو نے اسی مدھم آواز میں کہا۔ وہ جیسے اپنی اور اماں کی گفتگو کو رضیہ تک پہنچنے سے بچانا چاہتا تھا۔ ”پتہ ہے مجھے … اب تو اماں سے مت کہنا … یہ دال سویاں لے لے۔” اماں نے فوراً ایک کاغذ پر کچھ دال سویاں رکھتے ہوئے اسے پکڑائیں۔ ”اور کھانا نہیں لایا تو۔ ” اماں کو سویاں پکڑاتے پکڑاتے یک دم یاد آ گیا۔
”وہ کھانا پکا نہیں … اماں نے ہانڈی رکھی ہے ابھی۔ ‘ ‘سونو نے بڑے مزے سے منہ میں چند دال سویاں ڈالتے ہوئے کہا۔ وہ سویاں کھاتے کھاتے گھر کے اندر آ گیا۔
”کیوں سو رہی تھی نا بڑھیا؟” رضیہ نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ وہ قینچی سے کپڑا کاٹ رہی تھی۔ ”نہیں تو … وہ تو جاگ رہی تھی۔” سو نو نے اطمینان سے جھو ٹ بولا۔ ”سچ کہہ رہا ہے؟” رضیہ نے کچھ اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھا۔
”اور کیا … یہ کھاؤ اماں۔” سونو نے ساتھ ہی چند سویاں رضیہ کے منہ میں ڈال دیں۔ رضیہ تو بیٹے کے اس لاڈ پر جیسے قربان ہو گئی تھی۔ ”میرا چاند … میرا لعل … آ میرا سونو … سو جا میری گود میں آ کے … تھک گیا ہو گا۔ ” رضیہ نے اسے زبردستی اپنی گود میں بٹھاتے ہوئے کہا۔ ”میں نہیں تھکتا۔ ” سونو نے اطمینان سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ”ہاں تو تو بڑا پہلوان ہے تو کیوں تھکے گا۔” رضیہ نے ہنستے ہوئے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ ”لیٹ جا اماں کی گود میں …” رضیہ نے زبردستی اسے لٹا کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ سو نو نے آنکھیں بند کر لیں چند لمحے وہ اسی طرح ساکت لیٹا رہا پھر یک دم اس نے آنکھیں کھول دیں۔”پر میں سو گیا تو اماں کو کھانا کون دے گا ؟ ” رضیہ نے اسے بے حد خفگی سے ایک چپت لگائی۔ ”دادی کا کتنا سگا بنتا ہے … سو جا چپ کر کے۔” رضیہ نے بے حد نا خوش ہو کر کہا۔ سونو کچھ نا خوش ہو کر کچھ دیر ماں کے پاس لیٹا رہا۔ پھر رضیہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی اور سونو چپکے سے اٹھ کر گھر سے باہرآگیا۔
”جا سونو کنگھی اور شیشہ لے کر آ۔” اماں بختے نے اسے دیکھتے ہی فرمائش کی۔ وہ روز دہلیزپر ہی بیٹھ کر اپنے سر پر موجود ان بالوں کو سنوارا کرتی تھی جو اب رسی سے بھی زیادہ پتلے ہو چکے تھے۔ سونو پلک جھپکتے میں اندرسے شیشہ اور کنگھا لے آیا، لیکن اس بار اس نے اس کام کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا تھا۔ اپنی گود میں کنگھا اور شیشہ رکھ کر اماں بختے آہستہ آہستہ اپنے کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ اپنے سفید بالوں کی وہ بے ترتیب سی چٹیا کھولنے لگی تھی جو اب آدھ فٹ سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی۔
بمشکل بال کھول کر اس نے آہستہ آہستہ بالوںمیں کنگھا چلانا شروع کر دیا تھا۔ سونو اس کے پاس بیٹھا بڑے شوق سے اسے بالوں میں کنگھا کرتے دیکھ رہا تھا۔ پھر اماں بختے نے سونو کو شیشہ تھماتے ہوئے کہا۔ ”لے سونو ذرا شیشہ پکڑ … میں چٹیا کر لوں۔ ” سونو نے خوشی خوشی شیشہ پکڑ لیا۔ اماں بختے نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔ اس کے ہاتھ تھم گئے۔
٭





بختاور کمرے کی دیوار پر لگے آرائشی شیشے میں اپنے عکس کو کچھ مبہوت ہو کر دیکھ رہی تھی۔ تبھی شریف کمرے میں داخل ہوا اور اسے شیشے کے سامنے کھڑے دیکھ کر بولا۔”کیا دیکھ رہی ہے بختے ؟ ” بختاور نے چونک کر اسے دیکھا پھر وہ مسکرائی ”شیشے سے دیوار کیسے سج گئی ہے شریف۔”
”ہاں۔” شریف نے اپنی قمیص کی آستینیں اوپر کرتے ہوئے کہا۔ ”اتنا سستا شیشہ ملا یہ … حمیدہ کو تو یقین ہی نہیں آیا جب میں نے اس کی قیمت بتائی۔ ” وہ اب اپنے دوپٹے کے پلّو سے بڑی احتیاط کے ساتھ شیشے کو صاف کر رہی تھی۔ ”میں تو شکر ادا کرتا ہوں کہ قسطیں ختم ہو گئی ہیں۔ … سر پر قرضہ نہیں ہے اب … ” شریف نے ٹرنک کھولتے ہوئے کہا۔ ”ہاں اللہ کاشکر ہے…قرضہ ختم ہو گیا ورنہ کیسے جان عذاب میں رہتی تھی ہماری … ” بختاور شیشہ صاف کرتے کرتے ایک لمحے کے لئے رکی، اور اس نے جیسے سکون کا سانس لیا۔ شریف نے ٹرنک سے کچھ نوٹ گن کر نکالے اور بختاور کو دیے۔ ”یہ لے۔”
”یہ کیا؟” وہ حیران ہوئی ”اپنے لیے کپڑے بنا لے … پورا سال ایک جوڑا بھی نہیں بنا تیرا۔ ” شریف نے بڑے پیار سے اسے کہا تھا۔ بختاور نے کچھ شکر گزاری سے اس کے ہاتھ سے نوٹ پکڑ لیے۔ آخری بار نیاجوڑا کب پہنا تھا اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
٭
”اماں ہاتھ تھک گئے میرے … اب بس کرو نا۔ ‘ ‘ سو نو نے ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں پراپنا وزن منتقل کرتے ہوئے شیشہ پکڑے پکڑے کچھ بیزاری سے کہا۔ ”ہاں ہاں … میں … میں بس کر رہی ہوں… ” اماں نے چونک کر اپنی چٹیا گوندھنا شروع کی … اس کے کپکپاتے ہاتھ چٹیا کو الٹے سیدھے بل دے رہے تھے … پر اس کا احساس تو خود اسے بھی نہیں تھا تو کسی دوسرے کو کیا ہوتا۔
”بس … ؟” آخری بل لگتے دیکھ کر سونو نے پوچھا۔”ہاں بس … ” اماں بختے نے تھکے ہوئے بازو کو ہلکا ہلکا دباتے ہوئے کہا۔ سو نو نے اس کی گود سے کنگھا اٹھا لیا۔ ”روٹی پک گئی کیا؟” اماں نے اس سے پوچھا۔ ”میں اماں سے پوچھ کے آتا ہوں۔” سو نو نے اسے اطلاع دی۔ ”نہیں اماں سے مت پوچھنا وہ ناراض ہو گی … تو خود باورچی خانے میں جا کے دیکھ کوئی روٹی بنا رہا ہے۔” اماں بختے نے اسے ٹوکا اور کہا۔ دوپہر کا کھانا سلائی سیکھنے والی لڑکیاں ہی باری باری پکایا کرتی تھیں۔
”اچھا میں دیکھ کے آ تا ہوں۔ ” سو نو غڑاپ سے ایک بار پھر گھر کے اندر غائب ہو گیا۔ اماں نے پیسوں کے ڈبے میں ایک بار پھر جھانک کر دیکھا۔ بھوک کے وقت پیسے گننا بڑا مشکل کام تھا۔
٭
”تم نے کچھ دیکھا شریف؟” شریف لقمہ منہ میں رکھتے رکھتے رک گیا۔ ”کیا ؟ ”
”تو نے کچھ دیکھا ہی نہیں ؟ ” بختاور کچھ مایوس ہو ئی۔ ”کہاں ؟” شریف نے کچھ بے چارگی سے کمرے میں ادھر اُدھر دیکھا۔ اسے اب بھی کچھ نظر نہیں آیا تھا۔ ”کھڑکیوں کو دیکھ۔ ” بختاور نے جیسے اسے گائیڈ کیا اور شریف نے بالآخر کہا۔ ”یہ پردے کہاں سے آئے ؟”
”اچھے ہیں نا؟” بختاور بے اختیار خوش ہوئی۔ ”ہاں اچھے ہیں پر کہاں سے آ ئے؟”
”میں خرید کر لائی ہوں … لنڈا بازار سے۔” بختارر نے بڑے فخریہ انداز میں کہا۔ ”تیرے پاس پیسے کہاں سے آئے؟”
”وہ تو نے کپڑوں کے لیے دیے تھے نا اس سے پردے خرید لیے میں نے۔ ” شریف نے لقمہ پلیٹ میں رکھ دیا۔ ”عید آ رہی ہے تجھے اس لیے کپڑے بنانے کے لئے دیے تھے۔ ” وہ ناراض ہوا۔ ”جہاں دو عیدیں نئے کپڑوں کے بغیر گزر گئیں وہاں ایک اور سہی … کیا فرق پڑتا ہے … پر تو فکر نہ کر میں نے بچوں کے لئے عید کے کپڑے خرید لیے ہیں۔ ” بختاور نے اطمینان سے کہا۔ ”دو سال سے ایک بار بھی ہم سینما نہیں گئے جیسے پہلے جاتے تھے۔ ” شریف نے کچھ اُداسی کے ساتھ کہا۔ ”سینما کیا ہم تو ایک بار بھی نہیں گھومنے نہیں گئے … جیسے پہلے جاتے تھے ساحل سمندر پر … چھٹی کے دن … کتنی باتیں کرتے تھے ہم وہاں بیٹھ کر۔ ” بختاور بھی اداس ہو نے لگی۔ ”نان پکوڑے کھاتے تھے … سوڈا پیتے تھے۔ بھٹہ کھاتے تھے … اور پھروہ خوشبو والا پان … ” شریف کو پتہ نہیں کیاکیا یادآ نے لگا۔ ”اور اونٹ کی سیر…” بختاور نے لقمہ دیا … ”اوروہ پھولوں کا گجرا جوتو ہمیشہ لیتی تھی۔” بختاور شرما کر ہنس پڑی۔ دونوں کچھ دیر چپ بیٹھے رہے پھر شریف نے کہا۔ ”اب وہ سائیکل بھی نہیں جس پر تجھے بٹھا کرکہیں ساتھ لے جاؤں۔” اور اتنے فالتوپیسے بھی نہیں کہ ان ساری چیزوں پر ضائع کر دیں۔”
”اور وقت بھی تو نہیں ملتا کہ میں تو دو گھڑی بیٹھ کر دکھ سکھ کی بات کر لیں۔” شریف پھر اداس ہونے لگا۔ بختاور کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آئی پھر وہ ایک دم اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی۔ ”میں بھی پتہ نہیں کہاں کے قصے لے کربیٹھ گئی۔ منے کو دودھ دینا تھا … اور تو نے روٹی کیوں چھوڑ دی …روٹی کھا … میں نے بھی دیکھو ابھی تک پانی تک نہیں لا کر دیا تجھے … بڑی ہی کوڑھ مغز ہو گئی ہوں میں۔” وہ کہتے ہوئے دوپٹے سے آنکھیں رگڑتے کمرے سے نکل گئی۔ شریف ویسے ہی بیٹھا رہا تھا۔
٭

”کھانا آ گیا اماں۔” سو نو نے چہکتے ہوئے اعلان کیا۔ ایک پلیٹ میں ایک روٹی رکھے اور اسی پلیٹ کے کونے میں سالن کی ایک کٹوری رکھے وہ بڑی احتیاط سے دہلیز پر نمودار ہوا تھا۔ اماں بختے ایک بار پھر حال میں واپس آ گئی تھی۔ ”لامیرا لعل … روٹی دے مجھے۔ ” اماں نے کچھ بے صبری اور خوشی سے کہا۔ روٹی اور چائے یا گھر سے کسی دوسری کھانے والی شے کا ملنا پورے دن میں اس کے لئے خوشی کے سب سے بڑے لمحات تھے۔
سونو نے پلیٹ اسے تھما دی۔ اماں نے پلیٹ سامنے میز پر رکھ دی۔ ”ہاتھ تو دھلا میرے۔ ” اماں نے سو نو سے کہا۔ وہ اندر گیا اور چند سیکنڈز میں پانی کے ایک گلاس کے ساتھ نمودار ہوا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے نالی کے اوپر اماں نے ہاتھ بڑھا دیئے اور سو نو ان پر پانی ڈالنے لگا۔ ”چل بس کر … دھل گئے۔” اماں نے اپنی قمیص کے ایک کونے سے ہاتھوں کو خشک کرتے ہوئے کھانے کی پلیٹ کو اٹھا کر گود میں رکھ لیا۔ سو نو گلاس ہاتھوں میں لے کر دہلیز پر بیٹھ گیا۔ گلاس ابھی آدھا بھرا ہوا تھا۔ یہ باقی کا پانی اماں کھانا کھاتے ہوئے پیتی تھی۔
”کتنے گاہک آئے اماں ؟ ” سو نو کو یک دم ”کاروبار ” میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اماں روٹی کا لقمہ ہاتھ میں پکڑے آلوؤں کے شوربے میں سے گوشت کا کوئی ٹکڑا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہفتے میں ایک دن گھر میں بڑا گوشت پکتا تھا اور آج وہی دن تھا … کٹوری کی تہہ میں گوشت کے چند ریشے اور کچھ چھیچھڑے بالآخر اماں کو مل گئے۔ اس نے جیسے خوش ہو کر لقمہ منہ میں رکھا۔ ”دو گاہک آئے۔ ” منہ میں موجود چند آخری دانتوں کے ساتھ لقمے کو چوسنے اور چبانے کی جدو جہد کے دوران اس نے سو نو کو بتایا۔”میں پیسے گنوں … ؟” سونو نے فوراً پیش کش کی۔ ”نہیں … بے برکتی ہوتی ہے اس سے… رات کو ہی گنیں گے … جب دکان بند کروں گی۔” اماں نے اسے بے اختیار روکا۔ ”پر میرے سامنے گننا اماں … میں نے دیکھنا ہے گھاٹا کیسے ہوتا ہے۔” سو نو نے معصومیت سے کہا۔ شوربے میں متحرک اماں کی انگلیاں ساکت ہو گئیں۔
٭
”یہ فرنیچر برآمدے میں کیوں رکھ دیا ہے بختے … ؟ ” شریف گھر میں آتے ہی چونکا تھا ڈرائنگ میں موجود واحد صوفہ اور میز برآمدے میں پڑے تھے۔ ”اب یہ برآمدے میں ہی رہے گا۔ ” اس کے پیچھے آتی بختاور نے اطمینان سے کہا۔ ”کیوں؟ ” شریف نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ ”کیونکہ میں نے برآمدے کو ڈرائنگ روم بنا دیا ہے اور ڈرائینگ روم بچوں کو دے دیا ہے۔” بختاور نے پھر بتایا۔ ”کیوں بچوں کے بستر برآمدے میں لگادیتی … وہ تو وہاں بھی آرام سے سو سکتے تھے۔ ” شریف نے اعتراض کیا۔ ”لو میں اپنے بچوں کو برآمدے میں سلاؤں … مہمان تو گھنٹہ دو گھنٹہ کے لئے آتے ہیں۔ میں ان کو کیوں نہ برآمدے میں بٹھاؤں … میرے بچے رات کو برآمدے میں سوئیں اورانہیں ٹھنڈ لگ جائے تو کون ذمہ دار ہے۔ ” بختاور نے بُرا مان کر کہا۔ ”چل اچھا کیا تو نے … تیرا گھر ہے تو جو چاہے کر … مہارانی ہے تو اس گھر کی۔” شریف نے ہنس کر اس کی خفگی دور کرنے کی کوشش کی اور اندر چلا گیا۔”ہاں یہ تو ہے … گھر تو میرا ہی ہے … مہارانی تو میں واقعی ہی ہوں یہاں کی۔ ” بختاور نے بڑے فخریہ انداز میں گھر کو ایک نظر دیکھ کر سوچا۔
٭
”اماں تو روٹی کیوں نہیں کھا رہی ؟” اسے گم صم بیٹھے دیکھ کر سو نو نے کہا۔ اماں جیسے ہڑ بڑا کر سیدھی ہوئی۔ سالن ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ سالن کے اوپر تیرتی چمکدار چکنائی اب ٹھنڈی ہو کر ایک تہہ سی بنا رہی تھی شوربے کے اوپر اماں نے ٹھنڈے سالن کے اندر روٹی کاایک اور ٹکڑا بھگونے کی کوشش کی۔ ”اور روٹی لا کر دوں ؟ ” سو نو نے اس سے پوچھا۔”ابھی پہلی کہاں کھائی ہے ؟ ” اماں نے نم آنکھوں کے ساتھ لقمہ حلق سے اتارنے کی جدوجہد کی۔ اسے بے اختیار کھانسی آئی۔
٭
”یہ کھانسی کیوں ہو رہی ہے تجھے ؟ ” حمیدہ نے کچھ تشویش کے ساتھ بختاور سے پوچھا۔ وہ بری طرح کھانس رہی تھی۔ ”پتہ نہیں ایک ہفتے سے ہو رہی ہے … پہلے کھانسی ہوتی ہے پھر سینے میں درد ہونے لگتا ہے۔” بختاور نے اپنی کھانسی رکنے پر کہا۔ ”کوئی دوا لی…؟” حمیدہ نے پوچھا۔ ”لو میں خواہ مخواہ دوا دارو پر پیسے ضائع کیوں کروں … انہیں پیسوں سے گھر کی کوئی اور چیز آ جائے گی۔ ” بختاور نے ہنس کر لا پرواہی سے کہا۔ ”پھر بھی۔” حمیدہ نے اصرار کیا۔ ”میں نے پہلے کبھی دوائیاں کھائی ہیں جواب کھاؤں گی خود بیمار ہوتی ہوں خو د ہی ٹھیک ہو جاتی ہوں … آ تجھے بچوں کا کمرہ دکھاؤں۔ ” بختاور کو بات کرتے کرتے اچانک خیال آیا۔ ”پورے محلے میں تیرے گھر جیسا کوئی گھر نہیں بختے … محلے کی عورتیں تو مثال دیتی ہیں تیری کہ بختے کے گھر تو روٹی زمین پر رکھ کر کھائی جاسکتی ہے … ایسی صفائی ہے تیرے گھر کی۔” حمیدہ نے اندر بچوں کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ بختاور کھانستے ہوئے دوپٹہ منہ پر رکھتے ہوئے فخریہ انداز میں مسکرائی تھی۔
٭

”پھر روٹی چھوڑ دی۔ ” سو نو نے اس بار اس کا ہاتھ ہلایا تھا۔ بختے جیسے کسی خلا سے واپس آئی تھی۔ سالن اب اور ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ ”ہاں کھاتی ہوں میں۔” اماں بختے نے بے حد بے دلی کے ساتھ کہا۔ ”اماں میں تجھے ایک بوٹی لا کے دوں … اپنے سالن سے … ؟ ” سو نو کو یک دم پتہ نہیں کیا خیال آیا تھا۔”بوٹی … ” اماں بختے بے اختیار بڑبڑانے لگی۔
٭
”اماں اور سالن چاہیے۔ ” بختاور کے سب سے چھوٹے اور تیسرے بیٹے عبدل نے ضد کی۔ وہ سب صحن میں دستر خوان بچھائے کھانا کھا رہے تھے۔ ”اور سالن تو نہیں ہے بیٹا… کل زیادہ سالن دوں گی تجھے۔ ” بختاور نے اسے بہلایا۔ ”پر کل بوٹی والا سالن تو نہیں ہوگا … مجھے بوٹی والا سالن لینا ہے۔ ” عبدل نے ضد کی۔”لا میں دیتا ہوں تجھے۔ ” شریف نے اپنا کٹورہ اٹھایا۔ ”تو چھوڑ شریف میں اپنا سالن ڈال دیتی ہوں اسے۔ ” بختاور نے اسے ٹوکا۔ ”نہیں اماں میں نے ابا کا سالن لینا ہے … بوٹی والا … تیرے سالن میں بوٹی نہیں ہوتی۔”
عبدل نے فورا کہا اور اپنا کٹورہ باپ کے سامنے رکھ دیا۔ شریف نے اس کی بات پر ہنستے ہوئے اپنا تقریباً سارا سالن اس کے کٹورے میں الٹ دیا تھا۔ یہ لے میرا بیٹا اب کھا … ” شریف نے اسے پچکارا تھا۔ شریف خود اب اپنے برتن میں بچے ہوئے تھوڑے سے شوربے میں اپنی روٹی لگا لگا کر کھانے لگا تھا۔
٭
”لاؤ میں بوٹی لا کر دوں اماں۔ ” سونو نے اس کے ہاتھ سے سالن والا برتن لینے کی کوشش کی۔ اماں نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے ٹوکا۔ ”نہ سو نو … بس یہ برتن اندر لے جا … ” اماں نے اسے پلیٹ پکڑا دی تھی۔ ”پر تو نے روٹی تو کھائی نہیں اماں۔” سو نو نے پلیٹ پکڑتے ہوئے اس سے کہا۔”بھوک نہیں ہے سونو۔ ” اماں نے اداسی سے پانی کا گلاس پکڑ لیا۔ ”بھوک کیوں نہیں ہے ؟ ” سو نو نے پوچھا۔ ”اس عمر میں بھوک نہیں لگتی۔”
”کیوں اماں؟” ”مجھے نہیں پتہ۔” اماں نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔ ”تو پھر کس کو پتہ ہے ؟ ” سو نو ٹلنے والانہیں تھا۔ اماں کچھ دیر چپ رہی پھر بولی۔ ”اللہ میاں کو …” ”وہ کدھر رہتا ہے؟” سو نو نے تجسس سے کہا۔ ”جہاں تیرا دادا رہتا ہے۔” اماں بختے نے آنکھوں میں نمی لئے کہا۔ ”دادا اللہ کے پاس کیوں رہتا ہے؟” اماں بختے سے پانی نہیں پیا گیا۔
٭
”بس ایک بار بچے بڑے ہو جائیں پھر سارے دلدر دور ہو جائیں گے ہمارے۔” شریف نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں رات کو صحن میں چارپائی پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ ”پھر ہم بھی اپنے گھر کو پکا کریں گے۔ ” بختاور نے کہا۔ ”ہاں… نقشہ بنا کر دوبارہ گھر بنائیں گے۔ ” شریف کے پاس لمبی پلاننگ تھی۔ ”اوپر والی منزل بھی بنوائیں گے۔ ” بختاور نے سر اٹھا کر چھت کو دیکھا۔ ”اور پورے گھر میں پتھر لگوائیں گے … یہ لش لش کرتا ہوا۔ ” بختاور کو میر صاحب کے گھر لگا پتھر یاد آیا۔ ”اور کمرہ ٹھنڈا کرنے والی مشین منگوائیں گے باہر سے … وہ جو حاجی صاحب کے گھر لگی ہے۔ ” شریف کو بھی ایک دوسرا محلے دار یاد آیا۔ ”اور وہ چیزیں ٹھنڈی کرنے والی مشین بھی لیں گے۔ ” ”اور TVبھی۔ ” دونوں کو ایک کے بعد ایک چیزیں یاد آ رہی تھیں۔”اور پھر ہم دونوں یہ بڈھابڈھی سارا دن اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلا کریں گے۔” شریف نے ہنس کر کہا۔ ”اور رات کو ہمارے بیٹے اور بہوئیں ہمارے پاس آ کر بیٹھیں گے۔” بختاور نے خوابوں کی چادر میں ایک اور گرہ لگائی۔ ”بیٹے تیرے پیر دبائیں گے۔”
”اور بہوئیں تیرے۔” شریف نے بے ساختہ کہا۔ ”ہماری خدمتیں کرتے پھریں گے … اباجی اور اماں جی کہہ کہہ کر … ” بختاور بھی ہنسی۔ ”میں تو پھر سارا دن آرام سے لمبی تان کر سویا کروں گا۔ ” شریف نے اپنے ارادے بتائے۔ ”نہ نہ ہم دونوں سیر کو نکلا کریں گے … سمندر کو جائیں گے جیسے گھر میں آنے سے پہلے جاتے تھے۔ ” بختار نے ایک عجیب سی حسرت کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑا۔ شریف کی آنکھیں اب اندھیرے میں بھی جگنوؤں کی طرح چمک رہی تھیں۔
٭
”سلام اماں بختے۔ ” وہ سترہ اٹھارہ سال کا ایک نوجوان لڑکا تھا۔ اماں بختے نے چونک کر اسے دیکھا۔ ”کیا لینا ہے ؟” اس نے سلام کا جواب دے کر کہا۔ ”کچھ نہیں … میں تو ملنے آیا ہوں … پہچانا نہیں تم نے مجھے ؟” اس لڑکے نے قدرے جوش کے عالم میں کہا۔ اماں نے عینک سیدھی کرتے ہوئے اس کو پہچاننے کی کوشش کی۔ دھندلاہٹ اتنی زیادہ تھی کہ اتنی دور کھڑے اس لڑکے کو وہ نہیں پہچان سکتی تھی۔ ”میں زاہد کا بیٹا ہوں اماں … وہ سامنے والے گھر میں رہتے تھے دس سال پہلے ہم لوگ۔” اس لڑکے نے تعارف کروایا اور اماں کو یک دم وہ یاد آ گیا۔ سات آٹھ سال کا ایک شرارتی بچہ جس نے پورے محلے کی جان عذاب میں کررکھی تھی پھر وہ لوگ محلہ چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اب وہ اسے آٹھ نو سال کے بعد دیکھ رہی تھی اس لڑکے کی ماں رضیہ کی بڑی پکی سہیلی تھی۔ ”ہاہ … روشن یہ تو ہے … تو تو جوان ہو گیا … ” اماں نے بے ساختہ کچھ حیران ہو کر کہا۔ ”اماں جوان ہوا ہوں بوڑھا نہیں ہوا … ” روشن نے اسی طرح چمک کر کہا تھا۔ ”پر اتنی جلدی بڑا کیسے ہو گیا تو ؟” اماں کی حیرت ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔ ”جس طرح ہر ایک کے بچے بڑے ہو جاتے ہیں … ” روشن نے چہک کر کہا اور چل پڑا۔”سب کے بچے … ” اماں بڑبڑائی۔
٭




Loading

Read Previous

تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

Read Next

کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

One Comment

  • ہر بار دل پر اثر چھوڑ جاتی ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!