کنکر — عمیرہ احمد

یہی سوچتے ہوئے وہ صوفے پر لیٹ گیا اور پھر پتا نہیں کب اسے نیند آگئی۔
اس کی آنکھ کسی کے کندھا ہلانے سے کھلی تھی۔
”حیدر۔۔۔حیدر اٹھ جاؤ۔” یہ اس کی امی کی آواز تھی،اُس نے آنکھیں کھول دیں۔
”یہاں کیوں سورہے ہو؟” امی نے پوچھا۔
”بس ایسے ہی”وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا ، رسٹ واچ پراُس نے ٹائم دیکھا پھر اُسے کھول کر سامنے رکھی ٹیبل پر رکھ دیا۔ اس وقت چھے بجے تھے۔
”امی مجھے چائے کا ایک کپ بنا دیں” آستینیں پلٹتے ہوئے اُس نے اپنی امی سے کہا۔
اس کی امی اسے چائے کا کپ تھمارہی تھیں جب اس نے سارہ کو سیڑھیوں سے اترتے دیکھا تھا، وہ روزانہ اس ہی وقت نیچے آتی تھی، اس کا چہرہ دیکھ کر چند لمحوں کے لئے اسے شدید ملال ہوا تھا۔ پہلی دفعہ اُسے احساس ہوا تھا کہ اس نے اسے کتنی بری طرح پیٹا تھا، وہ چائے کا کپ ہاتھ میں تھام کر اسے دیکھنے لگا، سارہ اُسے نظر انداز کئے اس کے بالکل مقابل تھی۔
حیدر خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا، پہلی بار ان دونوں کی نظریں ملی تھیں۔ حیدر نے نظریں جھکالیں، اس ہی وقت اس نے دیکھا کہ سارہ کی مٹھی میں کچھ بندتھا، سارہ نے مٹھی اس کے سامنے رکھی ہوئی شیشے کی میز پر کھول دی تھی۔اس کے ہاتھ میں سے کچھ ایک چھناکے کی آواز کے ساتھ میز پر گرا تھا، حیدر کی نظریں میز پر مرکوز ہوگئیں۔ وہاں وہ انگوٹھی اور ڈائمنڈ سے جڑا لاکٹ تھا جو اس نے سارہ کو منہ دکھائی میں دیا تھا۔
”اب میرے پا س تمہاری کوئی چیز نہیں ہے، ہر چیز میں یہیں چھوڑ کر جارہی ہوں ، اب میں دوبارہ یہاں کبھی نہیں آؤں گی۔”
وہ یہ کہہ کر لاؤنج کے دروازے کی طرف بڑھ گئی، نگہت ایک لمحے میں سب کچھ سمجھ گئیں۔
”ایک بات کان کھول کر سن لو سارہ، اگر آج تم یہاں سے گئی تو دوبارہ یہاں نہیں آ سکو گی، اس دہلیز کو پار کرنے سے پہلے اچھی طرح یہ بات سمجھ لو۔”
سارہ نے رک کر بغیر مڑے ان کی بات سنی، ان کی بات ختم ہونے پر اس نے مڑ کر حیدر کو دیکھا جو اس جگہ بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا پھر اُس نے اپنی ساس کو دیکھا اور اگلے ہی لمحہ بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ دہلیز پار کرلی یک دم وہ حیدر کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
حیدر بے یقینی کے عالم میں کچھ دیر تک دروازے کو دیکھتا رہا پھر اس کی نظر لاکٹ پر آکر ٹک گئی جس پر لکھی ہوئی تحریر اس کا منہ چڑارہی تھی۔Only death will separate us، جس دن اس نے سارہ کو یہ لاکٹ دیا تھا، اس کے صرف آٹھ ہی ماہ بعد سارہ اس کا گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
سارہ کی واپسی اس کے تایا کے گھر ایک طوفان لے کر آئی تھی، ہر ایک نے سارہ کو واپس جانے پر مجبور کیا ، مگر اس کی خاموشی جیسے ایک ڈھال سی بن گئی تھی۔ وقتی طور پر اس معاملہ کو دبا دیا گیا کیوں کہ تایا کے گھر شادی تھی اور وہ اس موقع پر کوئی مسئلہ کھڑا کرنا نہیں چاہتے تھے مگر شادی کے فوراً بعد ہی انہوں نے حیدر اور سارہ کے مابین مصالحت کی کوششیں شروع کردی تھیں اور اس میں وہ اکیلے نہیں تھے۔
اُ س کے خاندان کا ہر فرد یہی چاہتا تھا کہ وہ واپس چلی جائے، ہر ایک حیدر کا حامی تھی ،ہر ایک اُسے ہی قصوروار سمجھتا تھا، کسی کو بھی وہ وجہ جائز نہیں لگی تھی جس کی وجہ سے اُس نے حیدر کو چھوڑا تھا، ہر رشتے دار عورت اسے اپنے قصے سناتی تھی کہ اپنے شوہر کے کیسے کیسے ظلم و ستم کے باوجود اس نے اپنا گھر نہیں چھوڑا اور وہ کیسی ہے جو شوہر کے چند تھپڑوں پر ہی گھر چھوڑ آئی۔





وہ بس سپاٹ نظروں سے سب کو دیکھتی رہتی، تائی نے فریال کو بھی بلوالیا تھا۔
”سارہ تم پاگل ہوگئی ہو۔” دو گھنٹے اپنی ہدایتوں اور نصیحتوں پر خاموشی دیکھ کر وہ جھنجھلا اُٹھی تھی۔ دو گھنٹے بعد وہ پہلی دفعہ بولی تھی۔
”ہاں میں واقعی پاگل ہوں اس لئے حیدر جیسے عقل مند کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔”
”اُس کے ساتھ نہیں رہوگی تو کہاں رہوگی؟” فریال نے طنزیہ لہجہ میں پوچھا۔
”کہیں بھی رہ لوں گی مگر اُس کے ساتھ نہیں۔”
”سارہ وہ تمہارا شوہر۔۔۔۔۔”
”فریال تم تو بس کرو، میں لوگوں کی تقریریں اور نصیحتیں سن سن کر تنگ آگئی ہوں ، میں تمہیں صاف صاف کہہ رہی ہوں ایک دفعہ سمجھاؤ یا ایک کروڑ دفعہ مجھے اس کے گھر پھر بھی نہیں جانا، یہ میرا پہلا اور آخری فیصلہ ہے۔ یہ میری زندگی ہے میں جانتی ہوں اسے کیسے گزارنا ہے، میں چاہوں تو تباہ کروں، چاہوں تو آباد کروں، دوسروں کو اس سے کیا۔”
فریال کو اس کی باتوں سے زیادہ اس کے لہجے پر حیرت ہوئی تھی وہ پہلی جیسی سارہ نہیں تھی۔فریال خاموشی سے اُس کی تائی کے پاس آگئی تھی۔
سارہ کے تایا چند بار حیدر کے پاس بھی گئے مگر وہ بھی کچھ کم ضدی اور اکھڑ نہیں تھا، وہ نہ صرف اپنے کئے پر شرمندہ نہیں تھا بلکہ اُس نے سارہ کو منانے یا واپس لانے سے بھی انکار کردیا تھا۔
”وہ یہ گھر خود چھوڑ کر گئی ہے اگر واپس آنا چاہتی ہے تو خود ہی آئے، میں تو اُسے لینے کبھی نہیں جاؤں گا۔” اُس نے تایا سے کہا تھا اور اُس کی امی نے تو تایا سے صاف صاف کہہ دیا تھا۔
”ہمیں اب اُس کی ضرورت نہیں ہے، وہ اس گھر سے چلی گئی ہے تو ہمارے لئے ہمیشہ کے لئے چلی گئی ہے، اگر وہ خود واپس آنا چاہے گی بھی تو میں اُسے آنے نہیں دوں گی۔”
سارہ کے تایا نے اُس دن اُس سے دوٹوک بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سے پہلے وہ سارہ کو نرمی سے سمجھاتے رہے مگر اُس دن انہوں نے سارہ کو بری طرح جھڑکا تھا، اسے اپنے احسان گنوائے تھے۔ مگر سارہ تب بھی اپنی بات پر ہی جمی ہوئی تھی۔
”میں اب اُس کے گھر نہیں جاؤں گی، اگر آپ مجھے یہاں رکھنا نہیں چاہتے تو میں دارالامان چلی جاتی ہوں۔”
اُس نے بالآخر کہہ دیا تھا، مگر اس کے تایا مزید بھڑک اٹھے تھے۔
”دارالامان جانا تھا تو ماں باپ کے مرتے ہی چلی جاتیں، اب جاکر لوگوں کو یہ بتانا چاہتی ہو کہ ہم کتنے کمینے او ر ظالم لوگ ہیں کہ ایک بھتیجی کو بھی نہیں رکھ سکتے، مجھے بتاؤ کہ تم اگر اُس کے گھر نہیں جانا چاہتیں تو آخر چاہتی کیا ہو؟”
”میں طلاق چاہتی ہوں”
اُس کی بات پر کمرے میں بیٹھے ہوئے اُس کے سارے چچا تایا جیسے سکتے میں آگئے تھے۔
”ہمارے خاندان میں کبھی کسی لڑکی نے طلاق کی بات نہیں کی اور تم۔۔”
سارہ نے زندگی میں پہلی بار تایا کی بات کاٹی تھی۔
”یہ آپ کا مجھ پر آخری احسان ہوگا، مجھے اس سے طلاق لے دیں۔میں نے اب کسی بھی صورت اس کے ساتھ نہیں رہنا، آپ سب جتنا مجھے سمجھارہے ہیں، میرا ارادہ اتنا ہی پکا ہورہا ہے، اس لئے آپ اپنا وقت ضائع نہ کریں۔میں خوش قسمت کبھی بھی نہیں رہی ہوں، اس لئے اس بدنصیبی کو بھی میرا مقدر بن جانے دیں۔” دھیمے دھیمے لہجے میںسر جھکائے اپنی بات کہنے کے بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
”ٹھیک ہے میں تمہیں طلاق دلوادیتا ہوں لیکن سارہ پھر ایک بات یاد رکھنا، میں طلاق کے فوراً بعد تمہاری شادی کردوں گا چاہے وہ رشتہ جیسا بھی ہو، تمہیں قبول کرنا پڑے گا اور اس شادی کے بعد تم ہمارے گھر کبھی مت آنا۔”
تایا نے جیسے آخری حربہ استعمال کیا تھا انہیں یقین تھا کہ یہ وار خالی نہیں جائے گا، مگر ایک لمحے تک سارہ نے ان کا چہرہ دیکھنے کے بعد بے تاثر آواز میں کہا۔
”ٹھیک ہے آپ جہاں چاہیں میری شادی کردیجئے گا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا” وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
ایک عجیب سی خاموشی وہاں چھاگئی تھی، ہر ایک اپنی اپنی جگہ کچھ نہ کچھ سوچ رہا تھا۔
جب حیدر کو سارہ کے تایا نے اس کے مطالبے سے آگاہ کیا تھا تو وہ بے یقینی کے عالم میں انہیں دیکھ کر رہ گیا۔
”آپ چاہتے ہیں میں اسے طلاق دے دوں؟”اس نے پوچھا۔
”یہ میں نہیں چاہتا ، سارہ چاہتی ہے جب مصالحت نہیں ہوسکتی تو بہتر ہے مکمل علیحدگی ہوجائے تاکہ میں اُس کی شادی کہیں اور کردوں” حیدر کے سینے میں جیسے گھونسا لگا تھا ،ساری ضد اور انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اُس نے کہا۔
”میں ایک بار اُس سے ملنا چاہتا ہوں۔” پھر دو دن کے بعد وہ سارہ سے ملا تھا۔
”میں تمہیں لینے آیا ہوں۔” اُس نے سارہ کو دیکھتے ہی کہا تھا ، سارہ اس کی بات کا جواب دیئے بغیر صوفے پر بیٹھ گئی۔
”تم میرے ساتھ گھر چلو۔”
”میں گھر میں ہی ہوں۔” بڑے سرد لہجے میں جواب آیا تھا۔
”سارہ میں اب کسی بحث میں پڑنا نہیں چاہتا، غلطی تمہاری تھی اور گھر بھی تم نے اپنی مرضی سے چھوڑا تھا پھر بھی میں تمہیں لینے آیا ہوں اس لئے بہتر ہے کہ تم میرے ساتھ گھر چلو۔”
”ورنہ تم کیا کروگے؟” سارہ نے جیسے اُس کا مذاق اُڑایا تھا۔
”تو تم گھر نہیں چلوگی؟”
”نہ آج، نہ آئندہ کبھی۔”
”ایک بات یاد رکھو میں تمہیں طلاق کبھی نہیں دوں گا اور نہ ہی اب تمہیں لینے آؤں گا۔” وہ پھر غصے میں آگیا تھا۔
”طلاق تم مجھے نہیں دوگے میں خود تم سے لے لوں گی اور تمہیں یہاں دوبارہ آنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔” اُس کا لہجہ بہت پرسکون تھا۔
حیدر ایک جھٹکے سے اُٹھ کر ڈرائنگ روم سے نکل گیا۔
وہ جو دوبارہ کبھی نہ آنے کا کہہ کر گیا تھا، ایک ہفتہ کے بعد خلع کا نوٹس اسے دوبارہ کھینچ لایا تھا، اس بار وہ حقیقتاً پریشان تھا۔
”ٹھیک ہے جو کچھ ہوا تم اُسے بھول جاؤ، آئندہ یہ سب کچھ ہمارے درمیان نہیں ہوگا، لیکن یہ سب تماشا ختم کرو میں تمہیں اپنے گھر لے جانا چاہتا ہوں۔” اُس کی آواز میں پہلے جیسا طنطنہ نہیں رہا تھا۔
”مگر مجھے تمہارے ساتھ نہیں جانا۔” سارہ کا لہجہ بہت دوٹوک تھا، وہ دو گھنٹے تک اُس کے ساتھ سر کھپاتا رہا، مگر وہ اپنی بات پر قائم رہی پھر وہ ایک بار نہیں کئی بار اُسے منانے گیا تھا، مگر وہ تو جیسے پتھر کی سِل بن گئی تھی۔ پورے خاندان کی لعنت ملامت کا شکار ہونے کے باوجود وہ اپنے مطالبے سے ہٹ نہیں رہی تھی۔
اُس کے اپنے خاندان کا ہر فرد اب حیدر کا حامی ہوچکا تھا، ہر ایک کو لگتا تھا کہ سارہ کو حیدر کی پہلی غلطی معاف کردینی چاہئے اور پھر اب تو وہ خود اسے اپنے ساتھ لے جانے کے لئے بار بار آرہا تھامگر سارہ جیسے ان سارے طعنوں، تشنوں اور ہدایات سے بے نیاز ہوچکی تھی۔وہ سارا دن گھر کے کسی کونے میں بیٹھی ہر ایک کے طعنے برداشت کررہی ہوتی، تائی کے کوسنے سنتی رہتی پھر بھی اُس کا وہی مطالبہ تھا
”مجھے حیدر کے ساتھ نہیں رہنا۔ مجھے اُس سے طلاق چاہئے۔”
پھر حیدر آخری بار اُس کے پاس آیا تھا ،اُس روز وہ واقعی بہت طیش میں تھا۔
”تم نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ جو بھی کیا وہ ٹھیک تھا، تم یہی سب کچھ deserveکرتی تھی، مگر سارہ تم بہت پچھتاؤ گی، میں نے تمہیں آسمان پر پہنچایا تھا اور تم اپنے آپ کو کھائی میں دھکیل رہی ہو۔”
”میں پہلے بھی کھائی میں ہی تھی، پہلے بھی میرے پاس کچھ نہیں تھا۔”
”کیا نہیں تھا تمہارے پاس؟ کیا نہیں دیا تھا میں نے تم کو، تمہیں خود سے بڑھ کر چاہاتھا۔ تمہارے مانگنے سے پہلے ہر چیز تمہیں دی تھی، کبھی میں نے تم سے پوچھا کہ تم نے کتنے روپے خرچ کئے یا کیوں کئے، کبھی کسی چیز کے لئے تمہیں ترسنا پڑا، بولو کیا نہیں دیا میں نے؟ کیا نہیں دیا؟” وہ جیسے پھٹ پڑا تھا۔
”تم نے مجھے عزت نہیں دی” وہ چند لمحوں کے لئے کچھ کہہ نہیں پایا۔
”حیدر میرے دل میں اب تمہارے لئے نہ محبت ہے نہ نفرت، کوئی جذبہ ہی نہیں ہے تمہارے لئے، میں اب کبھی بھی تمہارے دکھ سکھ کی ساتھی نہیں بن سکتی ہاں وقت آیا تو شاید آستین کا سانپ بن جاؤں اور وہ میں بننا نہیں چاہتی، میرے ساتھ اپنا وقت ضائع مت کرو، میں نے ساری زندگی اپنی مرضی کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، شاید آئندہ بھی نہ کرسکوں، بس ایک فیصلہ کیا ہے میں نے اور وہ میں کبھی نہیں بدلوں گی۔”
وہ بے یقینی کے عالم میں اُسے دیکھ رہا تھا جو پرسکون آواز میں کہہ رہی تھی۔
”تم زبان سے جو کہتے ہو،اُس کا پاس نہیں رکھتے ہو، تمہیں اپنے کئے پر کوئی ملال نہیں ہے صرف لوگوں کے سامنے ہونے والی سبکی سے بچنے کے لئے تم مجھے واپس گھر لے جانا چاہتے ہو، تمہارے ساتھ گزارے ہوئے آٹھ ماہ میرے لئے آٹھ سالوں جیسے تھے، ذلت کیا ہوتی ہے یہ تم نہیں جانتے کیوں کہ تم نے کبھی اس کا experience نہیں کیا، میں نے کیا ہے۔
اُس رات جو گالیاں تم نے مجھے دیں، جس طرح تم نے مجھے مارا کیا اس کے بعد بھی تم سوچ سکتے ہو کہ میں دوبارہ تمہارے گھر جاؤں گی، تمہارا عنایت کیا ہوا لباس پہنوں گی، تمہارے تحفوں سے دل بہلاؤں گی، تمہاری باتوں پر قہقہے لگاؤں گی، تمہارے پیار کے دعووں پر یقین کروں گی، تمہارے لئے بنوں سنوروں گی۔۔۔نہیں۔۔۔میں یہ نہیں کرسکتی۔۔ کیوں کہ یہ کروں گی تو مجھے اپنے وجود سے گھن آئے گی، تمہارے لئے وہ سب کچھ معمولی بات تھی میرے لئے نہیں ہے، میں تمہاری کسی ایسی اولاد کو جنم دینا نہیں چاہتی جو تمہارے جیسی ہو، مگر ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب تم پچھتاؤگے اور تم خود وہ سب یاد کرو گے جو تم نے کیا۔”
”تم مجھے سبق سکھانا چاہتی ہو، سزا دینا چاہتی ہو۔”
”نہیں میں ایسا کچھ نہیں چاہتی، تمہیں سبق اور سزا خود ہی مل جائیں گے۔”
”سارہ میں تمہیں کبھی طلاق نہیں دوں گا، کبھی نہیں۔”
”ٹھیک ہے مت دینا کچھ اور ذلیل کرنا چاہتے ہو، کرلینا، رسوائی کے علاوہ تم نے مجھے دیا بھی کیا ہے؟”
وہ ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا پھر تھکے ہوئے لہجہ میں اُس نے کہا۔




Loading

Read Previous

ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

Read Next

سنی کا خوف — نورالسعد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!