”مشکلات کا تم اندازہ نہیں کرسکتے گاؤں میں نہ بجلی تھی، نہ صاف پانی، کچھ بھی نہیں تھا۔ بابا نے پتا نہیں کہاں کہاں بھاگ کر یہ ساری چیزیں منظور کروائیں۔ جب وہاں پرائمرای اسکوب بن گیا، ایک سڑک بھی آگئی، بجلی اور پانی جیسی سہولتیں بھی آگئیں تو گورنمنٹ کو اچانک وہاں ایک اسکول بنانے کا خیال آیا۔ میرے والدین کی خواہش تھی کہ گورنمنٹ ان کے اسکول کو اپنی زیر نگرانی لے لے۔ اس میں اپنے ٹیچرز بھجوائے اور کچھ عرصے کے بعد اس اسکول کو اپ گریڈ کردے، مگر محکمہء تعلیم کے ساتھ چند رابطوں میں ہی بابا کو اندازہ ہوگیا کہ ایسا ہونے کی صورت میں ان کی ساری محنت پر پانی پھرجائے گا۔ بابا وہاں بچوں کو سب کچھ دیتے تھے۔ کتابیں، کاپیاں، یونیفارم اور ایسی کچھ دوسری چیزیں۔ انہوں نے باقاعدہ اس کے لئے فنڈز رکھے ہوئے تھے، مگر تم اندازہ کرسکتے ہو کہ گورنمنٹ کے پاس چلے جانے کے بعد اس اسکول کا کیا حشر ہوتا۔ سب سے پہلے وہ فنڈز جاتے پھر باقی سب کچھ۔ اس لئے بابا خود ہی اس اسکول کو چلاتے رہے۔
محکمہء تعلیم نے وہاں اسکول پھر بھی کھولا مگر وہاں ایک بچہ بھی نہیں گیا پھر ہارمان کر انہوں نے وہ اسکول بند کردیا اور ہمارے اسکول کو اپ گریڈ کردیا۔ بابا کے کچھ دوستوں نے اس سلسلے میں ان کی مدد کی، اسی طرح اس کی اپ گریڈنگ ہوتی گئی۔ میں ان دنوں لندن میں پڑھتا تھا اور میں روپے بچا بچا کر بھیجا کرتا تھا۔ ابھی بھی ہم اس کو اور ترقی دے رہے ہیں، آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی اپنے بچوں کو ہمارے پاس بھجواتے ہیں۔ میں جب پاکستان واپس آیا تو میں نے وہاں ایک باضابطہ قسم کی ڈسپنری قائم کی۔ گاؤں کی آبادی بھی اب بہت بڑھ گئی ہے لیکن گاؤں میں غربت ابھی بھی مکمل طورپر ختم نہیں ہوئی۔ تعلیم سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ گاؤں کے کچھ بچے باہر شہر میں آگے پڑھنے کے لئے جانے لگے ہیں۔ کچھ مختلف ہنر سیکھ رہے ہیں۔ وہ جو غربت کا ایک چکر تھا وہ ختم ہورہا ہے۔ ان کی یہ نسلیں نہیں تو اگلی نسلیں شاید تمہارے اور میرے جیسے تعلیمی اداروں سے اعلیٰ ڈگریز لے کر نکلیں۔ کون کہہ سکتا ہے۔” وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”میں ہر ماہ ایک ویک اینڈ پر گاؤں جاتا ہوں، وہاں دو کمپاؤنڈر ہیں مگر کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ ایک ویک اینڈ پر میں وہاں جاتا ہوں، باقی تین ویک اینڈز پر بھی ہم کسی نہ کسی کو وہاں بھجوادیتے ہیں پھر میں وہاں ہر تین ماہ بعد ایک میڈیکل کیمپ لگواتا ہوں۔”
”اور اس سب کے لئے روپیہ کہاں سے آتا ہے۔”
”شروع میں تو یہ بابا کا روپیہ تھا۔ ان ہی کی زمین پر اسکول بنا، ان کی گریجویٹی سے اس کی تعمیر ہوئی۔ میری امی نے بھی اپنے پاس موجود رقم سے ان کی مدد کی، پھر بابا کے کچھ دوست بھی مالی امداد کرنے لگے۔ اس کے بعد میں اور مہران بھی اس میں شامل ہوگئے پھر میرے کچھ دوست بھی۔ میں اپنی انکم کا ایک خاص حصہ ہر ماہ گاؤں بھجوادیتا ہوں۔ اس سے ڈسپنری بڑے آرام سے چلتی رہتی ہے، جو ڈاکٹرز وہاں مہینے کے تین ویک اینڈز پر جاتے ہیں وہ کچھ چارج نہیں کرتے۔ ان کے لئے یہ سوشل ورک ہے۔ میڈیکل کیمپس بھی اسی طرح کے لگ جاتے ہیں اور اسکول کے پاس اب اپنے اتنے فکسڈ ڈیپازٹس ہوچکے ہیں کہ ان سے آنے والی رقم ٹیچرز کی تنخواہ اور دوسرے اخراجات کے لئے کافی ہوتی ہے۔ ہم چند سالوں میں وہاں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لئے بھی کچھ کام کرنا چاہتے ہیں۔”
”تم کب جارہے ہو وہاں؟”
”میں تو صبح نکل رہا ہوں۔”
”اگر میں تمہارے ساتے جانا چاہوں؟” سالار نے کہا۔
”موسٹ ویلکم… مگر کل تو ولیمہ ہوگا، تم یہاں مصروف ہوگے۔” فرقان نے اسے یاددلایا۔
”ولیمہ تو رات کو ہے، سارا دن تو میں فارغ ہی ہوں گا۔ کیا رات تک واپس پہنچنا مشکل ہوگا؟”
”نہیں، بالکل بھی نہیں۔ تم بہت آسانی سے واپس پہنچ سکتے ہو۔ صرف صبح کچھ جلدی نکلنا پڑے گا۔ اگر تم واقعی وہاں چند گھنٹے گزارنا چاہتے ہو، ورنہ پھر تم واپس آکر خاصے تھک جاؤگے۔” فرقان نے اس سے کہا۔
”میں نہیں تھکوں گا، میں یونیسیف کی ٹیمز کے ساتھ کیسے کیسے علاقوں میں کتنا لمبا سفر کرتا رہا ہوں، تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ میں فجر کے بعد تیار رہوں گا، تم مجھے وقت بتادو۔”
”ساڑھے پانچ۔”
”اوکے، تم گھر سے نکلتے ہوئے مجھے ایک بار موبائل پر کال کرلینا اور دوتین بار ہارن دینا یہاں آکر، میں نکل آؤں گا۔”
اس نے فرقان سے کہا اور پھر خدا حافظ کہتا ہوااندر مڑگیا۔
اگلی صبح فرقان ٹھیک ساڑھے پانچ بجے اس کے گیٹ پر ہارن دے رہا تھا اور سالار پہلے ہی ہارن پر باہر تھا۔
”تم واپس پاکستان کیوں آگئے؟ تم انگلینڈ میں بہت آگے جاسکتے تھے؟” گاڑی شہر سے باہر والی سڑک پر بھاگ رہی تھی۔ انہیں سفر کرتے آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا، جب سالار سے اچانک اس نے پوچھا۔
”انگلینڈ کو میری ضرورت نہیں تھی، پاکستان کو تھی، اس لئے میں پاکستان آگیا۔” فرقان نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔
”وہاں ایک ڈاکٹر فرقان کے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں ایک ڈاکٹر فرقان کے نہ ہونے سے بہت فرق پڑجاتا۔ یہاں میری خدمات کی ضرورت ہے۔” اس نے اپنے آخری جملے پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”مگر وہاں اتنے سالوں میں تم بہت آگے جاسکتے تھے پھر پروفیشنلی بھی تم بہت کچھ سیکھتے۔ فنا نشیلی بھی تم اس پروجیکٹ کے لئے زیادہ روپیہ حاصل کرسکتے تھے، جو تم نے شروع کیا ہوا ہے۔ آفٹرآل، پاکستان میں تم اتنے کامیاب نہیں ہوسکتے۔” سالار نے کہا۔
”اگر کامیابی سے تمہاری مراد پاؤنڈز کی تعداد اور سہولتوں سے ہے تو ہاں، دونوں جگہوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن اگر تمہارا اشارہ علاج کی طرف ہے تو میں یہاں زیادہ لوگوں کو زندگی بانٹ رہا ہوں جو اطمینان ڈاکٹر اپنے صحت یاب ہونے والے مریض کو دیکھ کر حاصل کرتا ہے تم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ انگلینڈ اونکولو جسٹ سے بھرا ہوا ہے۔ پاکستان میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ میں وہاں رہ کر روپے کا ڈھیر بھی یہاں بھجواتا رہتا تو کوئی فرق نہ پڑتا۔ جہاں ایک فرد کی کمی ہوتی ہے وہاں اس فرد سے ہی وہ کمی پوری ہوتی ہے۔ روپیہ یا دوسری کوئی چیز اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ میں بہت قانع ہوں سالار! میری پوری فیملی بہت قانع ہے۔ اگر میں نے کوئی چیز سیکھی ہے تو وہ سب سے پہلے میرے اپنے لوگوں کے کام آنی چاہئے۔ میں اپنے لوگوں کو مرتا چھوڑ کر دوسرے لوگوں کی زندگی نہیں بچاسکتا۔ پاکستان میں کچھ بھی صحیح نہیں ہے، سب کچھ خراب ہے، کچھ بھی ٹھیک نہیں، سہولتوں سے خالی ہاسپٹلز اور حد سے زیادہ برا اور کرپٹ ہیلتھ سسٹم۔ جس برائی اور خامی کا سوچو وہ یہاں ہے مگر میں اس جگہ کو نہیں چھوڑ سکتا۔ ان لوگوں کو نہیں چھوڑسکتا۔ اگر میرے ہاتھ میں شفا ہے تو پھر سب سے پہلے یہ شفا میرے اپنے لوگوں کے حصے میں آنی چاہئے۔”
سالار بہت دیرتک کچھ نہیں بول سکا۔ گاڑی میں یک دم خاموشی چھاگئی تھی۔
”تم نے مجھ سے تو یہ سوال پوچھ لیا کہ میں پاکستان کیوں آگیا، کیا اب میں تم سے یہ سوال پوچھوں کہ تم پاکستان کیوں نہیں آجاتے؟” فرقان نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مسکراتے ہوئے کہا۔
”میں یہاں نہیں رہ سکتا۔” سالار نے بے اختیار کہا۔
”تم پیسے اور سہولتوں کی وجہ سے یہ کہہ رہے ہو؟”
”نہیں، پیسہ یا سہولتیں میرا مسئلہ نہیں ہیں، نہ اب، نہ ہی پہلے کبھی۔ تم میرا فیملی بیک گراؤنڈ جان چکے ہو۔”
”پھر؟”
”پھر… کچھ بھی نہیں۔ بس میں یہاں نہیں آسکتا۔” اس نے قطعی لہجے میں کہا۔
”یہاں تمہاری ضرورت ہے۔”
”کس کو؟”
”اس ملک کو۔”
سالار بے اختیار مسکرایا۔” میں تمہاری طرح کی حب الوطنی نہیں رکھتا۔ میرے بغیر بھی سب کچھ ٹھیک ہے یہاں۔ ایک ڈاکٹر کی اور بات ہے مگر ایک فنانس مینیجر تو کسی کو زندگی اور موت نہیں دے سکتا۔”
”تم جو سروسز وہاں دے رہے ہو، وہ یہاں کے اداروں کو دے سکتے ہو جو کچھ اپنے لیکچرز میں وہاں کی یونیورسٹیز میں سکھارہے ہو، یہاں کی یونیورسٹیز میں سکھا سکتے ہو۔”
اس کا دل چاہا، وہ فرقان سے کہے کہ وہ یہاں آکر کچھ بھی سکھانے کے قابل نہیں رہ سکے گا، مگر وہ خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا۔
”تم نے افریقہ کی غربت، بھوک اور بیماری دیکھی ہے۔ تم یہاں کی غربت، بھوک اور بیماری دیکھوگے تو حیران رہ جاؤگے۔”
”یہاں صورتِ حال ان ملکوں کی طرح خراب نہیں ہے فرقان! یہاں اتنی پسماندگی نہیں ہے۔”
”اسلام آباد کے جس سیکٹر میں تم پلے بڑھے ہو، وہاں رہ کر اردگرد کی زندگی کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ تم اسلام آباد کے قریبی گاؤں میں چلے جاؤ تو تمہیں اندازہ ہوجائے گا کہ یہ ملک کتنا خوشحال ہے۔”
”فرقان! میں تمہارے اس پروجیکٹ میں کچھ کنٹری بیوشن کرنا چاہتا ہوں۔” سالار نے یک دم بات کا موضوع بدلنا چاہا۔
”سالار! میرے اس پروجیکٹ کو فی الحال کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اگر ایسا کوئی کام کرنا چاہتے ہو تو تم خود ایسے ہی کسی گاؤں میں اس طرح کاکام شروع کرو، تمہارے پاس فنڈز کی کمی نہیں ہوگی۔”
”میرے پاس وقت نہیں ہے، میں امریکہ میں بیٹھ کر یہ سب کچھ نہیں چلا سکتا۔ تم اگر یہ چاہتے ہو کہ کسی دوسرے گاؤں میں بھی کوئی اسکول قائم کیا جائے تو میں اسے سپورٹ کرنے کو تیار ہوں۔ میرے لئے ذاتی طورپر وقت دینا مشکل ہے۔”
فرقان اس بار خاموش رہا۔ شاید اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ سالار اب اس کے اس اصرار پر کچھ جھنجھلا رہا تھا۔ بات کا موضوع ایک بار پھر فرقان کے گاؤں کی طرف مڑگیا۔
وہ دن سالار کی زندگی کے یادگار ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ وہ اس اسکول کو دیکھ کر واقعی بہت متاثر ہوا تھا مگر اس سے بھی زیادہ متاثر وہ اس ڈسپنری کو دیکھ کر ہوا تھا جہاں وہ گیا تھا۔ اسے ایک چھوٹا ہاسپٹل کہنا زیادہ بہتر تھا۔ ڈاکٹر کے نہ ہونے کے باوجود وہ بڑے منظم طریقے سے چلایا جارہا تھا۔ اس دن فرقان کی آمد متوقع تھی اور اس کے انتظار میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی فرقان آتے ہی مصروف ہوگیا۔ ہاسپٹل کا احاطہ مریضوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہاں ہر عمر اور ہر طرح کے مریض تھے۔ نوزائیدہ بچے، عورتیں، بوڑھے، نوجوان۔
سالار احاطے میں لاشعوری طورپر چہل قدمی کرتا رہا۔ وہاں موجود چند لوگوں نے اسے بھی ڈاکٹر سمجھا اور اس کے قریب چلے آئے۔ سالار ان سے بات چیت کرنے لگا۔
زندگی میں پہلی بار وہ کینسر کے ایک اسپیشلسٹ کو ایک فزیشن کے طورپر چیک اپ کرتے اور نسخے لکھتے دیکھ رہا تھا اور اس نے اعتراف کیا۔ اس نے زندگی میں فرقان سے اچھا ڈاکٹر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ بے حد پروفیشنل اور بے حد نرم مزاج تھا۔ اس تمام عمل میں اس کے چہرے کی مسکراہٹ ایک لمحہ کے لئے بھی غائب نہیں ہوئی تھی۔ سالار کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ کو کسی چیز کے ساتھ چپکایا ہوا تھا، کچھ وقت گزرنے کے بعد اس نے سالار کو ایک آدمی کے ساتھ اسکول بھجوادیا تھا، وہ وہاں اس کے والدین سے ملا۔
وہ اس کی آمد سے پہلے ہی باخبر تھے، یقینا فرقان نے ان کو فون پر بتادیا تھا وہ ان کے ساتھ اسکول میں پھر تا رہا۔ اسکول کی عمارت اس کی توقعات کے برعکس بہت وسیع اور بہت اچھی بنی ہوئی تھی۔ اسے وہاں موجود بچوں کی تعداد دیکھ کر بھی حیرت ہورہی تھی۔
وہاں کچھ گھنٹے رکنے کے بعد وہ ان دونوں کے ساتھ ان کی حویلی میں آگیا، حویلی کے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بے اختیار اس کا دل خوش ہوا تھا۔ اسے اس گاؤں میں اس قسم کے شاندار لان کی توقع نہیں تھی۔ وہاں پودوں کی بھرمار تھی مگر بے ترتیبی نہیں تھی۔
”بہت شاندار لان ہے، بہت آرٹسٹک۔” وہ تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکا۔
”یہ شکیل صاحب کا شوق ہے۔” فرقان کی امی نے کہا۔
”میرا اور نوشین کا۔” فرقان کے والد نے اضافہ کیا۔
”نوشین؟” سالار نے سوالیہ انداز میں کہا۔
”فرقان کی بیوی… یہ آرٹسٹک ٹچ اسی کا ہے۔” انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”فرقان نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی فیملی لاہور میں ہوتی ہے۔” سالار کو یاد تھا۔
”ہاں، وہ لوگ لاہور میں ہی ہوتے ہیں مگر فرقان مہینے میں ایک ویک اینڈ یہاں گزارتا ہے پھر وہ اپنی فیملی بھی یہاں لاتا ہے۔ یہ سلائیڈز اس کے بچوں کے لئے لگوائی ہیں۔ نوشین بھی ڈاکٹر ہے۔ ابھی بچے چھوٹے ہیں، اس لئے پریکٹس نہیں کرتی مگر جب یہاں آتی ہے تو فرقان کے ساتھ ڈسپنری جاتی ہے۔ اس بار وہ اپنے بھائی کی شادی میں مصروف تھی، اس لئے فرقان کے ساتھ نہیں آسکی۔” وہ ادھر ادھر نظریں دوڑاتا ان کی باتیں سنتا رہا۔
وہ ان کے ساتھ لنچ کرنے کے لئے گھر پر آیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ کچھ دیرتک فرقان بھی آجائے گا مگر جب کھانا لگنا شروع ہوگیا تو اس نے فرقان کے بارے میں پوچھا۔
”وہ دوپہر کا کھانا یہاں نہیں کھاتا۔ صرف ایک سینڈوچ اور چائے کا کپ لیتا ہے۔ اس میں بھی پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگتے۔ اس کے پاس مریض اتنے ہوتے ہیں کہ وہ شام تک بالکل فارغ نہیں ہوتا۔ کھانا وانا بالکل بھول جاتا ہے۔”
فرقان کی امی نے اس سے کہا۔ وہ ان کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کھانا کھانے لگا۔ فرقان کے والد فنانس ڈویژن میں ہی کام کرتے رہے تھے اور بیسویں گریڈ میں ریٹائر ہوئے تھے۔ یہ جان کر کہ سالار کا تعلق بھی فنانس سے ہی تھا۔ ان کے جوش میں کچھ اضافہ ہوگیا تھا۔ سالار کو ان سے باتیں کرتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا۔ سالار نے ان سے اس اسکول کے حوالے سے بات کی۔
”اسکول کے لئے ہمیں فی الحال کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پاس خاصے فنڈز ہیں۔ فرقان کا ایک دوست ایک نیا بلاک بھی بنوا رہا ہے بلکہ بن چکا ہے، تم نے تو دیکھا ہی ہے۔ ہاں، تم اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو ڈسپنری کے لئے کرو۔ ہمیں ایک مستقل ڈاکٹر کی ضرورت ہے اور ہم اس کے لئے ہیلتھ منسٹری میں بہت دفعہ درخواستیں دے چکے ہیں۔ فرقان نے اپنے تعلقات بھی استعمال کئے ہیں مگر کوئی بھی ڈاکٹر یہاں مستقل طورپر آکر رہنے کو تیار نہیں اور ہمیں ایک ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے۔ تم نے مریضوں کی تعداد تو دیکھی ہی ہوگی۔ ایک قریبی گاؤں میں ایک ڈسپنری اور ڈاکٹر ہے، مگر ڈاکٹر مستقل چھٹی پر ہے اور اگلا ڈاکٹر بھی آنے سے پہلے ہی چھٹی پر چلا جاتا ہے۔”
”میں اس سلسلے میں جو کچھ کرسکا ضرور کروں گا لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس اسکول کے لئے بھی کچھ کروں۔ میں واپس جانے کے بعد کوشش کروں گا کہ آپ کو یونیسکو کی طرف سے کسی این جی اوکے ذریعے ہرسال کچھ گرانٹ بھی ملتی رہے۔”
”لیکن ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب کچھ جو تم نے دیکھا ہے یہ سب ہم لوگوں نے خود کیا ہے۔ ہماری فیملی نے، رشتہ داروں نے، فیملی فرینڈزنے، میرے واقف کاروں نے، میرے بچوں کے دوستوں نے۔ ہمیں کبھی کسی حکومتیں یا بین الاقوامی ایجنسی کی گرانٹ کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ کب تک یونیسکوآکر ہمارے لوگوں کی بھوک، جہالت اور بیماری ختم کرتی رہے گی۔ جو کام ہم اپنے وسائل سے کرسکتے ہیں وہ ہمیں اپنے وسائل سے ہی کرنے چاہئیں۔”
”میں صرف یہ چاہتا تھا کہ آپ اس پروجیکٹ کو اور بڑھائیں۔” سالار بے اختیار بولتے ہوئے لڑکھڑایا۔