فرقان سے سالار کی پہلی ملاقات امریکہ سے پاکستان آتے ہوئے فلائٹ کے دوران ہوئی۔ وہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ امریکہ میں ڈاکٹرز کی کسی کانفرنس میں شرکت کرکے واپس آرہا تھا جبکہ سالار سکندر اپنی بہن انیتا کی شادی میں شرکت کے لئے پاکستان آرہا تھا۔ اس لمبی فلائٹ کے دوران دونوں کے درمیان ابتدائی تعارف کے بعد گفتگو کا سلسلہ تھما نہیں۔
فرقان، عمر میں سالار سے کافی بڑا تھا، وہ پینتیس سال کا تھا لندن اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد وہ واپس پاکستان آگیا تھا اور وہاں ایک ہاسپٹل میں کام کررہا تھا وہ شادی شدہ تھا اور اس کے دو بچے بھی تھے۔
چند گھنٹے آپس میں گفتگو کرتے رہنے کے بعد فرقان اور وہ سونے کی تیاری کرنے لگے۔ سالار نے معمول کے مطابق اپنے بریف کیس سے سلیپنگ پلز کی ایک گولی پانی کے ساتھ نگل لی۔ فرقان نے اس کی اس تمام کارروائی کو خاموشی سے دیکھا۔ جب اس نے بریف کیس بند کرکے دوبارہ رکھ دیا تو فرقان نے کہا۔
”اکثر لوگ فلائٹ کے دوران سلپینگ پلز کے بغیر نہیں سوسکتے۔”
سالار نے گردن موڑکر اسے دیکھا اور کہا۔
”میں سلیپنگ پلز کے بغیر نہیں سوسکتا۔ فلائٹ میں ہوں یا نہ ہوں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔”
”سونے میں مشکل پیش آتی ہے؟” فرقان کو ایک دم کچھ تجسّس ہوا۔
”مشکل؟” سالار مسکرایا۔” میں سرے سے سوہی نہیں سکتا۔ میں سلیپنگ پلز لیتا ہوں اور تین چار گھنٹے سولیتا ہوں۔”
”انسو مینیا؟” فرقان نے پوچھا۔
”شاید، میں نے ڈاکٹر سے چیک اپ نہیں کروایا مگر شاید یہ وہی ہے۔” سالار نے قدرے لاپروائی سے کہا۔
”تمہیں چیک اپ کروانا چاہئے تھا، اس عمر میں انسومینیا… یہ کوئی بہت مگر صحت مند علامت نہیں ہے۔ میرا خیال ہے تم کام کے پیچھے جنونی ہوچکے ہو اور اسی وجہ سے تم نے اپنی سونے کی نارمل روٹین کو خراب کرلیا ہے۔”
فرقان اب کسی ڈاکٹر کی طرح بول رہا تھا۔ سالار مسکراتے ہوئے سنتا رہا۔ وہ اسے نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ اگر رات دن مسلسل کام نہ کرے تو وہ اس احساسِ جرم کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا تھا جسے وہ محسوس کرتا ہے۔ وہ اسے یہ بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ سلیپنگ پلز کے بغیر سونے کی کوشش کرے تو وہ امامہ کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ اس حدتک کہ اسے اپنا سردرد سے پھٹتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔
”کتنے گھنٹے کام کرتے ہو ایک دن میں؟” فرقان اب پوچھ رہا تھا۔
”اٹھارہ گھنٹے، بعض دفعہ بیس۔”
”مائی گڈنیس! اور کب سے؟”
”دوتین سال سے۔”
”اور تب ہی سے نیند کا مسئلہ ہوگا تمہیں، میں نے ٹھیک اندازہ لگایا۔ تم نے خود اپنی روٹین خراب کرلی ہے۔” فرقان نے اس سے کہا۔” ورنہ اتنے گھنٹے کام کرنے والے آدمی کو تو ذہنی تھکن ہی ایک لمبی اور پرسکون نیند سلادیتی ہے۔”
”یہ میرے ساتھ نہیں ہوتا۔” سالار نے مدھم لہجے میں کہا۔
”یہی تو تمہیں جاننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اگر یہ تمہارے ساتھ نہیں ہوتا تو کیوں نہیں ہوتا۔” سالار اس سے یہ نہیں کہہ سکا کہ وہ وجہ جانتا ہے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد فرقان نے اس سے کہا۔
”میں اگر تمہیں کچھ آیتیں بتاؤں رات کو سونے سے پہلے، توتم پڑھ سکوگے؟”
”کیوں نہیں پڑھ سکوں گا۔” سالار نے گردن موڑکر اس سے کہا۔
”نہیں، اصل میں تمہارے اور میرے جیسے لوگ جو زیادہ پڑھ لیتے ہیں اور خاص طور پر تعلیم مغرب میں حاصل کرتے ہیں وہ ایسی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے یا انہیں پریکٹیکل نہیں سمجھتے۔” فرقان نے وضاحت کی۔
”فرقان! میں حافظ قرآن ہوں۔” سالار نے اسی طرح لیٹے ہوئے پرسکون آواز میں کہا۔
فرقان کو جیسے کرنٹ لگا۔
”میں روز رات کو سونے سے پہلے ایک سپارہ پڑھ کر سوتا ہوں، میرے ساتھ یقین یا اعتماد کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔” سالار نے بات جاری رکھی۔
”میں بھی حافظ قرآن ہوں۔”
فرقان نے بتایا۔ سالار نے گردن موڑ کر مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔ یہ یقینا ایک خوشگوار اتفاق تھا۔ اگرچہ فرقان نے داڑھی رکھی ہوئی تھی مگر سالار کو پھر بھی یہ اندازہ نہیں ہو پایا تھا کہ وہ حافظ قرآن ہے۔
”پھر تو تمہیں اس طرح کا کوئی مسئلہ ہونا ہی نہیں چاہئے۔ قرآن پاک کی تلاوت کرکے سونے والے انسان کو نیند نہ آئے، یہ مجھے کچھ عجیب لگتا ہے۔”
سالار نے فرقان کو بڑبڑاتے سنا۔ وہ اب اپنے حواس کو ہلکا ہلکا مفلوج پارہا تھا۔ نیند اس پر غلبہ پارہی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔
”تمہیں کوئی پریشانی ہے؟” اس نے فرقان کی آواز سنی۔ وہ نیند کی گولیوں کے زیر اثر نہ ہوتا تو مسکراکر انکار کردیتا مگر وہ جس حالت میں تھا اس میں وہ انکار نہیں کرسکا۔
”ہاں، مجھے بہت زیادہ پریشانیاں ہیں۔ مجھے سکون نہیں ہے، مجھے لگتا ہے میں مسلسل کسی صحرا میں سفر کررہا ہوں، پچھتاوے اور احساسِ جرم مجھے چھوڑتے ہی نہیں۔ مجھے… مجھے کسی پیر کامل کی تلاش ہے، جو مجھے اس تکلیف سے نکال دے، میری زندگی کا راستہ دکھادے۔”
فرقان دم بخود اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ سالار کی آنکھیں بند تھیں، مگر وہ اس کی آنکھوں کے کونوں سے نکلتی نمی کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کی آواز میں بھی بے ربطی اور لڑکھڑاہٹ تھی۔ وہ اس وقت لاشعوری طورپر سلیپنگ پلز کے زیر اثر بول رہا تھا۔
وہ اب خاموش ہوچکا تھا۔ فرقان نے مزید کوئی سوال نہیں کیا۔ بہت ہموار انداز میں چلنے والی اس کی سانس بتارہی تھی کہ وہ نیند میں جاچکا تھا۔
٭…٭…٭
جہاز میں ہونے والی وہ ملاقات وہیں ختم نہیں ہوئی۔ وہ دونوں جاگنے کے بعد بھی آپس میں گفتگو کرتے رہے۔ فرقان نے سالار سے ان چند جملوں کے بارے میں نہیں پوچھا تھا، جو اس نے نیند کی آغوش میں سماتے ہوئے بولے تھے۔ خود سالار کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس نے سونے سے پہلے اس سے کچھ کہا تھا اگر کہا تھا تو کیا کہا تھا۔
سفر ختم ہونے سے پہلے ان دونوں نے آپس میں کانٹیکٹ نمبرز اور ایڈریس کا تبادلہ کیا پھر سالار نے اسے انیتا کی شادی پر انوائٹ کیا۔ فرقان نے آنے کا وعدہ کیا مگر سالار کو اس کا یقین نہیں تھا۔ ان دونوں کو فلائٹ کراچی تک تھی پھر سالار کو اسلام آباد کی فلائٹ لینی تھی جبکہ فرقان کو لاہور کی۔ ایئرپورٹ پر فرقان نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس سے الوداعی مصافحہ کیا۔
انیتا کی شادی تین دن بعد تھی اور سالار کے پاس ان تین دنوں کے لئے بھی بہت سے کام تھے۔ کچھ شادی کی مصروفیات اور کچھ اس کے اپنے مسئلے۔
وہ اگلے دن شام کو اس وقت حیران ہوا جب فرقان نے اسے فون کیا۔ دس پندرہ منٹ دونوں کی گفتگو ہوتی رہی۔ فون بند کرنے سے پہلے سالار نے ایک بارپھر اسے انیتا کی شادی کے بارے میں یاددلایا۔
”یہ کوئی یاد دلانے والی بات نہیں ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ میں ویسے بھی اس ویک ینڈ پر اسلام آباد میں ہی ہوں گا۔” فرقان نے جواباً کہا۔” وہاں مجھے اپنے گاؤں میں اپنا اسکول دیکھنے بھی جانا ہے۔ اس کی بلڈنگ میں کچھ اضافی تعمیر ہورہی ہے، اسی سلسلے میں… تو اسلام آباد میں اس بار میرا قیام کچھ لمبا ہی ہوگا۔” سالار نے اس کی بات کو کچھ دلچسپی سے سنا۔
”گاؤں… اسکول… کیا مطلب؟”
”ایک اسکول چلا رہا ہوں میں وہاں، اپنے گاؤں میں۔” فرقان نے اسلام آباد کے نواحی علاقوں میں سے ایک نام لیا۔”بلکہ کئی سالوں سے۔”
”کس لئے؟”
”کس لئے؟” فرقان کو اس کے سوال نے حیران کیا۔” لوگوں کی مدد کے لئے اور کس لئے۔”
”چیریٹی ورک ہے؟”
”نہیں، چیریٹی ورک نہیں ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ یہ کسی پر کوئی احسان نہیں ہے۔” فرقان نے بات کرتے کرتے موضوع بدل دیا۔ اسکول کے بارے میں مزید گفتگو نہیں ہوئی اور فون بند ہوگیا۔
٭…٭…٭
فرقان انیتا کی شادی پر واقعی آگیا تھا۔ وہ خاصی دیر وہاں رکا مگر سالار کو محسوس ہواکہ وہ کچھ حیران تھا۔
”تمہاری فیملی تو خاصی مغرب زدہ ہے۔”
سالار کویک دم اس کی الجھن اور حیرانی کی وجہ سمجھ میں آگئی۔
”میرا خیال تھا کہ تمہاری فیملی کچھ کنزرویٹوسی ہوگی کیونکہ تم نے بتایا تھا کہ تم حافظ قرآن ہو اور تمہارا لائف اسٹائل مجھے کچھ سادہ سا لگا مگر یہاں آکر مجھے حیرانی ہوئی۔ تم اور تمہاری فیملی میں بہت فرق ہے۔I think you are the odd one out۔”
وہ اپنے آخری جملے پر خود ہی مسکرایا۔ وہ دونوں اب فرقان کی گاڑی کے قریب پہنچ چکے تھے۔
”میں نے صرف دو سال پہلے قرآن پاک حفظ کیا اور دو تین سال سے ہی میںodd one outہوا ہوں۔ پہلے میں اپنی فیملی سے بھی زیادہ مغرب زدہ تھا۔” اس نے فرقان کو بتایا۔
”دو سال پہلے قرآن پاک حفظ کیا۔ امریکہ میں اپنی اسٹڈیز کے دوران، مجھے یقین نہیں آرہا۔” فرقان نے بے یقینی سے سرہلایا۔
”کتنے عرصے میں کیا؟”
”تقریباً آٹھ ماہ میں۔”
فرقان بہت دیر تک کچھ نہیں کہہ سکا، وہ صرف اس کا چہرہ دیکھتا رہا، پھر اس نے ایک گہرا سانس لے کر ستائشی نظروں سے اسے دیکھا۔
”تم پر کوئی اللہ کا خاص ہی کرم ہے، ورنہ جو کچھ تم مجھے بتارہے ہو یہ آسان کام نہیں ہے۔ میں فلائٹ میں بھی تمہارے کارناموں سے بڑا متاثر ہوا تھا، کیونکہ جس عمر میں یونیسکو میں جس سیٹ پر تم کام کررہے ہو ہر کوئی نہیں کرسکتا۔”
اس نے ایک بارپھر بڑی گرم جوشی کے ساتھ سالار سے ہاتھ ملایا۔ چند لمحوں کے لئے سالار کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا۔
”اللہ کا خاص کرم! اگر میں اسے یہ بتادوں کہ میں ساری زندگی کیا کرتا رہا ہوں تو یہ…” سالار نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے سوچا۔
”تم پرسوں کسی اسکول کی بات کررہے تھے۔” سالار نے دانستہ طورپر موضوع بدلا۔
”تم اسلام آباد میں نہیں رہتے؟”
”نہیں، میں اسلام آباد میں ہی رہتا ہوں مگر میرا ایک گاؤں ہے۔ آبائی گاؤں، وہاں ہماری کچھ زمین ہے، ایک گھر بھی تھا۔” فرقان اسے تفصیل بتانے لگا۔”کئی سال پہلے میرے والدین اسلام آباد شفٹ ہوگئے تھے۔ میرے والد نے فیڈرل سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں اپنی زمینوں پر ایک اسکول بنالیا۔ اس گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔ انہوں نے پرائمری اسکول بنوایا تھا۔ سات آٹھ سال سے میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ اب وہ سیکنڈری اسکول بن چکا ہے۔ چار سال پہلے میں نے وہاں ایک ڈسپنری بھی بنوائی۔ تم اس ڈسپنری کود یکھ کر حیران رہ جاؤگے۔ بہت جدید سامان ہے اس میں۔ میرے ایک دوست نے ایک ایمبولینس بھی گفٹ کی ہے اور اب صرف میرے گاؤں کے ہی نہیں بلکہ اردگرد کے بہت سارے گاؤں کے لوگ بھی اسکول اور ڈسپنری سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔”
سالار اس کی باتیں توجہ سے سن رہا تھا۔
”مگر تم یہ سب کچھ کیوں کررہے ہو۔ تم ایک سرجن ہو، تم یہ سب کیسے کرلیتے ہو اور اس کے لئے بہت پیسے کی ضرورت ہے۔”
”کیوں کررہا ہوں، یہ تو میں نے اپنے آپ سے کبھی نہیں پوچھا۔ میرے گاؤں میں اتنی غربت تھی کہ یہ سوال پوچھنے کی مجھے کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ ہم لوگ بچپن میں کبھی کبھار اپنے گاؤں جایا کرتے تھے۔ یہ ہمارے لئے تفریح تھی۔ ہماری حویلی کے علاوہ گاؤں کا کوئی مکان پکا نہیں تھا اور سڑک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم سب کو یوں لگتا تھا جیسے ہم جنگل میں آگئے ہیں، اب اگر ہم جانور ہوتے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شہر کی طرح ہم جنگل میں دندناتے پھرتے۔ یہی سوچ کر کہ سب، ہم سب سے مرعوب ہیں اور کوئی بھی ہمارے جیسا نہیں نہ کوئی ہماری طرح رہتا ہے، نہ ہمارے جیسا کھاتا ہے، نہ ہمارے جیسا پہنتا ہے مگر انسان ہوکر یہ برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ہمارے اردگرد کے انسان جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہوسکتا ہے کچھ انسانوں کو اس سے خوشی محسوس ہوتی ہوکہ انہیں ہر نعمت میسر ہے اور باقی سب ترس رہے ہیں مگر ہمارا شمار ایسے انسانوں میں نہیں ہوتا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کیا کیا جائے۔ میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو تھی نہیں کہ میں اسے ہلاتا اور سب کچھ بدل دیتا، نہ ہی بے شمار وسائل۔ تمہیں میں نے بتایا ہے ناکہ میرے والد سول سرونٹ تھے، ایمان دار قسم کے سول سرونٹ۔ میں اور میرا بھائی دونوں شروع سے ہی اسکالر شپ پر پڑھتے رہے، اس لئے ہم پر ہمارے والدین کو زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑا۔ خود وہ بھی فضول خرچ نہیں تھے، اس لئے تھوڑی بہت بچت ہوتی رہی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میرے والد نے سوچا کہ لاہور یا اسلام آباد کے کسی گھر میں اخبار پڑھ کر، واک کرکے یا ٹی وی دیکھ کر زندگی گزارنے کے بجائے، انہیں اپنے گاؤں جانا چاہئے۔ وہاں کچھ بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔”
وہ دونوں گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔