”تو کہاں غائب ہو گیا تھا کرم علی؟ میں نے تجھ سے کہا تھا میرے ساتھ واپس چلنا مگر تو پہلے کیوں چلا گیا؟ میں نے اتنی بار فون کیا تیرے گھر۔ اتنی دفعہ پیغام چھوڑا تیرے لیے مگر مجال ہے تو نے ایک دفعہ بھی جواب میں کال کی ہو۔ تجھے کوئی خدا کا خوف ہے بھی یا نہیں؟”
شوکت زمان گاڑی میں اب اس کے برابر کی سیٹ پر بیٹھے مسلسل بول رہا تھا اور کرم علی صرف خاموشی سے اس کے ایک کے بعد دوسرے سوال کو سن رہا تھا۔
”مجھے کسی کام سے جلدی واپس آنا پڑا تھا۔” اس نے بالآخر شوکت زمان کی ایک گھنٹہ کی تقریر کے درمیان مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
”وہی تو پوچھ رہا ہوں کیوں؟”
ایک لمحہ کو کرم علی کو اپنے زخم دوبارہ رستے ہوئے محسوس ہوئے۔ سب کچھ ایک بار پھر سے یاد آنے لگا تھا۔
”بس تھی کوئی وجہ۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔ وہ شوکت زمان جیسے آدمی کے ساتھ اپنا دکھ شیئر نہیں کر سکتا تھا کم از کم اس وقت اس کا یہی خیال تھا۔
”چل نہ بتا، کبھی نہ کبھی تو بتائے گا۔ میں تو روز پوچھوں گا تجھ سے۔”
شوکت زماں اسے بہت احمق لگا ۔ آخر وہ روز اس کا سامنا کہاں کرنے والا تھا وہ تو صرف اسے اس کی بتائی ہوئی جگہ پر چھوڑ کر واپس آجانے والا تھا اور وہ جگہ قریب ہی تھی پھر شوکت زماں سے اس کی جان چھوٹ جانی تھی۔
”کتنی زور سے مارا ہے تو نے۔۔۔۔” شوکت زماں نے ایک گالی کے ساتھ اپنا جبڑا اور پھر اپنا ناک باری باری چھوا۔ ”اور میں تجھے کتنا شریف آدمی سمجھتا تھا۔” شوکت زمان نے ایک اور گالی دی۔
کرم علی کو بے اختیار شرمندگی ہوئی اسے یقین تھا شوکت زمان کو واقعی بہت تکلیف ہو رہی ہو گی۔
”گاڑی کیوں روکی تو نے؟” شوکت زمان کے بتائے ہوئے ایڈریس پر گاڑی روکنے پر شوکت نے بے حد حیرانی کے ساتھ اسے دیکھا پھر گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھا۔
”آپ کے اپارٹمنٹ والی جگہ پرآگیا ہوں۔” کرم علی نے جیسے اسے یاد دہانی کرائی۔
”تو میں کیا کروں؟” شوکت زمان نے بے حد اطمینان سے کہا۔
”آپ نے یہی ایڈریس بتایا تھا۔” کرم علی نے جیسے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
”ہاں تو ایڈریس بتایا تھا یہ تو نہیں کہا تھا کہ مجھے یہاں لے کر آجاؤ۔” شوکت نے بے حد اطمینان سے کہا۔
”آپ کو آرام کرنا چاہیے۔ کچھ دیر اگر سو جائیں گے تو آپ کے لئے مناسب رہے گا۔” کرم علی نے بے حد طریقے سے اس سے کہا۔
”ہاں یہ تو ٹھیک کہا تو نے۔” شوکت زمان نے کچھ دیر جیسے اس کی بات پر غور کیااور پھر سر ہلایا۔
کرم علی سے مزید کچھ کہے بغیر وہ گاڑی کا اگلا دروازہ کھول کر نیچے اترا اور اس کے ساتھ ساتھ کرم علی بھی اپنا دروازہ کھول کر اسے خدا حافظ کہنے کے لئے نیچے اترا لیکن اس سے قبل کہ وہ کچھ کہہ پاتا۔ شوکت زمان بڑے اطمینان کے ساتھ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر دوبارہ گاڑی کے اندر داخل ہوا اور سیٹ پر لیٹتے ہوئے اس نے دروازہ بند کر دیا۔
کرم علی نے ہڑ بڑا کر اسے جھک کر اپنی طرف والی کھڑکی سے دیکھا مگر شوکت زماں بے حد اطمینان سے آنکھیں بند کیے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹا ہوا تھا۔ کرم علی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔ چند لمحے اسی طرح گاڑی سے باہر کھڑے اسے دیکھ کر وہ اپنی سیٹ سے اندر آیا اور اس نے شوکت زمان سے کہا۔
”میرا مطلب تھا کہ آپ اگر اپنے گھر جا کر آرام کرتے تو آپ کو زیادہ فائدہ ہوتا۔” کرم علی نے اپناحلق کھنکار کر صاف کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں پتا ہے بہت فائدہ ہوتا مگر ”اپنا گھر” کہاں سے لاؤں؟”
شوکت زماں نے یک دم آنکھیں کھول کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ کرم علی کو لگا جیسے وہ نشے میں ہے۔ حالانکہ اسے یقین تھا وہ کم از کم اس وقت کسی قسم کے نشے میں نہیں ہو سکتا۔ انجکشن یا میڈیسن کی غنودگی ایک الگ چیز تھی۔
”یہ اس بلڈنگ میں آپ کا اپارٹمنٹ ہے۔ آئیں میں آپ کو اپارٹمنٹ تک چھوڑ آؤں۔” کرم علی نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
”تو اپارٹمنٹ ہے نا۔ گھر تو نہیں، اس طر ح کے تو کئی اپارٹمنٹ ہیں میرے پاس نیو یارک میں، واشنگٹن میں، لاس اینجلس میں، شکاگو میں۔”
وہ اب اسے روانی سے امریکہ اور کینیڈا کے وہ سارے شہر گنوا رہا تھا جہاں اس کے اپارٹمنٹ تھے۔
”میں نے تمہیں دوبئی والے اپارٹمنٹ کا بتایا؟” بات کرتے کرتے اسے یاد آیا۔
”نہیں” کرم علی نے بے ساختہ کہا۔
”دوبئی میں بھی ہے میرا ایک اپارٹمنٹ۔” شوکت زماں نے بڑے فخریہ انداز میں کہا۔
”اس وقت اس کی مارکیٹ ویلیو… ایک منٹ ٹھہرو ذرا۔۔۔۔” شوکت زمان بات کرتے کرتے رکا، پھر سیٹ پر اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اس نے کیلکولیٹر نکال کر کچھ حساب کتاب شروع کر دیا۔ کرم علی کو بے حد کوفت ہوئی۔ آدھا دن پہلے ہی پولیس اسٹیشن جانے اور وہاں سے آنے میں ضائع ہو چکا تھا اب وہ اس کا بقیہ دن بھی ضائع کر رہا تھا۔
”مجھے دلچسپی نہیں ہے آپ کے اپارٹمنٹ اور اس کی مارکیٹ ویلیو میں۔ آپ براہ مہربانی میری کیب سے اتر جائیں۔ مجھے کچھ ضروری کام ہے۔”
کرم علی نے اس بار قدرے ترشی سے کہا۔
شوکت زماں نے قدرے حیران نظروں سے اسے دیکھا اور پھر کیلکولیٹر کو اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”لیکن میں نے تو یہاں نہیں اترنا مجھے تو کہیں اور جانا ہے۔”
اس بار کچھ کہے بغیر کرم علی اندر بیٹھ گیا۔
”بتائیں۔ کہاں جانا ہے آ پ کو؟” اس نے شوکت زماں سے کسی حجّت کے بغیر کہا۔
”پولیس اسٹیشن۔” کرم علی کو اس پر بے حدغصہ آیا وہ جیسے دھمکا رہا تھا۔ اس کاخیال تھا کہ وہ پولیس اسٹیشن کی دھمکی دے گا تو وہ اس سے ڈر جائے گا اور یقینا کرم علی اگر کچھ ماہ پہلے کے حالات سے نہ گزرا ہوتا تو ڈر ہی جاتا۔ مگر اب بات دوسری تھی۔ ایک بھی لفظ کہے بغیر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور پھر ہوا کی رفتار کے ساتھ اڑاتے ہوئے اسی پولیس اسٹیشن لے آیا جہاں چند گھنٹے پہلے وہ لاک اپ میں تھا۔ پولیس اسٹیشن کی عمارت کے سامنے آتے ہی شوکت زمان بڑے اطمینان سے کپڑے جھاڑتے ہوئے ٹیکسی سے اتر آیا۔ کرم علی بھی غصے کے عالم میں ٹیکسی سے اتر آیا تھا۔
پولیس اسٹیشن کی عمارت کے اندر داخل ہونے والے شوکت زماں نے کرم علی کو چند بار مخاطب کرنے کی کوشش کی مگر اسے کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ اب شوکت زماں سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ متعلقہ پولیس آفیسر تک پہنچتے پہنچتے کرم علی اپنے ذہن میں وہ تمام جملے تیار کر رہا تھا جو اسے شوکت زماں اور اس کے رویے کے بارے میں پولیس والے سے کہنے تھے مگر شوکت زماں کے بولتے ہی کرم علی کو لگا وہ دنیا کا سب سے بڑا احمق تھا۔
شوکت زماں پولیس آفیسر کو اپنے والٹ، اس میں موجود کاغذات، رقم اور چند دوسری چیزوں کے گم ہو جانے کی رپورٹ کروانے کے لئے آیا تھا۔ وہ پولیس والے کو اس بار کے بارے میں بتا رہا تھا جہاں اس نے آخری بار والٹ نکالا تھا اور اسکے بعد اسے یاد نہیں تھا کہ اس نے والٹ اپنی جیب میں واپس ڈالا یا اسے وہیں چھوڑ دیا یا اس کی جیب میں والٹ ڈالتے ہوئے وہ وہاں گر گیا یا کسی نے اس کی جیب سے نکال لیا۔
شوکت زماں کو اس بار آدھ گھنٹہ لگا تھا اور کرم علی ہونقوں کی طرح کبھی اس کی اور کبھی پولیس والے کی شکل دیکھتا رہا تھا جو اس سے سوال کر رہا تھا۔ اس کا غصہ ایک بار پھر بھاپ بن کر غائب ہو گیا تھا۔
آدھ گھنٹہ کے بعد شوکت زماں فارغ ہو کر جب اس کے ساتھ باہر تک آیا تو کرم علی نے اس سے حفظ ماتقدم کے طورپر پوچھا ”آپ کو کہاں جانا ہے؟”
”تمہارے گھر۔” بہت برجستہ جواب دیا۔ کرم علی کا دل چاہا وہ اس سے کہے کہ میرا بھی کوئی گھر نہیں ہے۔ مگر اس سے بڑی حماقت وہ نہیں کر سکتا تھا اگر شوکت زماں سے یہ کہہ دیتا۔
”مجھے تو ابھی رات گئے تک کیب چلانا ہے پھر کہیں گھر جاؤں گا۔”
کرم علی نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔
”تو بس ٹھیک ہے تو کیب چلا میں تیرے ساتھ بیٹھوں گا۔”
شوکت زمان نے بڑے اطمینان سے کہا اور دروازہ کھول کر اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس بار کرم علی نے بھی کچھ کہے بغیر ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کرنے لگا۔
”کتنے ڈالر بنا لیتے ہو روز کے؟” شوکت زماں نے گاڑی کے سڑک پر آتے ہی اس سے یوں پوچھا، جیسے وہ اس کا پرانا دوست ہو۔
”پتانہیں، بہت عرصہ ہوا ہے حساب کتاب رکھنا چھوڑ دیا۔”
کرم علی نے اسی انداز میں کہا۔ شوکت زماں نے بہت غور سے اس کا چہرہ دیکھا پھر کہا۔
”تو بڑا بدل گیا ہے کرم! پہلے جیسا نہیں ہے۔ لگتا ہے امریکہ کی ہوا لگ گئی ہے تجھے۔”
کرم علی خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا۔ شوکت زماں اس کے چہرے پر پتانہیں کیا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”شادی ہو گئی تیری؟” کرم علی کا پاؤں بے اختیار بریک پر پڑا۔ بعض دفعہ پتہ نہیں کیوں ہر چیز رک جاتی ہے مگر گاڑی رکی نہیں صرف لمحے بھر کے لئے اس کی اسپیڈ کم ہوئی۔
”پچھلی دفعہ بتایا تھا تو نے کہ تیری منگنی ہو چکی ہے۔ کیا نام بتایا تو نے اپنی منگیتر کا…؟ ہاں عارفہ۔”
کسی نے جیسے کرم علی کے دل پر ہاتھ رکھا۔ وہ کئی ماہ بعد ملے تھے اور اسے یقین تھا شوکت زمان کے استفسار پر اس نے پچھلی ملاقات میں صرف ایک بار اس سے اپنی منگنی کا ذکر اور عارفہ کا نام لیا تھا۔ پھر بھی شوکت زماں کو وہ نام یادآگیا تھا۔شوکت زماں کی یادداشت بلاشبہ کمال کی تھی۔
”نہیں پر شادی کیسے ہو سکتی ہے… تیری… تو تو صابر قیوم کی تدفین کے لئے گیا تھا پاکستان… اور پھر جلدی آبھی گیا۔ ان چند مہینوں میں دوبارہ تو نہیں گیا ہو گا پاکستان۔”
شوکت زماں اندازے لگانے میں مصروف اور کرم علی اس کی یادداشت پر حیران اسے صابر قیوم کا نام بھی یاد تھا۔