اس کا انداز خاصا استفہامیہ تھا مگر آپا کیا جانے انداز و انداز بہت کشادگی سے بولیں۔
’’ہاں تو کرلیتا کسی کو مسلمان۔‘‘
یقینا چھری مکمل گدے تلے چھپ گئی تھی۔ تبھی آپا مکمل توجہ سے کہہ رہی تھیں ’’اُس کا دین سنور جاتا تیری دنیا۔‘‘
اُن کے ایک غیر ارادی جملے نے شکستہ دل کو مٹھی میں دبوچ کر نچوڑ دیا تھا…
رات کو سیاہ جُھٹپٹے کا عالم تھا آسمان کی سرخ نارنجی دھاریوں پر رات کی لیلیٰ فرفتہ ہوتی چڑھتی آرہی تھی… یہاں تک کے اپنے مکیش جڑے سیاہ آنچل میں ساری دھاریاں لپیٹ لیں اور بانہیں پھیلائے چہار اطراف بے قرار کروٹیں بدلنے لگی۔ لیلیٰ کی سبک خرامی نے اس کے دل کی دنیا تہ و بالا کردی جھلمل کرتے آنچل تلے چھت کو ناپتا وہ تنہا تھا۔ کتابِ یاد کے صفحات الٹتے جارہے تھے۔
وہ ساتھ والا خالی پلاٹ چھوڑ کر پنسار کی دُکان اس کے پہلو میں رنگ برنگی گولیاں پڑیوں میں لپٹتا پریکٹشز بیٹھا تھا پھر نیکی سفیدی والا گھر اس کے سامنے سنار کا اور اس کا ہم دیوار مٹی کی سرخ منقش ٹائلوں والا گھر جس کی پیشانی پر سنسکرت میں کچھ لکھا تھا۔ بڑی سی دیوڑھی کا پردہ اٹھا کر دائیں ہاتھ چبوترے پر کچن اس کے سامنے غسل خانہ۔ غسل خانے کے آگے نیم کا درخت تھا جس کے نیچے سرکاری پانی کی ٹونٹی پر ٹھنڈے پانی سے منہ دھوتی طلسماتی پری۔ دو دھیا چہرے پر پھسلتے پانی کو دیکھ کر وہ لمحہ بھرکے لیے دنگ رہ گیا تھا۔ غالباً چھوٹی آپا تیسری بار امید سے تھیں۔ پہلی تین لڑکیاں ہوئیں چوتھی بار چھوٹی سے زیادہ بڑی آپا پریشان تھیں۔ درود تسبیحات، صدقے خیرات، ٹونے سب کر لیے تھے مگر دل ٹکتا نہ تھا۔ کسی نے بتایا رحمان پورہ سے آگے قبرستان ہے اس کے پچھواڑے رکھے کا کھوہ ہے اگر اس میں نبولیاں لگی نیم کی کچی شاخیں ڈال کر پانی نکالو اور سات اتوار نہاؤ، مراد برآئے گی۔ پردے کا علیٰحدہ سے انتظام ہے وہ نیم کی شاخیں لینے ادھر آیا تھا۔ کھنکھار کر اندر آگیا۔ اُس پری چہرہ کو دیکھ کر تو سب بھول ہی جاتا اگر باورچی خانے میں بیٹھی بوا آپا اُتر کر نیچے نہ آتیں۔
’’ہادی بچے خیریت سے آنا ہوا؟
بوا کی آواز نے طلسم توڑ دیا وہ پہلے چونکا پھر جھجکا پھر جلدی جلدی مژدہ کہہ سنایا۔ چاندی سی پری ڈوپٹے سے منہ پونچھتی اندر کہیں نمڑاپ ہوگئی تھی۔ بوآنے نبولیاں لگی شاخیں توڑ کر اسے تھمائی اور بہت رسانیت سے کہہ رہی تھی۔
’’آپا کو یاد دہانی کروا دینا، کھوہ پہ آکر منڈیر پر دیا جلانا نہ بھولیں، بھگوان شنوائی کرے گا۔‘‘ آپا یقینا نہائی بھی ہوں گی، دیا بھی جلایا ہوگا مگر فی الحال تو اس کا دل چراغ بنا روشن تھا اور روشنی بھی ایسی تھی، جو چودہویں کے چاند کو گہنا دے۔ مگر اس کو لو آپاؤں کی آوازوں سے کبھی لرزی کبھی پھڑا پھڑانے لگی۔
ہادی دوبہنوں کا اکلوتا بھائی تھا والدین حیات نہ تھے۔ فارغ اوقات میں اکثر بہنوں کے پاس آجاتا۔ جب دل کی دنیا میں ہلچل مچی تو اکثر کی جگہ معمول نے لے لی۔ اس معمول پر سب سے پہلے بڑی آپا ٹھٹھکی تھیں۔ غالباً محبت کی دستک دونوں جانب سنائی دینے لگی۔ شام اُترتے ہی ادھر ہادی آجاتا اُدھر سادھنا بریانی، حلیم، چکن سہانجھنے کی پھلیاں تو کبھی کھیر، رنگین زردہ پلیٹ میں لیے حاضر اور تو اور موٹی موٹی کتابیں بغل میں دابے آجاتی۔
’’آپا جان، ہادی جی گھر پر ہیں۔‘‘
پلیٹ بڑی کو تھمائی اور استفسار کیا ’’وہ چند تشریحات سیکھنا تھیں‘‘
آپا کی آنکھیں اور منہ کُھلے کا کُھلا رہ جاتا جب ہادی برآمدے میں کھڑا مسکرا کرکہتا۔
’’ہاں، ہاں سادھنا آجاؤ… ادھر ڈرائنگ روم میں آجاؤ‘‘
اور پھر کتابوں کا ڈھیر درمیان میں رکھے گھنٹے بیت جاتے۔ جانے کون سا مباحثہ چھڑ جاتا۔ کبھی مدھم آوازیں تو۔ کبھی ہلکے قہقہوں کی کھنک آپا کے کان چیرتی۔ آخر ایک دن ہادی کو آڑے ہاتھوں لے ہی لیا۔ جب ہر بات واضح اور سامنے والے کو خبر بھی ہو تو خوامخواہ چُھپانے سے کیا حاصل۔ اس نے ہمیشہ آپاؤں کو ماں کی طرح سمجھا تھا اور اب تو نوکری لگ گئی تھی کمانے بھی لگا تھا پھر مرضی بتانے میں حرج کیا تھا۔ اس کے حالِ دل سننے پر آپا پتھر کی مورتی بنتی گئیں۔ اس مورتی نے اتنی زور سے ’’ہائیں‘‘ کہا کہ چھوٹی آپا اپنے چند ماہ کے علی کو سُلانا بھول، کندھے سے لگا، پیچھے آن کھڑیں ہوئیں۔
’’آخر آپا اس میں برائی کیا ہے…‘‘
وہ آپا کے تیور دیکھ کر اتنا ہی کہہ پایا تھا۔
’’ارے بھیا کوئی ایک ہو تو بتاؤں، وہاں تو رجسٹر کا صفحہ ہی خالی نہیں…‘‘
’’آپا پھر بھی… آخر اعتراض کیا ہے؟‘‘
’’ارے کیوں ہمارے باپ دادا کی نسلوں کے پیچھے پڑا ہے، خدائی عذاب کو دعوت نہ دے، کہاں ہم اونچی شان و شوکت والے جنت کے وارث مسلمان، کہاں وہ پوجا پاٹ کرتے ذات کے ہندو، پات کے موچی… ہونہہ…‘‘
’’لیکن آپا وہ مسلمان ہوجائے گی…‘‘
’’کیوں…؟ فرشتے اس کے کان میں اذان دینے اتریں گے۔‘‘
’’آپا کیسی باتیں کررہی ہیں، میری اس سے تفصیلی بات ہوئی ہے، وہ اب بدل چکی ہے…‘‘
’’اوہو…‘‘
چھوٹی آپا علی کو سلانے کے ساتھ ساتھ جیسے طنزاً بولیں۔ ’’تبھی کہوں، یہ روز روز پھیریاں کیوں لگ رہی ہیں۔‘‘
سینے پر ململ کا بڑا سا دوپٹہ پھیلائے، ہاتھوں میں کسی نہ کسی کھانے کی ڈش اُٹھائے لیے سادھنا اُن کے تصور میں آن موجود تھی ’’صحیح کہتے ہیں بھیا‘‘ آپا تڑاخ کر بولیں: ’’گوشت اور میٹھے کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، وہی بول رہا ہے تجھ میں…‘‘
’’نہیں آپا ایسا کچھ نہیں ہے، میں نے قرآنِ پاک کا ترجمہ دیا ہے اُسے، وہ پڑھ رہی ہے…‘‘
’’اوہ بدبخت، اُس پلید کو قرآن پکڑا دیا تو نے… اب عذاب آئے کہ آئے‘‘ بڑی سینہ پکڑے دہل رہی تھی۔
’’دیکھ ہادی…‘‘
چھوٹی قدرے آگے آئی اور لہجے میں مٹھاس گھولتے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ ’’چور چوری سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے، رسی جل جاتی ہے، بل نہیں نکلتے… کتے کی دم ہزار سال…‘‘
’’آپا بس…‘‘
وہ اگلے دانت جما کر قدرے اونچا بولا: ’’یہ مثال مت دیں…‘‘
’’کیوں، کیوں نہ دوں… ارے مشرک مسلمان ہو بھی جائیں ناں اندر کفر ہی پالے رکھتے ہیں، چُھپ چُھپا کر کوٹھری میں پوجا پاٹ کھول لے گی، بات بات پر شرک… ناں بابا ناں، توبہ استغفار‘‘
ایک ہی ہاتھ اُلٹا سیدھا مار دونوں گال پیٹے ’’کبھی پتھر پوجے گی، کبھی درخت، بچوں کو بھی یہی سکھائے گی، یہ محبت کا بخار چند دنوں میں اُتر جائے گا ہادی، پھر لوگوں کو کیا جواب دے گا۔‘‘
’’مجھے لوگوں کی پروا نہیں…‘‘
’’تجھے نہیں ہوگی، ہمیں تو ہے…‘‘