’’سبین! اپنے دل میں فضول خدشے نہ پالو۔ خدشے کسی زرخیز پودے کی طرح تیزی سے نشوونما پا کر بد گمانی کی شکل میں تن آور درخت بن جاتے ہیں اور خوشیوں کو لپیٹ میں لے کر اندھیرا پھیلا دیتے ہیں۔‘‘ نیلم نے اسے ملائمت سے سمجھایا۔
نیلم کی بات پر اس نے طویل سانس لی۔ ٹھنڈی ہوا پھیپھڑوں کے ذریعے اندر گئی تو اس کے سلگتے دل کو کچھ قرار آیا۔
’’اچھا! اب میں چلتی ہوں ۔ فکر نہ کرو‘ سب ٹھیک ہو جائے گا ان شااللہ۔‘‘ نیلم کہہ کر تیزی سے سیڑھیاں اتر گئی کیوں کہ امی کو وہ دس منٹ کاکہہ کر آئی تھی‘ مگر یہاں آئے ہوئے اسے خاصی دیر ہوگئی۔ سبین بھی نیچے کمرے میں آکر سونے کے لیے لیٹ گئی۔ پچھلی دو راتیں مسلسل جاگنے کی وجہ سے اسے سخت نیند آرہی تھی، مگر یہ ظالم سوچیں اسے سونے نہیں دے رہی تھیں۔
کافی دیر تک سوچوں سے لڑنے کے بعد وہ نیند کی وادی میں چلی گئی۔ اگلے دن سورج طلوع ہوتے ہی چودھری ظہیر کے گھر رونق لگ گئی۔ گاؤں کی سب عورتیں مبارک باد دینے آتی رہیں۔ سبین اور نیلم تیاریوں میں جت گئیں، روز بازاروں کے چکر نے انہیں نڈھال کر دیا۔
٭…٭…٭
اماں گھر کے انتظامات سنبھالے ہوئے تھیں۔ تمام رشتے داروں نے مایوں سے ایک دن پہلے پہنچنا تھا۔
ایسے میں انہیں نیلم اور چچی کا بہت سہارا تھا۔ غنی صاحب ظہیر صاحب کے دور کے رشتے دار بھی تھے
’’سبین پتر! لے‘ یہ پی لے۔‘‘ دادی نے گلاس اس کی طرف بڑھایا۔
سبین نیلم کے ساتھ مل کر کپڑے پیک کر رہی تھی۔
’’دادی یہ کیا ہے ؟‘‘سبین نے برا سا منہ بنایا ۔ گلاس میں دودھ کے ساتھ پتا نہیں کیا کیا شامل تھا۔
’’بیٹا! یہ میں نے خاص تیرے لیے بنایا ہے۔ اس میں انڈے ،سات مغز ، پستے ، کشمش اور بادام ڈالے ہیں۔ بڑی طاقت ملتی ہے اس سے۔ پی لے پتر۔‘‘ دادی نے محبت پاش نظروں سے کہا۔
سبین نے ماں کی گھرکیوں سے ڈر کے گلاس منہ سے لگا لیا اور ایک لمحے میں خالی کر دیا۔
دادی پوتی کی فرماں برداری پر نہال ہو گئیں۔ سبین خود پر بہ مشکل ضبط کیے ہوئے تھی اور سامنے بیٹھی نیلم اس کی حالت سے خوب محظوظ ہو رہی تھی۔
’’فکر نہ کرو‘ دادی نے تمہاری شادی پر بھی یہ ہی الم غلم پلانا ہے۔‘‘ سبین نے جل کر کہا۔
’’دادی کو میں سنبھال لوں گی۔ نیلم نے فیروزی کام دار سوٹ تہ کرتے ہوئے کہا۔
سبین لمبی سانس لے کر رہ گئی۔ نیلم کے ساتھ وہ بھی دوبارہ سوٹ پیک کرنے لگ گئی۔
٭…٭…٭
پورا گھر زرد پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ گاوؑں کی سب لڑکیاں صحن میں رنگ برنگے آنچل تھامے زور و شور سے ڈھولکی کی گونج میں شادی کے گیت گا رہی تھیں ۔ پھوپھو شہر سے آج شام ہی پہنچی تھیں اور آتے ہی انہوں نے بہت سے کام اپنے ذمے لے لیے تھے۔ اماں جو گھن چکر بنی ہوئی تھیں، پھوپھو کے آتے ہی مطمئن ہوگئیں۔ آج سبین کے سسرال سے مہندی آنی تھی۔
سبین کا سسرال قریب کے گاؤں ہی تھا۔ فخراور ظہیر بچپن کے دوست تھے۔ دونوں نے ایک ہی اسکول سے میٹرک کیا۔ پہلے گاؤں میں اسکول مڈل تک تھا۔ ظہیر کو میٹرک کے لیے دوسرے گاؤں جانا پڑتا تھا۔ وہیں ان کی دوستی فخر سے ہوگئی۔ بڑے ہو کر دونوں نے دوستی کو رشتے داری میں تبدیل کرنے کا سوچا۔ یوں سبین اور زین کی نسبت بچپن میں طے ہوگئی۔
سرمئی لہنگے اور چولی کے اوپر سرخ دوپٹا لیے اپنے الوہی حسن کے ساتھ وہ اس وقت کوئی پری لگ رہی تھی۔ شرمائی شرمائی، گھبرائی سی سبین کے چہرے پر پھیلی حیا کی لالی بہت بھلی لگ رہی تھی۔ پلکیں شرم کے بوجھ سے جھکی ہوئی تھیں۔ سنہری آنکھیں دل فریب رنگوں سے چمک رہی تھیں۔ پھولوں کے گہنے، پازیب، ہاتھوں کے کنگن اور کانوں کے بڑے بڑے آویزے‘ غرض یہ کہہ آج وہ زین کو زیر کرنے کے لیے سب ہتھیاروں سے لیس تھی۔
برأت آنے کے شور کے ساتھ اس کا دل معمول سے ہٹ کر دھڑکنے لگا۔ چچی پریشانی سے کمرے میں داخل ہوئیں۔
’’کیا ہوا امی ؟‘‘نیلم نے ماں کی پریشان صورت دیکھ کر پوچھا۔
’’سبین کی دادی کا نیا شوشہ شروع ہو گیا ہے۔‘‘چچی نے ناگواری سے کہا۔
’’کیا ؟‘‘ نیلم نے پریشانی سے پوچھا۔
’’کہہ رہی ہیں کہ زین‘ سبین کو حق مہر کے ساتھ چٹی گائے بھی دے‘ اس کے بعد ہی رخصتی ہوگی، جانتی بھی ہیں کہ پورے گاؤں میں کوئی سفید گائے نہیں ، اپنی فضول رسموں کی وجہ سے بلا وجہ تاخیرکر رہی ہیں۔‘‘چچی نے اندر آ کر دل کی بھڑاس نکالی۔
چچی کی بات پر سبین کا دل بجھ گیا۔ نین کٹورے لبا لب نمکین پانی سے بھر گئے۔ نیلم کو بھی دادی پر غصہ آرہا تھا۔
’’جب برأت گھر آگئی تو تب ہی انہیں اپنی یہ شرط یاد آئی ؟ پہلے کہہ دیتیں‘ تو وہ لوگ انتظام کر لیتے۔ اب اگر دوسرے گاؤں سے جا کے سفید گائے لائی جائے تو شام ہو جائے گی اور اس فضول رسم کی وجہ سے وہ شادی مؤخر کروا کے ہی رہیں گی۔‘‘ چچی بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل گئیں۔
سبین نے تھکے انداز میں دیوار سے ٹیک لگا لی اور آنسوؤں کو پلکوں کی باڑ سے باہر آنے سے روکنے لگی۔نیلم دکھ سے خاموش ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ شادی والے گھر کی سب خوشیاں پل بھر میں ماند پڑ گئی تھیں۔ ہر شخص بے چین تھا۔ دُلہے میاں گائے کا بندوبست کرنے نکل پڑے تھے۔ایک گھنٹے بعد دوبارہ شور اٹھا‘ دُلہے میاں لوٹ چکے تھے۔
رخصتی کے وقت سب کی آنکھیں نم تھیں۔ سبین گاؤں بھر کی لاڈلی جو تھی۔
دعاؤں کے سائے میں زین کے قدم بہ قدم چلتے ہوئے وہ بابل کے دیس سے رخصت ہو رہی تھی۔اماں بابا کے گلے لگ کے وہ خوب روئی۔ دادی نے نم آنکھوں سے گلے لگا کے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ زین نے بھی احتراماً اپنا سر دادی کے آگے جھکا دیا۔
’’داماد صاحب! زندگی میں آگے بھی سیاہ کو سفید کرنے کی کوشش کرنا۔‘‘ مسکراتے ہوئے دادی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔زین دادی کی بات پر یک لخت چونکا تھا۔ دادی کی باور کراتی آنکھیں اسے تادیر پریشان کیے رہیں۔
٭…٭…٭
کمرا گلاب اور موتیے کی بھینی بھینی خوش بو سے معطر تھا۔ تازہ پھولوں کے درمیاں سیج پر بیٹھی وہ کسی گلستان کی ملکہ لگ رہی تھی۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اے سی کی تیز کولنگ کے باوجود اس کی ہتھیلیاں پسینے سے نم ہوگئیں۔ بڑھتے قدموں کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو رہی تھی۔ پھولوں کی لڑیوں کو ہٹا کر زین بیڈ کے وسط میں عین اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ کمرے میں چھائی خاموشی میں سبین کو اپنے تیزدھڑکتے دل کی آواز کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔
اس کی آنکھوں میں دہکتی محبت کی تپش سبین کے چہرے پر شرم و حیا کے رنگ پھیلائے اسے مزید خوب صورت بنا رہی تھی۔
نیا سفر‘ نئی زندگی مبارک جانِ زین۔‘‘ گمبھیر لہجے میں کہتے ہوئے اس نے شہادت کی انگلی سے سبین کے صبیح چہرے کو اوپر اٹھایا۔
’’تمہیں ہمیشہ بہت خوش رکھوں گا۔ اپنی محبت کے سائے سے تمہیں ہر دھوپ، ہر طوفان سے بچاؤں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔‘‘ زین والہانہ اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا۔ اس کے اظہار پر سبین کی پلکیں مزید جھک گئیں۔
’’یار ویسے تمہیں بڑے پاپڑ بیل کر حاصل کیا ہے۔‘‘ زین نے چہرے پر معصومیت سجا کے کہا۔
اس کی بات پر سبین کا جھکا سر فوراً اوپر اُٹھ گیا۔
’’تمہارے چکر میں سیاہ کو سفید کرنا پڑا۔‘‘ لبوں پر شریر مسکراہٹ سجائے زین اس کے دودھیا ہاتھوں سے کنگن اتارنے لگا۔
’’کیا مطلب؟‘‘سبین چونکی۔ رخصتی کے وقت یہ جملہ دادی نے بھی کہا تھا۔
’’تمہاری دادی جان کے حکم کی تعمیل کرتا‘ تو تم وقت میری اس خواب گاہ کی بہ جائے اپنے کمرے میں بیٹھی انتظار کے پل کاٹ رہی ہوتیں۔ وہ تو بھلا ہو میرے ذہن کا جس میں سیاہ کو سفید کرنے کا آئیڈیا آگیا۔‘‘ زین نے فخر سے اپنا کندھا تھپتھپایا۔
’’کیا کہہ رہے ہیں آپ مجھے سمجھ نہیں رہی۔‘‘ سبین واقعی اس کی باتوں سے الجھ گئی تھی۔
تمہارے گاؤں سے میں نے سیاہ گائے پکڑی۔ حشمت چاچا کے ہاں رنگ ہو رہا تھا ان سے سفید رنگ کی بالٹی لی اور آدھے گھنٹے بعد سفید گائے لیے آپ کی دادی حضور کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ یوں سیاہ کو سفید کر کے ہم آپ کو لے آئے ۔‘‘زین نے ہنستے ہوئے اپنا کارنامہ بتایا۔
سبین کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔
’’ہم سمجھتے تھے ہم سا ذہین پورے گاوؑں میں کوئی نہیں ، مگر آپ کی دادی محترمہ تو ذہین کے ساتھ ساتھ فطین بھی نکلیں ان کے میگنی فائنگ گلاسز جیسی آنکھوں نے ہماری چوری پکڑ لی۔‘‘ زین نے برا سا منہ بنا کے بتایا۔
سبین کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ ابھر آئی۔ بہ ظاہر سنجیدہ نظر آنے والا زین اتنا شرارتی ہو گا‘ اسے اندازہ نہیں تھا۔ وہ سب خدشات جو پہلے اس کے دل میں زین کے حوالے سے تھے دم توڑ گئے تاہم اس نے سوچا کہ موقع ملتے ہی دادی سے ان کی اس عجیب منطق کے بارے میں ضرور پوچھے گی۔
’’ایک بات بتائیں‘ اس دن آپ نے مجھ سے اتنی سردمہری سے بات کیوں کی تھی؟‘‘ سبین کو اچانک یاد آیا۔
’’یار! اس دن ہم دونوں تنہا تھے اور تب تم میری منگیتر تھیں‘ میں نہیں چاہتا تھا ہم دونوں کسی کم زور لمحے کا شکار ہو کر بہک جائیں۔ میں تم پر اپنی محبتیں شادی کے بعد نچھاور کرنا چاہتا تھا اسی لیے تو امی بابا سے ضد کر کے جلدی شادی کروائی ہے۔ اس کی آنکھوںسے سبین کے لیے محبت اور عقیدت جھلک رہی تھی۔
سبین اس لمحے خود کو دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی تصور کر رہی تھی۔
’’چلو اس برس کے آخری چاند کو الوداع کہیں۔‘‘ زین اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑکی میں لے آیا۔ فلک پر چمکتا چاند دونوں پر اپنی کرنیں نچھاور کرتا بادلوں کے درمیان چھپ گیا۔ آنے والا نیا سال دونوں کے لیے خوشیوں کا درکھولنے کے لیے بے تاب تھا۔ سبین نے مطمئن انداز میں اپنا سر زین کے کشادہ سینے پر ٹکا دیا اور زین نے اسے اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا۔
٭…٭…٭