چھوٹی سی زندگی

جانتے ہیں اُس نے میری لاش کے ساتھ کیا کیا…؟
وہ پھر سے میرے گھٹنوں پر بیٹھ گیا تھا…پر اس بار مجھے بالکل درد نہ ہوا…میں تو دور کھڑی ہوں اپنے جسم سے…بہت دور…درد کا کوئی احساس ہی نہ تھا۔
کچھ دیر بعد میرے مردہ جسم پر…کرسیوں کا ڈھیر لگاکر وہ باہر نکل گیا۔میں اس کے پیچھے چلی۔۔۔پھر میں نے ابا کو دیکھا …روتے ہوئے …. مجھے آوازیں دیتے شادی گھر کے تینوں ہال چھا ن مارے انہوں نے…پولیس بھی تھی اُن کے ساتھ اور ….وہ آدمی بھی …..
میرے اباکے ساتھ مل کر مجھے ڈھونڈ رہا تھا…مجھے سمجھ نہیں آرہا ہنسوں یا روئوں؟سب جگہ ڈھونڈاگیا مجھے …پانی کی ٹنکی بھی کھول کر دیکھ لی گئی….پر میں نہ مل سکی .اباتھک کر واپس چلے گئے۔ میں پھر سے اپنی لاش کے پاس آبیٹھی ۔
رات کے گھور اندھیرے وہ شخص آیا ،احتیاط سے کرسیاں ہٹائیں ،میری شلوار منہ سے اتار کر مجھے پہنائی اور پھر کاندھے پر اُٹھائے کوٹھڑی سے باہر نکل آیا۔چلتے چلتے وہیں پہنچا جہاں پانی کی ٹنکی تھی۔تالا لگا ہوا تھا …اُس نے جیب سے چابی نکالی پھر مجھے بے دردی سے زمین پر پھینک کر تالا کھولنے لگا۔میرے سر کی ہڈی چٹخی … مگر مجھے درد نہ ہوا…کہا نا….میں مر چکی ہوں۔
پانی کی ٹنکی کھول کر اُس نے مجھے اندر پھینکا…ہلکی پھلکی سی تھی میں …جب فوراً نہیں ڈوبی تو اس نے اپنا جوتا میرے منہ پر رکھ کر مجھے پانی کے اندر دھکیلا…کئی بار اس کے جوتے کی ضرب لگی میری ناک پر ….مگر مجھے درد نہ ہوا ۔۔۔کہا نا میں مر چکی ہوں۔
آخرکارٹھنڈا یخ پانی میرے کان ،ناک اور منہ میں داخل ہونے لگا ….اور میںڈوبنے لگی…..آہستہ آہستہ …..
ٹنکی کا ڈھکنا بند ہوگیا …چلا گیا ہوگا وہ،



پر میں پھر سے پانی کی سطح پر تیر رہی ہوں …
کسی جنگلی درندے کے ہتھے چڑھی ہوتی تو صرف جان سے جاتی ….مگر افسوس …
وہ” انسان’ ‘تھا…
اپنی ہوس پوری کئے بغیر کیسے چھوڑ دیتا مجھے…
یقینا
دنیا کی ساری عورتیں مر چکی ہیںتب ہی ….
ہاں اسی لئے …
.ہم پانچ چھے سالہ بچیوں کی …’.’باری ” ….آگئی ہے .
تین یا شاید …چار دن بعد میری لاش کو ٹنکی سے نکال لیا گیا۔پولیس میری لاش پوسٹ مارٹم کے لئے لے جا رہی ہے .
میں سب کچھ دیکھ اور سن رہی ہوں پر…
ابا اور امی کا حال نہیں دیکھا جا رہا مجھ سے ….ڈاکٹرز نے میرے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تصدیق کر دی ہے ۔
بہت شور ہو رہا ہے ….شادی ہال میں چیختے چلاتے لوگ فرنیچر توڑ رہے ہیں …
اب وہ اس عمارت کو آگ لگا دینا چاہتے ہیں ۔
لگا دیں …کیا فرق پڑتا ہے…؟….قاتل تو بھاگ گیا.
پرشادی ہال کا مالک بہت پریشان ہے…اس نے میری تدفین کے بعد ابا کے پاس کچھ لوگوں کو بھجوایا جنہوں نے بہت سمجھایا کہ بچی تو مر گئی ہے اب واپس نہیں آسکتی …کچھ رقم لو …اور مقدمہ واپس لے لو…کیوں کہ شادی ہال کی بہت ”بد نامی” ہو رہی ہے۔



ویسے یہ’ ‘بدنامی’ ‘بڑی خطرناک ہے ….ہونی نہیں چاہئے ۔.
میرے جیسی بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کی بھی آخر معاشرے میں کوئی ”عزت” ہوتی ہے …
اب اگرمیرے ابا جیسے لوگ …قاتل کو سزا دلوانے کی اپیل کرنے میڈیا پر آنے لگے …تو
خود سوچئے ….ملک کی کتنی ”بد نامی” ہوگی …
نہیں ….ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔
آپ سب میرے امی ابا کے پاس جائیں …اور ان سے کہیں …
میرے ملک کو بدنام نہ ہونے دیں….بس چپ کر کے بیٹھ جائیں.
نہ میرا قاتل ملے گا ….نہ اسے وہ سزا ملے گی …جو میرے اللہ نے مقرر کی ہے ۔
مجھے اس کا ہر گز افسوس نہیں …کہ وہ آدمی بچ گیا ہے …
جہاں میں ہوں …وہاں میری جیسی اور بھی کئی بچیاں ہیں …
فرشتے ہمیں کسی باغ میں کھیلنے سے روکتے نہیں …ہر نعمت میّسرہے ۔



مجھے دلاسہ دینے والے بہت ہیں …جوکہتے ہیں
اللہ دوزخ بھر د.ے گاانہی جیسے لوگوں سے …..پرمیں یہ سن کر بھی خوش نہیں ہوں…..
کیوںکہ مجھے ڈر ہے اس سے پہلے جنت بھر جائے گی ….میرے جیسی بچیوں سے …جو چھوٹی سی زندگی جی کر مر جاتی ہیں ۔

Loading

Read Previous

داستانِ حیات

Read Next

عبداللہ – قسط نمبر ۰۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!