من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

شروع کے سالوں میں وہ فون پر اس سے اس کے پاکستان آنے کے بارے میں پوچھتی تھی لیکن اب کئی سالوں سے یہ سوال بھی ختم ہو گیا تھا اور فون کالز بھی کم ہو گئی تھیں۔ ایک اچھی مشرقی عورت کی طرح اس نے نانی اور دادی بنتے ہی ادھیڑ عمری میں اللہ اللہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس نے بڑھاپا آنے سے بہت عرصہ پہلے ہی اپنے اوپر بڑھاپا طاری کر لیا تھا۔ کبھی اگر اسے صابر کا خیال آتا بھی تو وہ اس کے پردیس میں ہونے کو قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کر لیتی۔
صابر اچھا شوہر اور باپ تھا۔ اس نے کبھی اپنی بیوی اور بچوں کے اخراجات اٹھانے کے لیے رقم بھیجنے میں غفلت نہیں کی تھی اور نہ ہی چودہ سال کے دوران اس نے بہت سے دوسرے مردوں کی طرح دوسری شادی کی۔ البتہ ان چودہ سالوں میں کوئی نہ کوئی بنگالی، انڈین، پاکستانی یا سیاہ فام عورت اس کی زندگی میں شامل ضرور رہی۔ جو چھ ماہ اس کے بیٹوں نے امریکہ میں گزارے تھے، اس وقت بھی صابر کے ایک سیاہ فام عورت کے ساتھ تعلقات تھے اور اس کے بیٹوں کو چند ہی ہفتوں میں اس بارے میں پتا چل گیا تھا۔ کیونکہ صابر نے یہ راز ان سے چھپانے کی سرے سے کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اور اس راز کو جاننے کے باوجود اس کے دونوں بیٹوں نے ان تعلقات کو مکمل طور پر یوں نظر انداز کر دیا جیسے وہ اس کے بارے میں واقف ہی نہیں تھے۔ واپس پاکستان جا کر انہوں نے اپنی ماں کو بھی اس بارے میں مکمل طور پر بے خبر رکھا تھا۔
وہ باپ کی کسی سرگرمی پر اعتراض کرتے تو اس رقم سے ہاتھ دھو بیٹھتے جو صابر ہر ماہ انہیں بھیج رہا تھا اور شاید اس کے ساتھ ایک لمبی چوڑی زرعی زمین پر مشتمل اس جائیداد سے بھی جو صابر نے اتنے سالوں میں بنائی تھی اور جس سے وہ دونوں شدید نفرت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود یہ جانتے تھے کہ جب تک ان کے باپ کا انتقال ہو گا، وہ زمین کروڑوں کی ہو چکی ہو گی اور زمین سے لاکھ نفرت سہی، اس کو بیچ کر ملنے والے پیسے سے کسی کو نفرت نہیں تھی۔
صابر نے نیو یارک میں کام کا آغاز ایک پاکستانی کی گوشت کی دکان سے کیا تھا اور چودہ سال بعد بھی وہ گوشت کی دکان پر ہی کام کرتا تھا ٹم فضل دین کی طرح تھوڑا بہت ذہین ہوتا تو نیو یارک میں کوئی کاروبار کرنے کی کوشش کرتا یا وہاں پراپرٹی کی صورت میں ہی کوئی انویسٹمنٹ کر لیتا مگر اس نے کبھی وہاں کوئی بزنس شروع کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اسے زرعی زمین خریدنے سے فرصت ملتی تو وہ ایسا کچھ سوچتا یا پھر شاید ا س کے ذہن میں کہیں اب بھی امریکہ ”پردیس” تھا جہاں سے ایک دن اسے واپس چلے جانا تھا۔ اور واپس جا کر گاؤں کی زمین پر کھیتی باڑی ہی کرنی تھی۔ اس لیے چودہ سال کے دوران اس نے کبھی امریکہ کی شہریت حاصل کرنے کے لیے اس طرح کی دوڑ دھوپ نہیں کی جو وہاں آنے والے غیر ملکی پہلے دن سے ہی شروع کر دیتے تھے۔




مجاہد کو امریکہ آئے دسواں سال ہونے والا تھا۔ وہ اپنی شادی کے چوتھے دن امریکہ آیا تھا، نہ آتا تو ایجنٹ اس کے بجائے کسی اور کو امریکہ بھجوا دیتا۔ وہ پچھلے چار سالوں سے ایجنٹ کے ذریعہ امریکہ آنے کی کوشش کر رہا تھا اور اب اس کی شادی کو دسواں سال ہو رہا تھا، وہ ابھی تک ال لیگل تھا اور ان دس سالوں میں ایک بار بھی پاکستان نہیں گیا تھا۔ وہ اور اس کی بیوی شادی کے وقت چھبیس سال کے تھے، اب چھتیس سال کے… اور ان دنوں کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
امریکہ آتے وقت مجاہد خوابوں کی پوری گٹھڑی اپنے سر پر رکھ کر لایا تھا۔ ارینج میرج کے باوجود وہ اپنی بیوی کو پہلی بار دیکھتے ہی اس کے عشق میں گرفتار ہو گیا تھا۔ اس کا خیال تھا، امریکہ آتے ہی چند سالوں میں اسے وہاں کی شہریت مل جائے گی اور وہ اپنی بیوی کو وہاں بلا لے گا اور نہ بھی بلا سکا تو کم از کم ہر سال پاکستان ضرور آسکے گا۔ اس نے ایم بی اے کیا ہوا تھا اور اس کا خیال تھا کہ امریکہ میں کوئی شان دار سی نوکری اس کی منتظر ہو گی مگر امریکہ پہنچتے ہی اس کے تمام خواب بری طرح چکنا چور ہوئے تھے۔
اس کی ایک پبلک یونیورسٹی سے حاصل کی جانے والی سیکنڈ کلاس ایم بی اے کی ڈگری امریکہ میں تسلیم ہی نہیں کی جاتی تھی اور اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے نہ اتنا وقت کہ وہ امریکہ میں تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر سکتا اس کمرے میں رہنے والے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی ایک بڑی فیملی کو سپورٹ کرتا تھا جس میں صرف چھوٹے بہن بھائی ہی شامل نہیں بلکہ اپنے سے کچھ بڑے شادی شدہ بھائی اور ان کی فیملی بھی شامل تھی۔ وہ بہت سے لوگوں سے قرضہ لے کر رقم اکٹھی کر کے امریکہ آیا تھا اور اسے وہ رقم بھی ادا کرنا تھی اور شادی کے سلسلے میں بھی اس نے اوراس کی فیملی نے جو قرض لیا تھا وہ بھی اتارنا تھا۔ وہ امریکہ میں رہ کر یا تو اپنی فیملی کو سپورٹ کر تا اور قرض اتارتا یا پھر اپنی تعلیم کو دوبارہ سے شروع کرنے کی کوشش کرتا۔ ظاہر ہے اس نے پہلے والے آپشن کا ہی انتخاب کیا تھا۔ اپنے سارے خوابوں کو کچھ عرصے کے لیے اس نے سر سے اتار کر رکھ دیا اور نیو یارک میں کیب چلانے لگا اور اسی دوران وہ ان دوسرے بہت سے پاکستانی ڈرائیوروں سے متعارف ہو اجو اس سے زیادہ اعلا تعلیم یافتہ تھے مگر نیویارک میں کیب ہی چلا رہے تھے۔
ان میں ایک بڑی تعداد ڈاکٹرز، انجینئرز اور وکلاء کی بھی تھی… اور ان میں سے اکثر لوگ کئی کئی سالوں سے امیگریشن کے لیے وکیلوں کی بھاری بھرکم فیسیں دے رہے تھے۔ مجاہد نے بھی ایک وکیل ہائر کیا تھا مگر چند سال وہاں گزارنے کے بعد بیوی کو وہاں بلا لینے یا ہر سال پاکستان جانے کا خواب بھک سے اڑ گیا تھا۔ وہ پہلی بار اس طرح امریکہ آجانے پر بری طرح پچھتایا تھا مگر واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ پیچھے قرض تھا یا خاندان کی توقعات کا انبار۔ اسے دونوں سے نبٹنا تھا۔
چوتھے سال اس نے تمام قرض ادا کر دیا تھا اور اس وقت تک وہ بری طرح ہوم سک نیس کا شکار بھی ہو چکا تھا۔ اس سال اس کا ارادہ تھا کہ وہ واپس چلا جائے اور یہی خواہش اس کی بیوی کی بھی تھی۔ گھر میںصرف وہی تھی جو مستقل طور پر ہر قیمت پر اس کی جلد واپسی کی خواہش مند تھی۔
مجاہد نے اپنی ماں کو واپس آنے کے بارے میں بتایا تھا اور گھر میں جیسے کہرام برپا ہو گیا تھا۔
”تم واپس آجاؤ گے تو چھوٹی بہن کی شادی کون کرے گا؟ تم سے بڑی طلاق کے بعد گھر پر بیٹھی ہے، اسے دوبارہ بسانا ہے تمہیں۔ امجد کی بیٹیاں جوان ہو رہی ہیں اور تمہیں پتا ہے، امجد کا کوئی کاروبار نہیں ہے۔ منظر ابھی پڑھ رہا ہے، اس کی تعلیم کے اخراجات کون اٹھائے گا؟ ہم ابھی تک کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔”
یہ کون کرے گا؟ وہ کون کرے گا؟ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا، کی ایک لمبی فہرست تھی جس سے مجاہد گھبرا گیا تھا اس نے پاکستان واپس آنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ کم از کم اگلے دو سالوں تک۔ اور چار سالوں میں پہلی بار بیوی کے ساتھ فون پر اس کا جھگڑا ہوا تھا۔ وہ بے حد ڈپریس تھی۔ مجاہد بھی خوش نہیں تھا۔ مگر اس کا خیال تھا، اسے اس کے مسئلوں کو سمجھنا چاہیے۔
اس کی بیوی کا خیال تھا۔ اسے دوسروں کے ساتھ ساتھ اس کی اور اپنی زندگی کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے، وہ اپنی زندگی کے بہترین سال ایک دوسرے سے الگ رہ کر گزار رہے تھے۔
ان کا جھگڑا بہت دیر تک نہیں رہا تھا۔ چند دنوں میں مجاہد نے بیوی کو منا لیا تھا۔ لیکن اس کے گھر والوں نے اس کی بیوی کو تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ پہلے بھی ان کے رویہ سے خوش نہیں تھی۔ مگر اب حالات زیادہ خراب ہو گئے تھے۔ مجاہد کے گھر والوں کا خوف تھا کہ بیوی کے کہنے پر مجاہد پہلے کی طرح دوبارہ کبھی بھی واپسی کے لیے تیار ہو سکتا تھا اور اس خوف کی وجہ سے اس کی ماں، بہنیں اور بھائی مستقل فون پر اس سے اس کی بیوی کی شکاتیں کرتے رہتے، دوسری طرف اس کی بیوی بھی مجاہد سے ان کی شکاتیں کرتی تھی اور اس صورت حال نے نیو یارک میں رزق کے لیے جدوجہد کرتے مجاہد کو ذہنی طور پر بے حد پریشان کر دیا تھا۔
وہ گھر والوں کی طرف داری کرتا تو بیوی ناراض ہو جاتی۔ بیوی کی طرف داری کرتا تو گھر والے برہم ہوتے۔ واحد حل اس نے یہ نکالا تھا کہ بیوی اور گھر والوں دونوں کو فون کرنا کم کر دیا تھا۔ اس چیز نے اس کے گھر پر کوئی اثر نہیں ڈالا مگر اس کی بیوی کے اعصاب کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ وہ مجاہد کے بارے میں بہت سے خدشات کا شکار ہونے لگی اور ان میں سب سے بڑا خدشہ دوسری شادی کا تھا۔
مجاہد اور اس کی بیوی کے درمیان اب فون پر صرف شکوے شکایتیں اور اس کا رونا دھونا ہوتا تھا۔ اور ان ہی شکوے شکایتوں میں ان دونوں کی شادی کو نو سال گزر گئے تھے۔ مجاہد اب بھی مہینے میں دو بار وکیل کے دفتر کے چکر لگاتا مگر شروع کے سالوں کی طرح اب وہ پہلے جیسی توقعات اور امیدیں لے کر وہاں نہیں جاتا تھا۔
تنویر اس کمرے میں رہنے والے لوگوں میں سب سے زیادہ خوش شکل تھا اور ان سب کے برعکس اس پر کوئی ذمہ داری نہیں تھی کیونکہ اس نے کوئی ذمہ داری اپنے سر پر لی ہی نہیں تھی وہ بتیس سال کا تھا اور اس امریکہ آئے سات سال ہونے والے تھے وہ اپنے گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور اس کے گھر والوں کی مالی حیثیت بھی کافی بہتر تھی۔ مگر تنویر کو تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اور وہ ایف اے میں ہی تعلیم چھوڑنے کے بعد آوارہ گردی کرنے لگا تھا اور اس نے امریکہ جانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔
وہ امریکہ ڈالر کمانے سے زیادہ اس آزادی کے لیے آنا چاہتا تھا جو اسے پاکستان میں میسر نہیں تھی۔ اس کے بڑے بہن بھائیوں نے اس کے امریکہ جانے پر اس لیے سکون کا سانس لیا تھا کہ گھر کا ایک بوجھ کم ہو گیا تھا۔ اور ان شکایتوں کا بھی خاتمہ ہو گیا تھا جو تنویر کی حرکتوں کی وجہ سے انہیں آئے دن کہیں نہ کہیں سے ملتی تھیں۔
صرف ان سب نے ہی نہیں تنویر نے بھی امریکہ پہنچنے پر سکھ کا سانس لیا تھا۔ اس کا تعلق پاکستان کے ایک چھوٹے سے شہر سے تھا۔ جہاں وہ شدید گھٹن کا شکار تھا نیویارک اس کے خوابوں کی سرزمین تھی جہاں وہ جو چاہے کرتا اسے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔
یہاں ہر کوئی اپنے لیے جیتا تھا اور وہ اپنے لیے جینے ہی وہاں آیا تھا۔ مگر وہاں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی اس کی عقل ٹھکانے آگئی تھی۔ وہ محنت کا عادی نہیں تھا اور امریکہ میں ایک کم پڑھے لکھے غیر ہنر مند ایشیائی کے لیے ”محنت” نہیں ”مشقت” تھی، وہ پاکستان میں یہ خواب دیکھتا رہا تھا کہ امریکہ میں سفید فام لڑکیاں ایشیائی بوائے فرینڈز پر مرتی ہیں اور جیسے ہی وہ وہاں پہنچے گا گھنٹوں کے اندر اندر کوئی امریکن لڑکی اس پر عاشق ہو جائے گی۔ اس کی یہ خوش فہمی بھی چند دنوں میں ہی رفو چکر ہو گئی تھی۔
وہ برو کلین میں رہائش پذیر تھا۔ جہاں ”خوبصورت سفید فام دل پھینک امریکن لڑکی” ناپید تھی۔ جو چہرے اسے عام طور پر نظر آتے تھے وہ ایشیائی یا سیاہ فام عورتوں کے تھے۔ اور ان معمولی شکل وصورت کی لڑکیوں کی آنکھوں میں بھی تنویر کو دیکھ کر کسی قسم کا کوئی تاثر نہیں ابھرتا تھا۔
اپنی شکل وصورت اور قدو قامت پر جو فخر اور غرور لے کر تنویر نیویارک آیا تھا وہ دنوں میں ملیا میٹ ہو گیا تھا۔ نیویارک میں صرف ”ہنر” کے دام تھے اور تنویر کے پاس کسی قسم کا کوئی ہنر نہیں تھا۔ نیویارک صرف جان توڑ محنت کرنے والوں کو سیڑھیاں چڑھنے کا موقع دیتا تھا اور تنویر کو محنت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ جن جگہوں پر چند چھوٹے موٹے کام حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ جلد ہی وہاں سے کسی نہ کسی وجہ سے نکال دیا گیا۔ وہ بہت کام چور، کاہل اور بے ایمان تھا اور نیو یارک میں ان خصوصیات کے انسان حشرات الارض کی طرح مر جاتے تھے۔
تنویر بھی بہت جلد بھوکوں مرنے لگا۔ اور اس سے پہلے کہ وہ واقعی مر جاتا بالآخر ایک دن سڑک پر کھڑے ایک آدمی نے اسے اپنے اسٹوڈیو چلنے کی دعوت دی تھی۔ وہ ایک پینٹر تھا اور کسی انسٹی ٹیوٹ میں پینٹنگ کی کلاسز لیتا تھا، اسے آج کل کسی ایشیائی کی ضرورت تھی۔ ٹوٹی پھوٹی انگلش میں اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اس آدمی کی بات کو صحیح طور پر سمجھے بغیر تنویر بے حد فخر اور جوش کے عالم میں اس کی گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا چہرہ اتنا دلکش ہے کہ کوئی آرٹسٹ اسے پینٹ کرنا چاہے گا۔ وہ جیسے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔
اور ساتویں آسمان سے نیچے گرنے میں اسے زیادہ دیرنہیں لگی۔ اسٹوڈیو پہنچنے کے بعد اسے پتا چلا کہ وہ آرٹسٹ اس کا چہرہ پینٹ کرنے کے لیے اسے وہاں نہیں لایا۔ وہ اپنے اسٹوڈنٹس کو ان دنوں Nude پینٹ کرنا سکھا رہا تھا اور اسے ماڈل کی ضرورت تھی جو برہنہ حالت میں اس کے اسٹوڈنٹس کے سامنے ہر روز چند گھنٹے کے لیے آکر بیٹھتا اور وہ اسے پینٹ کرنا سیکھتے۔
چند منٹوں میں تنویر کا غرور، خود اعتمادی اور عزت نفس مٹی کا ڈھیر بن گئے تھے وہ آوارہ اور بد کردار تھا اور اب نہیں ہمیشہ سے تھا۔ مگر پندرہ لڑکے لڑکیوں کی کلاس کے سامنے بے لباس حالت میں پوز کرنا اسے بے حد شرم ناک محسوس ہوا تھا۔ بے اختیار اس کا دل چاہا تھا ، وہ غصے میں اس آدمی کو گالیاں دے اور اس سے لڑے اور اس سے پہلے کہ وہ ان میں سے کسی ایک چیز پر بھی عمل کرتا۔ اس آدمی نے اسے بتایا تھا کہ فی گھنٹہ اسے کتنے ڈالر ملیں گے۔ اور ڈالرز کی تعداد سن کر اس کا غصہ اور شرم ایک سیکنڈ میں ہوا ہو گئے تھے۔
وہ پورا دن محنت کر کے بھی اتنے ڈالر نہیں کما سکتا تھا وہاں جتنے ایک گھنٹہ کے لیے بے لباس پوز کرنے کے عوض اسے مل سکتے تھے، اور آخر اسے کرنا ہی کیا تھا…؟ کچھ نہیں… تو پچھلے چھ سال سے تنویر اسی طرح کی دو تین اسٹوڈیوز میں نیوڈ پینٹنگ کے لیے ماڈلنگ کرتا تھا۔ یہ کام روز نہیں ملتا تھا اور جب وہ یہ کام نہیں کرتا تھا تو ایک Male prostitute کے طور پر نیو یارک کی ایک بے حد مشہور اور ”مصروف” سڑک پر پایا جاتا تھا۔ جہاں امیر سفید فام اور سیاہ فام عورتیں اسے رات کو اپنے ساتھ کہیں نہ کہیں لے جاتیں۔ ان میں سے چند عورتوں کے ساتھ وہ کچھ عرصہ تک دوستی کرنے کی بھی کوشش کرتا رہا۔
اس کا خیال تھا کہ وہ ایسی ہی کسی امیر عورت کے ساتھ شادی کر کے بروکلین سے مین ہٹن کے کسی شان دار گھر میں منتقل ہو سکے گا اور اگر شادی نہیں تو بوائے فرینڈ کے طور پر ہی کوئی عورت اسے مستقل طور پر اپنے ساتھ رکھ لے گی۔ اس کی یہ خوش فہمی بھی بہت جلد ہی دور ہو گئی۔
کسی One-night stand والے ایک ایشیائی مرد کو نیو یارک کی بورژوا کلاس کی کسی بھی عمر کی سفید فام عورت شوہر یابوائے فرینڈ کے طور پر ساتھ رکھنے کی حماقت کرنے پر تیار نہیں تھی۔
تنویر کو اگر بچت کی عادت ہوتی تو وہ ان دونوں ذریعوں سے ہونے والی آمدنی کو بچانے کی کوشش کرتا یا کم از کم اپنا کوئی لائف اسٹائل ضرور رکھتا مگر تنویر کے پاس جتنی رقم آتی، وہ ڈرگزڈر نکنگ عورتوں اور نائٹ کلبز پر اڑا دیتا۔ وہ بے حد مہنگا لباس پہنتا اور بے حد اچھا کھانا کھاتا۔ کیونکہ وہ دونوں چیزیں اسے وہ عورتیں ہی دے دیتیں جو اسے اپنے ساتھ escortکے طور پر لے جاتیں اور تنویر کو جب ان سفید فام عورتوں سے فرصت ملتی تو وہ اپنے علاقے کی ان ایشیائی عورتوں کے ساتھ ڈیٹنگ میں مصروف رہتا جنہیں وہ پہلے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا تھا۔ ان سے اردو اور پنجابی میں بے تکلفی اور روانی سے وہ سب کچھ کہہ سکتا تھا جو اتنے سالوں کے وہاں قیام کے بعد بھی وہ اپنی خستہ حال انگلش میں ان سفید فام عورتوں سے نہیں کہہ سکتا تھا۔ وہاں رہنے والے باقی لوگوں کے برعکس وہ خوش قسمت تھا کیونکہ وہ بہت جلد امیگریشن کروانے میں کامیاب ہونے والا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

محمدۖہمارے

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!