”یہ بہت بڑھ جائے گا، تم بیس سال بعد یہاں آکر دیکھوگے تو یہ گاؤں تمہیں ایک مختلف گاؤں ملے گا۔ جتنی غربت تم نے آج یہاں دیکھی ہے وہ تب نہیں ہوگی۔ ان کا”کل” آج سے مختلف ہوگا۔”
فرقان کے والد نے بے حد اعتماد سے کہا۔ سالار چپ چاپ انہیں دیکھتا رہا۔
سہ پہر کے قریب اسے فرقان نے ڈسپنری سے فون کیا۔ کچھ دیر رسمی گفتگو کے بعد اس نے سالار سے کہا۔
”اب تمہیں واپس اسلام آباد کے لئے نکل جانا چاہئے۔ میں چاہتا تھا کہ خود تمہیں واپس چھوڑ کر آؤں مگر یہاں بہت رش ہے جو لوگ دوسرے گاؤں سے آتے ہیں اگر میں انہیں آج چیک نہیں کرسکا تو انہیں بہت زحمت ہوگی، اس لئے میں اپنے ڈسپنر کو بھجورہا ہوں۔ وہ گاڑی میں تمہیں اسلام آباد چھوڑ آئے گا۔” اس نے پرگرام طے کیا۔
”اوکے۔” سالار نے کہا۔
”جانے سے پہلے ڈسپنری آکر مجھ سے مل لینا۔” اس نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
سالار نے ایک بارپھر فرقان کے والدین کے ساتھ چائے پی۔ گاڑی تب تک وہاں آچکی تھی، پھر وہ وہاں سے گاڑی میں فرقان کے پاس چلاگیا۔ صبح والی بھیڑ اب کم ہوچکی تھی۔ وہاں اب صرف پچیس تیس کے قریب لوگ تھے۔ فرقان ایک بوڑھے آدمی کا معائنہ کررہا تھا۔ سالار کو دیکھ کر مسکرایا۔
”میں دومنٹ میں انہیں چھوڑکر آتا ہوں۔”
اس نے مریض سے کہا اور پھر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ سالار کے ساتھ چلتا ہوا وہ باہر گاڑی تک آیا۔
”ڈیڑھ ہفتہ۔”
”پھر تو دوبارہ ملاقات نہیں ہوسکے گی تم سے کیونکہ میں تو اب اگلے ہی ماہ اسلام آباد اور یہاں آؤں گا لیکن میں تمہیں فون کروں گا، تمہاری فلائٹ کب ہے؟”
سالار نے اس کے سوال کو نظر انداز کیا۔
”ملاقات کیوں نہیں ہوسکتی، میں لاہور آسکتا ہوں، اگر تم انوائٹ کرو۔” فرقان کچھ حیران انداز میں مسکرایا۔
سالار اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا۔
سالار نہیں جانتا تھا اسے کون سی چیز اس طرح اچانک فرقان کے اتنے قریب لے آئی تھی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ فرقان کو کیوں اتنا پسند کررہا تھا۔ وہ اس کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
فرقان کے ساتھ اس کا گاؤں دیکھنے کے چار دن بعد وہ لاہور گیا۔ وہ وہاں ایک دن کے لئے گیا تھا اور اس نے فرقان کو فون پر اس کی اطلاع دی۔ فرقان نے اسے ائیرپورٹ پرپک کرنے اور اپنے ساتھ رہنے کی آفر کی، مگر اس نے انکار کردیا۔
وہ فرقان سے طے شدہ پروگرام کے مطابق چار بجے کے قریب اس کے گھر پہنچا۔ وہ ایک اچھے علاقے میں ایک عمارت کے گراؤنڈ فلور کے ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔ دروازے کے ساتھ موجود بیل دبا کر وہ خاموشی سے کھڑا ہوگیا۔ اندر سے یک دم کسی بچے کے بھاگنے کی آواز آئی۔ ایک چار پانچ سال کی بچی ڈور چین کی وجہ سے دروازے میں آنے والی جھری سے اس کو دیکھ رہی تھی۔
”آپ کو کس سے ملنا ہے؟” سالار اسے دیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکرایا تھا مگر اس بچی کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں آئی۔ وہ بڑی سنجیدگی سے سالار سے پوچھ رہی تھی۔
”بیٹا! مجھے آپ کے پاپا سے ملنا ہے۔”
اس بچی اور فرقان کے چہرے میں اتنی مماثلت تھی کہ اس کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ فرقان کی بیٹی تھی۔
”پاپا اس وقت کسی سے نہیں ملتے۔” اسے بڑی سنجیدگی سے اطلاع دی گئی۔
”مجھ سے مل لیں گے۔” سالار نے قدرے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
”آپ سے کیوں مل لیں گے؟” فوراً جواب آیا۔
”کیونکہ میں ان کا دوست ہوں، آپ انہیں جاکر بتائیں گی کہ سالار انکل آئے ہیں تو وہ مجھ سے مل لیں گے۔” سالار نے نرمی سے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ اس کی مسکراہٹ سے متاثر نہیں ہوئی۔
”لیکن آپ میرے انکل تو نہیں ہیں۔”
سالار کو بے اختیار ہنسی آگئی۔
”آپ نہ ہنسیں۔” وہ بے اختیار بگڑی۔ سالار پنجوں کے بل اس کے مقابل بیٹھ گیا۔
”اچھا میں نہیں ہنستا۔” اس نے چہرے کی مسکراہٹ کو چھپایا۔
”آپ اس فراک میں بہت اچھی لگ رہی ہیں۔” وہ اب کچھ قریب سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔ اس کی تعریف نے دروازے کی جھری میں سے جھانکتی ہوئی محترمہ کے تاثرات اور موڈ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
”لیکن آپ مجھے اچھے نہیں لگے۔”
اس کے جملے سے زیادہ اس کے تاثرات نے سالار کو محظوظ کیا۔ وہ اب کچھ دور سے فلیٹ کے اندر کسی کے قدموں کی آواز سن رہا تھا۔ کوئی دروازے کی طرف ہی آرہا تھا”کیوں، میں کیوں اچھا نہیں لگا؟” اس نے مسکراتے ہوئے اطمینان سے پوچھا۔
”بس نہیں اچھے لگے۔” اس نے ناگواری سے گردن کو جھٹکا۔
”نام کیا ہے آپ کا؟” وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”امامہ!” سالار کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ اس نے دروازے کی جھری میں سے امامہ کے عقب میں فرقان کو دیکھا۔ وہ امامہ کو اٹھاتے ہوئے دروازہ کھول رہا تھا۔
سالار کھڑا ہوگیا۔ فرقان نہا کر نکلا تھا، اس کے بال گیلے اور بے ترتیب تھے۔ سالار نے مسکرانے کی کوشش کی وہ فوری طورپر کامیاب نہیں ہوسکا۔ فرقان نے اس سے ہاتھ ملایا۔
”میں تمہارا ہی انتظار کررہا تھا۔” وہ اس کے ساتھ اندر جاتے ہوئے بولا۔ وہ دونوں اب ڈرائنگ روم میں داخل ہورہے تھے۔
امامہ، فرقان کی گود میں چڑھی ہوئی تھی اسے مسلسل کان میں کچھ بتانے کی کوشش کررہی تھی، جسے فرقان مسلسل نظر انداز کررہا تھا۔
”انکل سالار سے ملی ہیں آپ!” فرقان نے سالار کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے امامہ سے پوچھا۔
وہ اب خود بھی صوفے پر بیٹھ رہا تھا۔
”یہ مجھے اچھے نہیں لگتے۔” اس نے بات تک اپنی ناپسندیدگی پہنچائی۔
”بہت بری بات ہے امامہ! ایسے نہیں کہتے۔” فرقان کے سرزنش کرنے والے انداز میں کہا۔
”آپ انکل کے پاس جائیں اور ان سے ہاتھ ملائیں۔”
اس نے امامہ کو نیچے اتار دیا۔ وہ سالار کی طرف جانے کے بجائے یک دم بھاگتے ہوئے باہر چلی گئی۔
”حیرانی کی بات ہے کہ اسے تم اچھے نہیں لگے، ورنہ اس کو میرا ہر دوست اچھا لگتا ہے۔ آج اس کا موڈ بھی کچھ آف ہے۔” فرقان نے مسکراتے ہوئے وضاحت کی۔
”یہ نام کا اثر ہے مجھے حیرانی ہوتی اگر اسے میں اچھا لگتا۔” سالار نے سوچا۔
چائے پیتے ہوئے وہ دونوں آپس میں باتیں کرتے رہے اور باتوں کے دوران سالار نے اس سے کہا۔
”ایک دو ہفتے تک تم لوگوں کی ڈسپنری میں ڈاکٹر آجائے گا۔” اس نے سرسری انداز میں کہا۔
”یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔” فرقان یک دم خوش ہوا۔
”اور اس بار وہ ڈاکٹر وہاں رہے گا۔ اگر نہ رہے تو مجھے بتانا۔”
”میری سمجھ میں نہیں آتا میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں۔ ڈسپنری میں ایک ڈاکٹر کی دستیابی سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔”
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔” وہ رکا۔” وہاں جانے سے پہلے مجھے توقع نہیں تھی کہ تم اور تمہاری فیملی اس کام کو اس اسکیل پر اور اتنے آرگنائزڈ انداز میں کررہے ہو میں تم لوگوں کے کام سے درحقیقت بہت متاثر ہوا ہوں اور میری آفر ابھی بھی وہی ہے۔ میں اس پروجیکٹ کے سلسلے میں تمہاری مدد کرنا چاہوں گا۔”
اس نے سنجیدگی سے فرقان سے کہا۔
”سالار! میں نے تم سے پہلے بھی کہا ہے کہ میں چاہوں گا، تم اسی طرح کا کوئی پروجیکٹ وہاں کسی دوسرے گاؤں میں شروع کرو۔ تمہارے پاس مجھ سے زیادہ ذرائع ہیں اور تم مجھ سے زیادہ اچھے طریقے سے یہ پروجیکٹ چلاسکتے ہو۔”
”میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا میرا مسئلہ وقت ہے، میں تمہارے جتنا وقت نہیں دے سکتا اور پھر میں پاکستان میں رہ بھی نہیں سکتا۔ تمہاری طرح میرے فیملی ممبرز بھی اس معاملے میں میری مدد نہیں کرسکتے۔” سالار نے اسے اپنا مسئلہ بتایا۔
”چلو اس پر بعد میں بات کریں گے، ابھی تو تم چائے پیو پھر میں تمہیں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔” فرقان نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”کہاں؟”
”یہ تو میں تمہیں راستے میں ہی بتاؤں گا۔” وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
٭…٭…٭
”میں وہاں جاکر کروں گا کیا؟” سالار نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے فرقان سے پوچھا۔
”وہی جو میں کرتا ہوں۔” وہ سگنل پر گاڑی روکتے ہوئے بولا۔
”اور تم وہاں کیا کرتے ہو؟”
”یہ تم وہاں پہنچ کر دیکھ لینا۔”
فرقان اسے کسی ڈاکٹر سید سبط علی کے پاس لے کر جارہا تھا جن کے پاس وہ خود بھی جایا کرتا تھا۔ وہ کوئی مذہبی عالم تھے اور سالار کو مذہبی علماء سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ پچھلے چند سالوں میں اتنے مذہبی علماء کے اصلی چہرے دیکھ چکا تھا کہ وہ اب مزید ان جگہوں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”فرینکلی اسپیکنگ فرقان! میں اس ٹائپ کا ہوں نہیں جس ٹائپ کا تم مجھے سمجھ رہے ہو۔” اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرقان کو مخاطب کیا۔
”کس ٹائپ کے؟” فرقان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
”یہی پیری مریدی… یا بیعت وغیرہ… یا جو بھی تم سمجھ لو۔” اس نے قدرے صاف گوئی سے کہا۔
”اسی لئے تو میں تمہیں وہاں لے جارہا ہوں، تمہیں مدد کی ضرورت ہے؟” سالار نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ سڑک کو دیکھ رہا تھا۔
”کیسی مدد؟”
”اگر کوئی حافظ قرآن رات کو ایک پارہ پڑھے اور پھر بھی نیند لانے کے لئے اسے نیند کی گولیاں کھانی پڑیں تو پھر کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہے۔ کئی سال پہلے مجھے بھی ایک بار بہت ڈپریشن ہوا تھا۔ میرا ذہن بھی بہت الجھ گیا تھا پھر کوئی مجھے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کر گیا تھا۔ آٹھ دس سال ہوگئے ہیں مجھے اب وہاں جاتے۔ تم سے مل کر مجھے احساس ہواکہ تمہیں بھی میری طرح کسی کی مددکی ضرورت ہے، رہنمائی کی ضرورت ہے۔” فرقان نے نرم لہجے میں کہا۔
”تم کیوں میری مدد کرنا چاہتے ہو؟”
”کیونکہ دین کہتا ہے کہ تم میرے بھائی ہو۔” اس نے موڑ موڑتے ہوئے کہا۔ سالار نے گردن سیدھی کرلی۔ وہ اس سے مزید کیا پوچھتا۔
اسے مذہبی علماء سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہر عالم اپنے فرقے کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملانے میں ماہر تھا۔ ہر عالم کو اپنے علم پر غرور تھا۔ ہر عالم کالب لباب یہی ہوتا تھا۔ میں اچھا ہوں، باقی سب برے ہیں۔ میں کامل ہوں، باقی سب نامکمل ہیں۔ ہر عالم کو دیکھ کر لگتا اس نے علم کتابوں سے نہیں، براہِ راست وحی کے ذریعے حاصل کیا ہے جس میں غلطی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ اس نے آج تک ایسا عالم نہیں دیکھا تھا جو اپنے اوپر تنقید سنے اور برداشت بھی کرے۔
سالار خود اہلِ سنت مسلک سے تعلق رکھتا تھا مگر جو آخری چیز وہ کسی سے ڈسکس نہیں کرنا چاہتا تھا وہ مسلک اور فرقہ تھا اور ان مذہبی علماء کے پاس ڈسکس کرنے کے لئے سب سے پہلی چیز مسلک اور فرقہ ہی تھا۔ ان علماء کے پاس جاتے جاتے وہ رفتہ رفتہ ان سے برگشتہ ہوگیا تھا۔ ان کی پوٹلی میں صرف علم بھرا ہوا تھا، عمل نہیں۔ وہ”غیبت ایک گناہ” پر لمبا چوڑا لیکچر دیتے، قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دیتے اور اگلی ہی سانس میں وہ اپنے کسی ہم عصر عالم کا نام لے کر اس کا مذاق اڑاتے، اس کی علمی جہالت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔
وہ اپنے پاس آنے والے ہر ایک کا پورا بائیوڈیٹا جانتے اور پھر اگر وہ بائیوڈیٹا ان کے کام کا ہوتا تو مطالبوں اور سفارشوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوجاتا اور اس بائیوڈیٹا کو وہ اپنے پاس آنے والوں کو متاثر کرنے کے لئے بھی استعمال کرتے کہ ان کے پاس کس وقت، کون آیا تھا۔ کس طرح کون ان کے علم سے فیض یاب ہوا تھا۔ کون بڑا آدمی ہر وقت ان کی جوتیاں سیدھی کرتے رہنے کو تیار رہتا ہے۔ کس نے انہیں گھر بلایا اور کس طرح خدمت کی۔ وہ اب تک جن عالموں کے پاس ایک بار گیا تھا دوبارہ نہیں گیا اور اب فرقان اسے پھر ایک عالم کے پاس لے کر جارہا تھا۔
وہ شہر کے اچھے علاقوں میں سے ایک میں جاپہنچے تھے۔ وہ علاقہ اچھا تھا، مگر بہت پوش نہیں تھا۔ اس سڑک پر پہلے بھی بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ فرقان نے بھی ایک مناسب جگہ پر گاڑی سڑک کے کنارے پارک کردی، پھر وہ گاڑی سے نیچے اترگیا۔ سالار نے اس کی پیروی کی۔ تین چار منٹ چلتے رہنے کے بعد وہ ان بنگلوں میں سے ایک نسبتاً سادہ مگر پر وقار اور چھوٹے بنگلے کے سامنے پہنچ گئے۔ نیم پلیٹ پر ڈاکٹر سید سبطِ علی کا نام تحریر تھا۔ فرقان بلاجھجک اندر داخل ہوگیا۔ سالار نے اس کی پیروی کی۔