من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

پیلے گلابوں کا وہ سلسلہ صرف پیلے گلابوں پر نہیں رکا تھا۔ کسی نام اور ایڈریس کے بغیر زینی کے لیے انہیں دو لفظوں For Zaini کے ساتھ بہت کچھ آتا رہا تھا۔ اس کی ہر پسندیدہ چیز اس کے پسندیدہ رنگ… ہر بار ایسا کوئی تحفہ کچھ دیر کے لیے زینی کو الجھا دیتا تھا۔ پتہ نہیں کیوں ہر بار ایسے کسی تحفے کوہاتھ میں لینے پر اسے سب سے پہلا خیال شیراز کا ہی آتا تھا۔ ایک عجیب سی چبھن عجیب سی تکلیف کا احسا س ہوتا تھا اسے، وہ جانتی تھی وہ شیراز کا بھیجا ہوا تحفہ نہیں تھا۔ اور یہ یقین اسے کیوں تھا وہ اس کی بھی وجہ جانتی تھی۔
اس نے کبھی یہ پتہ کروانے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ تحفے اسے کون کہاں سے بھجواتا تھا۔ نہ ہی سلطان نے اس پر توجہ دی تھی اداکاراؤں کو بہت سے لوگ بہت کچھ اسی طرح بھیجا کرتے تھے۔ پہلے بے نام پھر اپنے وقت پر وہ سامنے آجاتے تھے۔ سلطان کو بھی انتظار تھا کہ تحفے بھیجنے والا وہ شخص کب اور کس وقت سامنے آتا ہے۔
ایک لمبے عرصے کے بعد اس نے بالآخر پہلی بار چاکلیٹس کی ایک ٹرے کے ساتھ اپنا ایڈریس اور فون نمبر بھیجا تھا۔ وہ اسی شہر کا تھا۔ سلطان نے اپنی ڈائری میں وہ ایڈریس اور فون نمبر نوٹ کر لیا تھا۔ اسے یقین تھا بہت جلد وہ شخص اپنا نام بھی اپنے تحفے پر لکھ بھیجتا۔ آخر کوئی کب تک یوں خاموشی سے تحفے بھجوا سکتا تھا۔
اور وہ ابھی اس ایڈریس اور فون نمبر کو لکھ کر فارغ ہوا تھا جب زینی نے اس کے پاس آئے چاکلیٹس کی ٹرے اٹھا لی۔
”یہ بھی اس نے بھیجے ہیں؟” زینی نے مسکراتے ہوئے چاکلیٹ کی ٹرے کھولی۔
”آپ کو کیسے پتہ چلا؟” سلطان نے حیرانی سے زینی کو دیکھا جو ایک چاکلیٹ اپنے منہ میں ڈالتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔ وہ اب دوسرا چاکلیٹ نکال کر سلطان کو دے رہی تھی۔
”ایڈریس اور فون نمبر ہے اس بار نام نہیں۔” وہ مزید بولی۔
”لیکن آپ نے بتایا نہیں آپ کو کیسے پتہ چلا؟” سلطان نے اپنا سوال دہرایا۔
”بتا دوں گی۔” زینی نے ٹرے لاپروائی سے میز پر رکھ دی۔
”ایڈریس پتہ لگ گیا ہے تو شکریہ ہی ادا کر دیں۔”
”کس چیز کا؟ میں نے اس سے نہیں کہا کہ مجھے یہ سب کچھ بھیجے۔”
”زینی اب سگریٹ سلگاتے ہوئے کمرے میں چکر لگا رہی تھی۔
”لیکن جب کوئی اتنی محبت کرنے لگے تو۔۔۔۔” سلطان کو سمجھ میں نہیں کہ وہ یک دم غصے میں کیوں آگئی تھی۔
”میرے سامنے کبھی محبت کا نام مت لینا۔” وہ جیسے غرائی تھی۔
”میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ یہ شخص اپنے دل میں کوئی خاص گوشہ تو رکھتا ہو گا آپ کے لیے کہ اتنے تحائف بھجوا رہا ہے۔” سلطان نے گڑبڑا کر کہا۔
”ہاں، یہ مرد بھی مجھے اسکرین پردیکھ کر مجھ پر فدا ہو گیا ہو گا۔ اس کی جیب میں بھی چارپیسے ہوں گے اور اب یہ ان تحفوں کے ذریعے میرے لیے جال بچھا رہا ہے تاکہ میں کانٹا نگلنے والی مچھلی کی طرح پھنس جاؤں۔” زینی نے تلخی سے کہا۔
”ہو سکتا ہے اس کو واقعی آپ سے محبت ہو۔”
”کوئی محبت کی حقیقت کو پری زاد سے بہتر نہیں جان سکتا۔” اس نے سلطان کی بات کاٹ دی۔
سلطان نے چونک کر زینی کا چہرہ دیکھا۔
”کبھی کی ہے محبت؟”
وہ کمرے کے چکر لگاتے لگاتے رک گئی۔ بہت دیر خاموشی سے سلطان کا چہرہ دیکھتے رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”تمہیں کیا لگتا ہے؟”
”محبت کی ہو تب ہی کوئی محبت سے اتنی نفرت کرتا ہے۔” سلطان نے بڑے عجیب سے لہجے میں کہا۔ زینی صوفے پر بیٹھ گئی۔
”یہ جو بازار میں ٹکے ٹکے کے مردوں کے سامنے آکر بیٹھ گئی ہوں۔ یہ محبت کی وجہ سے ہی ہے۔”
سلطان کچھ بول نہیں سکا۔ وہ اتنے مہینوں میں پہلی بار اس کے سامنے کھل رہی تھی۔




”کون تھا وہ؟” سلطان نے ہمدردانہ لہجے میں پوچھا۔
”ایک بڑا افسر ہے۔ ایک بہت بڑے آدمی کا داماد جس کی دولت مند بیٹی کو اپنانے کے لیے اس نے زینب کے وجود کو بے مول کر دیا۔”
وہ سگریٹ ایش ٹرے میں مسل رہی تھی۔ سلطان بہت دیر کچھ نہیں بولا۔
”یاد آتا ہے؟” بہت دیر بعد اس نے زینی سے پوچھا۔
”وہ سگریٹ کے ادھ بجھے ٹکڑے کو ایش ٹرے میں بار بار مسلتی رہی۔
”بہت آتا ہے۔ ہر بار جب کوئی مرد میرے قریب آتا ہے۔ ہر بار جب میں کیمرہ کے سامنے لباس کے نام پر چیتھڑے پہن کر کھڑی ہوتی ہوں… ہر بار جب میں نشے میں مدہوش کسی مرد کے منہ سے جھوٹا اظہار محبت سنتی ہوں تو بہت یاد آتا ہے، مجھے بار بار یادآتا ہے۔”
اس کے لہجے میں آگ تھی اور آنکھوں میں نمی۔
”اس نے چھوڑ دیا یا دھوکا دیا؟”
”دونوں کام کیے۔”
”کس لیے؟” سلطان نے بے ساختہ کہا۔
زینی نے جواب نہیں دیا۔ وہ صوفے پر پڑا اپنا شولڈر بیگ کھولنے لگی پھر اس میں سے نوٹوں کی بہت سی گڈیاں نکال کر اس نے سلطان کے سامنے ٹیبل پر پھینک دیں۔
”اس کے لیے۔” اس نے تلخی سے کہہ کر ایک اور سگریٹ سلگانا شروع کر دیا۔
سلطان نے بے حد رنج سے اسے دیکھا پھر نوٹوں کی گڈیاں سمیٹنے لگا۔ اس نے پری زاد کو کبھی اس موڈ میں نہیں دیکھا تھا۔
”کینیڈا سے کوئی پروڈیوسر پانچ کروڑ کی فلم بنا رہا ہے اس سال۔”
سلطان نے نوٹوں کی گڈیاں ایک بار پھر اس کے پرس میں رکھنی شروع کر دی تھیں۔ زینی اسی طرح سگریٹ پیتے ہوئے کمرے کے چکر لگاتی رہی۔
”ہر ہیروئن اس فلم میں کاسٹ ہونے کے لیے اپروچ کررہی ہے۔” سلطان نے اسے مزید بتایا۔
”کون پروڈیوسر ہے جو کینیڈا سے اپنا پانچ کروڑ ڈبونے آرہا ہے یہاں؟” زینی نے استہزائیہ انداز میں کہا۔
”میں نے تو پہلے کینیڈا کے کسی پروڈیوسر کا ذکر نہیں سنا۔”
”ہاں یہ پہلی فلم ہے اس کی۔ ساری شوٹنگ بھی وہیں ہونی ہے اس کی۔بہت بڑا یونٹ جائے گاوہاں۔” وہ اسے بتا رہا تھا۔
”تم مجھے کیوں بتا رہے ہو؟” زینی نے ایک دم چونک کر کہا۔
”بے وقوف ہوں اس لیے۔” سلطان جھلا کر بولا۔ ”کہا بھی ہے کہ فلم انڈسٹری کی ہر ہیروئن اس فلم کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔”
”اور تم چاہتے ہو۔ میں بھی اس لائن میں لگ جاؤں۔”
”پانچ کروڑ کی فلم ہے پری جی! اگر اس میں آپ کے بجائے کوئی اور کاسٹ ہو گئی اور یہ فلم ہٹ ہو گئی تو مصیبت پڑ جائے گی آپ کو۔ اور مجھے بھی۔ کشتی ڈولنے لگے گی ہماری۔ یہ فلم آپ کو اور صرف آپ کو ملنی چاہیے۔ میں اس پروڈیوسر سے کانٹیکٹ کی کوشش کر رہا ہوں پھر آپ کی بات بھی کرواؤں گا۔” سلطان نے کہا۔
”کون ڈائریکٹ کر رہاہے اس فلم کو؟” وہ اسی طرح کمرے میں ٹہلتے ہوئے سلطان کی بات پر غور کر رہی تھی۔ وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ اسے اس فلم کو حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے چاہیے تھے۔
”نواز پراچہ۔” سلطان نے بتایا۔
”شکر ہے انور حبیب نہیں کر رہا۔” زینی نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
”نواز پراچہ کے ساتھ تو میں پہلے ہی دو فلمیں کر رہی ہوں۔وہ تو ویسے ہی مجھے اس فلم میں لے لے گا۔ اچھے تعلقات ہیں میرے اس کے ساتھ۔” زینی نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
”اس غلط فہمی میں مت رہیے گا پری جی!” سلطان نے اسے خبردار کیا۔
”نواز سے پہلے ہی بات کر چکا ہوں… اس نے کہا ہے کہ پروڈیوسر ہیروئن اپنی مرضی کی رکھے گا۔” سلطان نے بتایا تو زینی سگریٹ منہ سے نکال کر بے اختیار ہنسی۔
”اپنی مرضی کی۔” اس نے سلطان کے پاس آکر صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”فکر مت کرو سلطان! اس فلم میں میرے علاوہ کوئی نہیں ہو گا۔ کیا نام ہے اس پروڈیوسر کا؟”
”کرم علی!” سلطان نے اس کے پاؤں دباتے ہوئے کہا۔
”کرم علی۔” وہ اس کا نام دہراتے ہوئے کچھ سوچنے لگی۔
٭٭٭
وہ اس رات سول سروسز اکیڈمی کے کسی سالانہ فنکشن میں شرکت کے لیے سعید نواز کے ساتھ وہاں آیا تھا۔ شینا کو بھی اس فنکشن میں آنا تھا مگر ہمیشہ کی طرح اس نے آخری لمحات میں یہاں آنے کے بجائے کہیں اور جانا ”پسند” کیا ۔ وہ سعید نواز کا داماد نہ ہوتا تو شاید اسے تقریب میں آنے کا موقع بھی نہ ملتا۔ وہ سینئر آفیسرز کی گیدرنگ تھی۔ وہاں جونیئر آفیسرز وہی تھے جو اپنے اپنے خاندانوں کی وجہ سے وہاں موجود تھے اور سعید نواز کبھی اسے ایسی جگہوں پرلانا نہیں بھولتا تھا اور وہ بھول بھی جاتا تو شیراز خود اسے یاد کروا دیتا۔ وہ جتنے تعلقات اور شناسائیاں ایک گیدرنگ سے بنا سکتا تھا۔ پورے سال میں بھی نہیں بناپا تھا۔
”میں آج صرف پری زاد کی وجہ سے آیا ہوں۔”
شیراز کے ہاتھ سے ڈرنک کا گلاس چھوٹتے چھوٹتے بچا۔ وہ جس ڈنر ٹیبل پرتھا ،وہیں پر کچھ آگے اس نے تقریباً اپنی ہی عمر کے لیکن اس سے ایک دو کامن سینئر آفیسرز میں ایک کو کہتے سنا۔
چند لمحوں کے لیے اسے لگا تھا، ا س کا دل اچھل کر باہر آگیا ہے۔
”پری زاد کا وہاں کیا کام تھا؟” اس کے دل میں بے اختیار خیال آیا پھر جیسے اس نے تصحیح کی۔”زینی وہاں کیا کرنے آرہی تھی؟”
”تو تمہارا کیا خیال ہے۔ میں کس لیے آیا ہوں؟ سب پری زاد کے لیے ہی آئے ہیں یہاں۔ کتنی دیر ہے اس کی پرفارمنس میں؟” دوسرے آفیسر نے جواباً کہا تھا۔
”پتہ نہیں ، میں نے پروگرام چیک نہیں کیا لیکن ظاہر ہے سب سے لاسٹ ہی ہو گی۔”
شیراز نے اپنے سامنے ڈنر ٹیبل پر پڑے پروگرام کارڈ کو کھول کر دیکھنا شروع کر دیا۔ پری زاد کی پرفارمنس واقعی پروگرام کے اختتام پر تھی۔
”پاپا بتا رہے تھے، دس منٹ کی پرفارمنس کا دس لاکھ روپیہ دیا گیا ہے پری زاد کو۔”
وہ آفیسر کسی ایڈیشنل سیکریٹری کا بیٹا تھا۔ شیراز نے پروگرام کارڈ دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا۔ اس نے پاس سے گزرتے ویٹر سے سوفٹ ڈرنک کا ایک اور گلاس لیا۔ اسے یقین تھا، اس کے چہرے پر کہیں نہ کہیں پسینے کے قطرے ضرور نمودار ہو رہے ہوں گے۔ اس کے کان ان دونوں آفیسرز کی باتوں پر لگے ہوئے تھے۔ وہ دونوں کافی جوش و خروش کے عالم میں پری زاد کو ڈسکس کرنے میں مصروف تھے۔
یہ نہیں تھا کہ شیراز کو پتہ ہی نہیں تھا کہ زینی کیا کر رہی تھی۔ وہ ماڈلنگ سے لے کر فلم انڈسٹری تک اس کے بارے میں ہر چیز سے واقف تھا۔ سڑکوں پر لگے بل بورڈ پر اس کا چہرہ بھی اس کی نظروں سے اوجھل نہیں تھا۔ وہ شوبز میں اس کی مقبولیت اور اس کے اسٹارڈم سے بھی واقف تھا۔ اس کے باوجود وہ اس کے لیے پری زاد کبھی نہیں بن سکی۔ وہ اب بھی اس کے لیے زینب ضیاء یا زینی تھی۔ اس کے چچا کی بیٹی۔ اس پر جان چھڑکنے والی بے وقوف منگیتر جسے اس نے شینا کے لیے چھوڑا تھا۔
وہ اس کے لیے ”سابقہ” تھی اور اس کے بیک گراؤنڈ کو جانتے ہوئے یہ بہت مشکل اور ناممکن تھا کہ وہ پری زاد سے اس طرح فیسی نیٹ ہوتا جس طرح دوسرے لوگ ہوتے تھے یا میڈیا ہوتا تھا لیکن آج سول سروسز اکیڈمی میں بیٹھ کر اپنے ہی جیسے آفیسرز کے منہ سے پری زاد کا نام سن کر اسے کرنٹ لگا تھا۔ کیا وہ اتنی اہم ہو گئی تھی کہ اسے سول سرونٹس ڈسکس کرنے لگے تھے؟ اس کو اور اس کی پرفارمنس کو دیکھنے کے لیے مرنے لگے تھے؟
اور کیا زینی کا وقت اتنا قیمتی تھا کہ وہ اپنے کچھ منٹوں کا معاوضہ لاکھوں میں لینے لگی تھی۔ شیراز کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اور پھر اسے وہی خیال آیا تھا جو اسے سب سے پہلے آنا چاہیے تھا۔ کیا وہ وہاں اسے دیکھنے پر اسے پہچانے گی اور پہچانے گی تو کس رد عمل کا اظہار کرے گی؟”
٭٭٭
وہ چیف سیکریٹری کی سبز پلیٹ والی گاڑیوں میں سے ایک سیاہ سرکاری گاڑی تھی جس کی پچھلی سیٹ پر زینی اس وقت بیٹھی ہوئی تھی۔ ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر وہ آدمی بیٹھا تھا جو پروٹوکول کے طور پر اسے لینے آیا تھا۔
دو سال میں سرکاری آفیسرز کے لیے یہ پہلا فنکشن تھا جس میں وہ پرفارم کر رہی تھی۔ ورنہ اس سے پہلے وہ ہر آفر ریجیکٹ کر رہی تھی۔ اسے سول سرونٹس سے نفرت تھی۔ اس کے باوجود اس نے جب سے اشتیاق رندھاوا کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کیا تھا۔ اس کا سرکاری آفیسرز سے دن رات سامنا ہوتا تھا۔ لوگ ان کو باہر سے جانتے تھے، وہ انہیں اندر سے جاننے لگی تھی۔
اس بار چیف سیکریٹری نے اس فنکشن میں پرفارمنس کے لیے اس سے رابطہ کیا تھا اور چیف سیکریٹری کیا پاکستان کا ہر چھوٹا بڑا آفیسر جانتا تھا کہ وہ اشتیاق رندھاوا کی منظور نظر ہے۔ کوئی دوسری ایکٹریس یا اسٹار ہوتی تو اس کو پرفارم کروانے کے لیے سول سرونٹس دوسرے حربے استعمال کرتے لیکن اس کے پیچھے اشتیاق رندھاوا کھڑا تھا۔ اس کے سامنے دانت پیسنے کے لیے نہیں، صرف مسکرانے کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔
اور پری زاد سے چیف سیکریٹری نے پہلے خود بات کی تھی۔ اس سے نیچے کے کسی آفیسر کے لیے پری زاد سے بات کرنا تو ایک طرف، اس سے رابطہ کرنا بھی دشوار تھا اور چیف سیکریٹری نے اس سے بات کرنے سے پہلے اشتیاق رندھاوا سے بات کی تھی۔
اور اب پری زاد وہاں پرفارم تو کر رہی تھی مگر اپنے منہ مانگے معاوضے پر اور پورے ”سرکاری پروٹوکول” کے ساتھ جو اشتیاق رندھاوا کے کہنے پر اسے دیا جا رہا تھا اور جو پری زاد سے پہلے کسی ایکٹریس کو نہیں دیا گیا تھا۔
زینی نے سیل فون پر آنے والا نمبر دیکھا پھر کال ریسیو کرنے کے بجائے فون آف کر کے گاڑی کے شیشوں سے باہر دیکھا۔ بہت کچھ یک دم یاد آنے لگا تھا۔ بہت ساری کرچیاں ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں چبھنے لگی تھیں۔
وہ اکیڈمی کی طرف جاتے ہوئے اس تھڑے کے سامنے سے گزر رہی تھی، جہاں چند سال پہلے وہ شیراز سے ایک بار ملنے کے لیے آکر بیٹھ گئی تھی۔ جہاں سے اس کا باپ اسے بچوں کی طرح روتے ہوئے واپس لے کر گیا تھا۔
گاڑی ایک سیکنڈ سے بھی کچھ کم وقت میں وہاں سے گزر گئی تھی، مگر زینی نہیں۔ سب کچھ جیسے سمندر کی ایک پلٹ کر آنے والی موج کی طرح اس پر آن گرا تھا۔ چند منٹوں کے لیے، صرف چند منٹوں کے لیے اس کا جی چاہا تھا، کوئی آج بھی اسے وہاں سے واپس لے جانے کے لیے ہوتا۔
گاڑی اب اکیڈمی کے اندر داخل ہو رہی تھی۔ اسے بہت دور ریسپشن پر کھڑے لوگ نظر آرہے تھے۔ جو یقینا صرف اسی گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔ اس وقت پہلی بار اسے خیال آیا، شیراز کا خیال… کیا وہ بھی یہاں تھا؟




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!