من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

ٹم فضل دین نے بڑے اطمینان کے ساتھ کھڑکی کھولنے کے لیے اس پر ہاتھ رکھا اور پھر اپنا جملہ مکمل نہیں کر سکا۔ اس کے ہاتھ رکھتے ہی کھڑکی کا پورا فریم باہر غائب ہو گیا تھا۔ کمرے میں رہائش پذیر تینوں افراد نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور پھر وہ پاگلوں کی طرح ہنستے ہی چلے گئے جبکہ وہ خود ہونق بنا ہکا بکا قہقہے لگاتے ہوئے ان تینوں مردوں کے درمیان کھڑا تھا۔ ٹم فضل دین نے بے ساختہ حواس باختہ ہو کر کھڑکی سے جھانک کر باہر دیکھا۔ وہ تقریباً لٹک گیا تھا پھر یک دم پلٹ کر اس نے غصے میں آ گ بگولہ ہوتے ہوئے اپنے اپنے میٹریس پر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے ان تینوں مردوں کو دو ناقابل اشاعت گالیاں دینے کے بعد حلق کے بل چلاتے ہوئے پنجابی میں کہا۔
”کھڑکی توڑ دی میری۔ ابھی نیچے کوئی زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو پولیس آکر لے جاتی مجھے تو پھر کیا تم لوگوں کا باپ چھڑانے آتا مجھے؟”
وہ اب ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کر رہا تھا۔ اس کی انگریزی اور امریکن لہجہ اڑن چھو ہو گیا تھا۔ وہ تینوں اب بھی اس طرح قہقہے لگا رہے تھے۔
”الو کے پٹھے۔” اس نے ان تینوں کو ایک گالی دی۔ ان تینوں پر ابھی بھی کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”کیس کروں گا میں تم لوگوں پر، اپنی پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کے لیے۔” ٹم نے ان تینوں کو دھمکایا۔
”تم سے کس نے کہا تھا کھڑکی پر ہاتھ رکھو۔ جب تمہیں پتا ہے کہ کتنی مشکل سے اسے اٹکایا تھا ہم نے۔ ہر بار آخر تم اس کھڑکی کوکھول کرباہر کیا دکھانا چاہتے ہو؟ سینٹرل پارک کے سامنے تمہاری بلڈنگ ہے کیا؟ سورج کی روشی تک نہیں آتی اس کھڑکی سے۔ پنتالیس منزلہ عمارت ہے اس کے بالمقابل اور نیچے پوری گلی میں کوڑے کے ڈھیر ہیں اور تم جس کو یہاں لاتے ہو اسے کھڑکی کھول کر دکھانا شروع کر دیتے ہو۔”
صابر نے قہقہوں کے بیچ بیچ میں رک رک کر اس سے کہا اور بات ختم کرتے ہی پھر ہنسنے لگا۔




”اب پولیس ہی آکر تم لوگوں کی بکواس بند کرے گی۔ سمیٹ لو اپنا سامان یہاں سے اور ڈھونڈو کوئی اور ٹھکانا۔” ٹم فضل دین بے حد غصے سے کہتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔
وہ دھڑ سے دروازہ بند کرتے ہوئے باہر چلا گیا تھا۔ وہ یک دم گھبرا گیا تھا۔ وہ رہائش کی تلاش میں یہاں آیا تھا اور یہاں پولیس آنے والی تھی۔
کمرے میں موجود افراد اب آہستہ آہستہ نارمل ہونے لگے تھے اور ان میں سے کوئی بھی پریشان نظر نہیں آرہا تھا۔
”کہیں بیٹھو گے یا ”ن” کے نقطے کی طرح یہیں جمے رہو گے؟”
صابر نے پہلی بار اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ جملہ طنزیہ تھا مگر لہجے میں وہ تلخی یا ترشی نہیں تھی جو ٹم فضل دین کی موجودگی میں تھی۔
وہ کچھ نروس سا ہو کر سوٹ کیس وہیں چھوڑتا صابر کے میٹریس کی طر ف آگیا مگر اس سے پہلے کہ وہ بیٹھتا صابر نے اسے ٹوک دیا۔
اپنے سوٹ کیس وہاں رکھ دو۔” اس نے دیوار کے قریب ایک خالی جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں کچھ اور سوٹ کیس بھی پڑے ہوئے تھے۔
وہ اپنے سوٹ کیس اٹھا کر رکھنے لگا۔ کمرے میں موجود لوگ ایک بار پھر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوچکے تھے۔ وہ صابر کے پاس آکر بے حد بے چینی اور پریشانی کے عالم میں بیٹھ گیا۔ اس کا ذہن ٹم فضل دین اور پولیس میں الجھا ہوا تھا۔
”کہاں سے آئے ہو؟” صابر نے پہلی بار اس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
”لاس ویگاس سے۔”
”امریکہ میں کب آئے ہو؟”
”ایک سال ہو گیا؟”
“لاس ویگاس میں کیا کرتے تھے۔”
”ایک کیسینو میں کام کرتا تھا۔”
صابر کے ساتھ ساتھ تنویر اور مجاہد نے بھی گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا۔ وہ ان کی نظروں سے کچھ اور پریشان ہوا۔
”جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے یار! یہاں سب کو پتاہے کہ کون کہاں کیا کرتا ہے۔ امریکہ ہے۔ یہاں کوئی کسی سے کچھ نہیں چھپاتا۔ تو بھی نہ چھپا۔” یہ مجاہد تھا جس نے اسے جیسے بہلاتے ہوئے کہا تھا۔
”کیا چھپایا میں نے؟” اس نے قدرے الجھ کر انہیں دیکھا۔
”لاس ویگاس میں کیا کرتا تھا؟” صابر نے دوبارہ سوال دہرایا۔
”کیسینو میں کام کرتا تھا۔” اس نے اسی انداز میں کہا۔ ”فلور صاف کرتا تھا” اس نے اسی سانس میں کہا۔
”ایک سال ہوا تجھے امریکہ آئے۔ لیگل تو ہے نہیں اور کام مل گیا تجھے کیسنیو میں۔” صابر نے مذاق ڑاتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا تنویر نے پوچھا۔
”اور کیسینو کا کام چھوڑا کیوں تو نے؟”
”وہاں حرام کام ہوتے تھے۔ رزق حلال نہیں تھا وہاں۔”
اس نے بے حد سادہ لہجے میں کہا تھا۔ تینوں نے چونک کر اسے ایک لخطہ کے لیے دیکھا اور پھر تینوں یک دم ایک بار پھر کھلکھلا کرپاگلوں کی طرح ہنسنے لگے تھے۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ کچھ دیر پہلے ہنس رہے تھے۔ اسے لگا وہ ابنارمل تھے۔
دو سال کے بعد اس کمرے کو چھوڑتے ہوئے اسے احساس ہوا تھا کہ وہ بھی اتنا ہی ابنارمل ہو چکاتھا۔
”اچھا تو رزق حلال کمانے آیا ہے امریکہ۔ ارے پھر یہاں آنے کے بجائے سعودی عرب کیوں نہیں گیا تو؟” صابر نے اپنی ہنسی کو کنٹرول کرتے ہوئے اس سے کہا اور کمرے میں آ یک بار پھر جیسے قہقہوں کا طوفان آگیا تھا۔ وہ اسی طرح ہونقوں کے انداز میں انہیں دیکھتا رہا۔
”اول تو مجھے یقین نہیں کہ تو کیسنیو میں کام کرتا رہا ہے۔ وہاں تو کسی کو چھوٹا موٹا کام دینے سے پہلے بھی سو طرح کی جانچ پڑتال کرتے ہیں پھر تیرے جیسے کنگلے کو جسے امریکہ میں آئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں کیسے رکھ لیا انہوں نے کسی جان پہچان کے بغیر؟”
”کیسینو کا مالک مجھے جانتا تھا۔”
اس کے جملے پر کمرے میں قہقہوں کا طوفان ایک بار پھر ابل پڑا تھا اور اس بار اس نے طے کیا تھا کہ اسے مزید کچھ نہیں کہنا چاہیے۔
اس سے پہلے کہ کوئی اس سے مزید سوال کرتا کمرے کے دروازے کے باہر کچھ شور ہوا تھا۔
”پولیس۔۔۔۔” اس کے ذہن میں پہلا خیال آیا اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
”کیسی پولیس…؟ بیٹھ جا۔ فضل دین نیچے گرنے والی کھڑکی کسی کے ساتھ اٹھا کر رکھنے آیا ہے۔”
صابر نے ہنستے ہوئے کہا۔ اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا پھر دروازے کی طرف چلا گیا اور اسے کھول دیا۔ ٹم فضل دین واقعی ہانپتا ایک دوسرے پاکستانی آدمی کے ساتھ وہ کھڑکی اٹھائے لا رہا تھا۔ اس نے پلٹ کر اندر ہنسی میں لوٹ پوٹ ہوتے تینوں آدمیوں کو دیکھا اور پھر قدرے خجل سی مسکراہٹ کے ساتھ دروازہ بند کر دیا۔
٭٭٭
اس کا ابتدائی خیال تھا اس کمرے میں وہی تین آدمی رہتے تھے جو اسے اس دن نظر آئے تھے۔ بعد میں اسے پتاچلا اس کمرے میں چھ افراد رہتے تھے۔ جن تینوں سے وہ ملا تھا وہ رات کو کام کرتے تھے اس لیے دن کو اس کمرے میں موجود ہوتے۔ دوسرے تینوں مرد دن کو کام کرتے تھے۔ اور وہ رات کو سونے کے لیے آتے تھے اس کمرے میں ہر کوئی صرف چند گھنٹوں کی نیند پوری کرنے کپڑے بدلنے اور نہانے کے لیے آتا تھا۔ ورنہ وہاں کوئی بھی نہیں رہتا تھا۔
وہ ایک لمبے عرصے کے بعد ایک ہی کمرے میں اتنے بہت سے لوگوں کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ صابر، مجاہد اور تنویر تینوں رات کی شفٹ میں کام کرتے تھے۔ ان میں سے صرف تنویر تھا جو کئی بار دن کے وقت بھی کام کرتا اور اس کمرے میں سب سے کم وقت گزرتا تھا۔ وہ اس کمرے کا سب سے امیر اور صاحب حیثیت رہائشی تھا۔ اس کے باوجود اس نے ا س رہائش گاہ کو جسے وہ نیو یارک کی گھٹیا ترین جگہ کہتا تھا۔ بدلنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
ان تینوں میں سے کوئی بھی وہاں لیگل نہیں تھا۔ صابر کو نیو یارک آئے چودہ سال ہو گئے تھے۔ وہ اس ایک کمرے کے اپارٹمنٹ کے مالک ٹم فضل دین کے گاؤں سے تھا اور ٹم فضل دین اس سے دبتا تھا۔ اور اس کی گالیاں بھی سن لیتا تھا۔
چودہ سال پہلے چالیس سال کی عمر میں امریکہ آنے سے پہلے وہ اپنی تینوں بیٹیوں کو بہت کم عمری میں ہی پاکستان میں بیاہ چکا تھا۔ شاید وہ کبھی امریکہ آنے کا سوچتا ہی نہ اگر خاندانی دشمنیوں اور مقدمہ بازی کے ہاتھوں وہ اپنی ساری جائیداد سے ہاتھ نہ دھو بیٹھتا اور اسے بھوک کے ساتھ ساتھ جان کے لالے بھی نہ پڑ جاتے۔ وہ اپنی بیوی اور دو کم عمر بیٹوں کے ساتھ پہلے روز گار کی تلاش اور جان بچانے کے لیے کراچی آیا تھا اور پھر بیوی بچوں کو وہیں چھوڑ کر خود کسی ایجنٹ کے ذریعے امریکہ آگیا تھا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ پاکستان نہیں گیا۔ شروع میں وہ جانا چاہتا تھا لیکن بعد میں اسے بیوی اور بیٹوں دونوں میں دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ واحد دلچسپی جو اسے زندگی میں تھی، وہ زرعی زمین خریدنے میں تھی۔ ہر سال وہ جتنا بھی روپیہ کماتا یا بچاتا، اس سے وہ پاکستان میں اپنے آبائی علاقے میں زمین خرید لیتا تھا اور یہ چیز اس کے اور اس کی بیوی اور بیٹوں کے درمیان اختلاف کی سب سے بڑی وجہ تھی جو اب کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں رہتے۔ اچھے اسکولوں اور کالجز میں پڑھ کر اب مکمل طور پر شہری ہو گئے تھے۔ انہیں گاؤں میں ہر سال خریدی جانے والی اس زمین سے نفرت تھی اس کا ایک بیٹا شادی کر چکا تھا اور دوسرا کرنے والا تھا مگر وہ دونوں آج بھی صابر کی ہر ماہ آنے والی ہنڈی کی رقم سے اپنا گھر چلاتے تھے۔
اچھے اسکولوں میں زبردستی پڑھانے کے باوجود انہیں تعلیم میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ باری باری دونوں نے کالج چھوڑ دیا پھر اسی ترتیب سے یکے بعد دیگرے کاروبار کرنے کی کئی کوششیں کیں اور ان کوششوں میں صابر کا اچھا خاصا روپیہ ڈبویا۔ ان کوششوں میں ناکامی کے بعد صابر نے کوشش کی کہ وہ انہیں اپنے پاس امریکہ بلوالے اور اس نے کسی نہ کسی طرح انہیں وہاں بلوا بھی لیا لیکن صرف چھ ماہ وہاں رہ کر وہ دونوں واپس پاکستان چلے گئے تھے وہ امریکہ میں باپ کی طرح ”محنت” نہیں کر سکتے تھے۔ وہ پاکستان میں باپ کی کمائی پر صرف ”عیش” کر سکتے تھے۔
پاکستان میں صابر کے لیے دوسری دلچسپی اس کی بیوی ہو سکتی تھی جو اس کی خالہ زاد تھی اور جس کے ساتھ اس نے بہت لڑجھگڑ کر پسند کی شادی بہت کم عمری میں ہی کر لی تھی۔ چودہ سال امریکہ میں قیام کے دوران وہ عشق بھی اڑن چھو ہو گیا تھا ایک ادھیڑ عمر، بھدی، بے ڈول، ان پڑھ، معمولی شکل وصورت والی سادہ دیہاتی عورت میں اب اسے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ نکاح کے ایک کاغذ اور پانچ بچوں کے علاوہ دونوں کو آپس میں کوئی اور چیز نہیں جوڑتی تھی۔ اگر چہ صابر بھی اتنا ہی ان پڑھ، بھدا، بے ڈول، ادھیڑ عمر اور معمولی شکل وصورت والا تھا۔ جتنی اس کی بیوی… لیکن وہ نیو یارک میں رہتا تھا اور اتنا فاصلہ نیو یارک اور کراچی کے درمیان نہیں تھا۔ جتنا صابر کو اب اپنے اور اپنی بیوی کے ذہنوں کے درمیان فون پر بات کرتے ہوئے محسوس ہوتا تھا۔ اگر اسے پاکستان آنے کی کوئی خواہش نہیں تھی تو اب اس کی بیوی کو بھی اس کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔




Loading

Read Previous

محمدۖہمارے

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!