عاکف نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا۔
”تم بھی تو اترو، بہت اندر جانا ہے۔ اب صنوبر کو تو میں تم سے ملانے کے لئے یہاں نہیں لاسکتا۔” سالار باہر نکل آیا۔
وہ عاکف کے ساتھ ایک بار پھر ان گلیوں میں جانے لگا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا وہ اس طرح کی جگہ میں آخری بار وہاں کب آیا تھا، وہاں کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ انسانی گوشت کی تجارت تب بھی اسی ”ڈھکے چھپے” انداز میں ہورہی تھی۔
اسے بہت اچھی طرح یاد تھا وہ پہلی بار اٹھارہ سال کی عمر میں وہاں آیا تھا پھر وہ کئی بار وہاں آتا رہا تھا، کئی بار۔ بعض دفعہ رقص دیکھنے، بعض دفعہ کسی مشہور ایکٹریس کی کسی محفل میں شرکت کے لئے۔ بعض دفعہ ان گلیوں کے دروازوں، کھڑکیوں، چوباروں سے لٹکتی جھانکتی نیم برہنہ عورتوں کو دیکھنے۔( اسے عجیب سی خوشی ملتی تھی ان گلیوں سے گزرتے ہوئے۔ وہ وہاں کھڑی کسی بھی عمر کی کسی بھی شکل کی لڑکی کو چند گھنٹوں کے لئے خرید سکتا تھا۔ والٹ سے نکلنے والے چند نوٹ وہاں کھڑی کسی بھی لڑکی کو سر سے پیر تک اس کا کردیتے۔ دنیا پیروں کے نیچے اور کائنات مٹھی میں ہونا اور کسے کہتے تھے، اسے سرشاری کا احساس ہوتا)۔ اور بعض دفعہ وہاں رات گزارنے کے لئے، ان عورتوں کے ساتھ جن سے وہ نفرت کرتا تھا چند روپوں کی خاطر جسم فروخت کرنے والیوں کے لئے وہ اس کے علاوہ کیا جذبات رکھ سکتا تھا اور نفرت کے باوجود وہ انہیں خریدتا تھا کیونکہ وہ خریدسکتا تھا۔ اٹھارہ انیس سال کی عمر میں اسے یقین تھا ان عورتوں میں کبھی کوئی ایسی عورت نہیں ہوسکتی تھی جس سے اس کا کوئی تعلق ہوتا، خونی رشتہ ہوتا یا محبت ہوتی۔
اس کی ماں اور بہن ایلیٹ کلاس کی فرد تھیں۔ اس کی بیوی کو بھی اسی کلاس کے کسی گھر سے آنا تھا۔ اس کی بیٹی بھی اسی کلاس سے ہوتی۔ ریڈلائٹ ایریا کی عورتیں… انہیں اسی کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اسے یقین تھا اکڑی گردن، اٹھی ہوئی تھوڑی اور تنے ہوئے ابروؤں کے ساتھ وہ اس مخلوق سے جتنی نفرت کرتا، کم تھی۔ جتنی تذلیل کرتا، ناکافی تھی۔
اور اب… اب قسمت نے کیا کیا تھا۔ سات پردوں میں رہنے والی اس عورت کو جس کے جسم پر وہ کسی کی انگلی کے لمس تک کو برداشت نہیں کرسکتا تھا، اسے اس بازار میں پھینک دیا گیا تھا۔ اس سے چند قدم آگے وہ شخص چل رہا تھا جو اس کا گاہک تھا اور سالار سکندر زبان کھولنے کے قابل تک نہیں تھا۔ آواز بلند نہیں کرسکتا تھا۔ شکوہ نہیں کرسکتا تھا۔ وہ کسی سے کیا کہتا۔ کیا وہ اللہ سے کہہ سکتا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ آخر اس نے ایسا کیا کیا تھا؟ اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔ اس کی کپکپاہٹ کو کیسے روکتا۔ ان گلیوں میں آنے والا کوئی شخص کبھی دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے اپنے گھر، اپنے خاندان کی عورت کبھی اس بازار میں نہیں آئے گی۔ کسی دوسرے مرد کی جیب میں پڑے ہوئے نوٹوں کے عوض نہیں بک سکے گی۔ ماں نہیں؟…بہن؟… یابیوی؟… پوتی؟… نواسی؟… آنے والی نسلوں میں سے کوئی۔
سالار سکندر کی زبان حلق سے کھینچ لی گئی تھی۔ امامہ ہاشم اس کی بیوی تھی اس کی منکوحہ۔ ایلیٹ کلاس کی وہ عورت جس کا اس بازار سے کبھی واسطہ نہیں پڑتا۔ سالار سکندر نے ایک بارپھر خود کو مارگلہ کی پہاڑیوں پر رات کی تاریکی میں درخت کے ساتھ بندھا پایا… بے بسی کی انتہا تھی۔
”صاحب! میرے ساتھ چلو، ہر عمر کی لڑکی ہے میرے پاس۔ اس علاقے کی سب سے اچھی لڑکیاں، قیمت بھی زیادہ نہیں ہے۔” اس کے ساتھ ایک آدمی چلنے لگا۔
”میں اس لئے یہاں نہیں ایا ہوں۔” سالار نے مدھم آواز میں اس پر نظر ڈالے بغیر کہا۔
”کوئی ڈرنک چاہئے، کوئی ڈرگ، میں سب کچھ سپلائی کرسکتا ہوں۔”
عاکف نے یک دم قدم روک کر قدرے اکھڑے ہوئے انداز میں اس آدمی سے کہا۔” تمہیں ایک بار کہا ہے ناکہ ضرورت نہیں پھر پیچھے کیوں پڑگئے ہو۔”
اس آدمی کے قدم تھم گئے۔ سالار خاموشی سے چلتا رہا۔ اس کا ذہن کسی آندھی کی زد میں آیا ہوا تھا۔ امامہ ہاشم وہاں کب، کیوں، کیسے آگئی تھی۔ ماضی ایک فلم کی طرف اس کی نظروں کے سامنے آیا تھا۔
”پلیز، تم ایک بار… ایک بار اس کو جاکر میرے بارے میں سب کچھ بتاؤ، اس سے کہو مجھ سے شادی کرلے۔ اس سے کہو، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، صرف ایک نام ہے۔ اس کو تم حضرت محمدﷺ کا واسطہ دوگے تو وہ انکار نہیں کرے گا۔ وہ اتنی محبت کرتا ہے انﷺ سے۔” اس نے بہت سال پہلے اپنے بیڈپر نیم دراز چپس کھاتے ہوئے موبائل فون پر بڑے اطمینان کے ساتھ اس کو بلکتے سنا تھا۔
”بائی داوے، تم امامہ کے کیا لگتے ہو؟”
”میں…؟ میں اور امامہ بہت گہرے اور پرانے فرینڈز ہیں۔” جلال انصر کے ماتھے پر بل پڑ گئے تھے۔ سالار نے عجیب سی سرشاری محسوس کی۔ جلال اس وقت امامہ اور اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا۔ وہ اچھی طرح اندازہ کرسکتا تھا۔
”اس سے جاکر صاف صاف کہہ دو کہ میں اس سے شادی نہیں کروں گا۔”
وہ جلال انصر کا یہ پیغام سنتے ہوئے امامہ ہاشم کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے چیونگم کے ببل بناتے ہوئے امامہ کو موبائل پر خبردی تھی۔
”تم نے مجھ پر اتنے احسان کئے ہیں، ایک احسان اور کرو۔ مجھے طلاق دے دو۔” وہ فون پر گڑگڑائی تھی۔
”نہیں، میں تم پر احسان کرتے کرتے تھک گیا ہوں، اب اور احسان نہیں کرسکتا اور یہ والا احسان یہ تو ناممکن ہے۔” اس نے جواباً کہا تھا۔
”’تم طلاق چاہتی ہو، کورٹ میں جاکر لے لو مگر میں تو تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔”
سالار کے حلق میں پھندے لگنے لگے۔
”ہاں، میں نے یہ سب کچھ کیا تھا لیکن میں نے، میں نے جلال انصر کی غلط فہمی کو دور کردیا تھا۔ میں نے اسے سب کچھ بتادیا تھا، کچھ بھی نہیں چھپایا۔ میں نے صرف ایک مذاق کیا تھا، ایک پریکٹیکل جوک۔ میں یہ تو نہیں چاہتا تھا کہ امامہ کے ساتھ یہ سب کچھ ہو۔” وہ جیسے کسی عدالت میں آن کھڑا ہوا تھا۔ ”ٹھیک ہے، میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی اسے طلاق نہیں دے کر… مگر…مگر… میں نے پھر بھی یہ خواہش تو نہیں کی تھی کہ وہ یہاں آپھنسے۔ میں نے… میں نے اسے گھر چھوڑنے سے روکا تھا، میں نے مذاق میں ہی سہی مگر اسے مددکی آفر بھی کی تھی۔ میں تو اس کو یہاں لے کر نہیں آیا تھا۔ کوئی مجھے تو ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتا اس سب کا۔”
وہ بے ربط جملوں میں وضاحتیں دے رہا تھا۔ اس کے سرمیں سنساہٹ ہونے لگی تھی۔ درد کی ایک تیز مگر مانوس سی لہر میگرین(آدھے سر کادرد) کا ایک اور اٹیک۔ وہ چلتے چلتے رکا، ہونٹ بھنیچتے ہوئے اس نے بے اختیار اپنی کنپٹی کو مسلا، درد کی لہر گزرگئی تھی۔ آنکھیں کھول کر اس نے گلی کے پیچ وخم کو دیکھا۔ وہ اندھی گلی تھی، کم از کم اس کے لئے اور امامہ ہاشم کے لئے۔ اس نے قدم آگے بڑھائے۔ عاکف ایک چوبارے نماگھر کے سامنے رک گیا تھا۔ اس نے مڑکر سالار کو دیکھا۔
”یہی گھر ہے۔” سالار کا چہرہ اور زرد پڑگیا۔ قیامت اب اور کتنی دور رہ گئی تھی۔
”اوپر کی منزل پر جانا ہے، صنوبر اوپر ہی ہوگی۔” عاکف کہتے ہوئے ایک طرف موجود تنگ اور تاریک سی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ سالار کو پہلی سیڑھی پر ہی ٹھوکر لگی۔ وہ بے اختیار جھکا، عاکف نے مڑکر اسے دیکھا اور رک گیا۔
”احتیاط سے آؤ سیڑھیوں کی حالت زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اوپر سے یہ لوگ بلب لگوانے کے بھی روادار نہیں۔” سالار سیدھا ہوگیا۔ اس نے دیوار کا سہارا لے کر اوپر والی سیڑھی پر قدم رکھا۔ سیڑھیاں بل کھاکر گولانی کی صورت میں اوپر جارہی تھیں اور اتنی تنگ تھیں کہ صرف ایک وقت میں ایک ہی آدمی گزرسکتا تھا۔ ان کی سیمنٹ بھی اکھڑی ہوئی تھی۔ وہ بوٹ پہننے کے باوجود ان کی خستہ حالت کو جانچ سکتا تھا جس دیوار کا سہارا لے کر وہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ اس دیوار کی سیمنٹ بھی اکھڑی ہوئی تھی۔ سالار اندھوں کی طرح دیوار ٹٹولتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
پہلی منزل کے ایک دروازے کے کھلے ہوئے پٹ سے آنے والی روشنی نے سالار کی رہنمائی کی تھی۔ عاکف وہاں کہیں نہیں تھا۔ یقینا وہ دروازہ پار کرکے آگے چلاگیا تھا۔ سالار چند لمحوں کے لئے وہاں رکا پھر اس نے دہلیز کے پار قدم رکھا۔ وہ اب ایک چوبارے میں تھا۔ ایک طرف بہت سے کمروں کے دروازے تھے۔ دوسری طرف نیچے گلی نظر آرہی تھی۔ برآمدے نما لمبا چوبارہ بالکل خالی تھا۔ تمام کمروں کے دروازے اسے وہاں کھڑے بندہی لگ رہے تھے۔ عاکف کہاں گیا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔ اس نے بہت محتاط انداز میں اپنے قدم آگے بڑھائے۔ یوں جیسے وہ کسی بھوت بنگلے میں آگیا تھا۔ ابھی کوئی دروازہ کھلتا اور امامہ ہاشم اس کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی۔
”میرے خدا… میں… میں اس کا سامنا یہاں کیسے کروں گا۔” اس کا دل ڈوبا۔
وہ ان بند دروازوں پر نظر ڈالتے ہوئے چلتا جارہا تھا۔ جب اس برآمدے کے آخری سرے پر ایک دروازے میں سے عاکف نکلا۔
”تم کہاں رہ گئے ہو۔” وہ وہیں سے بلند آواز میں بولا۔”یہاں آؤ۔”
سالار کے قدموں کی رفتار تیز ہوگئی۔ سالار دروازے تک پہنچنے سے پہلے چند لمحے کے لئے رک گیا۔ وہ اپنے دل کی دھڑکن کی آواز باہر تک سن رہا تھا پھر آنکھیں بند کئے سرد ہاتھوں کی مٹھّیاں بھنیچتے وہ کمرے میں داخل ہوگیا۔ وہاں عاکف ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک لڑکی اپنے بالوں پر برش کرتے ہوئے عاکف سے باتیں کررہی تھی۔
”یہ امامہ نہیں ہے۔” بے اختیار سالار کے منہ سے نکلا۔
”ہاں، یہ امامہ نہیں ہے۔ وہ اندر ہے، آؤ۔” عاکف نے اٹھتے ہوئے ایک اور کمرے کا دروازہ کھولا۔ سالار غیر ہموار قدموں سے ا س کے پیچھے گیا۔ عاکف اگلے کمرے کو بھی پار کرگیا اور ایک اور دروازہ کھول کر ایک دوسرے کمرے میں داخل ہوگیا۔
”ہیلو صنوبر!” سالار نے دور سے عاکف کو کہتے ہوئے سنا۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ ایک لمحے کے لئے اس کا جی چاہا وہ وہاں سے بھاگ جائے… ابھی اسی وقت… سرپٹ… ادھر ادھردیکھے بغیر… اس گھر سے… اس علاقے سے… اس شہر سے… اس ملک سے… دوبارہ کبھی وہاں کا رخ تک نہ کرے… اس نے گردن موڑکر اپنے عقب میں موجود دروازے کو دیکھا۔
”آؤ سالار!” عاکف نے اسے مخاطب کیا۔ وہ اب گردن موڑے اندر کسی لڑکی سے مصروف گفتگو تھا۔ سالار نے تھوک نگلا، اس کا حلق کانٹوں کا جنگل بن گیا تھا۔ وہ آگے بڑھا۔ عاکف نے اپنی پشت پر اس کے قدموں کی آواز سنی تو دروازے سے ہٹ گیا۔ سالار دروازے میں تھا۔ وہ کمرے کے وسط میں کھڑی تھی۔
”یہ ہے صنوبر۔” عاکف نے تعارف کروایا۔ سالار اس سے نظریں نہیں ہٹاسکا۔ وہ بھی اس پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
”امامہ؟” وہ بے حس وحرکت اسے دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
”ہاں امامہ!” عاکف نے تصدیق کی۔
سالار گھنٹوں کے بل زمین پر گرپڑا۔ عاکف گھبراگیا۔
”کیا ہوا، کیا ہوا؟” وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سرپکڑے سجدے میں تھا۔ وہ ایک طوائف کے کوٹھے پر سجدے میں گرنے والا پہلا مرد تھا۔
عاکف پنجوں کے بل بیٹھا اسے کندھے سے پکڑے ہلا رہا تھا۔ سالار سجدے میں بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
”پانی… پانی لاؤں؟” صنوبر گھبراتے ہوئے تیزی سے بیڈ کے سرہانے پڑے جگ اور گلاس کی طرف گئی اور گلاس میں لے کر سالار کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
”سالار صاحب! آپ پانی پئیں۔”
سالار ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ یوں جیسے اسے کرنٹ لگا ہو، اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ کچھ کہے بغیر اس نے اپنی جینز کی جیب سے والٹ نکالا اور پاگلوں کی طرح اس میں سے کرنسی نوٹ نکال کر صنوبر کے سامنے رکھتا گیا اس نے والٹ چند سیکنڈ میں خالی کردیا تھا۔ اس میں کریڈٹ کارڈز کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ پھر وہ کچھ کہے بغیر اٹھ کھڑا اور الٹے قدموں دروازے کی دہلیز سے ٹھوکر کھاتا ہوا باہر نکل گیا۔ عاکف ہکا بکا اس کے پیچھے آیا۔
“سالار…! سالار…! کیا ہوا ہے؟ کہاں جارہے ہو؟”
اس نے سالار کو کندھے سے پکڑ کر روکنے کی کوشش کی۔ سالار وحشت زدہ اس سے اپنے آپ کو چھڑانے لگا۔
“چھوڑو مجھے۔ ہاتھ نہ لگاؤ۔ مجھے جانے دو۔”
وہ بلند آواز میں روتے ہوئے ہذیانی انداز میں چلایا۔
”امامہ سے ملنا تھا تمہیں۔” عاکف نے اسے یاد دلایا۔
”یہ امامہ نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے امامہ ہاشم…”
”تو ٹھیک ہے۔ مگر میرے ساتھ جانا ہے تمہیں۔”
”میں چلا جاؤں گا۔ میں چلا جاؤں گا۔ مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔” وہ الٹے قدموں اپنا کندھا اس سے چھڑا کر بھاگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ عاکف زیر لب کچھ بڑ بڑایا۔ اس کا موڈ آف ہوگیا تھا۔ مڑ کر وہ صنوبر کے کمرے میں گھس گیا جواب بھی حیرانی سے نوٹوں کے ڈھیر کو دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭
سیڑھیاں اب بھی اسی طرح تاریک تھیں مگر اس بار وہ جس ذہنی حالت میں تھا اسے کسی دیوار، کسی سہارے، کسی روشنی کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اندھا دھند ان تاریک سیڑھیوں سے نیچے بھاگا اور بری طرح گرا۔ اگر سیڑھیاں سیدھی ہوتیں تو وہ سیدھا نیچے جاکر گرتا مگر سیڑھیوں کی گولائی نے اسے بچا لیا تھا۔ وہ اندھیرے میں ایک بار پھر اٹھا۔ گھٹنوں اور ٹخنوں میں اٹھنے والی ٹیسوں سے بے پروا اس نے دوبارہ اسی طرح بھاگتے ہوئے سیڑھیاں اترنے کی کوشش کی۔ چند سیڑھیاں اترنے کے بعد لگائی جانے والی چھلانگ نے اسے پھر زمین بوس کیا تھا۔ اس بار اس کا سر بھی دیوار سے ٹکرایا۔ وہ خوش قسمت تھا کہ اس کی ہڈی نہیں ٹوٹی۔ شاید سیڑھیوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو وہ پھر تیسری بار اُٹھ کر اس طرح سیڑھیاں اترنے کی کوشش کرتا لیکن دوسری بار سیڑھیوں سے گرنے کے بعد وہ نیچے والی سیڑھیوں پر آگیا تھا۔ سامنے گلی کی روشنی نظر آ رہی تھی۔ وہ سیڑھیوں سے نکل آیا مگر آگے نہیں جاسکا۔ چند قدم آگے چل کر اس گھر کے باہر تھڑے پر بیٹھ گیا۔ اسے متلی محسوس ہو رہی تھی۔ سر کو تھامتے ہوئے بے اختیار اسے ابکائی آئی وہ تھڑے پر بیٹھے بیٹھے جھک گیا، وہ ابکائیاں کرتے ہوئے بھی اسی طرح رو رہا تھا۔ گلی میں سے گزرنے والے لوگوں کے لئے یہ سین نیا نہیں تھا۔ یہاں بہت سے شرابی اور نشئی ضرورت سے زیادہ نشہ استعمال کرنے کے بعد یہی سب کچھ کیا کرتے تھے۔ صرف سالار کا لباس اور حلیہ تھا جو اسے کچھ مہذب دکھا رہا تھا اور اس کے آنسو اور واویلا، کسی طوائف کی بے وفائی کا نتیجہ تھا شاید۔ وہاں کئی بار کئی مرد ایسے ہی مہذب اور معزز نظر آنے والے مرد اسی طرح روتے ہوئے جاتے تھے۔ طوائف کا کوٹھا ہر کسی کو راس نہیں آتا۔ گزرنے والے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے گزر رہے تھے۔ کوئی اس کے پاس نہیں آیا تھا۔ اس بازار میں حال احوال جاننے کا رواج نہیں تھا۔
عاکف نیچے نہیں آیا تھا۔ آتا تو شاید سالار کے پاس رُک جاتا۔ اِمامہ ہاشم وہاں نہیں تھی۔ صنوبر، امامہ ہاشم نہیں تھی۔ کتنا بڑا بوجھ اس کے کندھوں سے اٹھا لیا گیا تھا، کیسی اذیت سے اسے بچا لیا گیا تھا۔ تکلیف دے کر اسے آگہی نہیں دی گئی۔ صرف تکلیف کا احساس دے کر اسے آگہی سے شناسا کردیا گیا تھا۔ اسے وہاں نہ دیکھ کر وہ اس حالت میں جا پہنچا تھا۔ وہ اسے وہاں دیکھ لیتا تو اس پر کیا گزرتی۔ اسے اللہ سے خوف آرہا تھا بے پناہ خوف۔ وہ کس قدر طاقتور تھا کیا نہیں کرسکتا تھا۔ وہ کس قدر مہربان تھا۔ کیا نہیں کرتا تھا۔ انسان کو انسان رکھنا اسے آتا تھا۔ کبھی غضب سے، کبھی احسان سے۔ وہ اسے اس کے دائرے میں ہی رکھتا تھا۔
اسے کبھی اپنی زندگی کے اس سیاہ باب پر اتنا پچھتاوا، اتنی نفرت نہیں ہوئی جتنی اس وقت ہورہی تھی…