پاکستان میں موجود نوّے فیصد لڑکیوں کی طرح ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ عورت اور باورچی خانے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کافی غوروخوض کے بعد ہم نے حقوق نسواںکی کھلی پامالی کرتی اس گھسی پٹی کہاوت کواپنے میٹرک کی پڑھائی میں ہی مسترد کردیا تھا۔ ہماری رائے میں یہ بونگا، بے ڈھنگا مقولہ دراصل اس بھیانک حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے گڑھا گیا تھا کہ یہ قرابت داری چولی دامن کی نہیں بلکہ کولہو اور بیل کی نوعیت کی ہے۔ یعنی چاہو نہ چاہو، جُتے رہو۔ اضافی بے توقیری یہ کہ اگر باورچی رکھنے کی حیثیت نہ ہو تو پاکستان میں بیل کی جگہ بیچاری بیوی ہی بندھی نظر آتی ہے۔
اس پریشان کُن حقیقت سے آگہی بھی ہمارا امریکا کے ڈھول سہانے لگنے کی کئی ٹھوس وجوہات میں سے ایک تھی۔ خوش گمانی سی خوش گمانی تھی، جو کہ سنگین بد گمانی نکلی، کہ چوں کہ امریکی معاشرہ مرد عورت میں مساوات کے اصولوں پرسختی سے کاربند ہے، لہٰذا یہاں پر میاں، بیوی دونوں باری باری بیل بنتے ہونگے۔ یہ حقیقت تو ایجاب و قبول کے کچھ عرصے بعد آشکار ہوئی کہ مساوی حقوق کی علم برداری کرتے ایسے تمام نادر فرمانوں سے پاکستانی مرد قطعی طور پر مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب پاکستانی ماں کا اپنی اولاد نرینہ سے وہ ناجائز لاڈ پیار ہے جو انہیں اس قدر نکھٹو اور سست الوجود بنا چھوڑتا ہے کہ وہ کھانا پکانا تو دور کی بات ، باورچی خانے کے نام سے ہی شدید بد حواسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈگریاں دلاروں کے پاس بہتیری ہوں، لیکن عملی امور خانہ داری میں وہ صفر بٹا صفر ہی رہتے ہیں۔
ہمارے شوہر نام دار نے بھی شادی کے بعد امریکا میں واپس قدم رکھتے ہی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں اور بڑے روکھے، غیر مبہم الفاظ میں اعلان کر دیا تھا کہ ان سے ما سوائے تناول کے، باورچی خانے کے کسی کام کی توقع نہ رکھی جائے۔ بہ صورتِ دیگر ہماری ازدواجی زندگی کی بنیادیں متزلزل ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ ہم نے اپنی مچلتی زبان قابو میں رکھی تھی اور میدانِ جنگ کا جائزہ لیے بغیر پیادوں کو اندھا دُھند دوڑانے سے اجتناب کیا تھا۔ بے وقت زبان کی لگامیں چھوڑ کر منہ کے بل گرنے کی ویسے بھی ہماری پرانی عادت تھی۔
اصل میں ہمارے دماغ کی سوئی زمانے نو عمری سے ہی انہی مقولوں پر اٹک کر رہ جاتی تھی جن میں ذاتی مفاد کا تناسب زیادہ ہوتا تھا۔ لہٰذا اماں کی کڑی سے کڑی تنبیہ اور تاکید کے باوجود ہم ہمیشہ، ”چولی دامن” اور ‘شوہر کے دل کا راستہ معدے سے ہو کر’ جانے جیسے مقولوں پر اڑیل ٹٹو ہو جاتے تھے اور روایتی اور خاندانی تراکیب پکوان کی نسبت اپنے دماغ کی ایجادات کوزیادہ ترجیح دیتے تھے۔ اکثر اماں کی ہر دل عزیز ترکیبوں کو ہی برُی طرح آگے پیچھے کر دیتے۔ اماں ہماری جدید کاوشوں کو جعل سازی اور عیّاری سے تشبیہ دیتیں اور ہمیں سو سو باتیں سناتیں۔ جواب میں ہم انہیں سعادت مندی سے سمجھاتے کہ دور جدید میں شوہر کے دل کا راستہ نظامِ انہضام سے نہیں بلکہ نظام نگاہ سے ہو کر جاتا ہے۔ اسی لیے اگر ایک خوش اطوار، خوش لباس، خوش مزاج اور خوش شکل بیوی روز اوجھڑی ابال ابال کر بھی کھلائے تو وہ شوہر کو من و سلویٰ ہی لگے گی۔ ثبوت کے طور پر ہم نے ایک تازہ ترین سروے پر روشنی بھی ڈالی تھی جس کے مطابق پاکستان میں کھانا پکانا چینلز کے ٩٨ فیصد ناظرین ٨١ سے ٥٧ سالہ مرد حضرات پر مشتمل ہیں۔ اب کوئی پوچھے کہ صاحب، جب آپ کھانا پکانے کی نام سے ہی اینٹھ جاتے ہیں اور نیم تاریک کمروں میں کرسی پر اکڑوں بیٹھے ٹینشن سے دانت کترتے نظرآتے ہیں توپھراتنی لگن سے ان شوز کو دیکھنا معنی؟
اماں نے ہماری اس سنسنی خیز خبر کو واہیات قرار دیا تھا اور حسبِ دستور ہمیں راہ پر لانے کی امید میں کراری سرزنش کی تھی جو کہ ہم نے بھی معمول کے مطابق ایک کان سے ڈال کر دوسرے کان سے نکال دی تھی۔ بہ ظاہر تو لگ رہا تھا کہ انہوں نے اس سروے کو گائے کی دُم برابر بھی اہمیت نہیں دی۔ چونکے تو ہم اس وقت تھے جب ہم نے انہیں ابا میاں کے ٹی وی دیکھنے کے عین اوقات کے دوران اپنے سارے اہم کام پس پشت ڈال کر ان کے ساتھ براجمان ہوتے دیکھا۔ اماں کی اس جاسوسی کارروائی نے ہمارے دل میں ان کی قدر و منزلت کئی گنا بڑھا دی تھی۔ بھلا کون سی بیوی اپنے سارے ضروری اور غیر ضروری امور چھوڑ کر محض خاوند کے گناہ ثواب کی فکر میں تفتیش کنندہ کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے اس کی ساتھی ٹی وی سے چپک کر بیٹھ جاتی ہے؟ گو کہ اماں کے چہرے کی سنجیدگی اور عقابی نظروں کا مستقل ریموٹ پر رہنا ان کا کسی خاص مقصد کے تحت وہاں بیٹھنے کا بہ خوبی پتا دے رہے تھے لیکن سادہ لوح ابّا میاں اسی بات پر مسرور ہو گئے تھے کہ تین دھائیوں بعد ہی سہی، بیگم کو ان کے ساتھ بیٹھنے کا خیال تو آیا تھا۔
باورچی خانے میں اپنی من مانی کی روش سے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر اماں اکثر دھمکیوں پر بھی اُتر آتیں تھیں کہ شادی کے بعد ہمارے اس پھوہڑ پن پر سسرال والے ہمیں نہیں، بلکہ انہیں کوسیں گے۔ یہ بات ہمیشہ ہماری غیرت اور عزت نفس پر تازیانے کی طرح لگتی تھی اور ہمارا فشارِ خون بلند ہوتا محسوس ہوتا تھا۔ ہم بے اختیار اماں کے ہاتھ تھام کر انہیں یقین دلاتے کہ کسی کی کیا مجال جو ہمارے کسی خاندان والے، خاص طور پر ہماری ماں کو کوسے؟ اگر کسی نے ایسی مخبوط الحواس جسارت کی حماقت بھی کی تو ہم اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور اعلان کر دیں گے کہ ہمارے قابلِ تناول پکوان کی قصوروار ہماری اماں نہیں بلکہ ڈبے کے مسالے اور ککنگ چینلز ہیں۔ ویسے آج تک ہم اس عدم فہمی کا شکار ہیں کہ اماں اس بات پر اپنا سر کیوں پیٹتیں تھیں حالاں کہ ہمارا نیک مقصد تو خاندانی وقار کا پرُ زور دفاع ہوتا تھا؟
اماں اور ہمارے بیچ کھانا پکانے اور دیگر ، ہمارے نزدیک انتہائی ناقابلِ غور اور اماں کے نزدیک مثل زیست و مرگمسائل پر دھکم پیلی کے دوران ہماری شادی ہو گئی تھی اور کچھ ہی دن بعد ہمارے چودہ طبق بھی روشن ہو گئے تھے۔ امریکا آنے سے قبل سسرال میں گزارے جانے والے اور کچھ قلیل عرصے کے دوران ہماری ساس باورچی خانے میں ایک متحرک اور چاق و چوبند بہو دیکھنے کی مشتاق تھیں۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ہم شدت سے پچھتائے کہ کاش اماں کی ترکیبوںکی کتاب کی فوٹو کاپی کروا لیتے پھر کوکنگ شوز میں ہوسٹ کے میک اپ اور کپڑوں سے ہٹ کر بھی کچھ دھیان دے لیتے۔ پر اس وقت لکیر پیٹنے کا فائدہ نہیں تھا۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ معمولی درجے کی ہیبت ہم پر طاری ہوئی تو تھی لیکن زندگی میں کسی بھی نوعیت کے اضطراب کو اپنی نانی بنا کر اس سے بے پایاں تقدیس اور تکریم سے پیش آنا ہمارا شیوہ ہی نہ تھا۔
ویسے تو آج کل کی مستعد اور محنت کش بہوئیں سسرال والوں کے دل تک نظام انہضام کے ذریعے پہنچنے کی لگن میں انٹرنیٹ پر موجود تراکیب کا بے تحاشا استعمال بھی کرتی ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ ایسی ہی ایک چیٹنگ ہے جس میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سنہری دور گزشتہ میں بورڈ کے کمرہ امتحان سے کان پکڑ کر خارج کر دیا جاتا تھا۔
زندگی میں کچھ مسائل اپنا حل آپ ہوتے ہیں۔ ہم بھی جب سسرالی باورچی خانے میں قدم رکھتے ساری سسرال والے ہمیں تسلی دیتے کہ ہم آرام سے اپنے کام سے کام رکھیں کھانا بن جائے گا کہ چوں کہ ہم علی گڑھ کے تھے اور وہ کہیں اور کے لہٰذا پکوان کے انداز بھی مختلف ہی ہوں گے۔ اس لیے ہم ہرگز نہ گھبرائیں۔ گھبراتے تو ہم خاک، ہمارے تو دماغ میں اسی بات پر ایک ہزار واٹ کا ایسا بلب روشن ہوا کہ کھانا پکانے کا مسئلہ اس کی چکاچوند روشنی میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ دل چاہا ساس کا منہ چوم لیں لیکن بھانڈا پھوٹنے کا خوف آڑے آگیا تھا اور ہم نے شرما نے لجا کر سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔ یعنی کہ اگرپکوان میں فرق لازمی تھا تو پھر ہم کچھ بھی کرتے، وہ الگ ہی ہونا تھا۔
بس پھر کیا تھا… ہم تھے اور ‘ہمارے یہاں ایسے ہی بنتا ہے’ کا زرین فقرہ فقرہ کیا تھا؟ ایسی دودھاری تلوار تھی جس سے ہم پکوان کے ہر مسئلے کا منٹوں میں قلاقمع کر دیتے۔ ساس ٹینڈوں کی فرمائش کرتیں اور ہم ٹینڈوں کے بارے میں اپنی ناقص عقل و فہم کو استعمال کرتے ہوئے ان مظلوموں پر ٹوٹ پڑتے اور ٹیبل پر فرماں برداری سے سر جھکا کر، نرم مسکراہٹ کے ساتھ، ‘ہمارے یہاں ایسا ہی بنتا ہے’ کہہ کر نرالی وضع کے ٹینڈے کا سالن پیش کرتے اور سب کی شاباش وصول کرتے۔
ہماری تُرم خانی کے غبارے کی ہوا امریکا آتے ہی نکل گئی تھی، جب لوگوں سے دوستیاں گانٹھنے اور ضیافتوں میں آلو گوشت جیسے غیر پیچیدہ اور غیر اہم پکوانوں کو بھی نئی نئی شکلوں میں دیکھنے پر ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ادارک ہوا کہ اس چوہے بلی کے کھیل میں ہم اکیلے نہیں تھے۔ ہمیں بے حد تسکین ہوئی۔ یعنی سبھی بہتے پانی میں پیر دھو رہے تھے۔ مزید تشفی یہ کہ چوں کہ امریکا میں اتنی بھانت بھانت کی آبادی موجود ہے کہ سندھی اور پنجابی چھوڑ، ہم اگر کسی پکوان پر افریقہ کے نامعلوم، غیر مہذب، وحشی قبیلے کا بھی ٹھپا لگا دیتے تو بھی داد ہی داد تھی۔ اب بھلا کس بیوقوف نے جا کر تصدیق کرنی تھی۔ ہمارے حساب سے یہ باتیں جھوٹ کے زُمرے میں ہرگز نہیں آتیں کیوں کہ شائد واقعی وہ پکوان اس خطّے کی مرغوب غذا ہو اور ہمارا لا علمی میں چلایا ہوا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھ گیا ہو۔
امریکا میں پلی بڑھی نسلوں میں مسالوں کی برداشت اور ہماری کھانا پکانے کی صلاحیتوں میں انتہائی نوعیت کی مماثلت کے باعث ہمیں اپنے بچوں کے بڑے ہونے پر بھی کسی قسم کی غیر معمولی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میاں کے ساتھ ویسے ہی سال خوردہ ربط و ضبط جاری ہے کہ نہ وہ ہمارے پکوان میں کیڑے نکالیں گے، نہ ہم ان سے پتیلے منجھوائیں گے۔ ہمارے خیال میں پتیلے مانجھنے سے بھی زیادہ انہیں ہمارا بندر کیا جانے ادرک کا سواد کا طعنہ ٹھیس پہنچاتا ہے۔ پھر بھی کبھی کبھی وہ ہمارے دماغ کی ایجاد کردہ نامعقول نوعیت کے نسخہ پکوانوں پر سراسیمگی کا شکار ہو جاتے ہیں مثلا ایک بار یہ سُن کر کہ ہم بکرے کی کلیجی کی بریانی بنانے کا قصد کر رہے ہیں، انہوں نے ہمارے ہاتھ سے کلیجی کی تھیلی ایسے جھپٹی گویا اسی لمحے اسے لے جا کر واپس مرحوم بکرے میں فٹ کر دیں گے۔ ہمارے جذبات مجروح تو ہوتے لیکن ہم برداشت کرگئے۔ ویسے بھی ہم اس فکر میں غلطاں تھے کہ کلیجی کی بریانی جیسے بے ڈھنگے پکوان کو منسوب کریں بھی تو آخر کس خطّے سے؟
وہ تو تھیلی کے ہاتھ سے جھپٹے جانے کے بعد خیال آیا تھا کہ اس انوکھے پکوان کو ہندوستان کی ایک مشہور نوابی ریاست سے منسوب کر دینا چاہیے تھا۔ اس دلیری پر ہمارے تمام واقف کار ضرور ہی ہمارے لیے ستائش و توصیف کے پرچم بُلند کرتے انوکھے پکوان پر نہیں بلکہ جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے نوابوں کے غیض وغضب کوکُھلے عام للکارنے پر۔