کارآمد — عریشہ سہیل

میں بچپن ہی سے چوہوں سے شدید خوف زدہ رہتی تھی۔ کبھی کبھار گھر میں کوئی چوہا گھس آتا، تو میں اسے دیکھتے ہی کسی اونچی جگہ پر چڑھ جاتی اور چیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اُٹھا لیتی۔ میری چیخیں سن کر چوہا بھاگ جاتا اور گھر والے مجھے اگلے آدھے گھنٹے تک نیچے اترنے کے لیے قائل کرتے رہتے۔ دراصل یہ ڈر مجھے وراثت میں اپنی اماں سے ملا تھا۔ ویسے تو میرے ددھیال کی بھی تمام خواتین اس ’’بلا‘‘ سے ڈرتی تھیں، مگر چوہے سے خوف کھانے میں میری اماں کا کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔ انہیں خوف زدہ دیکھ کر تو اچھے اچھے دل پکڑ لیتے کہ نہ جانے کیا ناگہانی آفت آگئی ہے۔
ایک بار یوں ہوا کہ امی باورچی خانے میں برتن دھو رہی تھیں۔ پانی کے شور میں انہیں میری چیخیں سنائی نہ دیں اور پھر جیسے ہی انہیں آواز گئی، وہ معاملے کی نزاکت جانے بغیر بلا خوف و خطر چمٹا اٹھائے لائونج میں چلی آئیں۔ میں جو پہلے ہی صوفے پر کھڑی چیخ رہی تھی، امی کو دیکھ کر مزید چیخنے لگی۔ اس سے قبل کہ وہ مجھ پر برستیں، ان کی نظربھاگتے دوڑتے ڈرائونی شکل والے موٹے سے چوہے پر پڑی۔ بس اسے دیکھتے ہی امی ایک ہی چھلانگ میں صوفے پر آدھمکیں۔ان کے ہاتھ سے چمٹا چھوٹ کر ہوا میں لہراتا ہوا اس بدشکل چوہے کے عین سر پر گرا اور خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ ہمیں حادثاتی طور پر نشانہ ٹھیک لگنے سے بھی خوشی نہ ہوئی بلکہ ہم دونوں کتنی ہی دیر اس کی لاش کو دیکھ کر سہمی اور ایک دوسرے سے لپٹی رہیں۔ یہاں تک کہ اس روز ابو جی کو دروازہ چابی سے کھول کر اندر آنا پڑا کیوں کہ میں یا امی اس زمین پر کیسے قدم رکھ سکتی تھیں جس پر چوہے کا سایہ بھی پڑ جائے۔
میں نے گھر والوں سے سنا تھا کہ چوہے گھروں میں گھس کر راشن کھا جاتے اور ہر چیز کتر دیتے ہیں۔ یہ سُن کر مجھے ان چور نما چوہوں سے خوف کے ساتھ ساتھ نفرت بھی محسوس ہونے لگی جو انتہائی دیدہ دلیری سے کسی کے بھی گھر گھس کر نقب زنی کرتے ہیں۔اس کے بعد مجھے چوہوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا دیکھ کر ایک عجیب سی تسکین ہونے لگی۔ میں اپنے ہاتھوں سے آٹے کی گولیوں میں زہر ملا کر گھر کے ہر کونے میں ان کے لیے رکھ دیتی۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ چوہوں کے آباء واجداد کا تعلق یقینا امریکا یا برطانیہ سے ہو گا۔ اسی لیے کسی کے بھی گھر پر بڑی مہارت سے قبضہ جما لیتے ہیں۔ کسی گھر میں کس طرح نقب لگائی جاتی ہے اس کی تربیت یقینا امریکی فوج نے ہی انہیں دی ہو گی۔
بڑے ہوتے ہوتے میرا خوف اس وقت حیرت میں بدلنے لگا جب میں نے لوگوں کو چوہے کے ذریعے کام کرتے دیکھا۔ بچے، نوجوان، بوڑھے اور یہاں تک کہ لڑکیاں بھی چوہوں کی مدد سے کام کرتی نظر آتی تھیں۔انہیں دیکھ کر میرے چہرے کے زاویے از خود ہی بگڑنا شروع ہو جاتے۔ گھروں میں تو پھر بھی چوہوں کا استعمال زیادہ نہیں تھا، مگر دفاتر میں چوہوں کے بغیر کام کرنا اپنی توہین سمجھی جانے لگی۔ مگر پھر جلد ہی طالب علموں کے سبب گھروں میں بھی چوہے استعمال کیے جانے لگے۔ گویا ہوم ورک کرنے کے لیے چوہے لازمی جز بن گئے۔ ہائے ری قسمت! دنیا اتنی ترقی کرنے لگی کہ چوہے دھیرے دھیرے سب کی ضرورت بن گئے۔ اب میرے لیے اس ضرورت سے آنکھیں چرانا ناگزیر ہوتا جا رہا تھا۔
اپنی تمام تر توانائی جمع کر کے ایک روز میں نے بھی چوہا استعمال کرنے کی ٹھانی۔ خوف کے مارے میرا بدن کانپ رہا اور ہاتھ پائوں ٹھنڈے پڑ رہے تھے۔ قریب کھڑے میرے بھائی مجھے چوہے کا استعمال سمجھا رہے تھے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے لرزتا ہاتھ کالے مینڈک جیسے چوہے کی پشت پر رکھا اور اس کی ایک آنکھ کو دھیرے سے دبایا۔ احتجاجاً چوہے نے صدا بلند کی اور میں نے گِھن کھاتے ہوئے آنکھیں میچ لیں، مگر پھربھائی کے حوصلہ دینے پر میں نے آنکھیں کھولیں اور چوہے کا باقاعدہ استعمال سیکھا۔دھیرے دھیرے میرے اندر سے خوف جاتا رہا اور مجھے چوہے کو دیکھنے اور چھونے کی عادت ہو گئی بلکہ اُسے ہاتھ میں پکڑنا اچھا لگتا۔ کچھ ہی عرصے میں، میں چوہوں کی صلاحیتوں کی دل سے قائل ہو گئی۔
رفتہ رفتہ انسان ان کارآمد چوہوں کے عادی ہوتے چلے گئے اور ان کے بغیر زندگی گزارنا مشکل لگنے لگا۔ بھلا ہو ان سائنس دانوں کا جو سوتے جاگتے نت نئی ایجادات کرتے رہتے ہیں۔چند ہی سالوں میں ان کار آمد چوہوں کو قید کرنے کی منظم سازش کی گئی اور سائنس دان اپنی اس سازش میں کام یاب بھی ہو گئے۔ انسان اندھا دھند چوہوں کے رقیب خریدنے لگے، مگر میرا دل چوہے کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا۔ کچھ ہی عرصے میں یہ چوہے قصۂ پارینہ بن گئے۔ لوگ یہ بھی بھول گئے کہ کس طرح ان چوہوں نے ہمارا ساتھ دیا اور رات دن کا فرق بھلا کر ہمارے کام آسان کیے تھے۔ اب ان چوہوں کی آخری آرام گاہ اسٹور روم میں قید یا کچرے کا ڈھیر تھی۔
بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے میں بھی نئی ایجادات سے محظوظ ہونے لگی۔ میرا لاڈلا چوہا ڈبے میں قید گھر کے ایک کونے میں پڑا میری راہ تکتارہتا، مگر مجھے کبھی اس معصوم کا خیال تک نہ آیا۔ کچھ عرصے بعد میں نے محسوس کیا کہ یہ نئی ایجادات اتنی سہولت فراہم نہیں کرتیں جتنا کہ چوہے کیا کرتے تھے۔ یہ احساس ہوتے ہی میں نے بھائی سے اپنے لاڈلے کی واپسی کا مطالبہ کیا، جو کافی عرصے سے اسٹور روم میں قیدتھا، تو جب بھائی نے مجھے یہ اطلاع دی کہ میرا لاڈلا چوہا اسٹور روم میں پڑے پڑے اس جہانِ فانی سے کُوچ کر گیا ہے۔ اِک پل میں میرا دل ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔ ایک اور چوہے کی کارستانی کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی تھی۔دوسرے چوہے نے اس کی دم کتر دی تھی اور پیٹ کی انتڑیاں بھی نظر آرہی تھیں۔ اس نے وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دی اور مجھے خبرتک نہ ہوئی۔ بس یہی احساس ِ ندامت مجھے جینے نہیں دے رہا تھا۔ہر وقت مجھے اپنے لاڈلے کی یاد ستاتی رہتی۔ ہر چیز سے دل اُچاٹ ہو گیا ۔بھائی نے لاکھ سمجھایا، مگر مجھ پر اثر نہ ہوا۔ اتنے سالوں کی رفاقت بھلانا میرے لیے آسان نہیں تھا۔پھر ایک دن بھائی میرے لیے ایک نیا چوہا لے آئے۔اسے دیکھ کر میرا غم غلط ہو گیا۔ وہ رنگ روپ میں میرے لاڈلے سے مشابہ تھا۔ میں نے پیار سے اسے سینے سے لگا لیا اور عہد کیا کہ اب کبھی اسے نظر انداز نہیں کروں گی۔
میں نے اپنی پچیس سالہ زندگی میں یہی جانا ہے کہ جو آرام ’’مائوس‘‘ کے ساتھ کام کرنے میں ہے، وہ لیپ ٹاپ یا اینڈرائیڈ فون سے کام کرنے میں نہیں ہے۔ لہٰذا میں اب اپنے چوہے کو لیپ ٹاپ کے ساتھ کنیکٹ کر کے سہولت سے کام کرتی ہوں اور آج بھی اس بات کی دل سے قائل ہوں کہ چوہے واقعی کارآمد ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۰ (یا مجیب السائلین)

Read Next

فیصلے — نازیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!