”ساری عمر مجھ سے کوئی اس طرح نہیں بولا جس طرح تیری بیوی نے بات کی مجھ سے۔” نسیم نے روتے ہوئے دوپٹے کے پلو سے اپنی ناک رگڑتے ہوئے سامنے بیٹھے ہوئے شیراز سے کہا۔
”امی! میں معافی مانگ تو رہا ہوں” شیراز نے لجاجت سے کہا۔
”تیرے معافی مانگنے سے کیا ہوتا ہے۔ تیری بیوی نے تو ہمارے بڑھاپے کا بھی لحاظ نہیں رکھا۔ نوکروں کے سامنے ہمیں ذلیل کیا۔” اس بار اکبر نے کہا۔
”ارے ہم رہنے تھوڑا آئے تھے تیرے گھر میں، ملنے آئے تھے تجھ سے۔” نسیم نے یک دم غصے میں آتے ہوئے کہا۔
”امیر باپ کی بیٹی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ دوسروں کی عزت نہ کرے، ہمیں بھکاری سمجھ کر احسان جتائے کہ تم ہمیں پیسے دیتے ہو۔” نسیم کا دل بھر آیا۔
”ایک زینی تھی۔ کتنی خدمت کرتی تھی میری، خالہ خالہ کہتے منہ سوکھتا تھا اس کا۔” نسیم کو پتہ نہیں کیوں زینی یاد آئی اور وہ اب انہیں اکثر یاد آتی تھی۔
”اب زینب کی بات نہ کریں اس سارے معاملے سے اس کا کیا تعلق ہے؟” شیراز بے اختیار خفا ہوا۔
”اور وہ بچہ کس کا تھا؟” اکبر نے بالآخر وہ سوال کیا جس کا جواب انہیں اس وقت سے ہولارہا تھا جب سے وہ شینا کے گھر سے واپس آئے تھے۔
”کون سا بچہ؟” شیراز بے اختیار پچھتایا آخر اسے اس وقت یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی۔
”جو تمہاری بیوی کو ممی کہہ رہا تھا؟” اکبر نے بے ساختہ کہا۔
”سچ سچ بتا دے شیراز، وہ تیری بیوی کا ہی بچہ ہے نا؟” اس کی خاموشی پر نسیم نے جیسے بگڑ کر کہا۔
”ہاں شینا کی پہلے ایک شادی ہو چکی ہے۔” شیراز نے بالآخر کچھ تامل کے بعد کہا۔ جھوٹ بولنا اب بے کار تھا۔
نسیم نے بے اختیار اپنے سینے پرہاتھ رکھا۔ ”میرے اللہ ایک بچے کی ماں سے شادی کر لی تو نے؟”
”مجھے نہیں پتا تھا اس کی پہلی شادی کا۔” شیراز نے بے ساختہ کہا۔
”انہوں نے دھوکا دے کر۔۔۔۔” نسیم نے کچھ کہنا چاہا، شیراز نے فوراً اس کی بات کاٹی۔
”چھوڑیں یہ ساری باتیں۔ کیا فرق پڑتا ہے؟ اگر وہ شادی شدہ بھی تھی تو۔ اس سے شادی کر کے ہماری قسمت بدل گئی ہے۔ کسی اور لڑکی سے شادی کر کے اتنا پیسہ ملتا مجھے؟”
اس نے جیسے صاف صاف لفظوں میں اپنے ماں باپ کو یاد دلایا کہ زندگی میں اس کی ترجیح کیا تھی۔
”پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا۔” نسیم نے بے ساختہ کہا اور پھر بے اختیار پچھتائی۔ آخر یہ جملہ وہ کیسے بول سکتی تھی۔ پر یہ جملہ کہاں سے آیا تھا اس کی زبا ن پر۔
شیراز عجیب سی نظروں سے ماں کو دیکھتا رہا اور تب ہی اکبر نے بروقت مداخلت کی۔ ”وہ تو ٹھیک ہے مگر پھر بھی اسے۔۔۔۔” شیراز نے اکبر کو بات ختم کرنے نہیں دی۔
”آپ کو اس طرح بن بتائے آنے کی ضرورت کیا تھی۔ جب آپکو پتا ہے کہ وہ چڑتی ہے میرے گھر والوں سے۔”
”تو پھر اس کی حمایت کر رہا ہے؟” اکبر کو بھی اس بار اس کی بات بری لگی۔
”حمایت نہیں کر رہا۔ سمجھا رہا ہوں ابو آپ کو، میرے اور شینا کے گھر میں اب بڑے بڑے لوگ آتے ہیں کوئی کیا کہتا اگر آپ کو وہاں دیکھتا۔ کوئی پوچھ لیتا میرے اور آپ لوگوں کے خاندان کے بارے میں تو شینا کیا کہتی۔ آپ ذرا اس بات کا اندازہ تو کریں۔”
”کیوں ہمیں کون سی چھوت کی بیماری لگ گئی ہے؟” نسیم نے بے ساختہ چڑ کر کہا۔
”آپ لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل ہے۔”
اس دفعہ شیراز بھی جھلّایا۔ وہ ان سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان کا رکھ رکھاؤ ان کے طور طریقے سب کچھ اس کلاس کی چغلی کھاتے تھے جنہیں وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا اور جو پھر اسٹیکر کی طرح اس کے ماں باپ کے وجود کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔ وہ کچھ بھی کر لیتا۔ ان کو بدل نہیں سکتا تھا۔ مگر انہیں چھپا ضرور سکتا تھا۔ اور کم از کم یہ وہ چیز تھی جس میں اسے شینا سے زیادہ گلہ نہیں تھا۔ وہ اس شرمندگی کو بخوبی سمجھ سکتا تھا جو شینا کو اس کے ماں باپ کو اپنے گھر پر دیکھ کر ہوتی ہو گی۔
”شرمندگی۔۔۔۔” نہیں اس کا شاید کوئی اور نام ہوتا ہو گا جو وہ محسوس کرتی ہو گی اور اس کا بھی کچھ اور ہی نام تھا جو شیراز محسوس کرتا تھا۔ جب وہ اس کے ماں باپ کا ذکر شروع کرتی۔
اکبر اور نسیم کو شینا کے بارے میں پتا چلنے کے اگلے کئی ہفتے تک شیراز نے ان کا سامنا نہیں کیا تھا۔ مگر دوسری طرف وہ بے حد مطمئن بھی تھا، کم از کم اب اسے کچھ چھپانا نہیں پڑ رہا تھا، وہ اس بوجھ سے آزاد ہو چکا تھا۔
شینا کے ساتھ اس کی زندگی، ”ذلت اور آسائش” کی زندگی تھی وہ ہمیشہ اس تذلیل کا جو شینا اس کی کرتی تھی اس آسائش کے ساتھ موازنہ کرتا جو شینا کی وجہ سے اسے مل رہی تھی تو خود بخود ہی سارے گلے ختم ہو جاتے۔و ہ بے حد مطمئن ہوجاتا۔ اس کے گھر کے اندر اس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا یہ آخر کتنے لوگ جانتے تھے، البتہ سوسائٹی اب اسے اپر کلاس کے ایک فرد کا پروٹوکول دیتی تھی اور اس پروٹوکول کی قیمت اگر گھر میں روزانہ چند گھنٹوں کی تذلیل تھی تو یہ کوئی اتنی بڑی قیمت نہیں تھی، کم از کم شیراز اکبر کے لئے… اسے یقین تھا چند سال گزرنے کے ساتھ ساتھ شینا کے رویے میں تبدیل آئے گی۔ وہ اسے شوہر جیسی عزت نہ سہی مگر انسان جیسی عزت ضرور دینا شروع کر دے گی۔
اور یہ اس کی ایک اور بہت بڑی خوش فہمی یا غلط فہمی تھی۔ شینا کو جب تک سہیل نظر آرہا تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ کسی دوسرے کو دیکھتی۔ اور اس کی زندگی میں سہیل نہ بھی ہوتا تب بھی اسے اپنے اور شیراز کے درمیان اتنا فرق محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ایک خوش گوار ازدواجی زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی جس میں وہ ایک فرمانبردار بیوی بن کر اپنے ”مجازی خدا” کی خدمت کرتی نظر آتی، شیراز میں کوئی ایسی خوبی نہیں تھی جو شینا کو اس میں دلچسپی لینے پر مجبور کرتی۔ اس میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں تھی کہ شینا جیسی لڑکی اسے اپنے حلقہ احباب میں فخریہ اپنے شوہر کے طور پر متعارف کرواسکتی۔
شینا کے لئے وہ ایک پنچنگ بیگ تھا جو اس کے باپ نے اس لیے اسے لا دیا تھا تاکہ وہ اپنے اندر کا سارا ڈپریشن، ساری فرسٹریشن اس پرنکال سکے اور اس نے کم از کم اس معاملے میں اپنے باپ کو مایوس نہیں کیا تھا۔ وہ شیراز کے ساتھ وہی کر رہی تھی۔ اور صرف یہی نہیں ہر بار شیراز کی کسی شکایت پر جب سعید نواز شینا کو سمجھانے کی کوشش کرتا تو شینا اس کے سامنے سہیل اور شیرازکا ”تقابلی جائزہ” پیش کر دیتی۔ سعید نواز جانتے تھے کہ سہیل کا پلڑا ہر لحاظ سے بھاری تھا لیکن شیراز ان کی پسند،ان کا انتخاب تھا۔ ان کا خیال تھا، شینا کو اس کی اطاعت اور فرماں برداری ضرور متاثر کرے گی۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں وہ تھیں جو سہیل میں نہیں تھیں۔ سہیل انہیں ذاتی طور پر بے حد ناپسند تھاکیونکہ وہ اسے ایک مغرور اور بد تمیز باپ کا مغرور اور بد تمیز بیٹا سمجھتے تھے اور کچھ یہی رائے سہیل کے باپ اور گھر والوں کی سعید نواز اور شینا کے بارے میں تھی۔ اب یہ سعید نواز کی بد قسمتی تھی کہ شینا کو شیراز کی فرماں برداری متاثر کن لگنے کے بجائے بری طرح چڑانے لگی۔ وہ ان تمام نوازشات سے واقف تھی جو سعید نواز شیراز اور اس کے گھر والوں پر کرتا آرہا تھا۔ اور اسے ان کی غربت سے شاید اتنی نفرت نہ ہوتی جتنی ان کے لالچ اور حریص پن سے تھی۔ وہ زندگی میں پہلی بار کسی غریب خاندان کی زندگی کو اتنے قریب سے دیکھ رہی تھی اور جو کچھ اس نے اس غریب خاندان کے افراد کو پیسے کے لئے کرتے دیکھا تھا، اسے ان سے گھن آنے لگی تھی۔
سہیل سے شادی کے وقت بھی سعید نواز نے اسے بہت کچھ دیا تھا نہ صرف اسے بلکہ سہیل کو بھی، لیکن شینا اچھی طرح جانتی تھی کہ سہیل اور اس کے گھر والے سعید نواز کی دولت کے محتاج نہیں تھے۔ شیراز اور اس کے گھر والوں کا مسئلہ بالکل دوسرا تھا۔ اور پھر یہ ناممکن تھا کہ شینا کے جو دل میں آتا، وہ اسے زبان پر نہ لاتی، وہ واقعی شیراز میں اور اس کتے میں فرق نہیں سمجھتی تھی جو سعید نواز نے اس کے لئے امپورٹ کیا تھا۔ بلکہ بعض حوالوں سے وہ اس کتے کو شیراز سے زیادہ بہتر سمجھتی تھی اس کتے کو شینا اور سعید نواز کی جائیداد میں دلچسپی نہیں تھی۔ شیراز کو تھی اور شینا اس بات سے بخوبی واقف تھی۔
٭٭٭
”میں تمہارا کتنا بڑا فین ہوں، تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے پری زاد۔”
اشتیاق رندھاوا مدہوشی کے عالم میں اس سے کہہ رہا تھا، زینی اپنے ہاتھ میں پکڑے گلاس کو دیکھتے ہوئے اس کی باتیں سن رہی تھی۔
”تم سے ملنے کے لئے کتنی جدوجہد کرنی پڑی ہے مجھے، تمہیں تو احساس بھی نہیں ہو گا۔” اشتیاق رندھاوا سے یہ اس کی چوتھی ملاقات تھی۔ وہ دونوں اس وقت ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے کمرے میں تھے۔
”مجھ سے ملنا اتنامشکل تو نہیں ہے۔” زینی نے گلاس سے نظریں ہٹا کر اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہونا تو نہیں چاہیے تھا اور آج تک کبھی مشکل پیش بھی نہیں آئی مجھے کسی ہیروئن سے ملنے کی کوشش میں۔ لیکن تم میں کچھ ہے پری زاد۔ کہ آدمی مر جاتا ہے تم پر۔”
”کیوں کیا، کیا ہوں میں؟” وہ عجیب سے انداز میں ہنسی۔
”تم قیامت ہو۔” اشتیاق نے بے ساختہ کہا۔
”وہ تو صرف ایک بار آتی ہے۔”
”تم روز روز آنے والی قیامت ہو۔”
”پھر تو ڈرنا چاہیے آپ کو مجھ سے۔”
”روز آنے والی قیامت سے کون ڈرتا ہے۔” زینی اس کی بات پر ہنس پڑی۔
”سنا تھا، آپ دلچسپ باتیں کرتے ہیں۔ آپ نے ثابت بھی کر دیا۔”
”آج سورج مغرب سے نکلا ہو گا۔”
”کیوں؟”
”ایک حسین عورت میری تعریف کر رہی ہے۔”
”حسین عورت کی تعریف پر مت جائیں۔ اس کے قہر سے ڈریں۔” زینی نے عجیب مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”آج تک کسی حسین عورت کا قہر دیکھا نہیں ہے میں نے۔”
”خوش قسمت ہیں پھر آ پ۔”
”تم سے ملاقات کے اتفاق کے بعد ہوا ہوں۔”
”مجھ سے ملاقات کو اتفاق سمجھتے ہیں آپ؟”
”نہیں اعزاز۔”
”دیکھتے ہیں۔ یہ اعزاز کب تک آپ کے پاس رہتا ہے۔”
”ہم تو ہمیشہ کے لئے اس عزاز کو پاس رکھنا چاہتے ہیں۔” اس بار اشتیاق کا لہجہ معنی خیز تھا۔
”پاس رکھنا چاہتے ہیں یا قید کرنا چاہتے ہیں؟”
”آج تک شوبز کی کسی عورت نے مجھ سے اس طرح کی باتیں نہیں کیں۔” اشتیاق بے اختیار مسکرایا تھا۔
”آپ کو بری لگیں میری باتیں؟” زینی نے بے حد تیکھے انداز میں کہا۔
”نہیں، اچھی لگیں۔” اشتیاق یک دم مسکرایا۔ ”مجھ سے شادی کرو گی پری زاد؟”
”کتنے دنوں کے لئے؟” اس بار اشتیاق نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
”تم کو ڈر نہیں لگتا مجھ سے؟”
”کیوں لگے گا؟”
”پاکستان کا وزیر داخلہ ہوں میں۔ میرے ایک اشارے پر تخت سے تختہ ہو جاتا ہے لوگوں کا۔” اشتیاق نے بے حدغرور سے کہا۔
”میں پاکستان کی وزیر داخلہ نہیں ہوں، لیکن میرے بھی ایک اشارے پر تخت سے تختہ ہو جاتا ہے لوگوں کا۔ آپ میں اور مجھ میں ایک چیز تو مشترک نکلی۔”