تیسرے ہفتے کے آغاز میں ایک صبح کرم نے اسے بے حس وحرکت پایا تھا۔ وہ رات کو کسی وقت مر گیا تھا۔ موت کو اتنے قریب سے دیکھنے کا یہ کرم کا پہلا تجربہ تھا۔ وہ بے حد خوفزدہ ہو گیا تھا۔ مگر یہ صرف ابتدا تھی ٹرالر کے مالک نے اس لڑکے کی لاش کو سمندر میں پھینک دیا تھا۔ شدید گرمی کے موسم میں وہ اس لاش کو ٹرالر پر نہیں رکھ سکتے تھے اور وہ بھی اس صورت میں جب وہ راستہ بھول چکے تھے۔
کرم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک چادر میں لپٹی اس لاش کو سمندر برد ہوتے دیکھا تھا۔ وہ کچھ دیر پانی کی سطح پر نظر آتی رہی تھی پھر آہستہ آہستہ پانی اسے نگل گیا تھا اور شاید اس کے ساتھ ہی اس کے خاندان کی قسمت بھی ڈوب گئی تھی۔
اس کے گھر والے کویت سے اس کے بھیجے ہوئے دیناروں کے رزق کا انتظار کرتے ہوئے بہت عرصہ تک یہ بھی نہیں جان پاتے کہ وہ خود مچھلیوں کا رزق بن چکا تھا۔
کرم علی اگلے تین دن سو سکا نہ کچھ کھاسکا۔ وہ صرف اس جگہ کو دیکھتا رہتا جہاں وہ لڑکا لیٹا رہتا تھا۔ اس لڑکے کی جگہ وہ بھی ہو سکتا تھا۔ اور ایسا ہوتا تو آج کرم علی بھی سمندر کے پیٹ میں اتر چکا ہوتا یا پھر کل اتر جائے گا یا شاید پرسوں۔ ٹرالر اب بھی سمندر کی لہروں پر بھٹک رہا تھا۔
”قیمت زندگی کی ہوتی ہے موت کی نہیں زندہ انسان وقعت رکھتا ہے کیونکہ وہ بوجھ اٹھا سکتا ہے مردہ نہیں وہ تو بوجھ ہوتا ہے بوجھ کیا وقعت رکھے گا؟ آج اس ٹرالر پر میں مر جاؤں اور میرے ساتھیوں کو واپس پلٹنے کا یقین نہ ہو تو وہ مجھے بھی اسی سمندر میں پھینک دیں گے۔” ٹرالر کے مالک نے کرم علی کے پاس بیٹھ کر سگریٹ پیتے ہوئے اسے اور دوسرے لڑکے سے کہا تھا۔
تیسرا ہفتہ ختم ہونے سے ایک دن پہلے ہی ٹرالر کے مالک کا اس لانچ سے رابطہ ہو گیا تھا جس نے اس ٹرالر سے یہ پہلی ”لاٹ” اٹھانی تھی۔
کرم علی اور وہ دوسرا لڑکا کویت میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
اگلے چار سال اس نے کویت میں ہی گزارے تھے اور ان چار سالوں میں کویت میں لیگل اسٹیٹس حاصل کر لیا تھا لیکن بے حد کوشش اور خواہش کے باوجود کرم علی ایک بار بھی پاکستان نہیں جا سکا تھا۔
پاکستان کی طرح اس نے کویت میں بھی ہر وہ کام کیا تھا جس سے اسے چند سکے مل جاتے۔ سبزیوں اور پھلوں کے گوداموں میں کام کرنے سے لے کر، تعمیراتی مزدور تک اور رنگ وروغن سے لے کر بلند وبالا عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے صاف کرنے تک اس نے ہر وہ کام کیا تھا جو اسے ملا اور جس میں وہ بچت کر سکا۔
چار سالوں میں کرم علی کے گھر والوں کی زندگی میں بہت ساری تبدیلیاں آگئی تھیں۔ جہاں داد کے خاندان پر اب کسی کا کوئی قرضہ نہیں تھا۔ زینت لوگوں کے گھر صفائی کا کام چھوڑ چکی تھی اور آصف دوبارہ اسکول جانے لگا تھا۔ جہاں داد کے گھر میں اب محلے کی دکان سے نقد راشن آتا تھا اوربلا ضرورت اور ضرورت سے زیادہ۔ جہاں داد کا خستہ حال گھر اب چار کمرے کے دو منزلہ پکے مکان کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ جس کے ماتھے پر ماشاء اللہ جگمگا رہا تھا۔ جہاں داد اب گھر میں بیٹھ کر اپنے سارے گھر والوں کے ساتھ وی سی آر پر فلمیں دیکھتا تھا۔ زینت کی بڑی بیٹی امینہ کی منگنی بھی ہوگئی تھی۔
اور ان تمام آسائشوں اور سہولیات کے لیے کرم علی کو ہفتے میں سات دن اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑا تھا۔ اس کے جسم کے مختلف حصوں پر چھوٹے موٹے حادثات کے نتیجے میں پچپن زخم کے نشانات کا اضافہ ہوا تھا۔
تیزاب سے ایک بار کہنی کے جلنے کو برداشت کرنا پڑا تھا۔ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں کے گرد مستقل حلقوں کا اضافہ ہوا تھا اور سر کے بال نوجوانی میں سفید ہونے لگے تھے صرف ایک چیز اس کی زندگی میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اس کا استری شدہ لباس اور سنوارے گئے بالوں کی مانگ۔
زندگی کا اکیسواں سال اس کے لیے بہت سے نئے اور عجیب وغریب اضافے لے کر آیا تھا۔ اس کی زندگی میں محبت کا اضافہ ہوا تھا۔ عارفہ اس کے تایا کی بیٹی تھی۔ اس نے عارفہ کے ساتھ ہی اسکول جانا شروع کیا تھا اور اس نے عارفہ سے ہی بالوں کو سنوارنا اور کپڑوں کو صاف ستھرا رکھنا سیکھا تھا۔ پانچ سال کی عمر میں اس نے عارفہ کا بیگ بھی اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ واحد چیز تھی جو وہ عارفہ کے لیے کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس عارفہ کو دینے یا اس کے لیے کچھ کرنے کوکچھ نہیں تھا۔
پرائمری کے بعد ان دونوں کے اسکول الگ ہو گئے تھے اور اسی دوران ان کے گھر بھی۔ لیکن ان کے دلوں کے درمیان فاصلہ کبھی نہیں آیا۔ کرم علی جانتا تھا صرف وہ ہی نہیں عارفہ بھی اسے پسند کرتی تھی لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے اور عارفہ کے خاندان کی مالی حیثیت میںز مین آسمان کا فرق تھا اور گزرتے وقت کے ساتھ عارفہ کے بڑے بھائیوں نے کمانا شروع کر دیا تھا اور یہ فرق مزید بڑھتا جا رہا تھا۔ کرم علی نے عارفہ نام کا خواب کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اپنے گھر اور گھر والوں کی صورت میں جو حقائق اس کے سامنے تھے انہوں نے اس کی زندگی سے سارے خواب نکال دیے تھے۔
مگر پہلی بار اسے عارفہ کی یاد اس ٹرالر پر آئی تھی۔ دوسری بار کویت کی زمین پر قدم رکھنے کے بعد ”کچھ سالوں کی بات ہے، میں اب یہاں اتنا پیسہ بنا لوں گا کہ عارفہ کے گھروالے خوشی خوشی میرے ساتھ اس کی شادی کر دیں گے۔”
اس نے سوچا تھا اور ایسا ہی ہوا تھا۔ چار سال میں اس کے گھر میں اتنی تیزی سے تبدیلی آئی تھی کہ رشتے دار بھی جہاں داد کے خاندان کو ایک نئی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔ اب عارفہ کے باپ سے کرم علی کے رشتہ کی بات کی جاتی تو وہ خوشی خوشی قبول کر لیتا مگر دشواری کرم علی کو خود اپنے ماں باپ کوعارفہ سے رشتے کی بات کرنے کے لیے تیار کرنے میں آئی تھی۔ ان دونوں کو جیسے فون پریہ سن کر شاک لگا تھا کہ کرم علی اپنے رشتے کی بات اپنے منہ سے کر رہا تھا اور وہ بھی ابھی جب اسے کماتے صرف چار سال ہی ہوئے تھے۔ کرم علی اگر انہیں یہ گارنٹی نہ دیتا کہ وہ صرف منگنی کا خواہشمند تھا اور شادی اپنی دونوں بہنوں کی شادیوں کے بعد ہی کرے گا تو جہاں داد اور زینت کسی بھی قیمت پر عارفہ سے اس کا رشتہ طے نہ کرتے اور کرم علی کو اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ عارفہ کی شادی کہیں اور ہو جائے گی تو وہ ابھی اپنی منگنی کی بھی بات نہ کرتا اکیس سال کی عمر میں ایک لمبے عرصے کے بعد کرم علی نے زندگی میں محبت کے نام کے جذبے کی پذیرائی کی تھی۔ پہلی بار اسے کویت میں کسی کے ایسے خط آنے لگے تھے ، جس میں کسی چیز کی فرمائش نہیں ہوتی تھی۔ کرم علی کے بارے میں پوچھا جاتا تھا، اس کی بات ہوتی تھی۔
کرم علی کو پہلی بار دنیا اچھی لگنے لگی تھی۔ چند سالوں کی بات تھی وہ اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو جاتا کاروبار کے لیے کچھ پیسے جمع کر لیتا توپھر پاکستان واپس چلا جاتا پھرعارفہ کے ساتھ شادی کر کے وہ ایک پر سکون اور خوشحال زندگی گزارتا ایک مکمل زندگی۔
کرم علی نے اس سال کو بھی ڈائری میں نوٹ کر لیا تھا جس سال اسے پاکستان واپس لوٹ جانا تھا۔ وہ اپنی زندگی کے اٹھائیسویں سال کا انتظار کر رہا تھا جب اسے واپس لوٹ جانا تھا۔ وہ اب الٹی گنتی گننا شروع کر چکا تھا۔
اور اکیسویں سال میں ہی اسے شیخ سعود بن جابر کے اصطبل میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ اور اس کے بعد اس کی زندگی مکمل طور پر بدل گئی تھی۔
*****
بیل کی آواز پر زینب نے اٹھ کر دروازہ کھولا ضیا، نفیسہ کے ساتھ اندر داخل ہوئے دونوں کے چہرے کے اترے ہوئے تھے۔ زینب کا دل بے اختیار ڈوبا چہرے کے ایسے تاثرات کا کیا مطلب ہوسکتا تھا وہ بغیر بتائے بھی سمجھتی تھی۔ زہرہ کی شادی کے ان سالوں میں اس نے کئی بار ماں باپ کو ایسے ہی اترے ہوئے چہرے کے ساتھ نعیم کے گھر سے آتے دیکھا تھا۔ اب تک اسے عادی ہو جانا چاہیے تھا مگر وہ نہیں ہو سکی تھی۔
نفیسہ چپ چاپ چادر اتارتی اندر کمرے میں چلی گئی تھیں۔ ضیا صحن میں پڑے تخت پر جا کر بیٹھ گئے۔
زینب جب تک پانی کا گلاس لے کران کے پاس آئی وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ گہری سوچ بھی زینب کے لیے نامانوس نہیں تھی۔
”پانی پی لیں ابو۔” زینب نے ضیا کو متوجہ کیا انہوں نے چونک کر پانی کا گلاس زینب کے ہاتھ سے لے لیا۔ زینب ان کے پاس ہی تخت پر بیٹھ گئی۔ ضیا پانی پیتے ہوئے صحن میں چند کھلونوں کے ساتھ ایک طرف بیٹھ کر کھیلتی مائرہ اور ماہا کو دیکھ رہے تھے۔
”کھانا لاؤں؟” زینب نے پانی کا خالی گلاس ضیا کے ہاتھ سے لیتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں بھوک نہیں ہے۔” ضیا نے کہا۔
”نعیم بھائی کے گھر سے کچھ کھا کر آئے ہیں؟” زینب نے موہوم سی آس پر پوچھا۔
”ہاں بہن کی زبان سے گالیاں اور داماد کے منہ سے طعنے، باقی چائے پانی تو پوچھا ہی نہیں انہوں نے۔” اندر سے آتی نفیسہ نے بے حد تلخی کے ساتھ زینب کے سوال کو درمیان میں ہی اچکتے ہوئے کہا۔
زینب کا رنگ ایک بار پھر زرد ہو گیا۔ نفیسہ اب آکر صحن میں تخت کے پاس پڑی ایک کرسی پر بیٹھ گئی تھیں۔ زینب نے ماں کے چہرے کو غور سے دیکھا ۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ یقینا روتے ہوئے نعیم کے گھر سے آئی تھیں۔
”سلمان آگیا؟” ضیا نے جیسے موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ لیکن ان کا لہجہ اور آواز بے حد کمزور تھی۔
”نہیں ابھی نہیں آیا” زینب نے کہا۔
”اب کیا ہو گا؟… میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔” زینب کو کچھ پوچھنے کی زحمت نہیں کرنی پڑی نفیسہ خود ہی شروع ہو گئی تھی۔
”ہو جائے گا کچھ نہ کچھ میں اکبر بھائی سے کہوں گا آپا کو سمجھائیں۔” ضیا نے کہا۔
”آج تک نعیم کے کس مطالبے پر اکبر بھائی اس کو سمجھا سکے ہیں؟ ہر بار مطالبہ پورا کرنے پر ہی زہرہ کو واپس لے کر گیا ہے وہ۔” زینب کا سانس رکنے لگا۔