من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

”اب پھر، پھر کوئی مطالبہ کیا ہے انہوں نے؟” اس نے بمشکل باپ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ پانچ سال کی اس شادی میں کم از کم اس نے بیس بار اپنے باپ کو نعیم کا کوئی نہ کوئی مطالبہ پورا کرتے دیکھا تھا۔ اور اب پھر ایک نیا مطالبہ۔
”موٹر سائیکل مانگ رہا ہے اس بار ورنہ دوسری شادی کر لے گا زہرہ کو طلاق دے کر۔” نفیسہ نے کہا اور ایک بار پھر رونے لگیں۔ زینب رنج اور صدمے کے عالم میں بیٹھی ماں اور باپ دونوں کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ واشنگ مشین، صوفہ سیٹ، جوسریا کوئی ڈنرسیٹ نہیں تھا جسے ضیاء گھر میں سے رکھی بچت یا چھوٹے موٹے قرض لے کر دلا دیتے۔
وہ اگلے پانچ سال بھی بچت کرتے رہتے تو نعیم کو موٹر سائیکل خرید کر نہیں دے سکتے تھے۔
”جان بوجھ کر ایسا مطالبہ کیا ہے فہمیدہ نے، اسے پتہ ہے نا، ہم پورا نہیں کر سکتے۔ بس جان چھڑانے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں، وہ دونوں میری بیٹی سے۔” نفیسہ سسکیاں لیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”مت روؤ نفیسہ! کچھ نہ کچھ ہو جائے گا پہلے میں اکبر بھائی کو بھیجوں گا ان کے گھر وہ نہ مانے تو پھر میں دیکھوں گا قرض لے کر اگر کوئی سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل ملتا ہے تو۔” نفیسہ نے ضیا کی بات کاٹ دی۔
”سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل پر مان جائیں گے وہ لوگ؟”
”میں منت کر لوں گا ہاتھ جوڑ لوں گا ان کے سامنے آخر بہن ہے میری وہ۔”
ضیا نے بے اختیار کہا۔ زینب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا، اسے باپ کی شرافت پر زیادہ رحم آیا یا اس کمزوری پر۔
”آپ کی بات سننے اور ماننے والے ہوتے تو آج ہم اس حالت کو کیوں پہنچتے، ضیا صاحب آج موٹر سائیکل مانگ رہے ہیں کل کو کچھ اور مانگیں گے ہم ان کے مطالبے پورے کرتے رہیں گے تو باقی دو بیٹیاں کیسے بیاہیں گے؟” نفیسہ نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا۔
”تو پھر کیا کروں میں؟ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بھی تو نہیں بیٹھ سکتا۔” ضیا نے بے چارگی سے کہا۔
”میں نے اسی لیے کئی بار آپ سے کہا کہ اتنی شرافت اور ایمانداری ٹھیک نہیں اور کچھ نہیں تو اولاد کے مستقبل کا ہی کچھ خیال کر لیں آج پھر آپ نے وہی ساری باتیں اپنی بہن اور داماد کے منہ سے سنی ہیں، کیا ہے جو انہوں نے آپ کو نہیں کہا۔”
”میں اولاد کے اس دنیا میں مستقبل کے لیے اگلی دنیا میں ان کے اور اپنے لیے دوزخ نہیں خرید سکتا۔ وہ جو کہتے ہیں انہیں کہنے دو میں کیوں کسی کے طعنے سن کر اللہ کا عذاب مول لوں؟”




ضیا نے بے حد سخت لہجے میں نفیسہ سے کہا۔
”اور کم از کم تم تو مجھ سے ایسی باتیں مت کرو۔”
”میں کیا کروں آپ نے زہرہ کی حالت دیکھی ہے، چند ہفتوں میں سوکھ کر کانٹا ہو گئی ہے وہ، پتہ نہیں کیا کیا کہتے رہتے ہیں وہ دونوں اس سے۔۔۔۔” نفیسہ ایک بار پھر رونے لگی۔
زینب مزید نہیں سن سکی۔ وہ اٹھ کر باورچی خانے میں آگئی۔ ربیعہ یہاں پہلے ہی کھانا بناتے ہوئے صحن میں ہونے والی ساری گفتگو سن چکی تھی۔ زینب نے گلاس ایک طرف رکھا اور ایک پیڑھی پر بیٹھ کر رونے لگی۔ ربیعہ نے کچھ دیر خاموشی اور سنجیدگی کے ساتھ اسے دیکھا۔ وہ اسی طرح بے آواز زار و قطار آنسو بہانے میں مصروف رہی۔
”کوئی فائدہ ہے رونے کا؟” اس نے زینی کو ٹوکا حالانکہ وہ جانتی تھی اس کا کوئی اثر نہیں ہونا۔ زینی جب رونے پر آتی تو اسی طرح گھنٹوں روتی تھی۔
”میں کل زہرہ آپا کے ہاں جاؤں گی۔” زینی نے اپنی ناک کو رگڑتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”اور وہاں جا کر خود بھی روؤں گی اور انہیں بھی رلاؤں گی۔” ربیعہ نے بے ساختہ کہا۔ ”تم نے سنا نہیں ہے نعیم بھائی اور پھوپھو نے ابو اور امی کی کتنی بے عزتی کی ہے تمہیں بخش دیں گے کیا؟”
”پتہ ہے مجھے لیکن میں آپا کے پاس جاؤں گی۔ انہیں ضرورت ہے میری۔” زینی نے سسکیوں کے ساتھ کہا۔
”انہیں اس وقت تم سے زیادہ ایک عدد موٹر سائیکل کی ضرورت ہے جس کی چابی وہ اپنے کمینے شوہر اور ذلیل ساس کے منہ پر مار سکیں۔” ربیعہ نے بے حد تلخی سے کہا۔ زینب کو روتے ہوئے یک دم جیسے بریک لگا۔
”تم نعیم بھائی اور فہمیدہ پھوپھو کو گالیاں دے رہی ہو۔” زینی نے بے یقینی سے ربیعہ کو دیکھا۔
”وہ ہمارے ماں باپ کو گالیاں دے سکتے ہیں تو ہم انہیں پھولوں کے ہار تو نہیں پہنائیں گے۔” ربیعہ نے اسی ترشی سے کہا۔
”ابو سن لیں گے تو بہت ناراض ہوں گے۔”
”تو ہو جائیں… یہ سارا ابو کا قصور ہے۔ آخر ضرورت کیا تھی شروع سے اتنا دبنے کی۔”
ربیعہ نے بڑبڑانا شروع کر دیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی اس کی آواز باہر صحن تک جاتی۔ ”غربت اور شرافت کو خوامخواہ عیب بنا ڈالا، مطالبے کرنے کی عادت ڈال دی انہیں ۔ صاف صاف کہہ دیتے انہیں پہلی بار ہی کہ ہم نے بیٹی کو جتنا دیناتھا دے دیا۔ اب مزید کچھ نہیں دیں گے۔ پھو پھو رشتہ دار ہیں شادی سے پہلے روزآتی تھیں اس گھر میں، انہیں کیا پتہ نہیں تھا ہمارے گھر کے حالات کا لیکن نہیں جی، ابو نے آپا آپا کہہ کر آپا کا دماغ خراب کر دیا عمر میں دس سال بڑا معمولی شکل کا داماد یوں اکڑتا پھرتا ہے جیسے وہ کپڑے کی دکان کے بجائے ٹیکسٹائل مل چلا رہا ہے۔ آپا کو پھوپھو کے ہاں نہ بیاہتے تو بھی پھوپھو کو ہمارے جیسے کسی خاندان سے ہی رشتہ ملنا تھا۔ انہیں کیا پاکستان کے صدر نے اپنی بیٹی کا رشتہ دے دینا تھا؟ باتیں سنو ذرا ان کی۔”
ربیعہ بے حد ناراضی سے کہہ رہی تھی اور زینی ہکا بکا اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اپنا رونا بھی بھول گئی تھی۔ ربیعہ اسی طرح صاف صاف باتیں کیا کرتی تھی اور اس کے یا زہرہ کے برعکس بہت پر اعتماد اور دبنگ لہجے میں بات کرتی تھی مگر زینی پہلی بار اسے اتنی بد مزاجی اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے دیکھ رہی تھی۔ یہ نہیں تھا کہ زینب کو کبھی اس کی طرح غصہ نہیں آیا تھا غصہ اس کو بھی بہت اچانک اور بہت شدیدآتا تھا لیکن اس کا غصہ ہمیشہ آنسوؤں میں ختم ہو جاتا تھا اور ربیعہ شاید ہی کبھی غصے میں روئی دھوئی ہو۔
”تم کس طرح کی باتیں کر رہی ہو ربیعہ؟” زینی کو حسب عادت ڈر لگا۔
”کیا غلط کہہ رہی ہوں؟ ہفتے کا سو روپیہ جیب خرچ دیتے ہیں نعیم بھائی زہرہ آپا کو، مہینے کے کتنے پیسے بنے؟ چار سو، سال میں دو تین بار آپا کو گھر سے نکالا جاتا ہے۔ اور وہ دو تین ماہ یہاں رہتی ہیں۔ ان مہینوں میں ان کو وہ چار سو بھی نہیں ملتا۔ پھر جب نعیم بھائی اپنے گھر میں آپا سے ناراض ہوں تو وہ اس ہفتہ بھی آپا کو کچھ نہیں دیتے۔ تو دو مہینے اور اسی طرح نکال دو سال میں آپا کو کل تین ہزار روپے ملتے ہوں گے اور اس تین ہزار کے لیے ساس نندوں کے طعنے اور گالیاں، میاں کی گالیاں اور پٹائی، بچے پیدا کرنا اور انہیں پالنا کوئی کنیز بھی کہیں سے خریدے نا تو اتنی سستی نہ ملے اور اصل میں وہ تین ہزار بھی ابو کی جیب سے ہی جاتا ہے۔ کیونکہ سال میں دو تین مطالبے تو ابو ان کے پورے کرتے ہی ہیں۔ چار پانچ ہزار تو سیدھا نکل گیا۔ پھر آپا کے کپڑے اور جوتے توہمیشہ ابو ہی بنوا کر دیتے ہیں تو اس گھر میں رہ کر بھی آپا کا بوجھ ابو نے ہی اٹھایا ہے۔ تو پھر یہیں پر آجائیں وہ، یہ روز روز کی ذلّت سے تو جان چھوٹے گی۔”
ربیعہ آج واقعی بہت تنگ آئی ہوئی تھی۔ زینی کو سمجھ میں نہیں آیا وہ اسے کیسے چپ کروائے۔ ”موٹر سائیکل کہاں سے دیں گے ابو؟ نعیم بھائی کی سات پشتوں میں کسی نے موٹر سائیکل نہیں دیکھا اور اب انہیں موٹر سائیکل یاد آگیا ہے کل کو گاڑی مانگیں گے پرسوں کچھ اور۔” ”تم رمشہ جیسی باتیں کر رہی ہو۔” زینی کو بے اختیار رمشہ یاد آئی ”کوئی بھی عقل مند شخص ایسی ہی باتیں کرے گا۔ بیٹی نہیں دی پھانسی کے تختے پر پھندہ ڈال کر کھڑا ہو گیا باپ کہ سسرال والے جب چاہیں لٹکا دیں فہمیدہ پھپھو اور نعیم بھائی کو کیا مرنا نہیں ہے؟”
”چپ ہو جاؤ ربیعہ۔” زینب ہول کر رہ گئی۔
”ایسی باتیں مت کرو۔ بس دعا کرو کہ وہ لوگ ٹھیک ہوجائیں اوراپنا مطالبہ واپس لے لیں اور آپا کو اچھی طرح سے رکھیں۔”
”تو اب تک پہلے میں کیا کرتی آرہی ہوں؟ دعائیں ہی کر رہی ہوں۔” ربیعہ اس کی بات پر اور ناراض ہوئی۔
”تم مجھے بہت پریشان کر رہی ہو۔ چپ ہوجاؤ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔” زینی نے کہا وہ واقعی زچ ہو کررہ گئی تھی۔ ”ٹھیک ہے نہیں کرتی ایسی باتیں تم کب تک گھر بیٹھی رہو گی کالج جانا شروع کرو۔” ربیعہ نے موضوع بدل دیا۔
”چلی جاؤں گی کالج۔” زینی نے بے حد بیزاری کے ساتھ کہا۔
”اور آج کل تم خالہ کے گھر بھی نہیں جاتیں کیوں؟ کیاشیراز کے ساتھ کوئی ناراضی ہے؟” ربیعہ کو یک دم خیال آیا۔
”تمہیں پتا ہے۔ میں شیراز سے ناراض نہیں ہو سکتی۔” زینی نے مدھم آواز میں کہا۔
”وہ تو ہو سکتا ہے نا؟” ربیعہ نے بے ساختہ کہا۔
”نہیں ، وہ بھی ناراض نہیں بس مصروف ہیں وہ۔”
زینی نے نظریں چراتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی وہاں سے اٹھ گئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ شیراز کی کوئی بات ربیعہ سے کہے اور پھر ربیعہ، شیراز پر اس طرح برسے جس طرح کچھ دیر پہلے نعیم پر برس رہی تھی۔ شیراز اور اس کے گھر والے ویسے بھی زہرہ کے سسرال والوں سے بہت مختلف تھے۔ یہ صرف زینب کا خیال نہیں تھااس کے پورے گھر والوں کا یقین تھا۔
٭٭٭
”بازار چلو گی زینی؟” جمیلہ نے اس کے دروازہ کھولتے ہی اس سے پوچھا۔
”کس لیے؟” زینی نے واپس کپڑوں کے اس ڈھیر کی طرف پلٹتے ہوئے کہا جو وہ دھو رہی تھی۔ جمیلہ ان کے برابر والے گھر میں رہتی تھی۔ وہ اور زینی میٹرک تک ایک ہی اسکول میں پڑھتی رہی تھیں۔ میٹرک میں فیل ہونے کے بعد جمیلہ نے تعلیم کو توخیر باد کہہ دیا تھاالبتہ زینب کے ساتھ اس کی دوستی اسی طرح برقرار تھی۔
”کس لیے جاتے ہیں بازار؟” جمیلہ نے بھٹہ کھاتے ہوئے صحن میں دروازہ بند کیا اور زینب کے پاس آگئی ”کچھ چیزیں لینی ہیں۔” وہ آج کل اپنے جہیز کی تیاری میں مصروف تھی۔
”لیکن میں تونہیں جا سکتی کپڑے دھو رہی ہوں۔” زینی نے دوبارہ جا کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”ربیعہ نہیں ہے گھر میں؟” جمیلہ نے باورچی خانے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں ربیعہ کو لے جاؤ اندر کمرے میں ہو گی۔” زینب نے کہا۔
”ارے نہیں ساتھ تو میں نے تمہیں ہی لے کر جانا ہے۔ ربیعہ دھو لے کپڑے، خالہ کدھر ہیں؟” جمیلہ کو ساتھ ہی نفیسہ کا خیال آیا۔
”وہ نسیم خالہ کی طرف گئی ہیں ابھی اور ربیعہ ، ماہا اور مائرہ کو سلا رہی ہے۔ وہ نہیں دھو سکتی کپڑے۔” زینی نے اسے بتایا اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی ربیعہ اندر سے نکل آئی۔
”تم ہو آؤ بازار، میں دھو لیتی ہوں باقی کپڑے اور یہ میرا دوپٹہ بھی رنگوانے دے آنا۔” ربیعہ اپنا دوپٹہ لینے اندر چلی گئی۔
”اب میں کپڑے تبدیل کروں اور جاؤں تم ہی چلی جاؤ جمیلہ کے ساتھ۔” زینی نے عذر پیش کیا۔
”نہیں، میں نے کہا ہے ناکہ مجھے تمہارے ساتھ ہی بازار جانا ہے بس اب جلدی سے تیار ہو جاؤ میں بیگ اور چادر لے کر آتی ہوں۔” جمیلہ کہتے ہوئے تیزی سے گھرسے نکل گئی۔ زینی نے بے حد ناراضی سے اسے دیکھا۔




Loading

Read Previous

محمدۖہمارے

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!