”آپ ایسے کیوں بیٹھے ہیں؟” اسد صاحب نڈھال بیڈ سے کمر ٹکائے زمین پر بیٹھے تھے کہ حنا نے آکر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ”میں نے ایان کو سمجھایا ہے وہ آئندہ سموکنگ نہیں کرے گا۔”
حنا کا اتنا ہی کہنا تھا کہ ایان دروازے پر دستک دیتا اندر چلا آیا اور باپ کے قدموں میں بیٹھے ان کے پیروں پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا:
”بابا میں آپ کو دکھ پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بابا پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کر دیں۔ ”وہ خاموش رہے۔
”اسد پلیز معاف کر دیں ایان وعدہ کر رہا ہے کہ آئندہ سموکنگ نہیں کرے گا۔” حنا نے ایان کی سفارش کرتے ہوئے کہا۔
”بابا پلیز” ایان آنکھوں میں آنسو سموئے بولا تو ان کا دل پسیج گیا اور اُسے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا۔ پھر اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اُسے والہانہ چومتے ہوئے کہنے لگے:
”میری زندگی کی کل کمائی تم ہو۔ میرا وقار، مان، زندگی تم ہو ایان۔ میری آنکھوں کے خواب ہو تم۔ میرے خوابوں کو میری آنکھوں سے مت نوچ کر پھینکو۔”
”اچھا بس کیجئے! ایسے ڈائیلاگ تو ہیرو بولتے ہیں اپنی ہیروئن سے۔” حنا بیگم نے ماحول میں شوخی بھری۔
”بابا اب امی چاہ رہی ہیں کہ آپ ان سے مکالمہ بازی کریں۔” وہ اٹھتے ہوئے شریر ہوا۔ حنا بیگم چھنپ گئیں اوراسد صاحب ہنس دیئے۔ وہ جاتے جاتے پھر بیٹھ گیا اور باپ کے ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا۔
”بابا میں آپ کا مان کبھی نہیں توڑوں گا۔ ” اسد صاحب نے لاڈ سے اس کے بال بکھیرے۔ ”اور آپ کے خوابوں کے پار تو دونوں اکٹھے ہی اتریں گے۔” وہ شرارت سے کہتا ان کے ہاتھوں پر بوسہ دے کر چلا گیا۔ اسد اور حنا اس کے اس وعدے پر ہلکے پھلکے سے ہو کر مسکرا دئیے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا بیٹا وعدہ وفا کرنے کا ہنر نہیں جانتا تھا۔
٭٭٭٭
اسد اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اور اتفاق کہہ لیجئے کہ ان کا بھی ایک ہی بیٹا تھا ایان جو ان کو اپنی جان سے بھی بڑھ کر تھا۔ اسد صاحب بچپن سے اس کی ہر خواہش پوری کرتے آئے تھے جس کا وہ شروع سے ہی ناجائز فائدہ اٹھاتا آیا تھا۔ اُس کی فرمائشوں کو اس کا بچپنا سمجھ کر نظر انداز کر دیتے تھے۔ آج پہلی دفعہ انہوں نے اُسے اسموکنگ کرتے دیکھا تو گویا اپنے حواس کھو بیٹھے اور کمرا بند کئے بیٹھے رہے۔ لیکن ایان کی تسلی سے بہل گئے۔ پھر یہ معمول ہی بن گیا تھا۔ روزانہ اس کی کوئی نہ کوئی شکایت آنا معمول بن گیا۔ کبھی محلے کی کسی لڑکی کو چھیڑتا تو کبھی کسی سے ادھار لے کر واپس نہ کرتا۔ ہر دفعہ بڑی دل گیری سے معافی مانگتا لیکن چلتا اسی ڈگر پر رہا۔
٭٭٭٭
”یار چوہدری ایک گھونٹ تو بھر، تجھے سواد نہ آیا تو جو چور کی سزا وہ ہماری سزا۔”وہ اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھا تھا جو مے نوشی میں مشغول تھے اور اس سے بھی پینے پر اصرار کر رہے تھے۔ ”نہیں یار بابا کو معلوم ہو گیا تو مجھے گھر سے ہی نکال دیں۔”
”ایک تو تیرا باپ ہٹلر کا جانشین ہے۔” ان میں سے ایک بولا لیکن اس کی غصے بھری گھوری دیکھتے ہی منمنا کے پھر سے بولا: ”میرا مطلب ہے کہ چودھری انکل کو کون بتائے گا؟ ”اس کے دوست ایسے ہی اس کی چاپلوسی کرتے نتیجے میں وہ بھی ان پر پانی کی طرح پیسہ بہاتا تھا۔
”لا دے ادھر، پھر یاروں کا ساتھ تو دینا ہی پڑتا ہے۔”
٭٭٭٭
”ایان، ایان” اسد صاحب چلاتے ہوئے پکار رہے تھے۔ حنا بھاگ کر آئیں۔ ”کیا ہو گیا اسد، آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں؟”
”کہاں ہے تمہارا بیٹا؟ آج اس نے سب حدیں پار کردی ہیں۔ اس سے پوچھو یہ چاہتا کیا ہے؟” ایان کو آتے دیکھ کر انہوں نے اس کی طرف اشارہ کر تے ہوئے غصے میں کہا اور ساتھ ہی سینے پر ہاتھ رکھے صوفے پر ڈھے گئے۔
٭٭٭٭
وہ ہسپتال کے بستر پر پڑے تھے کہ ایان اندر داخل ہوا۔ اُسے دیکھتے ہی اسد صاحب نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ وہ تڑپ کر ان کے پیروں میں بیٹھا اور پیر چومنے لگا۔ ”بابا آخری دفعہ معاف کر دیں آئندہ ایسا کچھ نہیں کروں گا جس سے آپ کو تکلیف پہنچے۔”
”ایان دور ہو جائو میری نظروں سے۔”’
‘ نہیں بابا میں نہیں جائوں گا جب تک آپ مجھے معاف نہیں کریں گے۔” وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”دل کا مریض تو بنا ہی دیا ہے تم نے مجھے، اب کیا جان لینا چاہتے ہو۔” اس نے تڑپ کر باپ کے ہاتھ پکڑے۔ ”بابا پلیز آخری بار معاف کر دیں، دوبارہ کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گا، پلیز بابا۔” اور بابا کا دل موم کی طرح پگھلتا گیا۔ ہربار گناہ کی نوعیت بھی بڑی ہوتی اور معافی کے لفظ بھی۔ لیکن سب بے ثمر۔ ایک کام ایان نے اچھا کیا تھا کہ اپنا تعلیمی ریکارڈ عمدہ رکھا اور ایم بی اے کی ڈگری لے لی تھی۔
٭٭٭٭
”حنا میں سوچ رہا ہوں کہ ایان کی شادی کر دی جائے۔ جب کوئی ذمہ داری سر پر پڑے گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔” اور اس طرح ایان کی دلہن گھر میں آگئی۔ چند دن سکون کے گزرے پھر مریم (ایان کی بیوی) نے ہنگامہ مچا دیا کہ مجھے الگ گھر میں رہنا ہے۔ اسد صاحب اُسے سمجھانے آگئے۔
”مریم بیٹے آپ نے الگ ہونا کس سے ہے؟ بس میں اور آپ کی ممی ہی تو ہیں۔ آپ کا کوئی دیور، جیٹھ نند جیسا رشتہ تو ہے نہیں۔ کوئی آپ کو ناجائز تنگ نہیں کرتا یہاں۔ یہ بھی آپ ہی کا گھر ہے بیٹے۔ پلیز ہم سے دور مت جائیے۔”
ان کے سامنے تو وہ کچھ نہیں بولی لیکن اپنے میاں کو ایک کی چار کر کے سنائیں اور وہ بھاگتا باپ کے پاس آیا۔ ”بابا آپ مریم پر کیوں دبائو ڈال رہے ہیں۔ وہ یہاں نہیں رہنا چاہتی تو ہمیں مت روکئے۔ ” تھوڑے دنوں کے بعد وہ اپنی بیوی کو لے کر چلا گیا۔
٭٭٭٭
زندگی کی پُرسکون گود میں اٹھکیلیاں کرتے عمر تمام ہوئی چاہتی ہے۔ لیکن آج میں سفر زیست کے اس مقام پر کھڑا ہوں جہاں آگہی اپنے تمام دَر وا کئے میرا منہ چڑا رہی ہے۔ اس کے پرخار راستوں نے مجھے اندر باہر سے لہولہان کر دیا ہے۔ میں چاہ کر بھی خود کو نہیں بچا پا رہا کیوںکہ اپنا بویا خود ہی کاٹنا پڑتا ہے۔ میں ایان اسد، ملک کا مایہ ناز صنعت کار، آج اس بڑے سے گھر میں تنہا بیٹھ کر اپنے گناہوں پر رو رہا ہوں۔ آج میری اولاد نے مجھے دھتکار دیا ہے۔ میں تو پھر اپنی ہر غلطی کے بعد گناہوں پر رولیا کرتا تھا۔ میں تو پھر اپنی ہر غلطی کے بعد معذرت کے دو بول بول دیتا تھا لیکن میری اولاد کو مجھے دیکھنا بھی گوارا نہیں۔ آج میری اولاد نے مجھے دھتکار دیا ہے۔ آج مجھے اس بات کا بہت اچھی طرح سے ادراک ہو چکا ہے کہ میرا ہی کیا دھرا میرے سامنے آرہا ہے۔یہ مکافاتِ عمل ہے۔ اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔ اب مجھے اس پچھتاوے کی آگ میں آخری سانس تک جلنا ہے کیوں کہ تلافی کے لئے اب میرے ماں باپ موجود نہیں ہیں۔
٭٭٭٭