چنبیلی کے پھول قسط نمبر 7


اگلے دن رانیہ نے جیمو ماموں اور روشنی کی شادی سے متعلق پہلے عنایا، ثمن اور ٹیپو سے بات کی۔ امی گھر پر نہیں تھیں وہ فردوسی خالہ کی طرف گئی ہوئی تھیں۔ اُ ن تینوں نے اِس تجویز پر خوشی کا اظہار کیا۔ ثمن اور ٹیپو تو حد سے زیادہ ایکسائیٹڈ ہوگئے۔ روشنی کو اِس گھر میں سب ہی پسند کرتے تھے۔ کافی دیر اُن لوگوں کی میٹنگ ہوتی رہی۔ وہ لوگ ا س حوالے سے مختلف پلانز بناتے رہے۔
پہلا مرحلہ تو رانیہ کی امی سے بات کرنے کا تھا۔ وہ مان جاتیں تو جیمو ماموں کو منانا کوئی مشکل کام نہیں۔
امی رات کو گھر واپس آئیں اور آتے ساتھ ہی اپنا ڈرامہ دیکھنے میں مصروف ہوگئیں۔
جیمو ماموں اپنے کسی دوست کی طرف گئے ہوئے تھے۔ یہ چاروں آپس میں سرگوشیاں کرتے، ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہوئے امی کے قریب آگئے۔
”امی! آپ پھر ساس بہو کی سازشوں والے ڈرامے دیکھ رہی ہیں!”
رانیہ اُ ن کے پاس آکر صوفے پر بیٹھ گئی اور یہ جملہ بول کر انہیں متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
وہ ٹی وی دیکھنے میں محو تھیں۔
”رانیہ مجھے ڈسٹرب نہ کرو۔ ابھی تو ڈرامے کا کلائمکس آیا ہے۔”
انہوں نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”امی! ہمیں آپ سے ایک بے حد ضروری بات کرنی ہے۔”
اب کی بار انہیں عنایا کی آواز آئی۔
انہوں نے گرد ن موڑ کر اپنے اردگرد موجود چاروں بچوں کو دیکھا۔ ذرا چونکیں، انہیں کوئی واقعی ضروری کام تھا۔ ورنہ ڈرامہ دیکھتے ہوئے انہیں کوئی ڈسٹرب نہیں کرتا تھا۔
”ہاں کہو… میں سن رہی ہوں۔”
انہیں یہ کہنا پڑا۔
”امی! روشنی باجی بہت اچھی خاتون ہیں۔ جب میں پچھلی بار اُن کے گھر گئی تھی تو وہ بہت رو رہی تھیں۔ انہیں اس traumaسے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اب اپنے بارے میں کچھ سوچنا چاہیے۔”
رانیہ نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
امی نے ریموٹ سے ٹی وی کی آواز کم کی، تو یہ بات روشنی سے متعلق تھی۔
”اس غریب نے اپنے بارے میں کیا سوچنا ہے! فردوسی خالہ کے ساتھ ہی رہے گی، شکر ہے کہ اُن کا گھر اپنا ہے ۔ لوگوں کا آنا جانا بھی لگا رہتا ہے، تھوڑا بہت دل تو بہلا ہی رہے گا۔ عقیل میاں اتنے اچھے ہوتے تو روشنی کو کینیڈا ہی بلا لیتے۔مگر آج کل کے دور میں سگے بہن بھائی بھی ایک دوسرے کو نہیں پوچھتے۔”
امی نے سنجیدگی سے کہا۔
”روشنی باجی کی شادی بھی تو ہوسکتی ہے!”
عنایا نے خیال ظاہر کیا۔
”شادی؟’
وہ چونکیں۔
”جی ہاں۔”
اُس نے جوش و خروش سے کہتے ہوئے سرہلایا۔
”مگر کس سے؟”
ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”جیمو ماموں سے۔”
فوراً جواب آیا۔
ڈرامے میں اُن کی دلچسپی یکسر ختم ہوگئی۔ ہیرو اور ہیروئن کے ڈائیلاگ انہیں سمجھ ہی نہ آئے۔
”ہمیں کوئی اعتراض نہیں پھپھو۔”
ٹیپو اور ثمن نے ہاتھ اٹھا کر بے ساختہ کہا۔
”آپ جیمو ماموں سے بات کریں۔ آپ کہیں گی تو وہ مان جائیں گے۔”
رانیہ نے اصرار کیا۔
”یہ خیال تم لوگوں کو کیسے آیا؟”
انہوں نے باری باری سب کے چہروں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”بس آگیا… آئیڈیا تو اچھا ہے۔ بس اب اِ س پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔”
عنایا مسکرائی۔
امی سوچ میں پڑگئیں۔ ایسا ہوتو سکتا تھا۔ اُن دونوں کا گھر بن جاتا۔ ہمسفر کی چاہ تو ہر کسی کے دل میں ہوتی ہے۔
جیمو ماموں نے اپنے بچوں اور اُن کے بچوں کے لئے بڑی قربانیاں دی تھیں تو اب ان کا بھی فرض تھا کہ وہ اُن کے بارے میں سوچتیں۔
جیمو ماموں گھر آئے تو سب اُن ہی کے منتظر تھے۔
امی نے اُن سے اس بارے میں بات کی تو پہلے تو وہ ہکا بکا رہ گئے پھر دلیلیں ، تاویلیں دینے لگے۔
”اس عمر میں شادی کرتے اچھا لگوں گا کیا؟ لوگ کیا کہیں گے کہ بچے جوان ہوگئے اور جیمو ماموں کو سہرا سجانے کا شوق چڑھ گیا۔”
”تو آپ سہرا نہ سجایئے گا ۔ سہرا پہنے بغیر بھی انسان کی شادی ہوسکتی ہے۔”
عنایا نے اطمینان سے جواب دیا۔
ثمن نے بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”اور اب تو سہرا، نوٹوں کے ہار، ریشمی رومال…یہ سب آئوٹ آف فیشن چیزیں ہیں۔”
ٹیپو نے اطمینا ن سے کہا۔
وہ کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ثمن اُن کے قریب آکر بیٹھ گئی۔
”بابا ! ہمیں روشنی باجی بہت اچھی لگتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ نے ہماری وجہ سے شادی نہیں کی۔ اب ہم بڑے ہوگئے ہیں اور آپ کو خود کہہ رہے ہیں کہ آپ شادی کرلیں۔”
ثمن نے انہیں مناتے ہوئے کہا۔
”اور روشنی باجی کھانا بھی بہت اچھا پکاتی ہیں۔ اب ہم بھی روزانہ مزے مزے کے کھانے کھایا کریں گے۔”
ٹیپو نے بے ساختہ کہا۔
امی نے اُسے گھور کر دیکھا۔ کوئی اوروقت ہوتا تو اس بات پر وہ اس کی خوب خبر لیتیں مگر ابھی مصلحتاً انہیں چپ رہنا پڑا۔
”ارے تم لوگ سمجھتے کیوں نہیں!”
ماموں نے بہانہ بنانے کی کوشش کی۔
”آج ہم آپ کو سمجھانے آئے ہیں جیمو ماموں۔”
رانیہ نے مسکرا کر نرمی سے کہا۔
جیمو ماموں نے اپنے اِردگرد کھڑے بچوں کو دیکھا۔ عنایا ، رانیہ، ثمن، ٹیپو…وہ سب اب اتنے بڑے ہوگئے تھے کہ آج مل کر انہیں سمجھانے کے لئے آئے تھے اور ان کے چہروں پر یہ عزم تھا کہ اپنی بات منوا کر ہی رہیں گے۔
امی نے شفقت سے ماموں کا ہاتھ تھپتھپایا۔
”جیمو میرے پیارے بھائی! میرے راج دلارے… کب تک اکیلے رہوگے! بچے بڑے ہوگئے ، بچوں کی اپنی زندگی ہے اور آج کل کے بچے خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ رانیہ، عنایا اور ثمن بیاہ کر اپنے گھر چلی جائیں گی ۔ ٹیپو کو فوج میں جانے کا شوق ہے۔ جہاں اُس کی پوسٹنگ ہوگی وہاں چلا جائے گا۔ یہی زمانے کی ریت ہے ۔ بیٹیاں شادی کے بعد اپنے گھر بار کی ہوکر رہ جاتی ہیں اور بیٹے روزگار میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ روشنی آجائے گی تو تمہاری خدمت کرے گی ۔ میرا بھی بڑھاپا سکون سے گزرے گا۔ فردوسی خالہ کا دُکھ بھی ہلکا ہوگا۔ گھر توروشنی کے پاس بھی ہے۔ بات سائباں کی نہیں ہے، سوال کسی کو سہارا دینے کا بھی نہیں ہے۔ قصہ یہ ہے کہ انسانوں کی زندگی میں چیزوں سے زیادہ رشتوں کی اہمیت ہوتی ہے اور ہمسفر انسان کی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ دو لوگ مل کر ایک دوسرے کی تنہائی بانٹ لیتے ہیں۔ شادی کا فیصلہ کرتے وقت بہت ساری باتوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے گھر والوں کے بارے میںبھی سوچنا پڑتا ہے۔ تم نے ساری زندگی ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھا ہے جیمو… اب بھی ہماری خوشی کے لئے ما ن جائو۔”
امی نے دلیلیں دے کر انہیں نرمی سے سمجھایا۔
وہ چپ ہوگئے۔
خاموشی کا یہ اظہار رضا مندی تھا۔
کچھ فیصلے بڑی خاموشی کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔
امی نے ایک نظر سرجھکائے خاموش بیٹھے جیمو ماموں پر ڈالی پھر اپنے اردگرد کھڑے چاروں بچوںکو دیکھا۔
”سب تیار ہوجائو۔ ہم لوگ فردوسی خالہ کے گھر جارہے ہیں۔”
انہوں نے قطعی، فیصلہ کن اور حکمیہ انداز میں کہا۔
سب کے چہرے خوشی سے چمکنے لگے پھر سب اپنے اپنے کمروں کی طرف بھاگے۔ ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔
”ا ب اتنی رات کو کیسے جائیں گی وہاں۔ صبح چلی جایئے گا۔”
ماموں دھیمی آواز میں بولے۔
”نیک کام میں دیر کیسی! اتنی رات بھی نہیں ہوئی، لوگ تو باہر نکلتے ہی اس وقت ہیں۔ ساری رات سڑکوں پر گاڑیاں چلتی رہتی ہیں۔”
انہوں نے پیروں میں چپل پہنتے ہوئے کہا۔
ان کی آواز میں جوش و خروش تھا۔
پھر انہوں نے وہیں سے آواز دی۔
”عنایا! میری چادر لے آئو اور رانیہ سے کہو کہ گاڑی نکالے۔”
ماموں کچھ بول نہ سکے پھر انہوں نے سوچا کہ ان کا چپ رہنا ہی بہتر ہے۔
کچھ ہی دیر بعد یہ سارا قافلہ فردوسی خالہ کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔
فردوسی خالہ گیٹ کھولتے ہی یکدم اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر حیران پریشان رہ گئیں۔ ہر کوئی اُن سے لپٹ لپٹ کر خوشی اور محبت کا اظہار کررہا تھا۔ مٹھائیوں کے ڈبے، پھلوں کی ٹوکری، پھولوں کے گلدستے… یہ سب کیا ماجرا تھا ۔ پھر ابھی شام کو ہی تو رانیہ کی امی اُن سے مل کر گئی تھیں۔
وہ ہکا بکا رہ گئیں۔
امی نے سب کو ڈرائننگ روم سے باہر نکال دیا اور خو د فردوسی خالہ کے ساتھ رازدرانہ انداز میں باتوں میں مصروف ہوگئیں۔
عنایا اور رانیہ ہنستی کھلکھلاتی روشنی کے کمرے میں چلی آئیں۔
گھر میں جیمو ماموں زوار اور شیراز کے ساتھ صحن میں بیٹھے تھے۔ یہ آج کل کے ذرائع ابلاغ کا کمال تھا کہ جیمو ماموں کی ہونے والی منگنی کی خبر ہر طرف گردش کرنے لگی۔
”جیموماموں! میں نے تو پہلے ہی آپ کو بتا دیا تھا کہ آپ کی دوسری شادی ہونے والی ہے۔”
شیراز نے فخریہ انداز میں کالر کھڑکائے۔
”حالانکہ تم نے تُکا لگایا تھا۔”
جیموماموں مسکرائے۔
وہ فوراً سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
”اس دن تو آپ میری بڑی تعریفیں کررہے تھے کہ میاں بڑے پہنچے ہوئے عالم ہو تم!”
وہ بے ساختہ بولا۔
”پہنچے ہوئے عالم!”
زوار نے ابرو اُچکا کر شیراز کو بغور دیکھا۔
”جی… کبھی غرور نہیں کیا۔”
وہ انکساری سے مسکرایا۔
”میرے بارے میں بھی کچھ بتائو یار۔”
وہ بہت غور سے شیراز کو دیکھ رہا تھا۔
ماموں پہلے ہی بول پڑے۔
”ارے اس نے تو پہلے ہی بتادیا تھا کہ رانیہ کی شادی بہت اچھے لڑکے سے ہوگی۔ جس کا نام زیڈ سے شروع ہوگا۔”
”اچھا واقعی؟”
وہ چونکا۔
پھر اس نے سراُٹھا کر دیوار اور اُس کے پار نظر آتی عمارت کو دیکھا اور مسکرایا۔
”ویسے اِتنا علم تو دیوار کے اُس پار بیٹھے شخص کے پاس آسانی سے آسکتا ہے جو سارا دن یہاں سے آتی آوازیں سنتا رہتا ہوگا۔”
اس نے شیراز کو دیکھتے ہوئے کہا۔
اُسے وہ چاندنی رات یاد آئی جب وہ رانیہ کے ساتھ یہاں صحن میں بیٹھا تھا اور اُن کی باتیں رانیہ کے علاوہ یقینا دیوار کے پار بیٹھے شیراز نے بھی سنی تھیں۔
شیراز … زوار کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
”آپ واقعی عقل مند آدمی ہیں۔”

وہ اس کی ذہانت کا معتر ف ہوا۔
جیموماموں نے بھی مسکرا کر شیراز کو دیکھا۔
”کیوں میاں ، پہنچے ہوئے عالم! لوگوں کو بے وقوف بنانا چاہتے تھے!”
شیراز نے ہاتھ جوڑ دیئے۔
”ارے نہیں جیمو ماموں ، میری یہ مجال ! میں تو بس آپ لوگوں کے قریب ہونا چاہتا تھا۔ آپ لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا تھا… آپ کے گھر کی رونقیں مجھے بہت اٹریکٹ کرتی تھیں۔”
اُس نے بوکھلا کر وضاحت دی۔
”اور یہاں کے لوگ بھی آپ کو بہت اٹریکٹ کرتے ہیں۔ہیں نا؟”
زوار نے جتانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
شیراز چونکا پھر سنبھل گیا۔
”آپ بڑے خطرناک آدمی ہیں۔”
اُس نے سرگوشی کے سے انداز میں زوار کے کان میں کہا۔
”وہ تو میں ہوں ۔ جیمو ماموں کی دوسری شادی کا مشورہ بھی میں نے ہی دیا تھا۔”
اُس نے اطمینان سے کرسی سے ٹیک لگالی۔
”یہ تو آپ نے بڑا ہی نیک کام کیا۔”
شیراز نے بے ساختہ کہا۔
”تو یہ دراصل تمہارا کارنامہ ہے زوار میاں۔”
جیمو ماموں کچھ کچھ بات سمجھ گئے۔
”جی… میں نے اپنی منگنی والے دن دیکھا تھا کہ آپ اُن خاتون کو تسلیاں اور دلاسے دے رہے تھے اور خوب مشوروں سے نواز رہے تھے۔ مجھے لگا جیسے آپ اُ ن کے دکھ کو سمجھتے ہیں ۔ آپ کو اُن کی زندگی کے مسائل کا علم ہے۔ خوشیاں تو محفلوں میں بانٹی جاسکتی ہیں۔ غم ہر ایک کے ساتھ نہیں بانٹے جاسکتے۔”
زوار نے رسانیت سے کہا۔
ماموں ذرا بوکھلا گئے۔
”ارے وہ تو میں انہیں سمجھتا رہا تھا ۔ لوگ مجھ سے مشورے مانگتے ہی رہتے ہیں۔”
شیراز بے ساختہ مسکرایا۔
”جی ہاں… لوگوں کو سمجھانا اور اُن کے دکھ درد بانٹنا بھی نیکی ہوتی ہے۔ ہمدردی بھی تو ایک جذبہ ہوتا ہے۔ جس سے ہم ہمدردی محسوس کرتے ہیں وہ ہی ہمارا دوست ہوتا ہے۔”
شیراز نے اپنی لاجک پیش کی۔
”اور اب یہ چاہتے ہیں کہ ان سے بھی ہمدردی کی جائے اور ان کا بھی گھر آباد کیا جائے تاکہ یہ بہانے بہانے سے بھاگ بھاگ کر یہاں آنا بند کریں۔”
زوار نے شوخی بھرے انداز میں کہا۔
شیراز الرٹ ہوکر بیٹھ گیا۔
”یہ تو آپ بہت ہی نیک کام کریں گے۔ کسی کا گھر آباد کرنا بڑے ثواب کا کام ہوتا ہے۔ جیمو ماموں ! آپ ہی میرے بزرگ ہیں، اب میری شادی بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ میرے بارے میں بھی سوچیں۔”
وہ پرجوش انداز میں بولا۔
”کچھ سوچتے ہیں تمہارے بارے میں بھی۔”
ماموںمبہم انداز میں مسکرائے۔
”آپ کی شادی پر سارے کام میں خود کروں گا۔”
وہ ایکسائیٹڈ انداز میں بولا۔
”کارڈز بانٹنے کا کام میرا۔”
زوار نے اپنی خدمات پیش کیں۔
”دیگیں پکوانے کا اور شامیانے لگانے کا کام میں کرلوں گا۔”
وہ دونوں پلاننگ میں مصروف ہوگئے۔
جیمو ماموں جھینپی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ اُن کی باتیں سنتے رہے۔
زندگی کا یہ نیا موڑ بے حد خوشگوار تھا۔
رانیہ کے گھر والوں کے جانے کے بعد فردوسی خالہ روشنی کے کمرے میں آئیں۔ اُن کے چہرے پر خوشی بھری مسکراہٹ تھی۔
روشنی گم صم انداز میں بیٹھی تھیں۔
وہ اُن کے قریب آکر بیٹھ گئیں۔
”روشنی بیٹی! میں جانتی ہوں کہ تم نے بڑا غم اٹھایا ہے مگر کچھ خوشیوں میں مسیحائی ہوتی ہے کہ وہ دُکھ اور غم کو دل سے دور کردیتی ہیں ۔جیمو میاں کے بارے میں سب جانتے ہیں وہ نیک شریف، ملنسار، دوسرو ں کے کام آنے والے، دوسروں کا غم بانٹنے والے نرم خو اور بے حد نفیس انسان ہیں۔ ہم نے کب سوچا تھا کہ ایک دن تمہارے لئے جیمو میاں کا رشتہ آئے گا مگر انسان کو قدرت کی مصلحتوں کا کیا علم! ہم تو تمہیں ثاقب سے بیاہ کر صبر کربیٹھے تھے۔ تم نے بھی دو کمروں میں چولہا چوکی کرتے اور سلائی مشین چلاتے اپنی جوانی گزار دی مگر کسی سے کوئی شکوہ نہ کیا۔ گزرا وقت تو لوٹ کر نہیں آتا بیٹا اسی لئے ماضی جہاں گزرا،جیسا گزرا اُسے بھول جائو بیٹا۔
آج کو دیکھو۔ آج تمہارے لئے جیمو کا رشتہ آیا ہے۔ جیمو ہی تمہارا نصیب ہے۔”
انہوں نے نرمی سے روشنی کو سمجھایا۔
وہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہیں۔
”وہاں خوشیاں ہوں گی۔ آزادی ہوگی۔ تم ہر کام اپنی مرضی سے کرسکوگی۔ وہاں تمہاری رائے کو اہمیت دی جائے گی۔ تمہاری عزت ہوگی۔ انسان وہیں خو ش رہتا ہے۔ جہاں اُسے عزت ملتی ہے۔ ایسی عالیشان حویلی ہے جیمو کی… خوب رونق لگی رہتی ہے وہاں۔ میں نے انیسہ کو ہاں کہہ دی ہے۔ رانیہ اور زوار کی شادی کے بعد تمہارا اور جیمو کا نکاح ہوگا۔ خیر سے اپنے گھر جائو۔ یہ بھی تمہارا ہی گھر ہے بیٹا… مگر جو خوشی اور سکون شوہر کے گھر میں ملتا ہے وہ میکے میں نہیں ہوتا۔”
انہوں نے نرم لہجے میں سمجھایا بھی اور اپنا فیصلہ بھی سنادیا۔
وہ چپ بیٹھی رہیں۔
سوچتی رہ گئیں کہ کیا کہیں ، کیا نا کہیں۔
”ساری تیاری انیسہ کرے گی۔ نکاح سادگی سے ہوگا۔ ہمیں کوئی زیادہ تیاریاں بھی نہیں کرنی پڑیں گی۔ اچھی بات ہے کہ اسراف سے بچت ہوجائے گی۔ ثاقب کو بھی پتا چلے کہ اگر وہ شادی کرسکتا ہے تو تم بھی کرسکتی ہو۔ تمہارا بھی خاندان ہے۔ اور خاندان والوں نے تمہاری عزت کا پاس رکھ لیا ہے… خیر میں چلتی ہوں تم بھی آرام کرو۔ تہجد کی نماز کے لئے بھی اٹھنا ہے۔”
وہ روشنی کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیر کر اُٹھ کھڑی ہوئیں۔
وہ سمجھانا چاہتی تھیں وہ سمجھا دیا تھا ۔ جو فیصلہ کیا تھا وہ سنا دیا تھا۔
روشنی اُسی طرح خاموشی بیٹھی رہیں۔ وہ رونا چاہتی تھیں مگر آنکھیں جیسے خشک ہوگئیں۔ انہوں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ زندگی میں کبھی ایسا موڑ بھی آئے گا۔ جب یوں اچانک اُن کی دوسری شادی کی تیاریاں ہونے لگیں گی۔
٭…٭…٭
ناصرہ اپنے لائونج میں کھڑی دیوار پر لگی رانیہ اور زوار کی منگنی کی تصویر دیکھ رہی تھی۔ یہ تصویر ابھی ابھی فریم ہوکر آئی تھی۔ یہ تصویر کتنی خوبصورت تھی۔ ایک مکمل فیملی فوٹو۔ دلہن بنی رانیہ کے ساتھ زوار بیٹھا تھا اور وہ خود زوار کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ رانیہ کے دوسری طرف سارہ تھی۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔
زوار آفس اور سارہ کالج گئی ہوئی تھی۔ بہت عرصے بعد انہیں یوں لگا تھا جیسے اُن کی زندگی میں سکون آگیا ہے۔
اِس تصویر کو دیکھتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔
وہ دو قدم پیچھے ہٹیں اور اُنہوں نے رُخ موڑ لیا۔
ایک بار پھر انہیں اپنی کہانی یاد آئی تھی۔
ناصرہ تسکین کی کہانی…
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول6 :قسط نمبر

Read Next

سیاہ اور سفید کے درمیان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!