”ہاں بھئی صاحب زادے! آج کل پڑھائی کیسی جارہی ہے؟“ تجمل نے سرمد کے ساتھ پلنگ پر نیم دراز ہوتے ہوئے پوچھا۔
”بس چاچو کیسی چلے گی ؟ ایک تو روز بہ روز کوئی نا کوئی نئی چیز پتا چلتی ہے اور اوپر سے ستم یہ کہ جی اس کے بارے میں یاد بھی کرو اور لکھ کر بھی لاﺅ۔ پتا نہیں کوئی ذہنی سکون ملتا ہے اساتذہ کو شاید اپنے طلبہ کو اذیت دے کر۔“ سرمد نے بے چارگی سے جواب دیا۔ پھپھو اور سائرہ تیار ہو چکی تھیں۔ سائرہ نے کمرے کے دروازے سے جھانکتے ہوے کہا۔
”ناشتا تیار کردیا ہے، دونوں چچا بھتیجا مل کے کر لینا۔“ اور پھپھو کے ساتھ چلی گئیں۔ تجمل، اچھا بھابی کہہ کر پھر سرمد سے مخاطب ہوا۔
”ارے نہیں! ایسی بات نہیں ہے پاگل، دیکھو بات دراصل یہ ہے کہ آئے روز تو نئی ایجادات ہو رہی ہیں ، ہر روز کوئی نئی بات دریافت ہو رہی ہے۔ جی فلاں خلیہ ایسا ہے اور فلاں ویسا، کبھی خلا میں مخلوق کے بارے میں نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں جیسے فلاں سیارے پر زندگی کے آثار ہیں اور فلاں پر یہ۔ وغیرہ وغیرہ۔ اوپر سے تم نے مضمون بھی سائنس چنا ہے۔ اب لو اس کے مزے۔ بہت شوق تھا نا تمھیں نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کا، اب تمھارا سارا تجسس اڑن چھو ہو گا، جب دماغ کا دہی بنے گا۔“
سرمدبھی اسی کا بھتیجا تھا سو بھنا کر طنز کرنے لگا۔
”ٹھیک ہے! لیکن آپ کی طرح پھپھو، دادی سے روزانہ کی بنیاد پر ڈانٹ تو نہیں کھاﺅں گا نا۔“ اور زور زور سے ہنسنے لگا۔ تجمل نے بات گول کرتے ہوئے کہا۔
”ارے نہیں! وہ پیار بہت کرتی ہیں نا، اس لیے بس یونہی کہتی رہتی ہیں۔ انہوں نے آخر ماں باپ بن کر پالا ہے ہمیں، تو وہ ہمیں آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں۔“
سرمدبھی گھر کا بھیدی تھا، فوراً ہی لنکا ڈھا دی اور شرارتی انداز میں کہنے لگا۔
”ہاں اس پیار کا مظاہرہ ابھی صبح ہی دیکھا ہے میں نے۔ کچھ زیادہ ہی پیار آرہا تھا آج تو پھپھو دادی کو۔“ اور زور سے ایک اور قہقہہ لگایا اور پلنگ سے نیچے چھلانگ لگا کر بھاگنے لگا۔
تجمل تھوڑا کھسیانا سا ہو کر اس کے پیچھے بھاگا۔
”ٹھہرو! تمھیں ابھی دکھا تا ہوں مظاہرہ، یہیں رکو بدتمیز۔“ دونوں نے بھاگنا شروع کردیا۔ اسی اثنا میں دروازے پر دستک ہوئی، تجمل نے سرمد کو کہا۔
”جاﺅ دروازے پر دیکھو کون ہے؟“
سرمد نے ڈھٹائی سے جواب دیا۔
”کوئی بھی تو نہیں ہے، میں سونے جا رہا ہوں۔“ اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
تجمل خود ہی دروازہ کھولنے گیا، تو دیکھا اس کے قابل احترام دوست، جنید صاحب دروازے پر تھے۔ اُنہیں اچانک دیکھ کر تجمل نے حیرانی اور خوشی کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ چوں کہ یہ بالکل ہی غیرمتوقع تھا اور کافی دن بھی تو ہو گئے تھے ان سے کسی قسم کا رابطہ ہوئے۔
”ارے جنید صاحب آپ! آئیے۔ میں آپ ہی کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کئی دن ہو گئے، آپ نے تو درشن ہی نہیں دیے، کہاں غائب ہو گئے تھے کچھ بتائے بغیر ہی اچانک اور مصافحہ کرنے کے لیے دونوں ہاتھ آگے بڑھائے۔ جنید صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ سے دایاں ہاتھ آگے بڑھایا۔
”بس یار کیا بتائیں، سو بکھیڑے ہوتے ہیں۔ کہیں جانا پڑگیا تھا، اس لیے تم سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ خود کئی دن سے دل چاہ رہا تھا کہ تم سے ملاقات کروں، لیکن کچھ حالات ہی ایسے آگئے تھے کہ کوئی وقت نا بن پڑا۔ اچھا تم بتاﺅ کہ اتنے دنوں میں کیا مصروفیات رہیں؟ کچھ کام بھی کیا یا بس یونہی فارغ وقت کو غنیمت جان کر آرام ہی کیا؟“ چلتے چلتے انہوں نے سارے سوالات ایک دم کر ڈالے۔
”ارے نہیں جنید صاحب! آپ نے مجھے اتنا نکما سمجھ رکھا ہے؟ ان دنوں میں بہت کچھ لکھا ہے، امید ہے آپ کو پسند آئے گا بلکہ میں نے توپچھلی کہانی کا مسودہ بھی کاف کتاب پبلیشرز والوں کو بھیج دیا ہے ان سے ملا قات ہوئی تھی ،دعا کریں کہانی ان کے مطلب کی ہو، تو اللہ کرے وہ کتاب چھپوا دیں۔ تجمل نے بھی مسکراتے ہوے تھوڑا فخریہ انداز میں جواب دیا۔
وہ دونوں مہمان خانے میں پہنچ چکے تھے۔ تجمل نے جنید صاحب کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود ایک موڑھا لے کر ان کے سامنے، بالکل قریب آکر بیٹھ گیا۔ جنید صاحب قدرے بلند آوازمیں بولے۔
”ارے ان کے مطلب کی کیا ہو؟ بھئی کام تمھارا ہے، تمھارے مطلب کا ہونا چاہیے۔ ان کے مطلب سے کسی کو کیا غرض؟ بس تم نے جی لگا کے محنت سے لکھا ہے، انہیں ضرور پسند آئے گی، بھئی دیکھو اپنے آپ میں اعتماد پیدا کروجس دن تم خود کو پسند آگئے، دنیا خود بہ خود تمہیں پسند کرے گی اور ویسے بھی میں نے سنا ہے کہ اُنہیں تمہاری کہانی کا مرکزی خیال بہت پسند آیا تھا، تو پھر وہ کیسے نہیں چھپوائیں گے بھئی؟“
تجمل نے کافی حیرانی سے جنید صاحب کو دیکھا ۔
”آپ کو کیسے پتا کہ مرکزی خیال بہت پسند آیا؟ اس بات کا ذکر تو ابھی میں نے کسی سے کیا بھی نہیں۔“
”ارے چھوڑو میاں، تم کیا سمجھتے ہو کہ تم نہیں بتاﺅ گے تو ہمیں پتا نہیں چلے گا؟، ہمیں سب پتا چل جاتا ہے بس بتاتے نہیں ہیں۔ تم ا س بات کو چھوڑو یہ بتاﺅ کہ یہ مایوسی والی باتیں کیو ں کر رہے ہو؟ کیا اپنے کام پر بھروسا نہیں ہے تمہیں؟“ انہوں نے جواباً سوال داغ دیا۔
”ارے نہیں! بھروسا تو ہے ،لیکن وہ بس دل میں تھوڑا ڈر سا بھی تو ہوتا ہے نا ؟“
”ارے تمہاری دنیا اس ڈر اور فکر سے بہت آگے ہے۔ ایسی فضول چیزوں کو دل اور دماغ میں کبھی جگہ مت دیا کرو بس اپنے کام کو اپنا غرور بناﺅ۔“ اور اس پر اعتماد رکھو ۔
”لیکن جنید صاحب! اگر اونچائی تک رسائی حاصل کرنی ہے، تو یہ باڑاور یہ رکاوٹیں تو پھلانگنی
ہی پڑیں گی نا؟“
”تو میں بھی تو وہی کہہ رہا ہو ں کہ توڑد و ان سب رکاوٹوں کو لیکن اگر تم اپنی زیادہ طاقت ان
رکاوٹوں کو توڑنے پر صرف کرو گے، تو اپنے کام پر کیسے طاقت لگا پاﺅ گے؟ میں یہ کہہ رہا ہوں
کہ اپنا زیادہ دھیان اور توجہ، کام پر مرکوز رکھو، ہو سکتا ہے تمھاری رکاوٹیں ہی تمھارے لیے
سیڑھی کا کام کریں اور تمھیں تمھاری من چاہی بلندی تک پہنچانے میں مدد گار ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے جنید صاحب نے اس کی کمر پر تھپکی دی۔
تجمل کی گویا کوئی برسوں پرانی الجھن سلجھ گئی۔
”ارے واہ جنید صاحب!آپ نے تو میری بہت بڑی الجھن چند لمحوں میں ہی سلجھا دی، لیکن ایک سوال میرے دماغ میں اب بھی کھٹک رہا ہے کہ اگر آپ جو کام کرتے ہیں اسے مکمل کرنے میں اپنی طرف سے کوئی بھی کسر اٹھا نہیں رکھتے، مگر ضروری نہیں ہے کہ جو آپ کی پسند ہے وہی سب کو پسند آئے؟“ اب ہر انسان کی پسند تو اپنی اپنی اور الگ الگ ہوتی ہے نا۔ تو ہماری محنت سے بنائی گئی چیزکی کیا قدروقیمت ہو گی؟“ اس نے اپنی ایک اور مشکل بیان کردی۔
جنید صاحب کو اس کا یہ سوال کچھ بچگانہ سا لگا ۔
”ارے پھر وہی بات؟ دیکھو تم نے خود ہی کہا کہ ہم پوری محنت سے کوئی کام کرتے ہیں۔ اس میں ذرا بھی جھول نہیں چھوڑتے یعنی خوبصورتی سے سجاتے ہیں، مکمل کرتے ہیں، تو اب مجھے یہ بتاﺅ کہ ایک مکمل خوبصورتی سے سجائی گئی چیز کس انسان کو اچھی نہیں لگے گی؟ مطلب بھلی نہیں تو کم ازکم بری بھی تو نہیں لگے گی نا؟ تا وقت یہ کہ کوئی بد ذوق ہی نا ہو ۔
”آہا! کیا بات ہے آپ کی۔ بس یہی بات تو مجھے آپ کی غلامی پر مجبور کرتی ہے۔ واہ! کتنی بڑی بات کس قدر آسانی سے سمجھا دی ،کئی دن بعد دل کا بوجھ کافی ہلکا ہو گیا ہے۔“ تجمل نے زور سے سانس کھینچا اور جنید صاحب کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر دبانے لگا۔
جنید صاحب نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ ہٹائے۔
”ہاں ہاں! اب زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں سب پتا ہے، کتنا یاد رکھتے ہو ہمیں ضرورت کے سوا؟ لیکن اگر ہمارے ذرا سے وقت سے تمھاری کچھ مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں، تو ہمیں اور کیا چاہیے؟ اچھا خیر، اب ہمیں چلنا ہے کچھ اور بھی کام ہیں جنہیں نپٹانا ہے۔“ وہ اٹھ کر کھڑے ہوئے تو تجمل بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
” ارے کچھ دیراور ٹھہرتے جنید صاحب ، ایک تو آپ کچھ لیتے بھی نہیں ہیں کچھ کھا پی ہی لیاکریں۔“
”بھئی کتنی بار کہا ہے کہ تمہاری کامیابی ہی ہمارے لیے خوراک ہے۔ بس اللہ کرے تم خیریت سے اپنی منزل تک پہنچ جاﺅ جس دن تم کامیا ب ہو گئے، وہ دن میری دعوت ہوگااور ویسے بھی تمھارے پاس ہی تو رہتا ہوں۔“ انہوں نے اشارہ کیا۔