’’میں خوش ہوں ۔لیکن اگر میں کوئی پرندہ یا پودا ہوتا یا تمہاری طرح قد آور درخت ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔میں مضبوط اور توانا ہوتا۔سارا دن موج مستی کرتا۔مجھے کوئی روکنے ٹوکنے والا نا ہوتا۔میری اپنی زندگی ہوتی۔اور میں ایک بے فکر زندگی گزارتا ۔کاش ! ایسا ہوتا۔‘‘ اس نے فضا میں بازو پھیلا کر گھومتے ہوئے کہا جیسے وہ محسوس کر رہا ہو کہ اگر وہ واقعی انسان نا ہوتا تو اسے کیسا لگتا؟وادان نے کچھ سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
’’تم جانتے ہو میں کیا بننا چاہتا ہوں؟‘‘ وادان نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔اس نے تجسس بھری نظروں سے بوڑھے درخت کو دیکھا۔
’’کیا بننا چاہتے ہو؟‘‘ اس نے بے ساختہ پوچھا۔
’’انسان !‘‘ وادان کے سنجیدہ جواب پر اس کا بے اختیار قہقہہ بلند ہوا۔
’’انسان ؟کیا کرو گے انسان بن کر؟‘‘ وہ سوال پوچھے بغیر رہ ناپایا۔وہ ابھی بھی وادان کی خواہش پے کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔
’’میں چاہے ایک مضبوط قد آ ور درخت ہوںلیکن میں انسان کی طرح حرکت نہیں کر سکتا۔میں انسان کی طرح سوچ نہیں سکتا۔میرے پاؤں میں بیڑیاں ہیں۔میں اپنی مرضی سے چل نہیں سکتا۔میں اپنی مرضی سے ہل نہیں سکتا۔میرا آدھا دھڑ زمین میں ہے۔کاش! میں انسان ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔‘‘ وادان کی باتوں نے اسے سنجیدہ ہونے پر مجبور کیا ۔اس نے کچھ سوچتے ہوئے بوڑھے درخت کی توانا آنکھوں میں دیکھا۔
’’تم کیوں حرکت کرنا چاہتے ہو؟تمہیں کہاں کا سفر کرنا ہے؟‘‘ اس نے وادان سے پوچھا۔
’’میں ایک جگہ کھڑا رہ رہ کر تھک گیا ہوں۔میں روزانہ ایک ہی منظر دیکھ دیکھ کر اکتا گیا ہوں۔انسان جب چاہے حرکت کر سکتا ہے۔جہاں چاہے آجا سکتا ہے۔کیونکہ انسان درخت کی طرح نہیں ہے۔وہ جب چاہے جو چاہے سوچ سکتا ہے۔انسان کے لیے کچھ بھی کرنا مشکل نہیں۔اسی لیے مجھے انسان پسند ہے۔کاش!میں بھی تمہاری طرح انسان ہوتا۔‘‘وہ حیرانی سے وادان کی طرف دیکھتا رہا لیکن کچھ کہا نہیں۔
’’تم انسانوں کے بارے میں اور کیا جانتے ہو؟‘‘ اس نے وادان سے پوری سنجیدگی سے پوچھا۔
’’میںجو کچھ جانتا تھا وہ تمہیں بتا چکا ہوں۔اس سے زیادہ میں انسان کے بارے میں نہیں جانتا۔‘‘ وادان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’تم ایک انسان ہو۔تم تو جانتے ہوگے کہ انسان اور کیا کیا کرنا پسند کرتاہے؟وہ کیسے سوچتا ہے؟وہ دنیا میں کیسے راج کرتا ہے؟‘‘ بوڑھے درخت نے پوچھا۔ و ہ وادان کو جواب دینا چاہتا تھا لیکن اسی لمحے اسے یاد آیا کہ وہ کہیں جا رہا تھا اور جانا بھی ضرروی تھا۔لہٰذا وہ وادان سے یہ وعدہ کر کے چلا گیا کہ وہ پھر آئے گا اور اسے انسانوں کے بارے میں مزید بتائے گا۔وادان نے اسے جانے کی اجازت دے دی اور وہ وہاں سے چل دیا۔وادان اسے خوش کن نظروں سے دور تک جاتا دیکھتا رہا، اس امید کے ساتھ کہ وہ جلد لوٹے گا۔ وادان اس کا انتظار کرتا،دن گن گن کر گزارتا اور کچھ دن ایسے ہی گزر گئے۔ وادان نے یہ کہہ کر دل کو بہلا لیا کہ وہ آنا چاہتا ہے لیکن مصروفیت کی وجہ سے آ نہیں پایا۔
٭…٭…٭
وہ رات کے وقت اپنے بستر پر لیٹا تارے گن رہا تھا جب اسے وادان کا خیال آیا۔ اسے وادان سے ملے کافی دن گزر گئے تھے۔ وادان کا خیال آتے ہی اس کے چہرے پے مسکراہٹ پھیل گئی۔اس نے سوچا جس طرح وہ اس کے بغیر خود کو تنہا محسوس کر رہا ہے اسی طرح وادان بھی اس کے بغیر تنہا محسوس کر رہا ہوگا۔پھر اسے ایک دم سے یاد آیا کہ اس نے وادان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے انسانوں کے بارے میں بہت کچھ بتائے گا۔جیسا کہ انسان ایک بہت عظیم مخلوق ہے۔یہ دنیا کی باقی تمام مخلوقات سے زیادہ دنیا کے راز جانتی ہے ۔یہ ہر وقت کسی نا کسی چیز کی کھوج میں لگی رہتی ہے۔اس نے سوچا وہ وادان سے کہے گا ، تم صرف چاند کی روشنی دیکھ سکتے ہو یا سورج کی کرنوں سے باتیں کرسکتے ہو لیکن سورج کیوں چمکتا ہے، چاند کی چاندنی میں کتنا سچ ہے،یہ تم نہیں جانتے۔ یہ انسان جانتا ہے۔تم یہ تو جانتے ہوگے کہ بادل آسمان پر اٹکھیلیاں کرتے ہیں لیکن بادل کیسے اور کہاں سے آتے ہیں،یہ سب انسان جانتا ہے۔بے شک تم انسان سے زیادہ گہری باتیں کرتے ہو لیکن انسان دنیا کی گہرائی میں ڈوب کر وہ سب پا چکا ہے جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔انسان ایک معتبر مخلوق ہے جس کا کسی مخلوق سے کوئی مقابلہ نہیں۔اس نے یہ بھی سوچا کہ وہ وادان کو بتائے گا کہ وہ اور اس کی ساری برادری بھی مل کر دنیا کے لیے وہ نہیں کر سکتے جو انسان کر سکتا ہے۔اس دنیا کا نظام انسان کے ہاتھوں میں گردش کرتا ہے۔اسی لیے ہر مخلوق کو انسان کا کہا ماننا پڑتا ہے۔اس نے سوچا وہ وادان کو وہ سب بتائے گا جو وہ انسان کے بارے میں جانتا ہے۔اسی طرح وہ بہت سی باتیں سوچتا رہا جو وہ وادان کو انسان کے بارے میں بتا سکے اور ایسے ہی بستر پے لیٹے لیٹے اس کی آنکھ لگ گئی۔
اگلے دن وہ مصروف رہا۔لیکن شام کے وقت جیسے ہی اسے وقت ملا وہ وادان کو ملنے گیا۔وہ ہاتھ میں بھٹہ پکڑے اور منہ سے چر چرکی آواز نکالتے ہوئے بے پروائی سے چل رہا تھا اور کچھ ہی دیر میںوہ چلتے چلتے آخر کار اپنی منز لِ مقصود پر پہنچ گیا ۔وہ وہاں پہنچا تو چونک گیا۔بھٹہ ہاتھ سے نکل کر زمین پے جا گرا۔منہ سے چرچر کی آتی آواز یک دم ساکت ہوگئی۔وہ پلکیں جھپکنا بھول گیا۔اس نے دیکھا کہ سامنے وادان کی صرف جڑیں ہیں جو زمین کے اندر ڈری سہمی سی بیٹھی ہیں۔
وادان کہاں گیا؟اس کا سانس پل بھر کو تیز ہوا۔اس نے چاروں طرف نظر دوڑا دی۔وادان کے بہن ،بھائی ،کزنز،پوتے پوتیاں سبھی کاٹ دیئے گئے تھے۔وادان اسے کہیں نظر نا آیا۔وہ مضطرب سا آنکھیں جھپکے بنا دیکھتا رہا۔وہاں کام کرنے والوں میں سے ایک آدمی گزرتا ہوا اس سے بری طرح ٹکرایا۔وہ ایک دم سے اپنے حواس میں واپس آیا۔اس نے آدمی سے پوچھا کہ درخت کیوں کاٹے گئے ہیں تو آدمی نے بتایا کہ یہ جگہ ایک سیٹھ صاحب نے خریدی ہے اور یہاں ایک نئی کالونی بنائی جائے گی۔آدمی اسے بتا کر آگے بڑھ گیا اور باقی ماندہ درخت ساتھیوں کے ساتھ مل کر کاٹنے لگا۔وہ چپ چاپ گردن جھکائے کھڑا رہا۔اسے وادان کی قد آور جسامت ،اس کی لمبی لمبی آسمان کو چھوتی شاخیں ، اس کے سائے کی ٹھنڈک، اس کا گپ شپ لگانا سب یادآیا۔اس نے ایک بار پھر سے وادان کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اسے وہ کہیں نظر نا آیا۔اس نے سرجھٹکا اور واپس پلٹا ۔اسے وہ جگہ زہر لگ رہی تھی۔وہ جلد از جلد وہاں سے دور بھاگ جانا چاہتا تھا۔وہ ایک دم سے مضطرب ہو کر وہاں سے واپس بھاگا کہ اچانک ایک موٹی شاخ سے اٹک کر زمین پر ڈھے گیا۔اس نے پلٹ کر بے ساختہ شاخ کی طرف دیکھا وہ وادان تھا۔بوڑھے درخت کے موٹے چوڑے تنے کے کئی حصے کر کے اس کے وجود کو تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اس نے وادان کی آنکھوں میں دیکھا۔اسے لگا وادان اس پر ہنس رہا ہے۔ وہ جھنجھلا کر رہ گیا۔اور بھرائی آواز سے بے اختیار پکار اٹھا۔
’’وادان!‘‘لیکن وادان اسے کیا جوا ب دیتا؟ اس نے گہرا سانس لیا اور وہاں سے اٹھ بھاگا۔ وادان کے کہے الفاظ عود کر اس کے ذہن میں آئے۔
’’ انسان جب چاہے حرکت کر سکتا ہے۔جہاں چاہے جا سکتا ہے۔کیونکہ انسان درخت کی طرح نہیں ہے۔وہ جب چاہے جو چاہے سوچ سکتا ہے۔انسان کے لیے کچھ بھی کرنا مشکل نہیں۔اسی لیے مجھے انسان پسند ہے۔کاش!میں بھی تمہاری طرح انسان ہوتا۔‘‘ اس کے لیے وادان کے کہے الفاظ کسی بھاری بھرکم بوجھ سے کم نا تھے۔
’’کاش ! میں انسان نا ہوتا۔‘‘ اس نے من ہی من کہااور نجانے کیوں بے اختیار پلٹ کر وادان کو آخری بار نم آنکھوں سے دیکھا۔
٭…٭…٭