جہاں داد ان میں سے کسی ایک بھی خوبی کا مالک نہیں تھا۔ اور کسی بھی معیار کو حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ زینت کی نظر گھر کے دوسرے ننھے مرد پر ٹھہر گئی ان میں سے کچھ چیزیں وہ حاصل کر سکتا تھا۔ یوں کرم علی کو جہاں داد کی شدید مخالفت کے باوجود کسی ورک شاپ کی بجائے ایک سرکاری اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ ان چاروں سالوں میں جہاں داد کے گھر دو لڑکوں کا اضافہ ہوا۔ جہاں داد کا احساس کمتری کچھ کم ہوا۔ مگر کرم علی کی ذمہ داریوں میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ جہاں داد کے خاندان میں چھوٹے بھائیوں کی ذمہ داری بھی بڑ ابھائی ہی اٹھاتا تھا اور صرف ان ہی کی نہیں ان کی بیوی بچوں کی بھی۔
شادی کے آٹھ سال کے بعد جہاں داد اور اس کے گھر والوں کو جہاں داد کے باپ کی مختصر سی جائیداد کی تقسیم کے بعد گھر کے ہی ایک حصے میں علیحدہ کر دیا گیا۔ جہاں داد کے باقی تینوں بھائی ایک سال کے اندر اندر اپنے اپنے حصے کو بیچ کر وہاں سے چلے گئے جبکہ جہاں داد اپنے ایک کمرے، ایک برآمدے اور دو اطراف سے ٹوٹی ہوئی دیواروں اور تیسری اطراف میں ٹوٹے ہوئے پٹوں والے لکڑی کے ایک دروازے پر مشتمل تیس فٹ لمبے کچے صحن والے مکان میں ہی مقیم رہا۔ اس کے گھر کے افراد میں اب ایک اور لڑکی کا اضافہ ہو چکا تھا اور ظاہر ہے اگر بڑی دونوں بہنوں کو بیاہنا کرم علی کی ذمہ داری تھی تو چھوٹی بہن کو بیاہنا بھی اسی کا فرض تھا۔
ان چھ سالوں میں گھر کے اخراجات زینت کے بھائی اور باپ برداشت کرتے رہے مگر کرم علی کے تیرہویں سال میں داخل ہوتے ہی انہوں نے اس کام سے ہاتھ اٹھالیا۔ گھر کا دوسرا مرد اب جوان ہو رہا تھا۔ مگر اس کی بدقسمتی یہ تھی کہ اسے تعلیم میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور گھر میں اب کسی ٹی وی کے نہ ہونے کے باوجود وہ بے حد بڑے بڑے خواب دیکھنے لگا تھا۔
باپ کی زبردست پٹائی اور دباؤ کے باوجود کرم علی اسکول چھوڑنے پر تیار نہیں ہوا۔ البتہ وہ ساتھ ساتھ کام کرنے لگا تھا۔ گھر کی گاڑی پھر سے چلنے لگی تھی۔ اس کے گھر میں سب کچھ تھا۔ بھوک، بیماری، غربت، جھگڑا، نااتفاقی، بے سکونی کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کی کمی ہوتی اس کے باوجود کرم علی اپنے بستے میں کتابوں کے ساتھ ساتھ اپنے خواب بھی اٹھائے پھرتا تھا۔
صبح چار بجے وہ کوئلوں کی استری سے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے کپڑے استری کرتا، استری شدہ کپڑے پہن کر بالوں میں تیل لگا کر اور کنگھی کے ساتھ مانگ نکال کر وہ آدھ گھنٹہ پیدل چل کر اخبار کی اس ایجنسی میں جاتا جہاں وہ صبح صبح جھاڑو دیتا، پونچھا لگاتا، چیزوں کی گرد جھاڑتا پھر اخباروں کے بنڈل آجانے کے بعد وہ ان بنڈلز کو مختلف ہاکرز میں تقسیم کرتا، بعض کو بنڈل کھول کر مطلوبہ تعداد میں اخبار گن کر دیتا۔ لاگ بک میں انٹری کرتا۔ اس کام کے دوران وہ اردو کے تقریباً ہر اخبار کی سرخیاں پڑھ لیتا اور انگلش کے ہر اخبار کی تصویریں دیکھ لیتا اور اسی کام میں وہ کئی بار وہ اپنی جیب میں موجود کنگھی نکال کر مانگ ٹھیک کرتا رہتا۔ سوا سات بجے وہ جب ایجنسی کے مالک کو چائے دے کر وہاں سے نکلتا تو اس کے کپڑوں اور ہاتھوں کے ساتھ ساتھ کئی بار اس کے چہرے پر اخبار کی سیاہی لگی ہوتی۔
بھاگم بھاگ وہ گھر پہنچتا اور منہ دھو کر کپڑے بدل کر ایک بار پھر استری شدہ یونیفارم پہن کر بالوں میں کنگھی کر کے وہ محلے کے قریب ہی واقع اس سرکاری اسکول میں چلا جاتا جہاں و ہ شروع سے پڑھتا آرہا تھا۔ گرمیوں میں جب اسکول جلدی لگتا تو کرم علی صبح سویرے یونیفارم پہن کر ہی اخبار کی ایجنسی میں جاتا اور پھر وہیں سے سیدھا اسکول اور جب وہ یونیفارم پہنے ہوتا تو پھر اس کی زیادہ توانائی اس یونیفارم کو گندا یا میلا ہونے سے بچانے میں خرچ ہوتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کے اسکول میں گندے یونیفارم پر کوئی سزا دی جاتی تھی۔ وہ جس علاقے میں تھا وہاں اسکول کے سات سو بچوں میںصرف چودہ بچے پورا اور صاف یونیفارم پہن کر اسکول جاتے تھے اور ان کے نام ان کی کلاس ان کے گھر کا ایڈریس تک ہیڈ ماسٹر کو صرف اسی ایک وجہ سے یاد رہتا۔ باقی 686بچے یونیفارم سے ملتے جلتے ہر طرح کے لباس میں ہر طرح کے جوتے پہن کر ہر طرح کے حلیے میں اسکول آ جاتے۔
صاف استری شدہ کپڑے پہننے اور بالوں میں کنگھی کرتے رہنے کا یہ سلسلہ اسکول کے بعد ریڑھی لگانے اور رات کو سگنلز پر گاڑیوں کو روک کر پھولوں کے گجرے بیچنے پر بھی ختم نہیں ہوتا تھا۔ کرم علی کو استری شدہ صاف کپڑے پہننے کا جنون تھا۔ جو چند جوڑے اس کے پاس تھے وہ انہیں بھی بڑی حفاظت اور احتیاط کے ساتھ اپنے صندوق میں تہہ کر کے رکھتا تھا۔ اگر کبھی گھر میں صابن ختم ہو جاتا تو وہ خالی پانی سے ہی اپنے کپڑے رگڑ رگڑ کر دھوتا رہتا۔
سترہ سال کی عمر میں اس نے رزق کی تلاش کے لیے خوار ہونے کے ساتھ میٹرک کر ہی لیا تھا اور میٹرک کرنے سے بہت پہلے ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ پہلی اور آخری کوالیفکیشن تھی جو اس کے مقدر میں تھی۔ جہاں داد نے اب چھوٹے موٹے جرائم کے سلسلے میں جیل جانا شروع کر دیا تھا۔ گھر کی حالت بے حد خستہ تھی۔ برآمدے کی چھت گر چکی تھی اور کسی بھی برسات میں کمرے کی چھت بھی گر جاتی۔ جہاں داد اور زینت کے درمیان جھگڑے اب روزانہ ہوتے اور دن میں کئی کئی بار ہوتے۔ زینت محلے کے چند اچھے گھروں میں صفائی کا کا م کرنے لگی تھی۔ اس کے باوجود اخراجات تھے کہ بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ اس سے چھوٹی بہنیں باری باری اسکول چھوڑ چکی تھیں۔ اور ان حالات میں آنے والے سالوں میں اس کے باقی بھائی بھی اسکول چھوڑ دیتے اور اس کی طرح کے چھوٹے موٹے کام کرنے لگتے اس کی بہنیں اب شادی کی عمر کو پہنچ رہی تھیں۔
کرم علی نے عمر کے ان سالوں میں پیسہ کمانے کے لیے ہر طرح کا کام کیا اور اس کام کے دوران اس نے جو کچھ سیکھا وہ زندگی میں اس کے بہت کام آیا۔ ایک بچے کے طور پر ان چھوٹے کاموں کے ذریعے رزق کی تلاش مشکل نہیں تھی اور نہ ہی اسے کبھی کوئی بڑی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف دو بار سگنل پر وہ ایکسیڈنٹ کا شکار ہوا۔پہلی بار اس کی پسلیاں فریکچر ہوئیں۔ اس کا سرپھٹ گیا اس کے چہرے اور کمر پر بھی چوٹیں آئیں۔ البتہ دوسری دفعہ ایکسیڈنٹ زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوا صرف اس کا بایاں بازو دو جگہ سے ٹوٹ گیا اور اس کے ایک پاؤں کا انگوٹھا کاٹنا پڑا۔
اور ان ایکسیڈنٹس کا سامنا صرف رات کو ہی کرنا پڑا تھا۔ باقی کاموں میں اسے بے وجہ اجرت کاٹنے، گالی گلوچ، چھوٹی بات پر ہونے والے تشدد اور ایک دو بار ہونے والی جنسی زیادتی کے علاوہ کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اجرت کٹ جانے کے علاوہ اس نے کبھی کسی دوسری چیز کے بارے میں اپنے ماں باپ میں سے کسی کو نہیں بتایا تھا یہاں تک کہ زیادتی کے بارے میں بھی نہیں۔ اس کے گھر میں اس کے بہن بھائیوں کے سامنے اس کی عزت نفس مجروح ہوتی۔ وہ اس کے بارے میں کیا سوچتے شاید جہاں داد اسی کو موردِ الزام ٹھہرا کر اسے پیٹتا یا پھر … اور اس پھر کے بعد کرم علی کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
کرم علی تیرہ سال کا بچہ تھا اور دنیا بہت بڑی تھی اور اس بہت بڑی دنیا میں اسے ہر روز جانا تھا وہ چھپ نہیں سکتا تھا۔ وہ گھر میں بند بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
اس نے زندگی میں تب تک بہت ساری باتیں ماں باپ سے چھپائی تھیں۔ پھر بعد میں انہیں بتا دیں مگر تیرہ سال کی عمر میں یہ کرم علی کی زندگی کاپہلا بڑا راز تھا اور اس کے بعد اس نے ہر چیز کو راز رکھنا شروع کر دیا تھا۔
اپنے جسم پر پہلی بار برص کے مرض کا انکشاف بھی ایسا ہی ایک راز تھا۔ اس نے پہلی بار اپنے پیٹ پر وہ نشانات دیکھے تھے اور حیران ہوا تھا۔ اس کی سانولی رنگت کی وجہ سے وہ نشانات پھیلنے لگے تو اس نے زینت یا جہاں داد کے بجائے اپنے ایک دوست کو وہ نشان دکھائے تھے۔
”ہاں یہ برص ہے۔” اس کے دوست نے بڑے اطمینان اور کسی تشویش کے بغیر کہا۔ ”اس کا کوئی علاج نہیں تمہیں ایک آدمی دکھاؤں گا اسے یہی بیماری ہے اس کے سارے جسم بلکہ ہاتھوں پاؤں اورچہرے پر بھی یہی نشان ہیں۔”
اس کے دوست نے اس سے کہا اور پھر دوسرے ہی دن اسے ایک سڑک پر ریڑھی لگاتا وہ آدمی دکھایا۔ کرم علی دھک سے رہ گیا۔ وہ پہلے ہی بے حد عام سے خدوخال رکھتا تھا۔ اور اگر اس پر اس کے چہرے پر یہ نشان بھی آگئے تو؟
”اس کا کوئی علاج نہیں ہے شاید ہو مگر مجھے پتہ نہیں ہے اور اگر ہو گا بھی تو بہت مہنگا ہو گا تو کس طرح علاج کروائے گا۔”
اس کے دوست نے کہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا اس بیماری نے کرم علی کی راتوں کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ وہ ہر دوسرے چوتھے دن پیٹ پر موجود ان چھوٹے چھوٹے نشانوں کے گرد پین کے ساتھ حد بندی کرتا اور چند دنوں میں وہ نشان ان لکیروں سے باہر ہوتا ۔ اس کا دل ڈوبنے لگتا۔ نشان پھیل رہا تھا تب تک کرم کو صرف پیٹ پر ان نشانات کا پتہ تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ایسے ہی کچھ نشانات اس کی کمر پر بھی تھے اور وہ پیٹ کے نشانات سے زیادہ تیزی سے پھیل رہے تھے۔
کرم علی نے زندگی میں پہلی بار کمائے جانے والے پیسوں سے اپنے جیب خرچ کو بچانا شروع کر دیا تھا۔ اسے ان نشانات کا علاج کروانا تھا۔ چاہے جتنا بھی وقت اور پیسہ لگتا لیکن اسے ان نشانات سے چھٹکارا پانا تھا۔
بہت جلد ہی وہ اس بات سے بھی آگاہ ہو گیا تھا کہ برص اس کی پشت پر بھی ہے ۔ عام طور پر وہ چہرے اور ہاتھوں سے شروع ہوتا تھا مگر اس کے پیٹ سے شروع ہوا تھا اور اس مرض نے اسے اپنے آس پاس کے لوگوں سے کاٹنا شروع کر دیا تھا۔ وہ خوف زدہ تھا کوئی اس کے مرض کے بارے میں نہ جان جائے۔ اس نے ان نشانات کے بارے میں جاننے کے بعد کبھی کسی کے سامنے قمیص نہیں اتاری تھی۔ حتیٰ کہ برسات کے دنوں میں بارش کے پانی میں بھیگتے ہوئے بھی اور گرمیوں کے موسم میں کسی نہر یا تالاب میں نہاتے ہوئے بھی۔
دو سال تک وہ نشان پھیلتے رہے پھر یک دم رک گئے۔ کرم کے لیے یہ ناقابل یقین بات تھی لیکن وہ نشان واقعی اب نہیں پھیل رہے تھے۔ کئی ہفتے وہ ان داغوں کے ارد گرد پین سے نشان کھینچتا رہا اور پھر مطمئن ہو گیا۔
تیرہ سال کی عمر میں ہی کرم علی پہلی بار خاموشی سے متعارف ہوا تھا اور مذہب سے بھی، اس کے بعد یہ دونوں چیزیں ہمیشہ اس کی زندگی کا حصہ بنی رہیں۔
پانچ ہزار کی اس رقم میں ایک ہزار زینت نے ان دو گھروں سے ادھار لیا تھا۔ جہاں وہ پچاس روپے ماہوار پر گھر کا کام کیا کرتی تھی۔ اس نے اپنی تقریباً ڈیڑھ سال کی اجرت ایڈوانس میں لے لی تھی۔ یہ لینے میں اسے کتنی منتیں اور کتنے مہینے لگے وہ ایک الگ داستان تھی۔
دو ہزار روپے جہاں داد نے اپنے خستہ حال مکان کی رجسٹری کو گروی رکھ کر سود پر لیے تھے۔ زندگی میں اس سے بڑا جوا وہ نہیں کھیل سکتا تھا۔ کرم علی ڈوبتا تو وہ فٹ پاتھ پر آجاتے۔
کرم علی نے پانچ سو اس نیوز پیپر ایجنسی کے مالک سے ادھار لیے تھے۔ جہاں پر اس نے چار سال کام کیا تھا۔ وہ مالک اسے کبھی ادھار نہ دیتا، مگر گارنٹی کے طور پر کرم علی کا چھوٹا بھائی آصف وہاں کام کرنے لگا تھا۔
ان پانچ ہزار کے علاوہ کرم علی کے پاس صرف دو سو روپے تھے اور وہ ان ہی دو سوروپوں کے ساتھ پاکستان سے کویت آیا تھا۔
وہ صرف پاکستان سے غیر قانونی طور پر کویت جانے والوں کا پہلا گروپ نہیں تھا۔ وہ اس فشنگ ٹرالر کے مالک کا بھی اس کام میں آنے کے بعد پہلا ٹرپ تھا اور وہ بھی اتنا ہی نروس اور پریشان تھا جتنا اس گروپ کے تینوں لوگ اور اس پریشانی میں وہی ہوا تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سمندر میں جس جگہ پر اس ٹرالر کو جس لانچ پر انہیں منتقل کرنا تھا۔ وہ اس جگہ پر نہیں پہنچ سکا بلکہ اگلے تین ہفتے سمندر میں ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔
اور ان تین ہفتوں میں کرم علی کو اپنی زندگی کے سب سے بھیانک تجربات ہوئے تھے۔ وہ اس کے ہی نہیں ان دونوں لڑکوں کی زندگی کا بھی پہلا سمندری سفر تھا اور صرف بارہ گھنٹے گزرنے کے بعد ہی وہ تینوں Sea Sickness کا شکار ہو گئے تھے۔ ٹرالر پر مچھلیاں پکڑنے والے ایک مچھیرے نے ان پر ان چند روایتی ٹوٹکوں کا استعمال کیا جنہیں وہ خود اپنے اوپر استعمال کرتے تھے کرم علی کو اس سے کچھ افاقہ ہوا مگر باقی دونوں لڑکوں کو نہیں۔
جذام والے لڑکے کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی اس کے ہاتھ پر جذام سمندر کی نمکین ہوا کی وجہ سے اسے بے حداذیت دے رہاتھا۔ ٹرالر کے مالک کو اس کی بیماری کا شروع میں پتہ نہیں تھا ورنہ، وہ اسے کسی بھی صورت میں اپنے ٹرالر پر نہ لاتا۔ مگر ٹرالر پر اس کی بیماری کا پتہ چلنے کے بعد اب مالک سمیت سارے لوگ اس کے پاس آنے سے کترانے لگے تھے۔
تین ہفتوں میں سمندر میں بھٹکتے رہنے کے دوران اس کاجذام بڑھتا گیا تھا۔ اس میں سے پیپ رسنے لگا تھا۔ جذام اب اس کے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر بھی منتقل ہو گیا تھا۔ اس کے ہاتھ بری طرح سوج گئے تھے اور پیپ کے ساتھ اب اس میں سے خون رسنے لگا تھا۔ کرم کے علاوہ کوئی اور اس کے پاس نہیں آتا تھا۔ صرف وہی اس کے پاس آکر اس کے منہ میں وہ ابلے ہوئے چاول اور مچھلی کا شوربا ڈانے کی کوشش کرتا جو اس ٹرالر پر پکتا تھا۔ وہ جتنا کھانا کھاتا، قے کی صورت میں اتنا ہی باہر نکال دیتا کرم دن میں دو دو تین تین بار اسے کھانا کھلانے کی کوشش کے دوران ٹرالر کے ڈیک پر پھیلی وہ گندگی ماتھے پر ایک شکن لائے بغیر صاف کرتا دوسرے ہفتے کے اختتام تک اس لڑکے نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ جو چیز وہ اب اپنے اندر لے جانے کے قابل رہا تھا۔ وہ پانی تھا اسے اب تیز بخار رہتا تھا اور وہ زیادہ ترغنودگی کی حالت میں رہتا تھا۔