”تم بھی راتوں کو دیر سے آتی ہو۔” شیراز نے کچھ ہمت کرتے ہوئے کہا۔
”میں جو کچھ کرتی ہوں۔ کھلے عام کرتی ہوں، تمہاری طرح جھوٹ بول کر اور چوری چھپے نہیں کرتی۔” شینا نے چلا کر کہا۔
”مجھے کچھ کام ہے، اس لئے میں رات کو دیر سے۔”
شینا نے اسے بات پوری کرنے نہیں دی۔
”تمہارے سارے کاموں کو پاپا اچھی طرح دیکھ لیں گے، انہیں بتانا یہ سب کچھ۔”
”تم… تم مجھ پر خواہ مخواہ شک کر رہی ہو۔” وہ ہکلایا۔
”شک؟… مسٹر شیراز! مجھے چیلنج مت کرو کہ میں تمہیں ان عورتوں کے Whereabouts (کوائف) بھی بتانے شروع کر دوں جن کے ساتھ تم آج کل اپنے دل کا حال شیئر کرتے ہو۔”
شینا نے دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھتے ہوئے… تیکھے تیوروں کے ساتھ کہا۔
”یہ سب کچھ کرنا ہے تمہیں تو اپنے ماں باپ کے گھر جا کر کرو۔ یہاں نہیں۔” وہ بے حد ترشی سے کہہ کر کمرے سے نکل گئی تھی۔
شیراز بہت دیر تک فق چہرے کے ساتھ وہیں کھڑا رہا۔ شینا کے شبہات بالکل ٹھیک تھے اور وہ واقعی آج کل چند لڑکیوں کے ساتھ افیئر چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن اسے اندازہ نہیں تھااس کا کہ اس کا بھانڈا یوں بیچ بازار میں پھوٹے گا اور اب اس کی حالت واقعی بہت خراب ہو رہی تھی شینا نے اگر یہ دھمکی دی تھی کہ وہ سعید نواز کو سب کچھ بتائے گی تو اس کا واقعی یہ مطلب تھا کہ وہ سب کچھ سعید نواز کو بتا دیتی اور اس کے بعد سعید نواز اس کا کیا حال کرتے شیراز کو اس کے بارے میں زیادہ خوش فہمی نہیں تھی۔
اور اس کا یہ اندازہ بالکل ٹھیک ثابت ہوا تھا وہ اب آنکھیں بند کر کے بھی اپنے سسرال والوں کے بارے میں اندازہ لگاتا تو وہ ٹھیک نکلتا وہ انہیں اتنی اچھی طرح جاننے لگا تھا۔
ایک ہفتے کے بعد ہی سعید نواز کے سامنے اس کی طلبی ہو گئی تھی اور سعید نواز اس سے یوں ملے تھے جس طرح وہ سیکرٹریٹ کے کسی کلرک یا اپنے دفتر کے کسی چپراسی سے ملتے تھے۔
”پاپا شینا کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔” شیراز ہکلایا تھا جب سے وہ اپر کلاس کے اس خاندان کا حصہ بنا تھا اکثر ان لوگوں کے سامنے وضاحتیں کرتے ہوئے وہ ہکلانا شروع ہو جاتا اور اس وقت تو خیر وہ جھوٹ بولنے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔
”ہو سکتا ہے شینا کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو مگر مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی میں نے خود تمہیں اس ہوٹل سے ایک لڑکی کے ساتھ نکلتے دیکھا ہے۔”
”پاپا وہ، وہ صرف ایک دوست تھی۔ اتفاقاً مل گئی تو میں اسے چائے کے لئے لے گیا۔”
”اتفاقاً ملی یا جان بوجھ کر مجھے دلچسپی نہیں ہے تم سعید نواز کے داماد ہو اور تم باہر جو کچھ کرو گے مجھ تک پہنچ جائے گا۔” سعید نواز نے جیسے اسے دھمکی دی۔
”تمہارا کیا خیال ہے شینا کے پہلے شوہر سے کیوں کروائی میں نے ڈائی وورس اس کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے۔” سعید نواز نے اس باربھی جھوٹ بولا۔ ”میں جانتا ہوں پاپا۔”
”جانتے ہو توپھر تمہیں یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے میرے خاندان کا نام خراب ہو رہا ہے۔”
”پاپا میں…!”
”میں تمہیں پیسہ بنانے کا موقع اس لیے نہیں دے رہا کہ تم دو ٹکے کی عورتوں پر اسے لٹاتے پھرو۔”
”میں۔۔۔۔”
”اور اس پر تم شینا سے یہ کہتے ہو کہ وہ بھی یہ سب کچھ کرتی ہے۔”
”میں” … ”میں تمہیں اس گندے محلے سے اٹھا کر یہاں اس لیے نہیں لایا تھا کہ تم ہمارے سامنے تن کر کھڑے ہو جاؤ۔”
شیراز نے اس بار کوئی وضاحت نہیں دی کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
”آئی ایم سوری” اس نے بے حد ندامت بھرے انداز میں کہا۔
”میں نے دوبارہ اگر تمہیں کسی عورت کے ساتھ دیکھا تو وہ میرے خاندان میں تمہارا آخری دن ہو گا۔ میں تمہارا وہ حشر کروں گا کہ تم ساری عمر یاد رکھو گے۔”
”آئی ایم سوری! آئی ایم سوری پاپا۔” شیراز کی لجاجت میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔
سعید نواز مزید کچھ کہنے کے بجائے پھنکارتے ہوئے وہاں سے چلے گئے تھے… ماتھے پر آیا پسینہ پونچھتے اور اپنے حواس بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے شیراز کو یاد آیا وہ اس کی شادی کی دوسری سالگرہ تھی۔
٭٭٭
خالہ زبیدہ کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ربیعہ کی بات کا کیا جواب دیں۔ وہ کم از کم اس سوال کی توقع لے کر یہاں نہیں آئی تھیں۔
”بیٹا! زینی بہن ہے تمہاری، اتنی قربانیاں دی ہیں اس نے۔۔۔۔” انہوں نے کچھ سنبھل کر کہنا شروع کیا۔
”جانتی ہوں خالہ! وہ میری بہن ہے۔ لیکن مجھے اس کی ان قربانیوں سے اکٹھی کی ہوئی دولت میں سے کچھ نہیں چاہیے۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ آپ دوبارہ میرا رشتہ مانگ رہی ہیں دوکپڑوں میں چار گواہوں اور نکاح خواں کے ساتھ اس گھر سے لے جانے کو تیار ہیں آپ؟”
”یہ بڑوں کی باتیں ہیں ربیعہ! تمہیں ضرورت نہیں ہے بیچ میں بولنے کی۔”
نفیسہ نے مداخلت کی۔ انہیں خدشہ پیدا ہوا تھا کہ کہیں زبیدہ کو اس کی بات بری نہ لگے۔
”بالکل… بالکل یہ بڑوں کے طے کرنے والے معاملات ہیں۔ اگر تم لوگ سادگی سے شادی کرنا چاہو گے تو ٹھیک ہے ہم سادگی سے کر لیں گے۔ اپنے گھر کی بات ہے۔” خالہ زبیدہ نے کچھ سنبھلتے ہوئے کہا۔
”اور میں اس گھر میں شادی نہیں کروں گی۔ اپنے باپ کے گھر سے رخصت ہوں گی۔”
”یہ ربیعہ کو کیا ہو گیا ہے؟ اس طرح تو کبھی نہیں بولتی تھی۔” زبیدہ خالہ نے اس بار کچھ تشویش کے ساتھ نفیسہ سے کہا۔
”کچھ نہیں ایسے ہی بک بک کر رہی ہے۔” نفیسہ نے ربیعہ کو گھورتے ہوئے کہا۔
”نہیں نہیں میری بیٹی تو بڑی سمجھ دار ہے غصہ تھوک دو… آخر زینی بے چاری نے کیا، کیا ہے یہ تو سارا شیراز اور اس کے ماں باپ کا قصور ہے پھر تم کیوں بہن کے اتنا خلاف ہو رہی ہو۔ اللہ نے عزت دی ہے اسے، پیسہ دیا ہے، آج ضیاء بھائی ہوتے تو کتنا خوش ہوتے اپنی اولاد کی اتنی ترقی دیکھ کر۔”
زبیدہ خالہ نے ایک گہری آہ بھرتے ہوئے کہا وہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ ربیعہ کو موضوع سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھیں اور ان کے منہ سے نکلنے والا ہر جملہ ربیعہ کو اذیت کا شکار کر رہا تھا۔
زینی نے ٹھیک کہا تھا۔ وہ دوبارہ ربیعہ کی محبت میں نہیں آئی تھیں۔ اس مال و دولت میں اپنا حصہ لینے آئی تھیں جو انہیں اپنی بہن کے گھر میں نظرآنے لگا تھا۔ اسے صدمہ ہوا تھا۔ شدید صدمہ، اسے بھی خوش فہمی تھی کہ شاید وہ عمران کے کہنے اس کے مجبور کرنے پر وہاں آئی تھیں۔ مگر ان کے ہر دوسرے جملے میں کوئی نہ کوئی سوال تھا۔
”یہ بنگلہ زینی نے خرید لیا ہے؟”
”کتنے کا خریدا ہے؟”
گیراج میں کھڑی ساری گاڑیاں اپنی ہیں؟”
”گھر میں کتنے نوکر ہیں؟”
”نوکروں کو کتنی تنخواہیں دیتے ہیں؟”
”زہرہ کا گھر زینی نے کتنے میں خریدا ؟”
”نعیم کو کاروبار کے لئے کتنی رقم دی؟”
”اپنی ایک فلم کے کتنے پیسے لیتی ہے؟”
”ماڈلنگ کے کتنے پیسے ملتے ہیں اسے؟”
”اس نے نفیسہ کے نام کوئی بینک اکاؤنٹ کھولا؟”
ان کا ہر جملہ زینی کے نام پر ختم ہو رہا تھا۔ اس میں ابتدائی چند معذرتی جملوں کے علاوہ ربیعہ کہیں تھی ہی نہیں اور وہاں ان کے پاس بیٹھے ان کی باتیں سنتے ہوئے ان کے ہر جملے کے ساتھ ربیعہ کا دل کچھ اور ڈوبا تھا اور صرف دل ہی نہیں ڈوبا تھا وہ ساری خوش فہمیوں اور امیدوں کے محل بھی دھڑام سے آن گرے تھے، جو اس نے پچھلے کئی دنوں سے تعمیر کئے تھے۔
عمران سے شادی کا مطلب اس کے لئے کیا ہوتا اس کے لیے، ربیعہ کوحساب کے کسی فارمولے کی ضرورت نہیں تھی۔
”میں شادی نہیں کروں گی عمران سے… آپ اس کا رشتہ کہیں اور کر دیں۔”
اس نے بالآخر اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ زبیدہ خالہ کو جیسے دھچکا لگا تھا۔
”ربیعہ بیٹی کیا کہہ رہی ہو تم؟ ارے میں تو کتنی آسوں کتنے ارمانوں کے ساتھ آئی ہوں۔” انہوں نے گڑبڑائے ہوئے انداز میں کہا۔
”آپ صرف لالچ لے کر آ ئی ہیں۔ پچھتاوا اور شرمندگی نہیں اور آسوں اور ارمانوں کی تو بات بھی نہ کریں۔” اس نے تلخی سے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔
اس کی عدم موجودگی میں زبیدہ نے نفیسہ کی منتیں کی تھیں اور نفیسہ نے ان سے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ ربیعہ کو منا لیں گی۔ وہ ابھی غصے میں تھی ٹھیک ہو جائے گی۔ ربیعہ نے اس رات کھانا نہیں کھایا وہ ساری رات کمرے میں بیٹھی روتی رہی تھی۔
زینی کو سب کچھ اگلی رات کو پتہ چلا جب نفیسہ نے ربیعہ کی زبیدہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں اسے بتایا۔ اگرچہ وہ چاہتی تھی کہ ربیعہ اس بار انکار کر دے، اس کے باوجود زینی کو اس کے انکار کے بارے میں سن کر رنج ہوا تھا۔
”مبارک باد دینے آئی ہو؟”