من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

اس بار اشتیاق کا قہقہہ پہلے سے زیادہ بلند تھا۔ زینی گلاس لیے قد آدم کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
”تم بازار سے نہیں ہو پری زاد۔” اس بار اشتیاق کے انداز میں بے حد دلچسپی تھی۔ زینی پلٹے بغیر کھڑکی سے باہر دسویں منزل سے شہر کی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے گلاس سے چسکیاں لیتی رہی۔
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟” اس نے کچھ دیر بعد پلٹے بغیر باہر دیکھتے ہوئے اشتیاق سے پوچھا۔
”ہاں اس سے فرق تو کوئی نہیں پڑتا۔ لیکن میں نے آج تک شوبز میں کوئی ہیروئن نہیں دیکھی جس کا تعلق اس بازار سے نہ ہو۔” اشتیاق نے پر سوچ انداز میں کہا۔
”اب دیکھ لی ہے نا۔” زینی استہزائیہ انداز میں ہنسی۔
‘تم کیوں شوبز میں آئیں؟ شہرت کے لئے؟ پیسے کے لئے؟ ” اشتیاق اب سنجیدہ تھا۔
”پیسے کے لئے!” زینی اب کھڑکی کے شیشے سے پشت ٹکائے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے بات کر رہی تھی۔
”دکھ ہوا یہ بات سن کر۔” اشتیاق نے افسوس کے انداز میں سر ہلایا۔
”زینی کو ہنسی آئی۔ ”کیوں؟”
”بس تمہارے منہ سے یہ جواب سن کر بڑا صدمہ ہوا۔ آج تک جتنی ہیروئنوں کے ساتھ تعلقات رہے ہیں میرے، سب پیسے کے لئے ہی آتی رہی ہیں فلموں میں۔ میں نے سوچا شاید تمہارے پاس کوئی بہتر وجہ ہو۔”
”آ… بہتر وجہ؟ میں عوام کی خدمت کے لئے شوبز میں آئی ہوں۔ اب ٹھیک ہے؟”
اس نے طنز کیا۔ اشتیاق کو اس بار اس پر پیار آیا تھا۔ اس نے پری زاد کے بارے میں جو سنا تھا۔ ٹھیک ہی سنا تھا۔ وہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی پہلی حسین، ذہین اور خطرناک حد تک نڈر ہیروئن سے مل رہا تھا۔
”دیکھو پری زاد! کبھی کہیں مشکل میں پڑو تو صرف ایک بار اشتیاق رندھاوا کو یاد کر لینا۔ تمہارے منہ کھولنے سے پہلے آؤں گا تمہاری مدد کے لئے۔”
وہ اس سے یہ کیوں کہہ رہا تھا یہ اشتیاق رندھاوا خود بھی نہیں جانتا تھا۔ اس نے آج تک ایسی آفر کسی دوسری عورت کو نہیں کی تھی۔ کم از کم یہ نشہ نہیں تھا جو اس سے ایسی بات کہلوا رہا تھا۔ یہ کھڑکی کے سامنے کھڑی اس پانچ فٹ سات انچ لڑکی کا جادو بھی نہیں تھا جو اس کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ یہ کچھ اور تھا… اور کیا تھا؟
اشتیاق رندھاوا نے خود کو اپنے سے آدھی عمر کی اس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوتے ہوئے محسو س کیا۔
”یہ فلم انڈسٹری تمہارے جیسی لڑکی کے لئے اچھی جگہ نہیں ہے۔” اشتیاق کی بات پر وہ ہنسی۔
”آپ ہر ہیروئن کو یہی مشورہ دیتے ہیں۔” وہ اس کا مذاق اڑا رہی تھی۔
”یہ مشورہ صرف دوستوں کو دیا جاتاہے۔” اشتیاق نے بے حد سنجیدہ انداز میں کہا۔




”دوست…؟ میں دوست کب بنی آپ کی؟” وہ اس بار پھر ہنسی۔
”کوئی تونام ہو گا تمہارے اور میرے رشتے کا۔ تم کیا کہو گی اسے؟”
”میں آپ کو بتاؤں گی تو آپ مجھے اس کمرے سے باہر پھنکوا دیں گے اس لئے چھوڑیں، کوئی اور بات کریں۔”
زینی نے لاپروائی سے کہا۔ اشتیاق نے اپنے آپ کو کچھ اور بے بس پایا۔
٭٭٭
”لو جی۔ کرم بھی آگیا۔ آجا کرم آجا، آبیٹھ، کھانا کھا۔”
شوکت زماں نے اسے پچکارتے ہوئے کہا۔ کرم علی کو یقین تھا اس نے اسے گھر کا پتہ نہیں بتایا تھا، اسے سوفی صد یقین تھا لیکن اسے یہ یاد نہیں رہا تھا کہ اس کی کیب کا نمبر شوکت زماں کو اس کے گھر تک پہنچانے کے لئے کافی تھا۔
”اگلے دو ہفتے شوکت زماں جونک کی طرح اس سے چمٹا رہا تھا۔ کرم علی جتنی تہذیب، مروت یا لحاظ کر سکتا تھا وہ کر رہا تھا اس کے باوجود شوکت زماں کو برداشت کرنا آسان کام نہیں تھا۔
دو ہفتے کے بعد بالآخر وہ شوکت زماں کے مجبور کرنے پر ایک ہفتے کے لئے اس کے ساتھ کینیڈا گیا تھا۔ اور اوٹوا پہنچ کر اسے صرف شوکت زماں کے پھیلے ہوئے کاروبار نے دنگ نہیں کیا تھا، وہ شوکت زماں کی گرگٹ کی طرح بدلتی ہوئی شخصیت کو بھی دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔
نشے میں ہر وقت غرق رہ کر احمقانہ اور بے ہودہ باتیں کرنے والا وہ جھگڑالو آدمی ایک نفیس، مہذب، با اخلاق، مہربان اور شفیق انسان کے طور پر وہاں لوگوں میں جاناجاتا تھا۔ وہ بد رنگے، جینز ٹراؤزر سویٹرز اور سستے شکن آلود کوٹ سے برانڈڈ تھری پیس سوٹوں پر آگیا تھا۔ اس کا لب ولہجہ بھی تبدیل ہو گیا تھا۔
وہ اپنے ماتحتوں سے بات کرتے ہوئے شاندار انگلش بولتا اور کہیں پر ضرورت پڑنے پر فرینچ کا استعمال بھی کر لیتا۔ کرم علی ایک ہی دن میں اس کے اس بدلتے ہوئے روپ سے خائف ہو گیا تھا۔ پہلے والے شوکت زماں نے کم از کم اسے کبھی خائف نہیں کیا تھا۔ دوسری رات اس نے کھانے کی ٹیبل پر شوکت زماں کو اپنی واپسی کے ارادے سے آگاہ کر دیا تھا۔
”کیوں؟ تو تو ایک ہفتہ کے لئے آیا ہے یہاں۔ ابھی تو میں نے صرف تجھے اپنی کمپنی دکھائی ہے۔ سپر اسٹورز اور گیس اسٹیشن تو دکھائے ہی نہیں۔ پھر تو نے مجھے بتاناتھا کہ تو کب آکر میرے ساتھ کام کرے گا۔”
وہ ایک بار پھر پہلے والے لہجے میں اس سے بات کر رہا تھا۔ اس کے باوجود کرم علی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ پہلے والی بے تکلفی سے اس سے بات کر سکے۔ دولت نے دو دنوں میں ان کے درمیان ایک دو نہیں کئی دیواریں کھڑی کر دی تھیں۔
”نہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی آپ کے پاس آکر کام کر سکوں گا۔ میں ساری زندگی جس طرح کے کام کرتا رہا ہوں، یہ اس طرح کا کام نہیں ہے۔” کرم علی نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”تو کیا یہ ضروری ہے کہ ساری عمر مزدوری ہی کرنا ہے تو نے، مزدوری کرتے ہوئے پیدا ہوا، وہی کرتے کرتے مر جائے گا، اوئے کرم علی! میں اپنا مینجر بنانا چاہتا ہوں تجھے سارا کاروبار تیرے ہاتھ میں دینا چاہتا ہوں اور تو ہے کہ گھوڑوں کا فارم رکھنے کے بجائے تانگہ چلانے پر اصرار کر رہا ہے۔”
کرم علی کچھ بول نہیں سکا۔ اسے گھوڑوں اور فارم کے ذکر پر پتا نہیں کیا کیا یاد آیا تھا۔ اس کی خاموشی نے شوکت زمان کو اس خوشی فہمی میں مبتلا کیا کہ شاید وہ آمادہ ہو گیا تھا۔
”شاباش اے بھئی۔ اب سمجھ میں آئی تجھے میری بات۔ زندگی بدلنے کا موقع مل رہا ہے تجھے۔ کرم علی! اور یہ موقع روز روز نہیں ملتا۔”
”مجھے ایسے موقع بہت بار ملے ہیں۔” کرم علی نے مدھم آواز میں کہا۔
”شاید پھر یہ آخری موقع ہو۔” کرم علی اس کی بات پر چونکا۔
”ہاں… ہاں… ایسے آنکھیں پھاڑ کر مت دیکھ مجھے، اللہ نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا تیری زندگی کا۔ اور بڑے لوگوں کی ذمہ داریاں ہیں اس پر۔ تو خود ہی شرم کر کچھ۔ اللہ بھی کیا کہتا ہو گا تیرے بارے میں۔”
شوکت زماں اب اس پر ملامت کر رہا تھا۔
”لیکن میں پڑھا لکھا نہیں ہوں اور مجھے ان کاموں کا کوئی تجربہ۔۔۔۔” شوکت زماں نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تیرا کیا خیال ہے، میں نے کوئی ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے؟ اوئے آجائے گا تجھے سب کچھ میرے جیسے الو کے پٹھے کو آگیا ہے تو تجھے کیوں نہیں آئے گا، وہ میں سکھا دوں گا۔ اب اور کس لئے بیٹھا ہوں یہاں۔”
”لیکن آپ آخر مجھے اتنے بڑے کاروبار کا انتظام کیوں دینا چاہتے ہیں۔ آپ تو مجھے جانتے تک نہیں اور آپ کو تو اس کام کے لئے ہزاروں لوگ مل سکتے ہیں پھر میں کیوں؟” کرم علی نے بالآخر اپنی اس الجھن کا اظہار کر ہی دیا جس نے اسے پریشان کر رکھا تھا۔
”نہ گھبرا اوئے! میری کوئی معذور بیٹی نہیں ہے جسے تیرے ساتھ بیاہ کر میں نے تجھے گھر جوائی رکھنا ہے۔”
اس کے جملے پر کرم علی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس کے ذہن میں ایسا ہی کوئی خیال آرہا تھا اور شوکت زماں نے جیسے راڈار کی طرح اس کی سوچ پڑھ لی تھی۔
”نہ ہی میں تیرا حسن دیکھ کر تجھ پر فدا ہو گیا ہوں۔”
اس کے اگلے جملے نے کرم علی کو مزید نادم کیا۔ وہ اب سوفٹ ڈرنک کا گلاس اٹھائے ہنس رہا تھا۔ کرم علی کچھ بول نہیں سکا۔
”بس تو اچھا لگا ہے کرم مجھے… بڑا کھرا اور نیک بندہ لگا ہے مجھے… تب بھی لگا تھا جب میں صابر قیوم کی باڈی لے جاتے ہوئے تجھ سے ملا تھا۔ میں تو قربان ہو گیا تجھ پر یار! کون اس طرح کسی جاننے والے کی لاش پاکستان لانے کے لئے اپنا وقت… میں نے سوچا شوکت زمان یہی وہ بندہ ہے جو کل کو تیری باڈی بھی اٹھا کر لے جائے گا تیرے ملک دفن کرنے۔”
کرم علی کو اس کے عجیب سے لہجے میں کہے ہوئے جملے نے حیران نہیں پریشان کیا، وہ اس سوفٹ ڈرنک کے گلاس کو منہ لگائے مشروب نہیں پی رہا تھا اپنی آنکھوں کی نمی پی رہا تھا مگر کرم علی دیکھ چکا تھا۔
”اور دیکھ، کتنے لوگ ہوں گے جو تیری طرح میرے پاس آکر میری دولت دیکھ کر اس سے گھبرا کر بھاگیں گے۔ ارے لوگ تو رالیں ٹپکاتے چپک جاتے مجھ سے۔ پیروں میں پڑ جاتے کہ کسی طرح انہیں اپنے پاس کسی بھی کام کے لئے رکھ لوں۔ اور تجھے تو میں پورا کاروبار پلیٹ میں رکھ کر دے رہا ہوں اور تو سوال پر سوال کر رہا ہے مجھ سے۔ توبڑا بیبا بندہ ہے یار… بڑا سچا، بڑا بیبا بندہ، اس لیے لایا ہوں تجھے اپنے پاس، تیرے ساتھ دل لگتا ہے میرا۔”
کرم علی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس کی باتوں پر یقین کرے یا نہ کرے۔ وہ اپنے آپ کو کسی دوسرے شخص سے زیادہ اچھی طرح جانتا تھا اپنی ظاہری اور باطنی خامیوں اور خوبیوں سے کسی دوسرے کی نسبت زیادہ بہتر طور پر آگاہ تھا۔ وہ جانتا تھا اس کی شخصیت میں ایسا کچھ نہیں ہے جو اسے کسی دوسرے انسان کے لیے متاثر کن بناتا اور دوسرا انسان بھی وہ جو کروڑوں کی جائیداد کا مالک اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوئے تھا۔
مگر وہ یہ سب کچھ شوکت زمان سے نہیں کہہ سکتا تھا شاید شوکت زمان کی اتنی لمبی تقریر اور دلائل سننے کے باوجود وہ اسی طرح اٹھ کر چلا جاتا، مگر شوکت کے ایک جملے نے اسے پوری گفتگو کے دوران باندھے رکھا تھا۔
”شاید یہ آخری موقع ہو شاید یہ آخری موقع ہو۔” وہ جملہ اس کے ذہن میں بار بار گونج رہا تھا اور کرم علی نے زندگی میں اس آخری نظر آنے والے چانس کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
زندگی میں پہلی بار اس نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔
زندگی میں آخری بار اس نے ٹھیک وقت پر فیصلہ کیا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!