”لیکن آپ تو یہاں نیو یارک میں رہتے ہیں۔” کرم علی نے حیرانی سے کہا۔
”ہاں وہ تو آج کل رہتا ہوں، جب دل چاہے یہاں آجاتا ہوں۔ جب دل چاہے چلا جاتا ہوں۔ پر کاروبار سارا کینیڈا میں ہے میرا۔” شوکت زماں نے کہا۔
”کیا کاروبار ہے؟” کرم علی نے بے حد محتاط انداز میں کہا۔ شوکت زماں کے حلیے سے اسے کبھی یہ نہیں لگا تھا کہ وہ کوئی امیر آدمی ہے اور پھر وہ اس طرح اچانک اسے اپنے ساتھ چلنے کا کیوں کہہ رہا تھا۔ اتنا اعتبار۔
”اسمگلنگ کرتا ہوں میں” شوکت زماں نے اس بار پہلے سے بھی زیادہ خفگی کے ساتھ کہا۔
”یہاں کھڑے کھڑے تجھے کاوربار کی تفصیل بتا دوں؟ وہاں چلے گاتو خود دیکھ لینا۔ کیا کرتا ہوں میں… چلے گا؟”
شوکت زماں نے غصے میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے آخری جملہ کہا۔
”نہیں… ” کرم علی نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ شوکت زماں نے وہی کیا جس کی کرم توقع کر رہا تھا۔ اس نے کرم علی کو کچھ اور گالیاں دی تھیں، مگر کرم علی نے ان میں سے صرف آدھی سنی تھیں، وہ گاڑی تیزی سے بڑھا کر وہاں سے چلا گیا۔ اسے یقین تھا کہ اب اس کی شوکت زماں سے دوبارہ ملاقات نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس کا شوکت زماں کے پاس دوبارہ جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
رات کو دس بجے کے قریب وہ تھکا ہارا اپنے اپارٹمنٹ پر پہنچا۔ اندر سے باتوں آور قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس نے چابی لگا کر دروازہ کھولا اور جیسے ساکت رہ گیا شوکت زماں سامنے اس کے اپارٹمنٹ کے باقی مکینوں کے ساتھ بیٹھاقہقہے لگاتا ہوا کھانا کھا رہا تھا۔
٭٭٭
”امی کو گھر دکھا کر لایا ہوں آج۔ بہت خوش ہو رہی تھیں وہ بھی۔ بڑی دعائیں دے رہی تھیں زینی کو… بس ہفتے دس دنوں میں رنگ و روغن کا کام ختم ہو جائے گا پھر شفٹ ہو جائیں گے ہم ۔ میں نے پرانے گھر کو بیچنے کے لئے بھی ایک دو لوگوں کو کہہ دیا ہے۔”
نعیم بڑے جوش کے عالم میں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا سب کو بتا رہا تھا، اور وہاں آتے ہی اس نے اس گھر کی تفصیل انہیں بتانا شروع کر دی تھی جو زینی کے پیسے سے زہرہ کے نام خریدا گیا تھا اور اب اس میں صرف رنگ و روغن کا تھوڑا بہت کام رہ گیا تھا۔ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے سب لوگ اس کوٹھی کی تفصیل سن کر خوش ہو رہے تھے۔ صرف زینی تھی جو بالکل بے تاثر چہرے کے ساتھ کھانا کھانے میں مصروف تھی بس درمیان میں کبھی کبھار وہ نظریں اٹھا کر نعیم کو دیکھ کر مسکرا دیتی۔ جو ساری گفتگو صرف زینی کو دیکھتے ہوئے کر رہا تھا اور اس کے لہجے میں آطاعت اور فرمانبرداری جیسے کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی۔
”پرانا گھر بیچ دیں گے تو پھوپھو کہاں جائیں گی؟ کیا آپ کی بہنوں میں سے کسی کے ہاں شفٹ ہو رہی ہیں؟” زینی نے ایک گھنٹے میں پہلی بار سوال کیا وہ اپنا کھانا ختم کر چکی تھی اور اب اپنی پلیٹ میں کچھ ڈیزرٹ لیے بیٹھی تھی۔ نعیم کے چہرے کا سارا جوش پلک جھپکتے ہی غائب ہو گیا تھا۔
”وہ… وہ امی تو ہمارے ساتھ ہی رہیں گی۔”
نعیم نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
اس کی چھوٹی سالی یک دم اتنی قد آور ہو گئی تھی کہ وہ اس سے بات کرتے ہوئے خواہ مخواہ نروس ہو جاتا تھا۔ حالانکہ اس گھر میں پہلی بار آنے اور اس جھگڑے کے بعد کبھی زینی سے اس کی کسی بات پر تلخ کلامی نہیں ہوئی تھی۔ زینی ہمیشہ سامنا ہونے پر اسے بڑی خوشی دلی اور عزت کے ساتھ مخاطب کرتی تھی۔ حتیٰ کہ کاروبار اور گھر کے لئے رقم دیتے ہوئے بھی اس نے نعیم کو اپنے کسی رویے سے شرمندہ نہیں کیا تھا۔ نہ ہی کچھ جتایا تھا۔
لیکن اس واقعے کے بعد صرف ایک فرق آیا تھا جو نعیم نے شروع میں محسوس کیا تھا مگر اس نے اسے لاپروائی سے نظر انداز کر دیا تھا۔ زینی اب اس کا نام لے کر اسے مخاطب کرتی تھی پہلے کی طرح اس کے نام کے ساتھ بھائی نہیں لگاتی تھی۔
”آپ لوگوں کے ساتھ کس لیے رہیں گی؟” وہ بڑی سنجیدگی سے باری باری نعیم اور زہرہ کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
”امی اکیلی کیسے رہیں گی؟” نعیم نے قدرے فکر مند انداز میں کہا۔
”اکیلے کیوں؟ پورا محلہ ہے، وہ پہلے بھی محلے میں آتی جاتی تھیں اور محلے والے ان کے پاس آتے تھے۔ اب بھی ان کا میل جول رہے گا۔ پھر ان کی بیٹیاں آتی رہیں گی ان کے پاس۔”
زینی نے پانی پیتے ہوئے کہا۔ اس نے ٹیبل پر بیٹھی نفیسہ اور ربیعہ کی تیز نظروں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔
”پر میں… میں اکلوتا بیٹا ہوں میرا فرض ہے ان کو اپنے پاس رکھنا۔” نعیم نے اٹکتے ہوئے کہا۔
”تو پھر گھر بدلنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ لوگ وہیں رہیں ان کے پاس۔ زہرہ آپا کے گھر کو میں کرائے پر چڑھا دیتی ہوں یا ایسا کرتے ہیں کہ آپ پھوپھو کے پاس رہیں اور کبھی کبھار زہرہ آپا کے پاس آجایا کریں۔ لیکن پھوپھوزہرہ آپا کے گھر نہیں جائیں گی۔”
اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ڈائننگ ٹیبل پر یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔ نعیم چند منٹ مزید بیٹھا پھر بےحد کھسیانے اور پریشان انداز میں زہرہ اور بچیوں کو لے کر چلا گیا۔
”اس طرح کی بات کیوں کی تم نے؟ اس بڑھاپے میں کوئی تو رہنا چاہیے تمہاری پھوپھو کے ساتھ خدمت کے لئے۔”
نعیم کے جاتے ہی نفیسہ نے بے حد ناراضی کے عالم میں زینی سے کہا۔
”انہیں اگر اپنے بڑھاپے کا خیال ہوتا تو وہ اپنی بہو کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرتیں۔” زینی نے ایک سیب کاٹتے ہوئے کہا۔
”بدلہ لینے والے لوگ بے وقوف ہوتے ہیں۔” ٹیبل کے ایک طرف بیٹھی ہوئی ربیعہ نے بے حد ترشی سے کہا۔ زینی نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا پھر مسکرائی۔
”سانپ کو گھر سے باہر رکھنا بے وقوفی نہیں ہے۔”
”سانپ اور انسان میں فرق ہوتا ہے۔”
”ہاں شکل و صورت کا۔”
”ان سے خونی رشتہ ہے ہمارا۔”
”اسی لیے تو یہ سلوک کر رہی ہوں ان سے۔”
”تمہاری وجہ سے زہرہ آپا کا گھر بھی ٹوٹتے ٹوٹتے بچا ہے اب پھر۔۔۔۔”
اس بار زینی نے ربیعہ کی بات کاٹ دی۔ ”میری وجہ سے نہیں غربت کی وجہ سے اور تم بے فکر رہو۔ اب کچھ نہیں ہو گا زہرہ آپا کے گھر کو۔ کم از کم میرے ہوتے تو کچھ نہیں ہو گا۔ پہلے وہ زینب ضیاء کی بہن تھی اب پری زاد کی بہن ہے، نعیم سو دفعہ سوچے گا زہرہ آپا سے کچھ کہتے ہوئے۔”
”کتنا غرور ہے تمہیں اپنے آپ پر۔” ربیعہ نے تلخی سے کہا۔
”غرور نہیں ہے، اپنی طاقت کا پتا ہے۔ جیسے پہلے اپنی کمزوری کا پتا تھا۔”
اس نے توقف کے بعد جملہ پورا کیا۔
”تم مانو نہ مانو پیسے نے بہت طاقت ور کر دیا ہے مجھے۔”
”پیسے سے تم ہر چیز نہیں خرید سکتیں۔”
”تم مجھے وہ چیز دکھاؤ جسے میں پیسے سے نہ خرید سکوں۔”
”تم انسانوں کو پیسے سے نہیں خرید سکتیں۔”
”تم اپنے آس پاس کے دس ایسے انسانوں کے نام بتاؤ جنہیں میں پیسے سے نہیں خرید سکتی۔” اس نے بے حد اطمینان سے کہا۔
”پیسے نے تمہیں پاگل کر دیا ہے۔” ربیعہ نے نفرت سے کہا۔
زینی نے سیب کا آخری ٹکڑا منہ میں رکھا اور کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی۔
”مجھے نہیں دنیا کو۔”
”یہ دولت تمہیں خوشی نہیں دے گی۔”
”خوشی کس کو چاہیے۔” وہ کہہ کر دروازے سے باہر نکل گئی۔
٭٭٭