من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

”اس دنیا میں ہاں۔ پر اگلی دنیا میں خسارے کا سامنا ان کو ہو گا، ہم کو نہیں۔”
”اِس” دنیا میں کون ”اُس” دنیا کا سوچتا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔” اس نے بے اختیار باپ سے ایک بار پھر شکوہ کیا۔
”جو نہیں سوچتا نہ سوچے لیکن میں اور میری اولاد تو سوچتے ہیں نا؟” ضیاء نے بے حد سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے جیسے سوال کیا۔
زینی نے اثبات میں سر نہیں ہلایا۔ اس نے باپ سے نظریں چراتے ہوئے ایک بار پھر شکایتی انداز میں کہا۔
”لیکن کیا ہو جاتا اگر اللہ آپا کو ایک بیٹا دے دیتا۔”
”بیٹیوں میں کیا برائی ہے؟” ضیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”کوئی ایک برائی تھوڑی ہے۔ برائیاں ہی برائیاں ہیں۔” زینی کی آنکھوں سے اب آنسو گرنے لگے تھے۔ ”ہر بار زہرہ آپا کی وجہ سے کتنی بے عزتی کرتے ہیں نعیم بھائی اور پھوپھو آپ کی۔ جب میری اور ربیعہ کی شادی ہو جائے گی تو آپ کو اسی طرح ان لوگوں کی باتیں بھی سننا پڑیں گی۔”
ضیاء اس کی بات پر بے اختیار ہنس پڑے۔ زینی کے آنسوؤں کی روانی میں اب اضافہ ہو گیا تھا۔
”زینی! اتنی منفی باتیں کیوں سوچتی ہو تم؟ شیراز اور اس کے گھرو الے کتنا خیال رکھتے ہیں تمہارا اور ربیعہ کے سسرال والے بھی بہت اچھے ہیں۔ نعیم بھی وقت گزرنے کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اتنا آگے کا مت سوچا کرو۔ جاؤ اب جا کر سو جاؤ۔ صبح کالج جانا ہے تمہیں۔”
ضیاء نے اسے دلاسا دینے کی کوشش کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ اسی طرح سرجھکائے بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔ جو چیز ایک بار زینی کے دل میں آجاتی، اسے نکالنا بہت مشکل ہوتا تھا۔ اس کی سوئی ایک بار جس بات پر اٹک جاتی، اٹک جاتی۔




”آپ مانیں یا نہ مانیں ابو! اللہ نے آپا کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔”
”بہت بری بات ہے زینی! انسان کو اتنا ناشکرا نہیں ہوناچاہیے۔” ضیا کو اس بار اس کا جملہ بری طرح کھلا۔
”میں ناشکری نہیں ہوں لیکن میں جب بھی آپا کے بارے میں سوچتی۔۔۔۔”
زینی نے مدافعانہ انداز میں کہنے کی کوشش کی لیکن ضیا نے اس کی بات کاٹ دی۔
”دنیا اللہ نے صرف تمہاری آپا کے لیے نہیں بنائی۔ زہرہ سے بھی زیادہ تکلیف میں جی رہے ہیں لوگ… تو کیا ہر ایک اللہ سے ایسی باتیں کرنے لگے۔”
وہ باپ کی بات پر خجل سی ہو گئی۔ ”میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا۔”
”گھر کا نوکر گھر کے مالک کے بارے میں کوئی بری بات کہے تو مالک کیا حال کرتاہے اس کا۔ اللہ تو پھر رحیم اور غفور ہے۔ ہماری زبان پر آنے والی ہر بات اور دل میں آنے والے ہر برے خیال کو سننے اور جاننے کے باوجود ہماری دعائیں سنتا ہے۔ آزمائشیں دور کرتا ہے، نوازتا ہے۔ جب بھی زہرہ کے گھر میں کوئی مسئلہ ہوا، اللہ نے ختم کیا نا؟” وہ اب زینی سے پوچھ رہے تھے۔
”ہاں… پر اللہ جلدی آزمائشیں ختم کیوں نہیں کرتا؟” اس نے اضطراب کے عالم میں باپ سے پوچھا۔
”ہر کام کا وقت ہوتا ہے زینب! ہر کام اپنے وقت پر ہوتا ہے۔”ضیا نے اسے سمجھایا ۔ ”انسان کو انتظار کرنا سیکھنا چاہیے۔ صبر اور شکر کے ساتھ انتظار ۔”
”میں انتظار نہیں کر سکتی ابو! آپ کو پتاہے، مجھے ہر چیز جلدی چاہیے۔” زینی نے بے حد بے چارگی سے کہا۔ وہ غلط نہیں کہہ رہی تھی۔ اسے واقعی انتظار کرنا نہیں آتا تھا۔
”بہت بے وقوف ہو زینی! سو جاؤ جا کر مجھے تہجد پڑھنا ہے۔”
ضیانے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس کے آنسو پونچھے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ جانتے تھے وہ انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ اسے ہر چیز فوراً چاہیے ہوتی تھی۔ انہیں یاد نہیں پڑتا تھا، وہ کبھی اس کے لیے بچپن میں آفس سے واپسی پر کھانے کی کوئی چیز لائے ہوں اور زینی نے اسی وقت نہ کھا لی ہو۔ یہی حال کسی کھلونے، کپڑے یا استعمال کی دوسری چیزوں کا ہوتا تھا۔ زینی کوہر چیز فوراً چاہیے تھی اور اسی وقت استعمال کرنی ہوتی تھی۔ کچھ اللہ کی طرف سے بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ کہ زینی باپ سے کوئی فرمائش کرتی اور کچھ نہ کچھ حالات ایسے بن جاتے کہ ضیا ایک دو دن میں ہی وہ فرمائش پوری کر دیتے اور پھر جیسے یہ زینی کی عادت بن گئی تھی۔ ہر چیز جلد پا لینے کی عادت۔
”پھر زہرہ آپا کا مسئلہ حل ہو جائے گا نا؟” اس نے باپ کو اٹھتے دیکھ کر بڑی بے چینی اور امید سے کہا۔ ”انشاء اللہ تعالیٰ”
”کب؟” اس نے ایک بار پھر احمقانہ سوال کیا۔
”جب اللہ چاہے گا۔ براوقت ہمیشہ گزر جاتا ہے۔ چیزیں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ بس انسان کا ظرف آزمانا ہوتا ہے اللہ نے۔”
زینی باپ کے آخری جملے پر بے اختیار شرمندہ ہوئی تھی۔
٭٭٭
”زینب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔”
”کیا ہوا زینب کو؟”
”بس سر میں کچھ درد ہو رہا ہے۔”
”تو تم Short leave لے کر گھر چلی جاتیں۔”
”نہیں اب ٹھیک ہوں میں۔”
”اگر دوبارہ طبیعت خراب ہوئی تو میں اسے گھر بھجوا دوں گی۔” رمشہ نے کہا اور سامعہ کے جاتے ہی وہ زینب سے مخاطب ہوئی۔
”اب بس اپنی شکل ٹھیک کر لو۔ گراؤنڈ میں بیٹھ کر رونا شروع کر دیا۔ یہ بھی خیال نہیں کہ پورا کالج یہاں پھررہا ہے۔”
وہ دونوں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی کلاس لے کر آئی تھیں اور رمشہ نے زہرہ کا ذکر چھیڑا تھا کہ زینب اس سے بات کرتے کرتے ہمیشہ کی طرح رونے لگی۔ گراؤنڈ میں موجود ان کی کلاس فیلو بہت سی لڑکیوں نے زینب کو روتے اور رمشہ کو اسے چپ کراتے دیکھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ تھوڑی ہی دیر میں وہاں لڑکیوں کا جمگھٹا لگ گیا تھا۔ صرف زینب ہی نہیں رمشہ کو بھی بڑی خفّت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس نے ہر ایک کو زینب کی طبیعت کی خرابی کا بتا کر جان چھڑائی تھی لیکن اب بھی ان کی جس کلاس فیلو کو زینب کے رونے کاپتہ چلتا، وہ ان کے پاس چلی آرہی تھی۔
”کیا فائدہ ہوا یہاں بیٹھ کر رونے کا۔” رمشہ اب اس پر بگڑ رہی تھی۔ ”بات بعد میں کرتی ہو رونا پہلے شروع کر دیتی ہو۔”
زینب کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو آنے لگے۔
”خدا کے لیے زینب! کچھ خیال کرو۔” رمشہ نے اس بار بے بسی سے کہا۔
”کوئی فائدہ ہوتا ہے تمہیں رونے کا؟ ہر بار تمہارا بہنوئی یہی سب کچھ کرتا ہے اور تم اسی طرح روتی پھرتی ہو پھر وہ لے جاتا ہے تمہاری بہن کو اور سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اب بھی لے جائے گا۔”
”نہیں۔ اس بار نہیں لے جائیں گے۔ اس بار صورت حال بہت خراب ہے تمہیں اندازہ نہیں ہے۔ پھوپھو نے رشتہ بھی ڈھونڈنا شروع کر دیا ہے نعیم بھائی کے لیے۔”
زینب نے بے حد متفکر لہجے میں کہا۔
”ایمانداری سے کہہ رہی ہوں۔ دفع کرو اس طرح کے بہنوئی کو اگر یہ پھندا تمہاری بہن کے گلے سے نکل رہا ہے تو نکل جانے دو۔” رمشہ نے بے حد اطمینان سے کہا۔
”ایک پھندا گردن سے نکل جائے گا تو سو دوسرے پھندے پڑ جائیں گے۔ زہرہ آ پا تین بیٹیوں کو کس طرح اکیلے پالیں گی؟” زینب نے بے حد رنجیدگی سے کہا۔
”اکیلی کیوں؟ تم لوگ بھی دوسری شادی کر دینا ان کی۔” رمشہ نے اسی انداز میں کہا۔
”تین بیٹیوں کے ساتھ کون کرے گا ان سے شادی۔”
”کیوں؟… بیٹیوں کو ان کے باپ کے پاس بھجوانا۔ وہ زہرہ آپا کی ذمہ داری نہیں ہیں۔ باپ رکھے انہیں اپنے پاس۔” رمشہ اب بے حد سنجیدہ تھی۔
”وہ بیٹیاں ہیں، بیٹے نہیں ہیں رمشہ! کہ نعیم بھائی انہیں خوش خوشی پاس رکھ لیں گے۔ سارا مسئلہ ان ہی کی وجہ سے تو ہو رہا ہے۔” زینب نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”تو آخر یہ مسئلہ حل ہو گا کس طرح؟” اس بار رمشہ بھی کچھ فکر مند ہوئی۔
”نعیم بھائی موٹر سائیکل مانگ رہے ہیں۔ ابو کہاں سے دیں گے؟ اسی لیے تو رونا آرہا ہے مجھے۔” زینب کی آواز ایک بار پھر بھرا گئی۔
”زینی! ایک بات میری کان کھول کر سن لو۔ زندگی میں آنسو بہانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا نا تو ساری دنیا سب کچھ چھوڑ کر تمہاری طرح بیٹھ کر روتی رہتی۔ آنسو دنیا کو صرف یہ بتاتے ہیں کہ میں بے حد کمزور ہوں۔ I Need Help (میری مدد کرو) اور کوئی آنسو دیکھ کر مدد کے لیے نہیں آتا سمجھیں…؟”
رمشہ نے اس بار بے حد سنجیدگی سے اسے سمجھایا۔
”پتاہے مجھے۔” زینب نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
”میرے پاس کچھ رقم پڑی ہے۔ تم قرض کے طور پر لے لو اور۔۔۔۔” زینب نے بے اختیار رمشہ کی بات کاٹی۔
”نہیں میں تم سے کیوں قرض لوں۔ میری بہن تمہاری ذمہ داری تو نہیں اور پھر ہم لوگ اتنا بڑا قرض اتار بھی نہیں سکتے۔”
”لیکن۔” رمشہ نے کچھ کہنا چاہا۔ زینب نے اس کی بات کاٹ دی۔
”نہیں رمشہ! مجھے قرض لینا پسند نہیں۔ میں نہیں لوں گی اور لے بھی لوں تو ابو تو اسی وقت تمہارے گھر واپس دے جائیں گے۔ مجھ سے ناراض بھی ہوں گے۔” زینب نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
رمشہ کچھ دیر کچھ سوچتی رہی پھر اس نے زینب سے کہا۔
”ایک کام اور ہو سکتا ہے۔”
”کیا؟”
”تم فاران بھائی سے ملی ہو نا؟”




Loading

Read Previous

محمدۖہمارے

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!