”آج زبیدہ نے فون کیا تھا۔ ” نفیسہ نے بے حد جوش اور خوشی کے عالم میں بتایا تھا۔
زینی اپنے سیل پر ایک کال ملاتے ملاتے رک گئی۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی باہر سے آئی تھی۔
”کس لیے؟” اس نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
”ملنے کے لئے آنے کا کہہ رہی تھی۔ تمہارا پوچھ رہی تھی کہ جب زینی گھر آئے گی تب آؤں گی۔ میں نے کہا، اپنا گھر ہے جب چاہے آؤ۔ بلکہ گاڑی بھیج کر بلوا لوں گی۔ ورنہ یہاں ڈیفنس میں ہمارا گھر کہاں ڈھونڈتی پھرے گی۔” نفیسہ اس سے یوں کہہ رہی تھیں جیسے زبیدہ اور ان کے درمیان کبھی کوئی مسئلہ ہوا ہی نہیں تھا۔
”عمران کی شادی کر دی انہوں نے؟” زینی نے بے حد سنجیدہ لہجے میں ماں سے پوچھا۔
”ارے نہیں کہاں… مجھ سے بڑی معافی مانگ رہی تھی، کہہ رہی تھی، نسیم کی باتوں کی وجہ سے اس کا دل خراب ہو گیا تھا۔ مگر اب بڑا افسوس ہے اسے جو کچھ اس نے کیا۔ بتا رہی تھی مجھے کہ عمران تو کہیں شادی کے لیے تیار ہی نہیں۔ وہ ربیعہ کے علاوہ کسی کی بات ہی نہیں کرتا۔ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ میں نے ربیعہ کا رشتہ توکہیں طے نہیں کیا؟ میں نے بتایا اسے کہ فی الحال تو نہیں کیا۔ مجھے لگتا ہے، وہ عمران اور ربیعہ کے رشتے کی بات دوبارہ کرنے کے لیے آنا چاہتی ہے۔”
نفیسہ بے حد خوشی کے عالم میں اس سے کہہ رہی تھیں۔
”آپ نے ربیعہ کو بتایا؟” زینی کے انداز میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
”ہاں… ہاں… اس کے سامنے ہی تو فون آیا تھا۔ اس سے بھی بات کی زبیدہ نے۔ خوش تھی وہ بھی بڑی۔” نفیسہ نے کہا۔
”زبیدہ سے تو بڑی محبت تھی اس کو۔ بڑا پیار تھا زبیدہ کے ساتھ اس کا۔ تم کو تو پتہ ہی ہے۔”
نفیسہ نے بے حد سادہ لہجے میں کہا۔ زینی بے اختیار ہنسی۔
”ہاں، مجھ سے زیادہ کون جانتا ہو گا۔ کتنی جان چھڑکتی ہیں وہ ربیعہ پر، میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں، اور پہلے نہیں بھی چھڑکتی تھیں تو اب چھڑکیں گی۔ انہیں پتا ہے، اب وہ کس گھر میں ربیعہ کا ہاتھ مانگنے آرہی ہیں۔” زینی نے تلخی سے کہا۔
”اچھی عورت ہے زبیدہ، غلطی ہو گئی اس سے تب… غلطیاں ہو جاتی ہیں انسانوں سے۔ پر بڑی نیک عورت ہے، کتنی پرہیزگار اور تہجد گزار ہے۔ سارا محلہ اپنے لیے دعا کرانے آتاہے اس سے۔” نفیسہ اب زینی کا دل صاف کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”مجھے کسی ایسے انسان کی پرہیز گاری اور عبادت نہ گنوائیں جو پیسے کے لیے دم ہلاتا ہوا کسی کی بھی چوکھٹ پر جا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔”
”ایسے نہیں کہتے زینی!” نفیسہ اس تبصرے پر ہڑبڑا گئی تھیں۔
”تم تو خالہ کی بڑی تعریف کرتی تھیں۔ نماز روزے کے بارے میں سب ان ہی سے پوچھا کرتی تھیں۔”
”تعریف تو میں اور بھی بڑے لوگوں کی کیا کرتی تھی۔” وہ عجیب سے انداز میں ہنسی۔
”مجھے معلوم نہیں تھا کہ انہیں صرف نماز روزے کا پتہ ہے دین کا نہیں۔ یہ جو بظاہر نماز روزے کی پابند، سیدھی سادی عورتیں ہیں نا گھروں میں مائیں بن کر بیٹھی ہوئی۔ بڑی تباہی مچاتی ہیں۔ یہ دوسروں کی زندگیوں میں۔ بڑا کھوٹ، میل اور لالچ ہوتا ہے ان کے دلوں میں۔ آپ کی بہن جب آئے گی یہاں تو دیکھیے گا کس طرح رال ٹپکاتی نظر آئے گی وہ۔ آپ کی نیک پرہیز گار بہن زبیدہ۔”
وہ طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے اٹھ گئی۔ اور اٹھتے ہوئے اس نے نفیسہ کے عقب میں کھڑی ربیعہ کو دیکھا۔ وہ یقینا اس کی اور نفیسہ کی ساری باتیں سن چکی تھیں۔
”تم سمجھتی ہو، وہ تمہارا پیسہ دیکھ کر آرہی ہیں؟” اس کے لہجے میں بے حد تلخی تھی۔
”تم سمجھتی ہو، وہ تمہاری محبت میں آرہی ہیں؟” زینی نے جواباً سوال کیا۔
”انہیں پچھتاوا ہے، اس لیے آرہی ہیں۔” ربیعہ نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”فکر مت کرو، اس گھر میں آکر، اسے دیکھ کر انہیں اپنے کیے پر اور پچھتاوا ہو گا۔”وہ استہزائیہ انداز میں ہنسی۔
”انہیں اس گھر میں نہیں رہنا۔ یہاں صرف میرے لیے آرہی ہیں وہ۔”
”ہاں، انہیں اس گھر میں نہیں رہنا مگر اس گھر سے بہت کچھ ملنا ہے انہیں۔ تمہارے علاوہ بھی۔” زینی نے اپنے جملے کے آخری حصے پر زور دیا۔
”کچھ نہیں چاہیے۔ نہ انہیں یہاں سے نہ مجھے، خالی ہاتھ جاؤں گی میں یہاں سے۔ صرف وہی چیزیں لے کر جاؤں گی جو میرے باپ نے میرے لیے بنائی تھیں۔” ربیعہ نے بے حد تلخی سے کہا۔
”یہ تم خالہ زبیدہ کو ان کے آنے پر بتا دینا۔ پھر تمہاری نیک، تہجد گزار ہونے والی ساس تم کو لے کر جانے میں کتنی دلچسپی رکھتی ہیں، تمہیں پتا چل جائے گا۔” زینی نے سرد آواز میں کہا۔
”یہ جو نعیم کو گھر اور کاروبار کے لیے پیسہ دیا ہے تمہارا کیا خیال ہے، خاندان والوں کو اس کا پتا نہیں چلا ہو گا؟ سب کو پتا چل گیا ہو گا۔ اب سب آئیں گے یہاں پر اپنے بیٹے لے کر، ان کی بولی لگوانے کے لیے۔ میں تمہاری جگہ ہوتی تو میں زبیدہ خالہ سے فون پر بات تک نہ کرتی۔ نہ یہ کہ انہیں یہاں آکر دوبارہ جال بچھانے کی دعوت دیتی۔”
وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔ اس نے ربیعہ کی آنکھوں میں آنسو امڈتے دیکھے تھے۔
”تو یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ جب نسیم خالہ نے تم پر دروازے بند کیے تھے تو تم کیوں نہیں آگئیں، چپ چاپ وہاں سے۔ تم کیوں ان کا دروازہ بجاتی رہیں۔ جب ابو نے تم سے کہا کہ تم منگنی ٹوٹنے پر صبر کر لو تو تم کیوں انہیں زبردستی شیراز کے گھر بھجواتی رہیں۔” زینی کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا۔
”تمہارے لیے اگر آج شیراز اور اس کی ماں یہاں آجائیں تو تم کیا کرو گی؟” ربیعہ نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ بے حد تلخی سے پوچھا۔
زینی چپ چاپ کھڑی اسے دیکھتی رہی۔
”بڑا غرور ہے تمہیں اپنے پیسے پر، ایک وقت آئے گا جب تمہارے پاس صرف پیسہ ہی ہو گا اور کچھ نہیں۔” ربیعہ کہہ کر روتی ہوئی کمرے سے چلی گئی۔
”ایک وقت…؟” زینی بے حد مدھم آواز میں بڑبڑائی ”وہ وقت کب سے آگیا۔”
”تم ربیعہ کی باتوں کا برا مت ماننا، ایسے ہی بولتی رہتی ہے وہ۔” نفیسہ بے حد پریشانی کے عالم میں اب اسے تسلی دینے کی کوشش کر رہی تھیں۔
٭٭٭
شینا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی کہیں جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی جب بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا شیراز کا فون بجنا شروع ہوا تھا، وہ کچھ دیر تک فون کے بند ہونے کا انتظار کرتی رہی لیکن جب اسے اندازہ ہو گیا کہ کال ریسیو کیے جانے کے بغیر وہ فون بند نہیں ہو گا تو اس نے اٹھ کر کال ریسیو کی۔ اس کے ہیلو کہتے ہی دوسری طرف سے فون ڈس کنیکٹ ہو گیا تھا۔ شینا نے فون تقریباً پھینکنے والے انداز میں بیڈ پر ڈالا اور دوبارہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف آگئی۔ اس سے پہلے کہ وہ ہیر برش اٹھاتی، فون ایک بار پھر بجنے لگا تھا۔ اس بار وہ قدرے جھنجھلاتی ہوئی فون کی طرف گئی اور اس نے فون اٹھا کر بے حد بدتمیزی سے ”ہیلو” کہا۔ فون ایک بار پھر ڈس کنیکٹ ہو گیا۔
اس بار شینا نے فون بیڈ پر نہیں پھینکا، اس نے فون میں ریسیوڈ اور ڈائلڈ کالز کا ریکارڈ چیک کیا۔ ریکارڈ میں ابھی کی ہوئی اس نمبر سے آنے والی کال کے علاوہ اور کوئی کال نہیں تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ سیل فون کی فون بک بھی کھولتی۔ شیراز تو لیے سے بالوں کو رگڑتے ہوئے باتھ روم سے باہر آگیا۔ شینا نے فون کو دوبارہ بیڈ پر پھینک دیا فون دوبارہ بجنے لگا تھا۔ شیراز کو یک دم جیسے کرنٹ لگا۔ اس نے لپک کر فون اٹھا لیا۔ شاید وہ سمجھ رہا تھا کہ شینا کال ریسیو کرنے کی کوشش کرے گی۔ مگر شینا نے اس بار کال ریسیو نہیں کی۔ وہ شیراز کو کال ریسیو کرنے دینا چاہتی تھی۔
”ہیلو… اوہ ہائے… میں کچھ بزی ہوں، ابھی تھوڑی دیر میں کال کرتا ہوں تمہیں، نہیں نہیں، بس ابھی کروں گا پندرہ منٹ میں۔ اوکے بائے۔” اس نے پھولے ہوئے سانس اور گھبرائی ہوئی آواز میں کال ریسیو کرنے اور بند کرنے میں پندرہ سیکنڈ بھی نہیں لگائے تھے۔ اس کے اتنے قریب سینے پر بازو باندھے عجیب سی نظروں سے گھورتی ہوئی شینا کی موجودگی اسے بے حد پریشان کر رہی تھی۔
”کس کا فون تھا؟” شینا نے فون بند ہوتے ہی بے حد سرد آواز میں اس سے پوچھا۔
”وہ… ایک… ایک دوست کا تھا۔” شیراز اس کے اتنے ڈائریکٹ سوال پر گڑبڑایا۔
”تھا یا تھی؟” شینا نے بے حد تیکھے انداز میں کہا۔
”دوست تھا۔” شیراز نے اپنے لہجے میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی۔
”کال ملاؤ اور میری بات کراؤ اپنے اس دوست سے جو مجھے اپنی سریلی آواز سناتے ہوئے ڈرتا ہے۔”
”شینا۔۔۔۔” شیراز کی جیسے جان نکل گئی۔
”دوبار میں نے کال ریسیو کی۔ دونوں بارتمہارے اس دوست کے منہ سے آواز نہیں نکل سکی۔ تم میرے سامنے اس سے بات نہیں کر سکے۔ اور تم کہہ رہے ہو کہ دوست تھا۔”
شینا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”تم چھوٹی سی بات کو ایشو بنا رہی ہو۔” شیراز نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
”Don’t you dare cheat on me.”
وہ غرائی۔”میرے باپ نے اس لیے نہیں خریدا تمہیں کہ تم میرے گھر میں رہ کر میرا کھاتے رہو اور دوسری عورتوں کے ساتھ فلرٹ کرتے پھرو۔”
”کون سا فلرٹ؟ کیسا فلرٹ… میں۔۔۔۔” شیراز کی جان پر بن گئی تھی۔
”میں کیوں دھوکا دوں گا تمہیں۔”
”اپنے خاندان اور کلاس کی وجہ سے۔” شینا نے ترکی بہ ترکی کہا۔ شیراز کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”بار بار خاندان کا طعنہ مت دو مجھے۔”
”طعنہ نہیں حقیقت ہے، پچھلے چند ہفتوں سے جو کچھ تم کر رہے ہو۔ سب دیکھ رہی ہوں میں۔”
”کیا کر رہا ہوں میں؟”
”یہ جو سارا سار ادن کالز آتی ہیں تمہیں اور یہ جو تم نے آج کل راتوں کو دیر سے گھر آناشروع کررکھا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟”