وہ بلڈنگ صابر، تنویر، مجاہد اور خود اس جیسے ایشیائی مردوں اور عورتوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہاں اسی طرح ڈربے نما اپارٹمنٹس میں اسی طرح مختلف شفٹوں میں درجنوں لوگ رہتے تھے۔ جن کی حشرات الارض جیسی زندگیوں سے ان کے اپنے اپنے ملک میں درجنوں لوگ عیش وعشرت کے مزے لوٹ رہے تھے۔ خاندانوں کے رشتوں سے جدائی، تنہائی، مشینی زندگی اور رزق کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ابنارمیلٹی کب ان کے وجود کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیتی، وہ جان بھی نہیں پاتے۔ وہاں اپنے ملک میں اپنے خاندان کے بیچ رہتے ہوئے زندگی کے گھنٹے، دن، ہفتے، مہینے نہیں ہوتے ۔ وہاں زندگی میں صرف سال ہوتے ہیں۔ ایک سال یہاں، دو سال وہاں۔ چار سال اس شہر میں، چھ سال اس اسٹیٹ میں۔ پانچ سال اس گیس اسٹیشن پر سات سال اس اسٹور پر اور زندگی ختم ہو جاتی ہے۔
اس نے اپنے آنے کے دو گھنٹے بعد صابر سے پوچھا۔
”مسجد کہاں ہے یہاں پر؟”
چائے پیتے ہوئے ان تینوں نے بغور اس کو دیکھا ”کیوں؟ مسجد کو کیا کرنا ہے تو نے؟” صابر نے اسی طرح قدرے مزاحیہ انداز میں کہا۔
”نماز پڑھنی ہے۔” اس نے اسی طرح سادہ لہجے میں کہا۔
”پڑھ پڑھ۔ جتنی نمازیں پڑھ سکتا ہے پڑھ، یہاں جو آتا ہے۔ پہلے پہل دھڑا دھڑ نمازیں پڑھتا ہے۔ جب تک کام نہیں مل جاتا۔ وہ اسی طرح جائے نماز بچھائے بیٹھا رہتاہے۔ پھر ادھر کام ملتا ہے۔ ادھر نمازیں غائب۔” صابر نے ہنستے ہوئے طنزیہ انداز میں اس سے کہا۔
”لاس ویگاس میں بھی نمازیں پڑھتا تھا یا صرف نیو یارک میں ہی شروع کرنا ہے؟”
صابر کا طنزیہ انداز برقرار تھا۔ ”وہاں بھی پڑھتا تھا۔” وہ بات کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہو گیا۔
”یعنی سال ہو گیا ہے تجھے نمازیں پڑھتے؟”
”گیارہ سال۔۔۔۔” اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ تینوں اس بار اسے چونک کر کیوں دیکھنے لگے تھے۔ کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی یوں جیسے کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کہے۔
”گیارہ سال سے باقاعدگی سے پڑھ رہا ہے؟” صابر نے بے یقینی سے پوچھا۔
”ہاں۔۔۔۔” وہ سمجھ نہیں سکا کہ اس کے اس انکشاف پر حیران ہونے والی کیا بات تھی۔
”آپ مجھے ڈائریکٹ کر دیں، میں مسجد ڈھونڈ لیتا ہوں۔” اس نے جیسے ان کی حیرت سے کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے کہا تھا۔
”چل میں تجھے چل کر بتاتا ہوں۔” صابر یک دم کپ رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا، اس نے تشکر آمیز انداز میں اسے دیکھا۔
باہر سڑک پر جاتے ہوئے صابر نے اس سے کہا۔
”تجھے پتا ہے اس کمرے میں اتنے سالوں میں تو پہلا نمازی ہے۔” اس نے جواباً کچھ نہیں کہا تھا، پورا راستہ دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی، پھر جب وہ مسجد کے دروازے کے پاس پہنچے اور وہ اندر جانے لگا تو صابر نے سگریٹ سلگاتے ہوئے اس سے کہا۔
”اچھا میرے لیے دعا کرنا، نماز پڑھ کر۔” اس نے رک کر اسے دیکھا۔
”کس چیز کے لیے؟” صابر اس کے سوال پر جیسے سوچ میں پڑ گیا تھا۔
”کس چیز کے لیے؟ پتہ نہیں کس چیز کے لیے، تو بس کر دینا کسی چیز کے لیے۔”
صابر نے چندلمحوں کے بعد قدرے الجھ کر اس سے کہا۔ وہ مسجد میں چلا گیا۔
وہ اگلے دو سال وہیں اسی اپارٹمنٹ میں ان ہی تینوں کے ساتھ رہا تھا۔ اور صرف وہی تھا جو اس اپارٹمنٹ میں ”رہتا” تھا۔ اپنی شفٹ سے فارغ ہو کر اور کبھی کبھار ویک اینڈ پر بھی۔ جب وہ مسلسل کام کرتے کرتے تھک جاتا۔ شروع میں اسے چھوٹے چھوٹے کام ملے تھے۔ بعد میں وہ بھی ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے بعد کیب چلانے لگا تھا۔ اس کے اور اس کمرے کے باقی لوگوں کی زندگی میں واحد فرق یہ تھا کہ وہ لیگل تھا۔ جب چاہتا پاکستان چلا جاتا، اور واپس بھی آسکتا تھا۔ اور اس کے اور اس کمرے کے باقی لوگوں کی زندگیوں میں مشترک بات یہ تھی کہ ان کی طرح اس کے خاندان کو بھی اس وزٹ سے زیادہ امریکہ سے اس کے بھیجے گئے ڈالرز میں زیادہ دلچسپی تھی۔ لیکن وہ اس احساس کو اپنے ذہن سے جھٹکتا رہتا تھا۔ لیکن ہر روز یہ احساس پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آتا تھا۔
”اپنے اوپر بھی پیسہ خرچ کیا کر۔ ہر وقت پاکستان ہی مت بھیجتا رہا کر۔” صابر نے ایک دن اسے ڈانٹا تھا۔ ”جتنا پیسہ بھیجے گا، پاکستان والے سب کھا جائیں گے۔ وہ سمجھتے ہیں۔ یہاں ہم درختوں سے پیسہ اتار کر انہیں بھیجتے ہیں۔”
صابر بے حد تلخی سے کہہ رہا تھا۔
”اپنے پاس پیسہ بچایا کر۔ جو بچت کرنی ہے یہاں تو نے ہی کرنی ہے۔ پاکستان میں تو تیرے پیسے سے عیش کر رہے ہوں گے سب۔ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر پھر رہے ہوں گے تیرے بھائی اور تیری ماں اور بہنیں یا تو گھر کے لیے ٹی وی، فریج وی سی آر کے نئے سے نئے ماڈل بدل رہی ہوں گی یا پھر اپنے کپڑوں، جوتوں اورزیورات پر اڑا رہی ہوں گی۔”
اس نے صابر سے نظریں نہیں ملائیں۔ صرف اسی سے نہیں وہ حقیقت سے بھی نظریں چرانا چاہتا تھا کہ صابر کی باتوں میں سچائی تھی اور پیچھے اس کا خاندان اس کے بھیجے ہوئے ”رزق حلال” کو ”رزق حرام” کی طرح اڑا رہا تھا۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے۔” اس نے سر جھکا کر بے حد معمول کے انداز میں کہا۔
”کیوں نہیں ہے؟ میرے بیوی بچے وہاں پاکستان بیٹھے یہی کر رہے ہیں۔ مجاہد کا خاندان یہی کر رہا ہے۔ تنویر پیسہ بھیج رہا ہوتا تو اس کا خاندان بھی یہی کرتا۔ تو تیرا خاندان کیوں نہیں کر رہا ہو گا۔” صابر نے بے حد سرد مہری سے کہا۔
”تو پھر کیا کروں۔ ان کو بھوکا مار دوں۔” وہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو گیا۔
”یہی تو مسئلہ ہے زندگی میں کہ کچھ چیزوں کا کوئی حل نہیں ہوتا پاس، بس انسان جیے جاتا ہے ان کے ساتھ، جیسے انسان کو چھوٹی موٹی بیماریوں کے ساتھ جینے کی عادت پڑجاتی ہے۔ ایسے ہی جھوٹ اور خود غرضی کے ساتھ بھی سمجھوتا کرنا سیکھ لیتا ہے۔”
صابر قیوم جب بولنے پر آتا تو لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ایک ان پڑھ دیہاتی ہے۔
”یہ ماں، بہن، بیوی، سب بہت لالچی ہوتی ہیں۔
عورت کو مرد کے دل میں نہیں اس کی جیب میں دلچسپی ہوتی ہے۔ دل کا کیا کرنا ہوتا ہے اس نے۔ دل کو بیچ کر تو جوتوں کا ایک جوڑا تک نہیں آتا۔”
یہ مجاہد تھا۔ اس کے آنے کے ایک سال بعد اس نے اپنی بیوی کو غصے اور شک میں طلاق دے دی تھی۔ اس کے گھر والوں نے اس پر اپنے چھوٹے دیور کو ورغلانے کا الزام لگایا تھا اور اس کی بیوی نے اس کے چھوٹے بھائی پر زیادتی کی کوشش کا مجاہد نے وہی کیا تھا جو کوئی بھی پاکستانی مرد اشتعال میں کرتا ہے۔ اس نے اپنے خاندان کی باتوں پر یقین کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق بھیج دی تھی۔ وہ بے حد اشتعال میں تھا اور صابر اور تنویر کے ساتھ وہ بھی اس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش اور اسے طلاق سے روکنے کی کوشش کرتا رہا۔ مجاہد نے ان کی ایک نہیں سنی۔
تنویر نے ایک بار اس کی بیوی کی حمایت کرنے کی کوشش کی تھی اور مجاہد اس پر پل پڑا تھا۔ وہ اور صابر تنویر کو نہ بچاتے تو شاید مجاہد اس دن تنویر کی جان لے لیتا۔ ”میرے بھائی، میرے چھوٹے بھائی پر الزام لگا رہا ہے۔ وہ اتنا بے غیرت ہو گا کہ اپنے بھائی کی عزت پر ہاتھ ڈالے گا؟ مر کر بھی کبھی ایسا کام نہ کرے وہ۔ میری ماں اور بہن نے قسم کھا کر بتایا ہے مجھے کہ میری بیوی آوارہ ہے اور شروع دن سے ہی آوارہ تھی اور وہ اس کی حرکتوں کو مجھ سے چھپاتی رہیں۔ میرے بھائی کا نام کیسے لے لیا تو نے۔ وہ صرف پچیس سال کا ہے؟”
مجاہد حلق کے بل چیختا رہا تھا اور تب ہی خاموش ہوا جب تنویر نے اس سے معافی مانگی تھی۔
پندرہ دن بعد طلاق کے کاغذ پاکستان میں مجاہد کی بیوی کو مل گئے تھے۔ اس کے اگلے دن اس نے خود کشی کر لی۔ مجاہد کو اس نے خود کشی سے پہلے ایک خط لکھا تھا۔ مجاہد کو اس کی موت کے ایک ماہ بعد ملا۔ تب تک وہ اس کی موت کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ اس کے گھر والوں نے اسے اس سے بے خبر رکھا تھا۔
اس خط کے ملنے کے بعد مجاہد اگلے دو ماہ گم صم رہا تھا۔ وہ کئی بار دھاڑیں مار مار کر ان تینوں کے سامنے رویا بھی۔ خط میں اس کی بیوی نے اسے کیا لکھا تھا۔ وہ تینوں نہیں جانتے تھے۔ مگر وہ جو کچھ بھی تھا، اس نے مجاہد کے ضمیر کے بوجھ کو بڑھا دیا تھا۔
چھ ماہ اس نے اپنے گھر والوں کو ایک کال نہیں کی۔ ایک روپیہ نہیں بھیجا نہ ہی ان کی کوئی کال ریسیو کی۔ اس کے گھر والوں نے بوکھلاہٹ میں نیو یارک میں ہر واقف کار اور مجاہد کے ہر دوست کو فون کرنا شروع کر دیے تھے کہ وہ مجاہد کو گھر والوں کی مالی حالت کے بارے میں بتائے تاکہ وہ انہیں دوبارہ پیسے بھیجنا شروع کر دے۔
چھ ماہ کے بعد مجاہد نارمل ہو گیا تھا۔ گھر والوں کو ہنڈی ایک بار پھر جانے لگی تھی۔ فون بھی ہونے لگے تھے۔ البتہ اس نے اپنے چھوٹے بھائی سے دوبارہ کبھی بات نہیں کی۔ اس نے پاکستان واپسی کے اپنے سارے خواب بھی ختم کر دیے تھے۔ اس کے باوجود کہ ان ہی دنوں اس کی امیگریشن ہو گئی تھی۔
وہ خود ان ہی دنوں امریکہ میں آنے کے ڈھائی سال بعد اپنی چھوٹی بہن کی شادی میں شرکت کے لیے پاکستان جانے کی تیاری کررہا تھا۔ اور بے حد خوش تھا، مگر وہ پاکستان نہیں جا سکا۔ اس کی بہن مسلسل فون پر اسے چند مزید زیورات کے لیے روپے بھجوانے پر اصرار کر رہی تھی۔
”میرے پاس فی الحال بالکل پیسے نہیں ہیں، ٹکٹ کے پیسوں کے علاوہ۔ تم دو ماہ انتظار کر لو۔ میں شادی میں شرکت کے بعد جب واپس امریکہ آؤں گا تو تمہیں ان زیورات کے لیے روپے بھیج دوں گا۔” اس نے فون پر اپنی بہن سے کہا تھا۔
”اگر شادی پر سارے زیور نہیں پہنے تو بعد میں پہننے کا کیا فائدہ، لوگوں کو پتا کیسے چلے گا کہ میرے میکے والوں نے مجھے کتنا زیور دیا ہے۔”
اس کی بہن اپنے مطالبے پرجمی ہوئی تھی۔
”لیکن شہلا! میرے پاس واقعی پیسے نہیں ہیں۔” اس نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
”آپ ایسا کریں کہ ٹکٹ کے پیسے مجھے بھجوا دیں۔ باقی کی رقم امی اور ابو کہیں سے ادھار لے لیں گے۔” اس کی بہن نے بڑے اطمینان سے کہا۔ وہ بہت دیر کچھ بول نہیں سکا۔ یہ بھی نہیں کہ وہ پہلے ہی ٹکٹ خرید چکا ہے۔
”ٹھیک ہے، میں تمہیں ٹکٹ کے پیسے بھجوا دیتا ہوں۔”
”آپ دو ماہ بعد آجائیں جب ٹکٹ کے دوبارہ پیسے اکٹھے ہو جائیں۔ میں شادی کی مووی بنوا کر رکھوں گی آپ کو دکھانے کے لیے بھائی جان۔”
وہ اب چہکتے ہوئے بتا رہی تھی۔ وہ چپ چاپ سنتا رہا۔ ٹکٹ ری فنڈ کروا کر اس نے دوسرے دن ہنڈی کے ذریعے وہ رقم پاکستان بھجوا دی۔ اور پھر چند دنوں کے بعد کسی جاننے والے کے ہاتھ وہ چیزیں بھی۔ جو وہ پچھلے کچھ عرصے سے اس لیے خرید رہا تھا کہ پاکستان جانے پر سب کو دے۔
اس نے صابر، تنویر یا مجاہد میں سے کسی کو اپنے پاکستان نہ جانے کی اصل وجہ نہیں بتائی تھی۔ وہ ان کی طرح وہاں بیٹھ کر اپنے گھر والوں کی عیب جوئی نہیں کر سکتا تھا۔
اسے نیو یارک میں دو سال ہونے والے تھے جب اچانک ہارٹ اٹیک کی وجہ سے صابر کی موت ہو گئی تھی۔ وہ ہاسپٹل جانے سے پہلے ہی دم توڑ گیا تھا۔ مجاہد نے صابر کے بیٹوں کو فون کر کے انہیں اس کی موت کی اطلاع دی تھی۔ وہ رنجیدہ ہوئے تھے۔ مجاہد ان سے صابر کی ڈیڈ باڈی کو پاکستان بھجوانے کے انتظامات کرنے کے سلسلے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ مگر ان میں سے کسی کو اس کی ڈیڈ باڈی وصول کرنے یا اسے پاکستان منگوانے کے لیے پیسہ خرچ کرنے میں دلچسپی نہیں تھی، وہ چاہتے تھے، اسے وہیں دفن کر دیا جائے البتہ اس کے پاس بینک میں موجود رقم اور دوسری جائیداد کی تفصیلات سے انہیں آگاہ کر دیا جائے۔ وہ اس سلسلے میں امریکہ آنے کے لیے بھی تیار تھے۔
اس نے مجاہد اور تنویر کے ساتھ زندگی کا یہ رخ بھی دیکھ لیا تھا۔ پورا ایک ہفتہ وہ مجاہد کے ساتھ صابر کے بیٹوں کولاش پاکستان منگوا لینے پر رضا مند کرنے کی کوشش کرتا رہا اور ناکام رہا۔ وہ اس سلسلے میں کسی قسم کی رقم، خرچ کرنے یا انتظامات کے لیے تیار نہیں تھے۔
مجاہد اور تنویر کے ساتھ مل کر چندہ جمع کر کے اس نے خود ہی صابر قیوم کی لاش کو پاکستان بھجوانے کا انتظام کیا تھا۔ مجاہد اور تنویر نے اسے ہی صابر قیوم کے سامان اورڈیڈ باڈی کے ساتھ پاکستان بھجوایا تھا۔ جس زمین پر صابر قیوم اپنے بڑھاپے میں کاشت کاری نہیں کر سکا تھا۔ انہوں نے کوشش کی تھی کہ وہ کم از کم وہاں دفن ضرور ہو سکے۔
جہاز پر امریکہ سے پاکستان کے طویل فضائی سفر کے دوران صابر قیوم کی ڈیڈ باڈی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے وہ صابر قیوم کے بارے میں نہیں سوچتا رہا، وہ صرف اپنے بارے میں سوچتا رہا۔ کیا کسی دن اسی طرح جہاز پر کوئی اس کے تابوت کے ساتھ سفر کر رہا ہو گا۔
جہاز کا باتھ روم استعمال کرتے ہوئے ہاتھ دھوتے ہوئے اس کی نظر اپنی کلائی پر پڑی تھی۔ سردی اور خوف کی ایک لہر سی اس نے اپنے جسم سے گزرتی محسوس کی تھی۔ اپنی کلائی پر پتھر کے بت کی طرح نظریں گاڑے اس نے ایک ”ہولناک انکشاف” کے ساتھ اس دن اس سفر کو اپنی زندگی کا بدترین سفر سمجھا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ باتھ روم سے نکلنے کے بعد ڈیڑھ منٹ چلنے کے بعد وہ Aisle سیٹ پر بیٹھتے ہوئے جس پسنجر کے پاؤں کے پاس رکھے بیگ سے ٹھوکر کھا کر گرنے والا تھا۔ وہ ”خوش قسمتی” تھی جو اس جہاز پر پرواز کر کے پندرھویں گھنٹے میں پچیس سال، آٹھ ماہ، چار دن اور پندرہ گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد بالآخر اس سے ملنے والی تھی۔
*****