”اگر کل اسلام آباد واپس جارہے ہو تو پھر آج میرے ساتھ رہو۔ کھانا کھاؤ میرے ساتھ گھر چل کر۔” عاکف نے آفر کی۔
”کھانا میں دس منٹ پہلے ہی کھاکر نکلا ہوں۔”
”پھر بھی میرے ساتھ گھر چلو۔ تمہیں اپنی بیوی سے ملاؤں گا۔”
”شادی ہوگئی تمہاری؟”
”ہاں، تین سال ہوئے۔” عاکف نے کہا۔ پھر پوچھا۔
”اور تم… تم نے شادی کرلی؟”
”نہیں”۔
”کیوں؟”
”بس کچھ مصروفیت تھی، اس لئے۔” سالار نے کہا۔
”گڈ! ابھی آزاد ہی پھررہے ہو۔” عاکف نے ایک گہرا سانس لیا۔” خوش قسمت ہو۔” سالار نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ عاکف نے اس سے بات کرتے ہوئے گلوکمپارٹمنٹ کھول کر اندر سے ایک کیسٹ نکالنی چاہی۔ اس کا دھیان ذرا بھٹکا اور کیسٹ نکالتے نکالتے گلوکمپارٹمنٹ سے بہت سی چیزیں سالار کی گود اور نیچے اس کے پیروں میں گر پڑیں۔
Too bad”” عاکف نے بے اختیار کہا۔ سالار جھک کر چیزیں اٹھانے لگا۔ عاکف نے گاڑی کے اندر کی لائٹ جلادی۔ وہ ان چیزوں کو سمیٹ کر گلوکمپارٹمنٹ میں رکھنے لگا تھا جب وہ ٹھٹک گیا کسی نے اس کے جسم میں جیسے کرنٹ سا دوڑا دیا۔ گلوزکمپارٹمنٹ کے ایک کونے میں دوایررنگز پڑے تھے۔ سالار کے ہاتھوں میں بے اختیار لرزش آگئی۔ بایاں ہاتھ بڑھا کر اس نے ان ایررنگز کو باہر نکال لیا۔ وہ اب اس کے ہاتھ کی ہتھیلی پر گاڑی کے اندر جلتی روشنی میں چمک رہے تھے۔ وہ بے یقینی کے عالم میں انہیں دیکھ رہا تھا۔ بہت سال پہلے اس نے ان ایررنگز کو کسی کے کانوں میں دیکھا تھا۔ ایک بار… دوبار… تین بار… چوتھی بار وہ انہیں اب دیکھ رہا تھا۔ اسے کوئی شبہ نہیں تھا۔ وہ امامہ ہاشم کے ایررنگز تھے۔ وہ آنکھیں بند کرکے کاغذ پر ان کا ڈیزائن اتار سکتا تھا۔ ہر پیچ وخم کو… عاکف نے اس کی ہتھیلی سے وہ ایررنگز اٹھالئے۔ کسی نے جیسے سالار کا سکتہ توڑدیا تھا۔ عاکف ان ایررنگز کو ایک بارپھر گلوکمپارٹمنٹ میں رکھ رہا تھا۔
”یہ ایررنگز…” وہ اٹکتے ہوئے بولا۔” یہ تمہاری بیوی کے ہیں؟” سالار نے اپنے سوال کو مکمل کیا۔
”بیوی کے؟” عاکف ہنسا۔” کم آن یار! بیوی کے ہوتے تو میں یہاں رکھتا۔” سالار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
”پھر؟” اس نے سرسراتی ہوئی آواز میں کہا۔
”یار ہے ایک گرل فرینڈ میری، پچھلی رات میرے ساتھ تھی۔ یہ ایررنگز میرے بیڈروم میں چھوڑگئی۔ کچھ ایمرجنسی میں ہی جانا پڑا اسے کیونکہ زوبا واپس آگئی تھی۔ میں نے یہ ایررنگز لاکر گاڑی میں رکھ دیئے کیونکہ آج میرا اس کی طرف جانے کا ارادہ ہے۔” عاکف بڑی بے تکلفی سے اسے بتارہا تھا۔
”گرل فرینڈ؟” سالار کے حلق میں جیسے پھندا لگا۔
”ہاں، گرل فرینڈ۔ ریڈلائٹ ایریا ہی کی ایک لڑکی ہے۔ اب ادھر ڈیفنس میں شفٹ ہوگئی ہے۔”
”کیا… کیا نام ہے اس کا۔” امامہ ریڈلائٹ ایریا کی لڑکی تو کبھی نہیں ہوسکتی۔ یقینا مجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس نے عاکف کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
”صنوبر۔” عاکف نے اس کا نام بتایا۔ سالار نے چہرہ موڑ کر ہاتھ میں پکڑی چیزیں گلوکمپارٹمنٹ میں رکھ کر اسے بند کردیا۔ اسے واقعی غلط فہمی ہوئی تھی۔ عاکف گاڑی کی لائٹ آف کرچکا تھا۔ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاکر سالار نے گہرا سانس لیا۔
”مگر یہ اس کا اصلی نام نہیں ہے۔” عاکف نے بات جاری رکھی۔” اصلی نام اس کا امامہ ہے۔” سالار کے کانوں میں کوئی دھماکہ ہوا تھا یا پھر یہ پگھلا ہوا سیسہ تھا جو کسی نے اس کے کانوں میں انڈیل دیا تھا۔
عاکف اب اسٹیرنگ پر تھوڑا آگے جھکے ہونٹوں میں دبا سگریٹ لائٹر سے جلا رہا تھا۔
”تم نے… تم نے… کیا کہا؟” سالار کی آواز میں لرزش تھی۔
”کیا کہا؟” عاکف نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے اسے دیکھا۔
”نام بتارہے تھے تم اس کا؟”
”ہاں، امامہ… تم جانتے ہو اسے؟” عاکف نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ سالار کو دیکھا۔ کھڑکی کا شیشہ اب اس نے کھول دیا تھا۔ سالار یک ٹک اسے دیکھتا رہا یوں جیسے وہ عاکف کو پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ ایررنگز اب اس کی مٹھی کی گرفت میں تھے۔
”میں کیا پوچھ رہا ہوں یار! تم جانتے ہو اسے؟”
عاکف نے ہونٹوں سے سگریٹ انگلیوں میں منتقل کرتے ہوئے کہا۔
”میں … میں…” سالار نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔ اپنی آواز اسے کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔ ریڈلائٹ ایریا وہ آخری جگہ تھی جہاں اس نے کبھی امامہ کے ہونے کا تصور کیا تھا۔
گاڑی کے اندر جلنے والی روشنی میں عاکف نے بہت غور سے دیکھا۔ اس کے زرد پڑتے ہوئے چہرے کو، اس کے ہاتھ کی بند مٹھی کو، اس کے کپکپاتے ہونٹوں کو، اس کے بے ربط، بے معنی لفظوں کو۔ عاکف مسکرادیا۔ اس نے اس کے کندھے پر تسلی آمیز اندازمیں تھپکی دی۔
”ڈونٹ وری یار! کیوں گھبرارہے ہو، وہ صرف گرل فرینڈ ہے میری۔ اگر تمہارے اور اس کے درمیان بھی کچھ ہے تو کوئی بات نہیں، ہم تو پہلے بھی بہت کچھ شیئر کیا کرتے تھے، یاد ہے تمہیں۔” عاکف نے قہقہہ لگایا پھر اس نے بارود میں تیلی پھینکی۔
”یہ تو پھر لڑکی ہے۔”
مال روڈ پر کتنا رش تھا۔ عاکف کتنی رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا۔ ان دو سوالوں کے ساتھ ساتھ سالار نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اسٹیرنگ پر موجود شخص پر جھپٹنے کی صورت میں خود اس کے ساتھ کیا ہوسکتا تھا۔ اس نے پلک جھپکتے میں عاکف کو گلے سے پکڑلیا۔ عاکف کا پاؤں بے اختیار بریک پر آیا۔ گاڑی ایک جھٹکنے سے رکی۔ وہ دونوں پوری قوت سے ڈیش بورڈ سے ٹکرائے۔ سالار نے اس کے کالر کو نہیں چھوڑا۔ عاکف حواس باختگی کی حالت میں چلایا۔
”کیا کررہے ہو تم؟” اس نے سالار کے ہاتھوں سے اپنا گلا چھڑانے کی کوشش میں اسے دور ہٹانے کی کوشش کی۔” پاگل ہوگئے ہو؟”
”How dare you talk like that”
سالار جواباً غرایا۔ اس کے ہاتھ ایک بار پھر عاکف کی گردن پر تھے۔ عاکف کا سانس رکنے لگا۔ اس نے کچھ غصے اور کچھ حواس باختگی کے عالم میں سالار کے منہ پر مکا مارا۔ سالار بے اختیار جھٹکا کھاکر پیچھے ہٹا۔ اس کے دونوں ہاتھ اب اپنے منہ پر تھے۔ عاکف کی گاڑی کے پیچھے موجود گاڑیاں ہارن پر ہارن دے رہی تھیں۔ وہ سڑک کے وسط میں کھڑے تھے اور یہ ان دونوں کی خوش قسمتی تھی کہ اس طرح اچانک گاڑی رکنے پر پیچھے آنے والی گاڑی ان سے نہیں ٹکرائی۔
سالار دونوں ہاتھوں سے اپنا جبڑا پکڑے ہوئے اپنی سیٹ پر دہرا ہوا تھا۔ عاکف نے اپنے ہوش وحواس کو قابو میں رکھتے ہوئے گاڑی کو کچھ آگے ایک سنسان ذیلی سڑک پر موڑتے ہی ایک طرف روک لیا۔ سالار تب تک سیدھا ہوچکا تھا اور اپنی ایک ہاتھ کی ہتھیلی سے ہونٹوں اور جبڑے کو دبائے ونڈاسکرین سے باہر دیکھ رہا تھا۔ چند منٹ پہلے کا اشتعال اب غائب ہوچکا تھا۔
عاکف نے گاڑی روکی۔ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اس کی طرف مڑا اور کہا” کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔ میرے گلے کیوں پڑرہے تھے، میں نے کیا کیا ہے؟”
بلند آواز میں بات کرتے کرتے اس نے ڈیش بورڈ سے ٹشو باکس اٹھاکر سالار کی طرف بڑھایا۔ اس نے سالار کی شرٹ پر خون کے چند قطرے دیکھ لئے تھے۔ سالار نے یکے بعد دیگرے دو ٹشو نکال لئے اور ہونٹ کے اس کونے کو صاف کرنے لگا جہاں سے خون رس رہا تھا۔
”گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوجاتا ابھی۔” عاکف نے کہا۔ سالار کو ہاتھ صاف کرتے ہوئے دوبارہ ایررنگز کا خیال آیا۔ اس نے یک دم جھک کر پائیدان میں ایررنگز ڈھونڈنا شروع کردیا۔
”فٹ پاتھ پر گاڑی چڑھ جاتی یا۔۔۔۔”
عاکف بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
”کیا ڈھونڈرہے ہو؟”
”وہ ایررنگز۔” سالار نے مختصراً کہا۔
عاکف بے اختیار جھلایا۔
”کیا پرابلم ہے سالار! میری گرل فرینڈ ہے، اس کے ایررنگز ہیں، میرا پرابلم ہے یہ ایررنگز یا اس کا پرابلم ہے تمہارا نہیں۔” سالار یک دم رک گیا۔ اسے اپنی نا معقول حرکت کا احساس ہوا۔ وہ سیدھا ہوا کر بیٹھ گیا۔ ٹشو کو کھڑکی سے باہر پھینکتے ہوئے اسے دم گھٹتا محسوس ہورہا تھا۔
عاکف ماتھے پربل لئے اس کو دیکھ رہا تھا۔
”تمہارا اور صنوبر کا کوئی…” عاکف بات کرتے کرتے محتاط انداز میں رک گیا۔ وہ انداز نہیں کرپارہا تھا کہ پچھلی بار اس کے جملے میں ایسا کون سا لفظ تھا جس نے اسے مشتعل کیا تھا۔ وہ دوبارہ غلطی دہرانا نہیں چاہتا تھا۔
”آئی ایم سوری۔” سالار نے اس کے رکنے پر کہا۔
”اوکے فائن۔” عاکف کچھ مطمئن ہوا۔” تم اور صنوبر…” وہ پھر رک گیا۔
”تم نے کہا تھا، اس کا نام امامہ ہے۔” سالار نے گردن موڑکر اس کا چہرہ دیکھا۔ عاکف کو بے اختیار اس کی آنکھوں سے خوف آیا۔ وہ کسی نارمل شخص کی آنکھیں نہیں تھیں۔ وحشت… بے چارگی خوف… وہ ہر تاثر لئے ہوئے تھیں۔
”ہاں، اس نے ایک بار مجھے بتایا تھا۔ شروع میں، ایک بار اپنے بارے میں بتارہی تھی، تب اس نے مجھے بتایا۔”
”اس کا حلیہ بتاسکتے ہو مجھے؟” سالار نے موہوم سی امید کے ساتھ کہا۔
”ہاں، کیوں نہیں۔” عاکف گڑبڑایا۔” بہت خوب صورت ہے۔tall…Fair ” عاکف اب اٹکنے لگا۔” کالی آنکھیں ہیں، بال بھی پہلے کالے تھے اب ڈائی کئے ہیں اس نے اور کیا بتاؤں۔” وہ زچ ہوا۔
سالار نے آنکھیں بند کرکے ونڈاسکرین کی طرف چہرہ کرلیا۔ گھٹن کچھ اور بڑھ گئی تھی۔
”امامہ ہاشم ہے اس کا نام؟” وہ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
”پتا نہیں، باپ کا نام تو نہیں بتایا اس نے۔ نہ ہی میں نے پوچھا۔” عاکف نے کہا۔
”امامہ ہاشم ہی ہے وہ۔” وہ بڑبرایا۔ اس کا چہرہ دھواں دھواں ہورہا تھا۔” یہ سب میری وجہ سے ہوا… سب …میں ذمہ دار ہوں اس سب کچھ کا۔”
”کس چیز کے ذمہ دار ہو تم؟” عاکف کو تجسس ہوا۔ سالار خاموشی سے ونڈاسکرین سے باہر دیکھتا رہا۔ عاکف جواب کا انتظار کرتا رہا۔ چند منٹ کی خاموشی کے بعد سالار نے گردن موڑکر اس سے کہا۔
”میں اس سے ملنا چاہتا ہو۔ ابھی اور اسی وقت۔”
عاکف کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر وہ ڈیش بورڈ سے موبائل اٹھاکر ایک کال ملانے لگا۔ کچھ دیر تک وہ کوشش کرتا رہا پھر اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”اس کا موبائل آف ہے۔ پتا نہیں وہ گھر پر ملے یا نہ ملے کیونکہ اب رات ہورہی ہے اور وہ…” عاکف چپ ہوکر گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا۔” لیکن میں تمہیں لے جاتا ہوں اس کے گھر۔”
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ دونوں ڈیفنس کے ایک بنگلہ کے باہر کھڑے تھے۔ وہاں پہنچنے تک دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ عاکف اب اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے سالار کو لفٹ دی تھی۔
چند بار ہارن دینے پر اندر سے ایک آدمی باہر نکل آیا، وہ چوکیدار تھا۔
”صنوبر گھر پر ہے؟” عاکف نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔
”نہیں، بی بی صا حبہ تو نہیں ہیں۔”
”وہ کہاں ہے؟”
”مجھے پتا نہیں۔” عاکف نے سالار کو دیکھا اور پھر گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
”تم بیٹھو، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔” عاکف اس آدمی کے ساتھ اندر چلاگیا۔
”اس کی واپسی دس منٹ کے بعد ہوئی۔
”تم کو اس سے بات کرنی ہے؟” اس نے اندر بیٹھتے ہی پوچھا۔
”مجھے اس سے ملنا ہے۔” عاکف دوبارہ گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا۔
سفر پھر اسی خاموشی سے طے ہونے لگا۔ نوبج رہے تھے جب وہ ریڈلائٹ ایریا میں پہنچے تھے۔ سالار کے لئے وہ جگہ نئی نہیں تھی۔ صرف اس تکلیف کا احساس نیا تھا جو اسے اس بار ہورہا تھا۔
”آج یہاں ہی ہے وہ… کسی آدمی نے یہاں کی کچھ لڑکیوں کو بک کروایا ہے کسی فنکشن کے لئے۔ وہ بھی ان ہی کے ساتھ جارہی ہے۔”