بنگلے کے اندر موجود چھوٹے سے لان میں ایک مالی اپنے کام میں مصروف تھا۔ فرقان نے پورچ میں ایک ملازم کے ساتھ دعا سلام کا تبادلہ کیا پھر وہ مزید کچھ آگے چلتا ہوا ایک دروازے کے سامنے پہنچ گیا اور وہاں اس نے اپنا جوتا اتار دیا۔ وہاں پہلے بھی بہت سے جوتے پڑے تھے۔ اندر سے باتوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ سالار نے بھی دیکھا دیکھی اپنے جوتے اتاردئیے۔ سالار نے ایک قدم اس کے پیچھے اندر رکھتے ہوئے ایک ہی نظر میں پورے کمرے کا جائزہ لے لیا۔ وہ ایک کشادہ کمرے میں تھا جس کے فرش پرکارپٹ بچھا ہوا تھا اور بہت سے فلور کشنز بھی پڑے ہوئے تھے۔ کمرے میں فرنیچر کے نام پر صاف چند معمولی چیزیں تھیں اور دیواروں پر کچھ قرآنی آیات کیلی گرافی کی صورت میں لگی ہوئی تھیں۔ کمرے میں بیس پچیس کے قریب مرد تھے جو آپس میں گفتگو میں مصروف تھے۔ فرقان نے اندر داخل ہوتے ہی بلند آواز میں سلام کیا اور پھر چند لوگوں کے ساتھ کچھ خیر مقدمی کلمات کا تبادلہ کیا پھر وہ ایک خالی کونے میں بیٹھ گیا۔
”ڈاکٹر سید سبط علی کہاں ہیں؟” سالار نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے مدھم آواز میں پوچھا۔
”آٹھ بجتے ہی وہ اندر آجائیں گے، ابھی تو صرف سات پچیس ہوئے ہیں۔” فرقان نے اس سے کہا۔
سالار گردن ہلاکر کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا جائزہ لینے لگا۔ وہاں ہر عمر کے افراد تھے۔ چند ٹین ایج لڑکے، اس کے ہم عمر افراد، فرقان کی عمر کے لوگ، ادھیڑ عمر… اور کچھ عمر رسیدہ بھی۔ فرقان اپنی دائیں طرف بیٹھے کسی آدمی کے ساتھ مصروف گفتگو تھا۔
ٹھیک آٹھ بجے اس نے ساٹھ پینسٹھ سال کے ایک آدمی کو ایک اندرونی دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوتے دیکھا۔ اس کی توقع کے برعکس وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی بھی استقبال کے لئے احتراماً کھڑا نہیں ہوا۔ آنے والے نے ہی سلام میں پہل کی تھی جس کا جواب وہاں موجود لوگوں نے دیا۔ آنے والے کے احترام میں کھڑانہ ہونے کے باوجود سالار اب اچانک وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کی نشست کے انداز میں احترام دیکھ رہا تھا۔ وہ سب یک دم بہت چوکنے اور محتاط نظر آنے لگے تھے۔
آنے والے یقینا ڈاکٹر سید سبط علی تھے۔ وہ کمرے کی ایک دیوار کے سامنے اس مخصوص جگہ پر بیٹھ گئے جنہیں شاید ان ہی کے لئے چھوڑا گیا تھا۔ وہ سفید شلوار قمیص میں ملبوس تھے۔ ان کی رنگت سرخ وسفید تھی اور یقینا جوانی میں وہ بہت خوبصورت ہوں گے۔ ان کے چہرے پر موجود داڑھی بہت لمبی نہیں تھی مگر بہت گھنی اور نفاست سے تراشی گئی تھی۔ داڑھی مکمل طور پرسفید نہیں ہوئی تھی اور کچھ یہی حال ان کے سرکے بالوں کا بھی تھا۔ سفید اور سیاہ کے امتزاج نے ان کے چہرے اور سر پر موجود بالوں کو بہت باوقار کردیا تھا۔ وہ وہاں بیٹھ کر دائیں طرف موجود کسی آدمی کا حال دریافت کررہے تھے۔ شاید وہ کسی بیماری سے اٹھ کر آیا تھا۔ سالار نے چند ہی لمحوں میں ان کے سراپے کا جائزہ لے لیا تھا۔ وہ اور فرقان باقی لوگوں کے عقب میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔
ڈاکٹر سبط علی نے اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ ان کا لب ولہجہ بے حد شائستہ تھا اور انداز دھیما تھا۔ کمرے میں مکمل سکوت تھا، وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی بھی حرکت نہیں کررہا تھا۔ سالار کو ان کے ابتدائی چند جملوں سے ہی اندازہ ہوگیا تھا وہ ایک غیر معمولی عالم کے سامنے تھا۔
ڈاکٹر سید سبط علی شکر کے بارے میں بات کررہے تھے۔
”انسان اپنی زندگی میں بہت سے نشیب وفراز سے گزرتا ہے۔ کبھی کمال کی بلندیوں کو جا چھوتا ہے، کبھی زوال کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے۔ ساری زندگی وہ ان ہی دونوں انتہاؤں کے درمیان سفر کرتا رہتا ہے اور جس راستے پر وہ سفر کرتا ہے، وہ شکر کا ہوتا ہے یا ناشکری کا۔ کچھ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ زوال کی طرف جائیں یا کمال کی طرف، وہ صرف شکر کے راستے پر ہی سفر کرتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ان دونوں راستوں پر سفر کرتے ہیں۔ کمال کی طرف جاتے ہوئے شکر کے اور زوال کی طرف جاتے ہوئے ناشکری کے۔ انسان اللہ کی ان گنت مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔ اشرف المخلوقات ہے مگر مخلوق ہی ہے۔ وہ اپنے خالق پر کوئی حق نہیں رکھتا، صرف فرض رکھتا ہے۔ وہ زمین پر ایسے کسی ٹریک ریکارڈ کے ساتھ نہیں اتارا گیا کہ وہ اللہ سے کسی بھی چیز کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کرسکے مگر اس کے باوجود اس پر اللہ نے اپنی رحمت کا آغاز جنت سے کیا، اس پر نعمتوں کی بارش کردی گئی اور اس سب کے بدلے اس سے صرف ایک چیز کا مطالبہ کیا گیا شکر کا۔ کیا محسوس کرتے ہیں آپ! اگر آپ کبھی زندگی میں کسی پر کوئی احسان کریں اور وہ شخص اس احسان کو یاد رکھنے اور آپ کا احسان مند ہونے کے بجائے آپ کو ان مواقع کی یاد دلائے، جب آپ نے اس پر احسان نہیں کیا تھا یا آپ کو یہ جتائے کہ آپ کا احسان اس کے لئے کافی نہیں تھا۔ اگر آپ اس کے لئے”یہ” کردیتے یا”وہ” کردیتے تو زیادہ خوش ہوتا۔ کیا کریں گے آپ ایسے شخص کے ساتھ؟ دوبارہ احسان کرنا تو ایک طرف، آپ تو شاید اس سے تعلق رکھنا تک پسند نہ کریں۔ ہم اللہ کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔ اس کی نعمتوں اور رحمتوں پر اس کا شکرادا کرنے کے بجائے ہم ان چیزوں کے نہ ملنے پر کڑھتے رہتے ہیں، جنہیں ہم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اللہ پھر بھی رحیم ہے، وہ ہم پر اپنی نعمتیں نازل کرتا رہتا ہے۔ ان کی تعداد میں ہمارے اعمال کے مطابق کمی بیشی کرتا رہتا ہے مگر ان کا سلسلہ کبھی بھی مکمل طورپر منقطع نہیں کرتا۔”
سالار پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
”شکرادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہوتی ہے، ایسی بیماری جو ہمارے دلوں کو روزبہ روز کشادگی سے تنگی کی طرف لے جاتی ہے جو ہماری زبان پر شکوہ کے علاوہ اور کچھ آنے ہی نہیں دیتی۔ اگر ہمیں اللہ کا شکرادا کرنے کی عادت نہ ہو تو ہمیں انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کی بھی عادت نہیں پڑتی۔ اگر ہمیں خالق کے احسانوں کو یاد رکھنے کی عادت نہ ہو تو ہم کسی مخلوق کے احسان کو بھی یاد رکھنے کی عادت نہیں سیکھ سکتے۔”
سالار نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ ناشکری کیا ہوتی ہے، کوئی اس سے زیادہ اچھی طرح نہیں جان سکتا تھا۔ اس نے ایک بارپھر آنکھیں کھول کر ڈاکٹر سید سبط علی کو دیکھا۔
پورے ایک گھنٹے کے بعد انہوں نے اپنا لیکچر ختم کیا، کچھ لوگوں نے ان سے سوال کئے پھر لوگ باری باری اٹھ کر جانے لگے۔
باہر سڑک پر لوگ اپنی گاڑیوں پر بیٹھ رہے تھے، وہ بھی اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ رات اب گہری ہورہی تھی۔ سالار کے کانوں میں ابھی بھی ڈاکٹر سبط علی کی باتیں گونج رہی تھیں۔ فرقان گاڑی اسٹارٹ کرکے واپسی کا سفر شروع کرچکا تھا۔
سات دن پہلے وہ فرقان نامی کسی شخص سے واقف تک نہیں تھا اور سات دن میں اس نے اس کے ساتھ تعلقات کی بہت سی سیڑھیاں طے کرلی تھیں۔ اسے حیرت تھی وہ لوگوں کا عادی نہیں تھا۔ کچھ تعلقات اور روابط اوپر کہیں طے کئے جاتے ہیں۔ کس وقت… کون کسے… کہاں… کس لئے ملے گا اور زندگی میں کیا تبدیلی لے آئے گا یہ سب۔
وہ صرف ایک دن کے لئے لاہور آیا تھا، مگر وہ پاکستان میں اپنے قیام کے باقی دن اسلام آباد کے بجائے لاہور میں ہی رہا اور باقی کے دن وہ ہر روز فرقان کے ساتھ ڈاکٹر سبط علی کے پاس جاتا رہا۔ وہ ایک دن بھی ان سے براہ راست نہیں ملا۔ صرف ان کا لیکچر سنتا اور اٹھ کر آجاتا۔
ڈاکٹر سبط علی کی زندگی کا بڑا حصہ مختلف یورپی ممالک کی یونیورسٹیز میں اسلامک اسٹڈیز اور اسلامک ہسٹری کی تعلیم دیتے گزرا تھا۔ پچھلے دس بارہ سال سے وہ پاکستان میں یہاں کی ایک یونیورسٹی سے وابستہ تھے اور فرقان تقریباً اتنے ہی عرصہ سے انہیں جانتا تھا۔
جس دن اسے لاہور سے اسلام آباد اور پھر وہاں سے واپس واشنگٹن جانا تھا اس رات پہلی بار وہ لیکچر کے ختم ہونے کے بعد فرقان کے ساتھ وہاں ٹھہرگیا۔ باری باری تمام لوگ کمرے سے نکل رہے تھے۔ ڈاکٹر سبط علی کھڑے تھے اور کچھ لوگوں سے الوداعی مصافحہ کررہے تھے۔
فرقان اس کے ساتھ ڈاکٹر سبط علی کی طرف بڑھ آیا۔
ڈاکٹر سبط علی کے چہرے پر فرقان کو دیکھ کر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ وہ کمرے میں موجود آخری آدمی کو رخصت کررہے تھے۔
”کیسے ہیں آپ فرقان صاحب!” انہوں نے فرقان کو مخاطب کیا۔”بڑے دنوں کے بعد رکے آپ یہاں پر۔”
فرقان نے کوئی وضاحت دی پھر سالار کا تعارف کروایا۔
”یہ سالار سکندر ہیں، میرے دوست ہیں۔”
سالار نے اپنا نام سننے پر انہیں یک دم چونکتے دیکھا اور پھر وہ کچھ حیران ہوئے مگر اگلے ہی لمحہ ان کے چہرے پر ایک بار پھر پہلے والی مسکراہٹ تھی۔ فرقان اب اس کا تفصیلی تعارف کروارہا تھا۔
”آئیے بیٹھئے۔” ڈاکٹر سبط علی نے فرشی نشست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ فرقان اور وہ ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئے۔ وہ فرقان کے ساتھ اس کے پروجیکٹ کے حوالے سے بات کررہے تھے۔ سالار خاموشی سے باری باری ان دونوں کے چہرے دیکھتا رہا۔ گفتگو کے دوران ہی ان کا ملازم اندر آیا اور انہوں نے اسے کھانا لانے کے لئے کہا۔
ملازم نے اس کمرے میں دسترخوان بچھاکر کھانا لگادیا۔ فرقان یقینا پہلے بھی وہاں کئی بار کھانا کھاتا رہا تھا۔
وہ جب ہاتھ دھوکر کھانا کھانے کے لئے واپس کمرے میں پہنچا اور دسترخوان پر بیٹھا تو ڈاکٹر سبط علی نے اچانک اسے مخاطب کیا۔
”آپ مسکراتے نہیں ہیں سالار؟” وہ ان کے سوال سے زیادہ سوال کی نوعیت پر گڑبڑایا۔ کچھ ہونق سا وہ انہیں دیکھتا رہا۔
”اس عمر میں اتنی سنجیدگی تو کوئی بہت مناسب بات نہیں۔” سالار کچھ حیرانی سے مسکرایا، پندرہ بیس منٹ کی ملاقات میں وہ یہ کیسے جان گئے تھے کہ وہ مسکرانے کا عادی نہیں رہا تھا۔ وہ فرقان کی طرف دیکھ کر کچھ جھینپا، پھر اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ یہ آسان کام ثابت نہیں ہوا۔
”کیا میرا چہرہ میرے ہر احساس کو ظاہر کرنے لگا ہے کہ پہلے فرقان اور اب ڈاکٹر سبط علی مجھ سے میری سنجیدگی کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔” اس نے سوچا۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں اتنا سنجیدہ نہیں ہوں۔” اس نے ڈاکٹر سبط علی سے زیادہ جیسے خود کو بتایا۔
”ممکن ہے ایسا ہی ہو۔” ڈاکٹر سبط علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کھانے کے بعد دونوں کو رخصت کرنے سے پہلے وہ اندر گئے۔ واپسی پر ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی وہ کتاب انہوں نے سالار کی طرف بڑھادی۔
”آپ کا تعلق معاشیات سے ہے، کچھ عرصے پہلے میں نے اسلامی اقتصادیات کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے۔ مجھے خوشی ہوگی اگر آپ اسے پڑھیں تاکہ آپ کو اسلامی اقتصادی نظام کے بارے میں بھی کچھ واقفیت حاصل ہو۔”
سالار نے کتاب ان کے ہاتھ سے پکڑلی، کتاب پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اس نے مدھم آواز میں ڈاکٹر سبط علی سے کہا۔
”میں واپس جاکر بھی آپ سے رابطہ رکھنا چاہتا ہوں۔ میں آپ سے صرف اقتصادیات کے بارے میں نہیں سیکھنا چاہتا اور بھی بہت کچھ جاننا چاہتا ہوں۔” ڈاکٹر سبط علی نے نرمی سے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
٭…٭…٭
”ڈاکٹر سبط علی صاحب کے پاس جتنے لوگ بھی آتے ہیں وہ کسی نہ کسی حوالے سے کمیونٹی ورک سے وابستہ ہیں۔ کچھ پہلے ہی اس کام میں انوالو ہوتے ہیں اور جو پہلے نہیں ہوتے وہ بعد میں ہوجاتے ہیں۔”
ڈاکٹر سبط علی سے پہلی ملاقات کے بعد فرقان نے اسے بتایا۔
”ان کے پاس آنے والے زیادہ تر لوگ بہت کوالفائیڈ ہیں۔ بڑے بڑے اداروں سے وابستہ ہیں۔ میں بھی اتفاقاً ہی ان کے پاس جانا شروع ہوا۔ لندن میں ایک بار ان کا ایک لیکچر سننے کا اتفاق ہوا پھر پاکستان آنے پر ایک دوست کے توسط سے ان سے ملنے کا موقع ملا اور اس کے بعد سے میں ان کے پاس جارہا ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کے بارے میں میرے نظریات پہلے کی نسبت اب بہت صاف اور واضح ہیں۔ ذہنی طورپر بھی میں پہلے کی بہ نسبت اب زیادہ مضبوط ہوگیا ہوں تم اس پروجیکٹ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ اس پروجیکٹ میں میری بہت زیادہ مدد ڈاکٹر سبط علی کے پاس آنے والے لوگوں نے بھی کی۔ بہت ساری سہولیات انہیں لوگوں نے فراہم کیں اور میں یہاں اس قسم کے پروجیکٹ پر کام کرنے والا واحد نہیں ہوں اور ہم ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اس مدد کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، مگر مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ ہم اس ملک کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔”
سالار نے اس کے آخری جملے پر عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا۔” یہ اتنا آسان تو نہیں ہے۔” ”ہاں ہم جانتے ہیں یہ آسان کام نہیں ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں یہ سب ہماری زندگیوں میں نہیں ہوگا مگر ہم وہ بنیاد ضرور فراہم کردینا چاہتے ہیں، جن پر ہمارے بچے اور ان کے بعد والی نسل تعمیر کرتی ہے۔ وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہ مارتی رہیں۔ کم از کم مرتے ہوئے ہم لوگوں کو یہ احساس تو نہیں ہوگا کہ ہم لوگوں نے تماشائیوں جیسی زندگی گزاردی۔ دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح ہم بھی صرف تنقید کرتے رہے۔ خرابیوں پر انگلیاں اٹھاتے رہے۔ اسلام کو صرف مسجد کی حدودتک ہی محدود کرکے بیٹھے رہے۔ اپنے اور دوسروں کی زندگیوں میں ہم نے کوئی تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی۔”
وہ حیرانی سے فرقان کا چہرے دیکھتا رہا تھا۔ امامہ ہاشم، جلال انصر، سعد کے بعد وہ ایک اور مسلمان کودیکھ رہا تھا۔ ایک اور پریکٹیکل مسلمان کو، وہ مسلمانوں کی ایک اور قسم سے آگاہ ہورہا تھا۔ وہ مسلمان جو دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے، جو دونوں انتہاؤں کے بیچ کے راستے کو پہچانتے تھے اور ان پر چلنے کا طریقہ جانتے تھے وہ بری طرح الجھا۔
”تم نے میری آفر کے بارے میں کیا سوچا ہے؟” اس نے فرقان سے کہا۔
”میں نے تمہیں بتایا تھا میں تم سے کیا چاہتا ہوں۔ تمہاری ضرورت ہے اس ملک کو۔ یہاں کے لوگوں کو، یہاں کے اداروں کو، تمہیں یہاں آکر کام کرنا چاہئے۔”
سالار اس بات پر ہلکے سے ہنسا”تم کبھی اس ٹاپک کو نہیں چھوڑسکتے۔ اچھا میں اس پر سوچوں گا۔ پھر تم میری آفر کے بارے میں کیا کہوگے۔”
”میرے گاؤں کے قریب ہی ایک اور گاؤں ہے… اسی حالت میں جس حالت میں دس پندرہ سال پہلے میرا گاؤں تھا۔ میں آج کل کوشش کررہا تھا کہ کوئی وہاں پر اسکول بنادے۔ پرائمری اسکول تو گورنمنٹ کا وہاں ہے مگر آگے کچھ نہیں ہے۔ اگر تم وہاں اسکول شروع کرو تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ میں اور میری فیملی تمہاری غیر موجودگی میں اسے دیکھیں گے۔ ہم اسے قائم کرنے میں بھی تمہاری مدد کریں گے مگر پھر تمہیں خود ہی اسے چلانا ہوگا۔ صرف روپیہ فراہم کردینا کافی نہیں ہوگا۔” فرقان نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔
”کل چل سکتے ہو، میرے ساتھ وہاں؟” سالار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”تمہاری تو فلائٹ ہے کل صبح۔”
”نہیں میں دودن کے بعد چلا جاؤں گا۔ ایک بار میں چلاگیا تو فوری طورپر میرے لئے واپس آنا ممکن نہیں رہے گا اور میں جانے سے پہلے یہ کام شروع کردینا چاہتا ہوں۔”
اس نے فرقان سے کہا۔ فرقان نے سرہلادیا۔
٭…٭…٭
وہ اس رات کی فلائٹ سے اسلام آباد گئے اور پھر رات کوہی فرقان کے گاؤں چلے گئے۔ رات وہاں قیام کرنے کے بعد صبح فجر کے وقت فرقان کے ساتھ وہ اس گاؤں میں گیا۔ دوپہر بارہ بجے تک وہ اس گاؤں کے لوگوں سے ملتے اور وہاں پھرتے رہے۔ وہاں موجود پرائمری اسکول کو دیکھ کر سالار کو یقین نہیں آیا تھا۔ وہ اپنی حالت سے کچھ بھی لگتا تھا مگر اسکول نہیں۔ فرقان کو اس کی طرح کوئی شاک نہیں لگا تھا، وہ وہاں کے حالات سے پہلے ہی بہت اچھی طرح باخبر تھا۔ وہ سال میں تین چار مرتبہ مختلف دیہات میں میڈیکل کیمپس لگوایا کرتا تھا اور وہ دیہات کی زندگی اور وہاں کی حالت سے سالار کی نسبت بہت اچھی طرح واقف تھا۔ فرقان کو شام کی فلائٹ سے واپس لاہور جانا تھا۔ وہ لوگ دوبجے کے قریب وہاں سے اسلام آباد جانے کے لئے روانہ ہوگئے۔
٭…٭…٭