پراسرار محبت — کوثر ناز

ہوا کی سرسراہٹ اور وحشت زدہ سناٹے کو چیرتے ہوئے گھوڑے کے قدموں کی ٹاپ دور دور تک گونج رہی تھی۔ وہ ہر شے بے نیاز اڑتے بالوں کو کاندھے کے ایک طرف ڈالے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی لگام مضبوطی سے تھامے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔
وہ ہر روز کی مانندصبح کی سیر کو نکلی تھی۔ موسم گذشتہ رات ہونے والی بارش کے باعث ابھی تک نم آلود تھا اور فضا میں خنکی برقرار تھی۔ وہ گہری سانس خارج کرتے ہوئے جوگرز پہنے باہر نکلی تو مشرق کی جانب سے نکلتا ہوا سورج گہرے بادلوں کی اوٹ میں جا چھپااور اندھیرے نے ایک بار پھردن پر سرمئی چادر تان کرزمین کی جانب رخ کرتی سورج کی شعاعوں کا راستہ روکا۔ وہ اس بے اعتبار موسم کے تیور بدلتے دیکھ کر مسکرا دی۔ ایسے موسموں سے اسے عشق تھا۔ دل لبھاتا موسم اسے روحانی سکون بخشتا تھا۔ وہ جوگرز کی تسمے کستے ہوئے ایک طرف کھڑے گھوڑے کو دیکھ کر اس کی جانب بڑھی۔تو اس کے لبوں پر پُراسرار سی مسکراہٹ چھا گئی۔
’’تم پورے ایک ہفتے بعد آتے ہو ستم گر!‘‘ اس کا دل ایک ہی لے پر دھڑک رہا تھا اور وہ لے نغمہِ محبت کے علاوہ کسی شے کی نہیں ہوسکتی تھی۔
گلابی رخسار اور آنکھوں میں محبوب سے ملاقات کی چاہ لیے وہ گھوڑے کو ایڑ لگا کر ایک ہی جست میں گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوئی تو گھوڑا زرا سا ہنہنانے کے بعد اپنی منزل کی جانب پیش قدمی کرنے لگا۔ عجیب گھوڑا تھا کہ جس پر سفر کرتے ہوئے اسے کبھی خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔ ہمیشہ لگا کہ محبوب کی مضبوط بانہوں کا حصار اس کے گرد تمام تر حفاظت کے لیے موجود ہے۔ وہ سرشاری کی سی کیفیت میں ڈوبی مغرب کی جانب سفر کرنے لگی۔ تیز چلتی ہوا کے تھپیڑے ، آندھی کے باعث درختوں سے جھڑتے ہوئے پتے اور چاروں جانب لہلہاتی ہریالی نے موسم کو اس قدر فسوں خیز بنا دیا تھا کہ ہر طرف ڈزنی لینڈ کا سا گمان ہونے لگا تھا۔ وہ ہر اس خوبصورت منظر کو نگاہوں میں قید کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگی جو قدرت کی عنایت کے باعث زمین کا حصہ بنا ہوا تھا۔
یہ ایک سرسبز و شاداب وادی تھی جہاں آکر گھوڑے نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ محبوب یہیں کہیں ہوگا۔ وہ گھوڑے کی ایڑ پر پاؤں رکھتے ہوئے نیچے اتری تو گھوڑا ایک طرف کو چل دیا۔ اس نے گلے میں پڑا مفلر درست کرتے ہوئے بالوں کو ہاتھ کی کنگھی بنا کر سلجھایا اور اپنے مخصوص انداز میںسارے بال کاندھے کے ایک طرف ڈال کر گھاس کو کچلتے ہوئے آگے بڑھنے لگی ۔
٭…٭…٭





وہ اس کی ہرنی کی سی چال دلچسپی سے دیکھ رہا تھا ۔ وہ دونوں ہاتھ ہوا میں پھیلائے سنبھلسنبھل کر قدم رکھتی آگے بڑھ رہی تھی۔ کل رات ہونے والی بارش کے باعث زمین نم آلود تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس کے قدم آہستگی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ وہ اسے اپنی جانب آتے ہوئے دیکھ کر چھپ گیا۔ وہ آس پاس اسے ڈھونڈنے کے بعد تھک ہار کر وہیں سنگی بنچ پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی ۔وہ آہستہ سے درخت کی اوٹ سے نکلا توحسینہ نے شہزادے کی مسکراہٹ دیکھ کر چہرے پر خفگی کے تاثرات سجا لیے۔
’’روشنی! تنگ کررہا تھا یار بس!‘‘ وہ حسینہ کا ہاتھ تھامے مان سے کہہ رہا تھا وہ ہنس دی۔ اور پھر دیرتک اسکے سنگ بیٹھی باتیں کرتی رہی ۔ ہرمحبت کرنے والے جوڑے کی طرح اس کے سنگ مستقبل کے خواب بننے لگی۔ اس کے حسن کے قصیدے پڑھتے ہوئے اپنی تعریف پر شرمائے لجائے جاتی۔ اس کی باتیں اس قدر دل لبھانے والی ہوتیں کہ وہ گھنٹوں اسے بیٹھ کر سن سکتی تھی۔ابھی بھی یہی ہوا تھا وہ اس کے سنگ بیٹھی مستقبل کے خواب بن رہی تھی اور حسین لمحات پا کر راز و نیاز کررہی تھی۔ وہ اس کے بالوں کی آوارہ اڑتی لٹوں سے کھیلتے ہوئے اس کو اس قدر توجہ سے سن رہا تھا گویا اس سے زیادہ ضروری کوئی کا م ہی نہ ہو اور ایسا تھا بھی۔ انہیں ملتے ہوئے یہ چھٹاہفتہ تھا اور وہ ہر بار ایسے ہی فرصت سے بیٹھ جایا کرتا کہ دنیا کہ باقی کاموں سے بے فکر ہے اور سب سے زیادہ ضروری بس وہی ہے۔ وہ اس کی اس قدر توجہ اور چاہت پر نازاں ہوتی نہ تھکتی تھی۔ اکثر اپنی وادی کی سہیلیوں سے اس شہزادے کا ْذکر کرتی تو گردن فخر سے اٹھ جایا کرتی۔ اس کی چاہت کے قصے سناتی تو وہ اس دلچسپی سے گویا کسی اور زمانے کی داستان گڑھ رہی ہے۔
روشنی اور وہ طلمساتی آنکھوں والا شہزادہ بنام اسرارحق اسے اسی جگہ ملا تھا ۔ وہ ایک طوفانی رات تھی جب روشنی اپنی سہیلیوں کے ہمراہ جگنو پکڑنے کی خواہش میں جنگل کی طرف نکل آئی تھی اور پھر راستہ بھٹک گئی۔ سہیلیاں اسے ڈھونڈتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہوگئیں اور وہ وہیں اندھیرے کے خوف سے سنگی بینچ سے چپک کر بیٹھ گئی۔ پراسرار ہوا اور تیز چلتی آندھی اور ہلکی بوندا باندی اور رات کے سناٹے نے ماحول کو یکدم خوفناک بنا دیا تھا۔ ایسے میں وہ تھا کہ جس کے قدموں کی آمد نے اسے سانس بحال کرنے پر مجبور کیاتھا۔ وہ کسی کی آمد کو محسوس کرتے ہوئے فوراً مدد کے لیے پکار نے لگی۔ تبھی وہ اس کی جانب بڑھا اور ہاتھ میں تھامے سارے جگنو ایک ایک کرکے اڑا دیے۔ پل بھر کے لیے ایسا سماں بند ھ گیا کہ وہ حیرت زدہ سی ماحول پر چھائی خوبصورتی کو ساکت سی ہوکر دیکھنے لگی۔ پھر اس شخص کا خیال آیا تو چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
’’مجھے اسرار حق کہتے ہیں۔ یہاں جنگل کی سیر کو نکلا تھا، رات کب ہوئی اندازہ ہی نہیں ہوسکا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کوئی شہزادی یہاں تنہا اور خوفزدہ ہوگی ۔‘‘ وہ طلمساتی آنکھوں والا شہزادہ اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور اس کی مسکراہٹ میں بھی ایسا طلسم ضرور تھا کہ وہ پہلی ہی ملاقات میں اسے اپنے سنگ باندھ چکا تھا۔ اسے گھر تک چھوڑتے ہوئے اس نے بتایا تھا کہ وہ دوسرے شہر رہتا ہے، یہاں وادی میں سیر کو آیا تھا اور اسی رات واپسی کا ارادہ تھا لیکن اسے دیکھنے کے بعد ایک دن مزید اس کے ہمراہ گزار کر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جسے روشنی نے بنا چوں چرا کیے مان لیا۔ وہ تو گویا کوئی اختلاف کر نے کے قابل ہی نہیں رہی تھی۔ وہ ساحرطلسم پھونک چکا تھا۔
اگلے دن روشنی اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر موجود ایک ٹیلے پر کھڑی اس کی منتظر تھی اور وہ گھوڑے پر سوار ایک طرف سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ قریب پہنچا توروشنی اس کی ہمراہی میںاسی جگہ آن پہنچی جہاں وہ پہلے روز ملے تھے اور پھر اسی دن وہ سارے عہدو پیماں اسرار حق نے باندھ لیے جنہیں باندھنے کو ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔وہ تب سے اب تک ہر ہفتے اس سے ملنے آیا کرتا اور روشنی ہر ہفتے اس کی منتظر رہتی۔ وہ چند ہفتوں کے ساتھ میں برسوں کی سی پختگی محسوس کرنے لگی تھی۔ اسرار، روشنی کی روح تک میں سرائیت کرگیا تھا۔ اتنا، کہ وہ اپنی سہیلیوں سے اس کا ذکرکرنے کو معتبر خیال کرنے لگی۔
ابھی بھی وہ رازو نیاز میں مصروف تھی۔ اس کی واپسی پر افسردہ تھی اور وہ اسے اگلے ہفتے آنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ تبھی ایک طرف سے لڑکیوں کے قہقہوں کی آوازیں آنے لگی تو روشنی آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
عینی کو اپنی دوستوں کے ہمراہ پھولوں کی ٹوکریاں اٹھائے اپنی طرف آ تے دیکھا تو چہرے پر بشاشت لاتے ہوئے مسکرائی اور پھر اسرار حق کی جانب دیکھ کر آنکھ دبائی۔
’آؤ! تمہیں اپنی دوستوں سے ملواتی ہوں۔ یہ بہت خوش ہوں گی۔ بہت چاہ ہے انہیں تم سے ملنے کی۔‘ ‘ وہ چہکتے ہوئے اس کا ہاتھ تھامے عینی کی طرف بڑھنے لگی۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن روشنی سننے کو تیار نہیں تھی۔
’’ارے روشنی یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘ عینی آس پاس دیکھتے ہوئے حیرانی سے پوچھ رہی تھی۔ حیا کی سرخی اس کے رخسار پر چھا گئی۔
’’اسرار سے ملنے آئی ہوں۔ تم بھی ملو ان سے اور اسرار یہ میری سہیلیاں ہیں۔‘‘ روشنی نے اسرار کا تھاما ہوا ہاتھ اٹھا کر اسرارکی جانب دیکھا۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا پریشان سا کھڑا تھا۔ عینی اور اس کی سہیلیاں اس کے خالی ہاتھ کو دیکھ کرقہقہہ لگا کر ہنس دیں۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

محتاج — سارہ عمر

Read Next

وادان — خدیجہ شہوار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!