من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

وہ اس وقت صحن میں بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہی تھی، جب دروازے پر کسی نے دستک دی۔
”فاروق! جاؤ جا کر دروازہ کھولو۔” زینی نے ایک بچے کی کاپی چیک کرتے ہوئے اسے کہا۔
بچے نے جا کر دروازہ کھول دیا۔ زینی نے کاپی کا صفحہ پلٹتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا اور پھر جیسے کرنٹ کھا کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ زہرہ اپنی چھوٹی بچی کو گود میں لیے صحن میں دروازے سے اندر آگئی تھی۔
”زہرہ آپا! آپ اس طرح اچانک۔۔۔۔” اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اپنی بات کس طرح مکمل کرے۔ زہرہ اس کی بات کا جواب دیے بغیر اندر کمرے میں چلی گئی تھی۔ زینب کے بدترین خدشات جیسے صحیح ثابت ہونے لگے تھے۔ وہ کچھ دیر گم صم وہیں صحن کے وسط میں کھڑی رہی۔ پھر کاپی فاروق کو پکڑاتے ہوئے اندر کمرے میں چلی گئی۔
زہرہ اور نفیسہ دونوں بستر پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں جبکہ ربیعہ زہرہ کی بچی کواپنی گود میں لیے افسردہ بیٹھی ہوئی تھی۔ زینی کے اندر آتے ہی اس بچی کو لے کرباہر چلی گئی۔ زینی نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔
”تمہیں گھر چھوڑ کر نہیں آنا چاہیے تھا جو بھی تھا، وہیں رہنا چاہیے تھا۔” نفیسہ نے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے زہرہ سے کہا۔ ”میں گھر چھوڑ کر آئی ہوں امی؟ انہوں نے دھکے دے کر مجھے گھر سے نکالا ہے۔” زہرہ نے بھرائی ہوائی آواز میں کہا۔
زینی زہرہ کے پاس بیٹھ گئی۔
”بس میری قسمت ہی خراب ہے امی! قسمت اچھی ہوتی تو اس بار اللہ مجھے بیٹا دیتا، بیٹی نہیں۔” وہ ایک بار پھرر ونے لگی۔
”پر آپا! بیٹا یا بیٹی ہونے میں آپ کا قصور تو نہیں ہے ۔ سائنس تو۔۔۔۔” زینی نے زہرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کچھ کہنا چاہا۔ زہرہ نے اس کی بات بے حد ناراضی سے کاٹ دی۔
”بس کرو زینب! سب پتا ہے لوگوں کو لیکن کوئی مرد سائنس سے پوچھ کر عورت کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر تا اور ایف اے فیل آدمی کو میں کیا سائنس سمجھاؤں۔ وہ شیراز کی طرح پڑھا لکھا اور سمجھ دار نہیں ہے۔”
”ابو نے بھی تو ایف اے ہی کیا ہے۔” زینی نے کہا۔
”ہر مرد ابو جیسا نہیں ہوتا۔ ساری بات پیسے کی ہے جو نہ ان کے پاس ہے، نہ ہمارے پاس۔ ابو کے پاس دولت ہوتی تو تین چھوڑ، چھ بیٹیاں بھی ہوجاتیں تو کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ ایک لفظ بھی کہتا۔”
زینی اس بار کچھ نہیں کہہ سکی۔
”تمہارے ابو آجائیں تو وہ خود جا کر نعیم سے بات کرتے ہیں۔” نفیسہ نے زہرہ کو تسلی دینے کی کوشش کی۔




”کیا بات کریں گے؟ فہمیدہ پھوپھو نے مجھے صاف صاف کہا ہے کہ میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ اپنے باپ کے گھر پر ہی رہوں اور اگر مجھے شوہر کے گھر آکر رہنے کا شوق ہے تو میں اپنے باپ سے کہوں کہ وہ پہلے موٹر سائیکل بھیجیں پھر بیٹی کو۔”
”کہاں سے لائیں تمہارے ابو موٹر سائیکل کے لیے پیسے؟ ابھی زینی اور ربیعہ کی شادی کرنی ہے۔ اس کے لیے بھی پیسے پاس نہیں ہیں۔ اوور ٹائم کر کے جو تھوڑی بہت بچت ہوتی ہے، اس سے کتنے مطالبے پورے کریں گے تمہارے سسرال والوں کے؟” نفیسہ ایک بار پھر رونے لگی تھیں۔
”آپ نے اپنی مرضی سے میری شادی یہاں کی تھی۔ میں نے تو نہیں کہا تھا کہ مجھے پھوپھو کے یہاں بیاہیں اور اب آپ اس طرح میرے سسرال والے کہتے ہیں جیسے میں نے مرضی سے انہیں منتخب کیا تھا۔” زہرہ کو ماں کی بات بری لگی۔
زینی اٹھ کر کمرے سے باہر آگئی۔ اس کا جی یک دم ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا تھا۔ دو کمروں کے اس گھر میں پانچ افراد پہلے ہی رہتے تھے۔ اور جب بھی زہرہ آتی توجگہ تنگ پڑنے لگتی۔ ضیاء اور سلمان باہر صحن میں سونا شروع کر دیتے اور اب سردیاں شروع ہو رہی تھیں۔ وہ صحن میں نہیں سو سکتے تھے۔ اس نے مختصر سے برآمدے سے گزرتے ہوئے رنجیدگی سے وہاں رکھے سامان کو دیکھا۔ وہاں دو چارپائیاں بچھانا ناممکن تھا۔
”اور اگر زہرہ آپا خدانخواستہ ہمیشہ کے لیے اپنی بچیوں کے ساتھ یہاں رہنے آگئیں تو کیا ہو گا؟” زینی نے پریشانی کے عالم میں سوچا۔
ربیعہ زہرہ کی چھوٹی بیٹی کو لے کر صحن میں ٹہل رہی تھی۔ اتنے ہفتے گزر جانے کے باوجود بچی ابھی بھی بے نام تھی۔ ربیعہ اور زینی کے درمیان ایک جملے کا تبادلہ بھی نہیں ہوا۔
زینی گم صم ان بچوں کے پاس جا کر بیٹھ گئی جنہیں وہ پڑھا رہی تھی۔ لیکن اب اس کا انہماک اور توجہ یک دم غائب ہو چکی تھی۔ وہ صرف چند منٹ ان بچوں کو مزید پڑھا سکی اور ان چند منٹوں میں بھی اس نے انہیں کیا پڑھایا، اسے ٹھیک سے یاد نہیں تھا۔
”تم لوگ جاؤ، کل آنا۔” اس نے یک دم ہاتھ میں پکڑی وہ کاپی بند کرتے ہوئے کہا، جسے وہ چندمنٹ پہلے چیک کرتے کرتے چھوڑ گئی تھی۔
بچے یک دم بے حد پرجوش انداز میں اپنی چیزیں سمیٹنے لگے تھے۔ زینی باپ کے بارے میں سوچ رہی تھی جو ابھی چند گھنٹوں بعد گھر واپس آتے اور زہرہ کو اپنی بچی سمیت وہاں دیکھ کر اسی طرح شاکڈ ہوجاتے۔ اسے باپ پر بے حد رحم آرہا تھا۔ وہ صبح بہت خوش گئے تھے۔ آج وہاں کوئی پارٹی تھی۔ ان کا کوئی کولیگ ریٹائر ہورہا تھا۔ اور اب زینی کو بے اختیار رونا آیا، اسے ماں سے زیادہ باپ کی تکلیف پر رونا آتا تھا۔ اور وہ جانتی تھی، آج کی شام ایک بار پھر اس کا باپ اپنی ساری ایمان داری اور شرافت کے ساتھ کینچوا بن کر اپنی بیٹی کے سسرال جائے گا۔
٭٭٭
”مجھ سے بڑی غلطی ہوئی جو میں تمہاری بیٹی بیاہ کر یہاں لائی۔ ارے میرا بیٹا تو تب ہی مجھ سے کہہ رہا تھا۔ کہ ماموں کے ہاں مت بیاہیں، وہاں سے کیا ملنے والا ہے مگرمیں نے کہا نہیں، بھائی ہے میرا۔ میں اس کی بیٹی نہیں لاؤں گی تو کون لائے گا اور بھائی ایسا بھی گیا گزرا نہیں۔ کچھ نہ کچھ تو دے گا ہی بیٹی کو۔ ارے مجھے کیا پتا تھا، بھائی واقعی خالی ہاتھ ہی بھجوا دے گا بیٹی کو۔”
فہمیدہ پچھلے پندرہ منٹ سے مسلسل بول رہی تھیں اور ضیا ہمیشہ کی طرح سر جھکائے خاموشی سے ان کے سامنے بیٹھے تھے۔
”آپا! اپنی استطاعت کے مطابق جہیز تو دیا تھا میں نے۔” انہوں نے پوری گفتگو میں پہلی بار کچھ کہنے کی ہمت کی۔
”وہ چار چیزیں جو جہیز کے نام پر تم نے ہمارے منہ پر ماری تھیں وہ… وہ ابھی اٹھا کر لے جاؤ اپنے گھر۔ ٹی وی دیا؟ فریج دیا؟ موٹر سائیکل دیا؟ فرنیچر تک تو پورا نہیں تھا تمہاری بیٹی کا اور تم بتا رہے ہو مجھے کہ تم نے جہیز دیا تھا بیٹی کو۔”
”آپا! آپ کو شادی کے وقت پتا تھا کہ میں ایسا ہی جہیز دے سکتا ہوں۔ میں نے کوئی جھوٹا وعدہ تھوڑی کیا تھا آپ سے جو پورا نہیں کیااور آپ مجھے جتا رہی ہیں۔ میں ایک معمولی کلرک ہوں میں اس سے زیادہ کیا دے سکتا تھا۔” ضیا نے بے حد سنجیدگی سے باری باری نعیم اور فہمیدہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”کلرک نہیں ہو تم… انکم ٹیکس میں کلرک ہو۔ ارے سارے لوگ لاکھوں کروڑوں کی جائیدادیں بنا لیتے ہیں اور تم نے تیس سال میں اپنی بیٹیوں کا جہیز تک نہیں بنایا۔ ایک موٹر سائیکل تک نہیں دے سکے میرے بیٹے کو۔” وہ اب ہمیشہ کی طرح باقاعدہ طعنے دے رہی تھی۔
”آپا! آپ کو پتاہے، میں حرام نہیں کھاتا۔”
”ہاں، بس اس دنیا میں ایک تم ہی تو نیک ہو جو حرام نہیں کھاتا باقی ساری دنیا تو بس حرام پر ہی پل رہی ہے۔” فہمیدہ کے لہجے میں اور تندی وترشی آگئی تھی۔
”آپا! اگر موٹر سائیکل کی بات ہے تو میں ایک دو سال میں پیسے اکٹھے کر کے۔۔۔۔” ضیا نے… موضوع بدلنے کی کوشش کی مگر انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔
”ایک دو سال میں پیسے اکٹھے کر کے موٹر سائیکل دینی ہے تو پھر موٹر سائیکل کے بجائے گاڑی ہی دو میرے بیٹے کو۔ ایک دو سال اس طرح کہا ہے جیسے ایک دو دن کی بات ہے۔”
”بس ماموں! کہہ دیا میں نے۔ اب مجھے زہرہ کو اس گھر میں نہیں لانا۔”
نعیم نے پہلی بار اس گفتگو میں مداخلت کی تھی اور اس کا لہجہ بھی فہمیدہ سے مختلف نہیں تھا۔
”میں دوسری شادی کروں گی اپنے بیٹے کی۔ ارے میرا اکلوتا بیٹا ہے، بڑے بڑے گھرانوں سے رشتے آرہے ہیں۔ اس کے لیے۔ گھر بھر دیں گے اگلے جہیز سے۔”
فہمیدہ کم از کم اس دن کچھ بھی سننے پر تیار نہیں تھیں۔ ضیاء بے حد دل برداشتہ ہو کر وہاں سے نکلے تھے اور وہ زندگی میں کئی بار اس طرح دل برداشتہ ہو کر اس گھر سے نکلے تھے۔ انہوں نے زندگی میں کبھی کہیں اور اس طرح کی ذلت آمیز باتیں نہیں سنی تھیں، جتنی اس گھر سے سنی تھیں وہاں انہوں نے بیٹی نہ بیاہی ہوتی تو شاید وہ کبھی رزق حلال پر دیے جانے والے طعنوں کے بعد اس گھر میں قدم بھی نہ رکھتے۔
سڑک پر سائیکل چلاتے ہوئے اس دن انہوں نے زندگی میں پہلی بار آس پاس سے گزرتی موٹر سائیکلوں کو دیکھا اور ان کی قیمت کا اندازہ لگانا چاہا۔ ایسی ہی کسی ایک موٹر سائیکل سے ان کی بیٹی کا گھر ایک بار پھر بس سکتا تھا۔ انہوں نے دفتر کے علاوہ ان ممکنہ جگہوں کے بارے میں سوچا، جہاں سے وہ قرضہ لے سکتے تھے اور کتنا لے سکتے تھے انہوں نے اس قرضے کو ادا کرنے کے لیے ممکنہ ذرائع کے بارے میں بھی سوچنا شروع کر دیا۔ رات کے اوقات میں انہیں کسی فیکٹری میں اکاؤنٹس کا کچھ کام مل سکتا تھا یا شام کے وقت کسی دکان پر سلیز مین کی جاب۔ صبح آفس جانے سے پہلے وہ اخباربیچ سکتے تھے۔ انہوں نے باری باری ان سب کاموں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا جن سے انہیں کچھ آمدنی ہو سکتی تھی۔ جمعہ کی چھٹی کے دن وہ کسی کے گھر مالی کا کام بھی کر سکتے تھے۔ امکانات نظر آنے لگے تھے۔ ضیاء کو کچھ اطمینان ہوا، وہ اپنی بیٹی کے لیے کچھ نہ کچھ کر سکتے تھے۔
٭٭٭
”زینی بیٹا! ابھی تک کیوں جاگ رہی ہو؟” ضیاء تہجد کے لیے وضو کرنے نکلے تھے جب انہوں نے زینب کوصحن میں پڑے تخت پر گم صم بیٹھے دیکھا۔ وہ تشویش میں مبتلا ہو کر اس کے پاس آئے۔
”کچھ نہیں، ایسے ہی۔ بس نیند نہیں آرہی تھی۔”
زینب نے باپ سے نظریں چرانے کی کوشش کی مگر ضیاء اس کی متورم سرخ آنکھیں دیکھ چکے تھے۔
”بیٹا سونے کے لیے لیٹو گی تو نیند آئے گی نا۔ اس طرح یہاں بیٹھ کر نیند کیسے آجائے گی۔”
وہ اس کے پاس تخت پر بیٹھ گئے۔ یہ اندازہ لگانا ان کے لیے مشکل نہیں تھا کہ وہ کیوں پریشان تھی۔ گھر میں اس وقت سب کی پریشانی کی واحد وجہ زہرہ ہی تھی۔
”مجھے کبھی کبھی اللہ سے بہت شکایت ہوتی ہے ابو!” زینی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ”کتنی دعائیں کی تھیں ہم سب نے کہ اللہ اس بار آپا کو ایک بیٹا دے دے مگر اللہ نے کسی کی دعا نہیں سنی۔ اللہ بعض دفعہ دعائیں نہیں سنتا نا۔”
”بری بات ہے زینی! اس طرح نہیں کہتے۔” ضیاء نے اسے ٹوکا۔ ”کیا فرق پڑتا ہے بیٹے یا بیٹی سے؟”
”آپ کو پتا ہے، کتنا فرق پڑتا ہے ابو! زہرہ آپا کو اور ہمیں فرق پڑ رہا ہے نابیٹا نہ ہونے کی وجہ سے؟” اس نے باپ کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں ،جب لوگ رحمت کو ٹھکرانے لگیں اور اسے عذاب سمجھیں تو پھر وہ دوسروں کے لیے آزمائشیں کھڑی کر دیتے ہیں۔ زہرہ کا میاں اور سسرال والے اگر اللہ کی رحمت کی ناقدری اور تذلیل کرتے ہوئے اسے ٹھکرا سکتے ہیں تو پھر ہم تو انسان ہیں۔ ہم ان سے اچھائی کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟” ضیاء نے مدھم آواز میں اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”وہ جو چاہے کریں، تکلیف تو ان کو نہیں ہورہی۔ تکلیف تو زہرہ آپا کو اور ہم کو ہی پہنچ رہی ہے نا؟”




Loading

Read Previous

محمدۖہمارے

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!