”السلام علیکم نعیم بھائی۔”
سلمان کے قدرے ہڑبڑاہٹ میں کیے ہوئے سلام کی آواز صحن میں بیٹھے سب لوگوں نے سنی تھی اور کچھ چونک کر صحن کے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہونے والے نعیم کو دیکھا جو سلمان کے سلام کا جواب دیے بغیر بے حد رعونت آمیز تاثرات کے ساتھ اندر داخل ہوا تھا۔
ضیاء صحن کے تخت پر بیٹھے رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ وہ چونکے اور پھر بڑے جوش کے عالم میں اٹھ کر نعیم کی طرف گئے صحن میں کھیلتی ماہا اور مائرہ بھی شور مچاتی باپ کی طرف لپکی تھیں۔
”ارے نعیم بیٹا! آؤ، سلمان! کرسی لاؤبھائی کے لیے۔” نفیسہ نے نعیم کے پاس جاتے ہوئے بے حد خوشی کے عالم میں سلمان سے کہا اس نے برآمدے میں پڑی کرسی لا کر صحن میں تخت کے پاس رکھ دی۔ باورچی خانہ میں کام کرتی زینب اور ربیعہ کو بھی نعیم کی آمد کا پتہ چل گیا تھا اور وہ قدرے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے باہر سے آتی آوازیں سننے لگیں۔
نعیم نے بے حد سرد مہری کے ساتھ ضیاء سے مصافحہ کیا۔ نفیسہ سے سرپر پیار وصول کیا اور پھر ماہا اور مائرہ کی انگلی تھامے کرسی پر بیٹھ گیا۔
تب تک زہرہ بھی کمرے سے باہر آگئی تھی۔
”السلام علیکم آپ کیسے ہیں؟” اس نے کئی ہفتوں کے بعد شوہر کی شکل دیکھتے ہی پوچھا تھا۔ وہ جواب دینے کے بجائے ماہا اور مائرہ سے باتیں کرنے لگا۔
”السلام علیکم نعیم بھائی!” زینب نے باہر آکر بڑی خوشی اور طمانیت کے عالم میں اس سے کہا۔
”وعلیکم السلام۔” نعیم نے پورے گھر میں صرف اس کے سلام کاجواب دیا تھا مگر اسی سرد مہری کے ساتھ۔
”نعیم کے لیے کھانا لاؤ بلکہ سلمان! تم ایسا کرو، بازار سے کباب لے آؤ اور۔”
ضیاء کو اچانک خیال آیا کہ وہ سبزی کھا رہے تھے اور نعیم اپنے گھر میں روز سبزی دال کھانے کے باوجود سسرال میں سبزی پیش کرنے پر پھر زہرہ کی زندگی اجیرن کر دیتا۔ اسی لیے انہوں نے جیب سے پیسے نکال کر کہا مگر نعیم نے اس سے پہلے ہی بے حد درشتی کے عالم میں ضیا کی بات کاٹ دی۔
”اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں اپنے بیوی بچوں کولینے آیا ہوں، زیادہ دیر بیٹھوں گا نہیں۔”
”ہاں ہاں کیوں نہیں۔ تمہاری بیوی اور بچے ہیں جب چاہے لے جاؤ۔ جاؤزہرہ! تم سامان باندھو۔”
نفیسہ کا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا تھا اور انہوں نے فوراً ہی زہرہ سے کہا۔ واقعی اس بار کوئی معجزہ ہی ہو گیا تھا کہ وہ اس طرح بیوی اور بچیوں کو مطالبہ پورا ہوئے بغیر لینے آپہنچا تھا۔ ورنہ پچھلے کئی ہفتوں سے وہ مختلف لوگوں کے ذریعے فہمیدہ اور اسے سمجھانے اور منانے کی کوشش کر رہے تھے۔
”کھانا تو کھانا ہی ہو گا۔ کھانے کا وقت ہو رہا ہے۔” ضیاء نے اصرار کیا۔
”میں نے کہا نا میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔”
نعیم نے اس بار پہلے سے بھی زیادہ درشتی کے ساتھ ضیاء سے کہا۔ باپ کے پاس کھڑی زینب کو لگا جیسے وہ اس کے باپ کو جھڑک رہا ہوں۔ چند لمحوں کے لیے صحن میں یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔ زینب نے باپ کے چہرے کو دیکھا وہ سرخ تھا۔ وہ جانتی تھی یہ غصہ نہیں تھا شرم تھی۔ اپنے ہی صحن میں اپنی بیوی اور اولاد کے سامنے اپنے داماد سے جھڑکیاں کھانا۔
نعیم ٹانگ پر ٹانگ رکھے اسی رعونیت سے کرسی پر بیٹھا اپنی بیٹیوں کی طرف متوجہ تھا اور وہ سب غلاموں کے انداز میں اس کے آس پاس کھڑے تھے۔
تب ہی ماہا سے بات کرتے کرتے نعیم کو ہلکی سی کھانسی اٹھی۔
”ربیعہ!پانی لاؤ۔ کیا ہوا بیٹا! طبیعت تو ٹھیک ہے؟”
نفیسہ نے گھبرا کر ربیعہ کو آواز دی۔ ساتھ ہی نعیم سے پوچھا۔ اس نے اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ تھوڑا سا کھانس کر خاموش ہو گیا۔
”آپا کیسی ہے؟” ضیا نے جیسے اس خاموشی کو توڑنے کے لیے پوچھا۔
”بہت جلدی خیال آگیا آپ کو میری ماں کا؟” بے حد ٹکڑا توڑ جواب ملا ضیاء ایک بار پھر خجل ہو کر چپ ہو گئے۔
تب ہی ربیعہ پانی کا گلاس لے کر سلام کرتی ہوئی نعیم کے پاس آئی اور پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔
”میں نے کہا نا نہیں پیوں گا۔ دوسروں کے گھر کا کھانا پینا مجھ پر حرام ہے۔”نعیم نے اسی انداز میں کہا۔ ربیعہ خجل سے انداز میں گلاس ہاتھ میں لیے باپ کو دیکھنے لگی۔
”بیٹا! یہ گھر بھی تمہارا اپنا ہی ہے۔”
”اپنا گھر ہی صرف اپنا ہوتا ہے۔ میں تو صرف شیراز کے کہنے پر زہرہ اور بچیوں کو لے کر جا رہا ہوں ورنہ میں تو اس گھر پر تھوکنا بھی پسند نہیں کروں ۔ جاؤ دیکھ کر آؤ تمہاری ماں نے سامان باندھا ہے یا پھر یہیں رہنا چاہ رہی ہے وہ۔” نعیم نے زبان سے کوڑے برساتے ہوئے پہلے ضیاء کو جواب دیا پھر مائرہ سے کہا۔
”بیٹا! میں خود دیکھ کر آتی ہوں۔” نفیسہ بے حد گھبرا کر تیزی سے اندر چلی گئیں۔
”تمہاری بڑی مہربانی بیٹا! کہ تم زہرہ کو لینے آگئے اور۔۔۔۔”
ضیاء نے بڑے ممنون انداز میں نعیم سے کہنا شروع کیا اور نعیم نے اس تلخی اور ترشی سے ان کی بات کاٹ دی۔
”ہاں۔ مہربانیوں کا تو ٹھیکہ لے رکھا ہے میرے خاندان نے۔”
”بیٹا! میں تمہارا سسر ہی نہیں ماموں بھی ہوں۔” ضیاء نے جیسے اسے رشتہ یاد دلانے کی کوشش کی تھی۔
”ماموں سمجھ رہا ہوں تب ہی بیٹی بس رہی ہے میرے گھر… سسر سمجھا ہوتا تو کب کا فارغ کر چکا ہوتا آپ کی بیٹی کو۔”
وہاں اپنے صحن میں نعیم کے سامنے کھڑے ہو کر نعیم کو سنتے ہوئے زینب کو پہلی بار اس ذلت کا صحیح معنوں میں احساس ہوا جو اس کا باپ نعیم کے گھر جا کر اٹھاتا ہو گا۔ اس وقت اسے صرف اپنے ماں باپ کینچوے نہیں لگے تھے بلکہ سلمان، ربیعہ، زہرہ اور اپنا آپ بھی کیڑے مکوڑوں جیسا ہی لگا تھا۔
پانچ منٹ بعد زہرہ اپنا سامان سمیٹے بے حد بوکھلائی، ہڑبڑائی ہوئی ان ہی بکھرے بالوں اور ملگجے کپڑوں میں حفصہ کو گود میں اٹھائے صحن میں آگئی تھی۔ نعیم اسی رعونیت اور تکبر آمیز انداز میں اٹھ کر ماہا اور مائرہ کا ہاتھ پکڑے پیچھے دیکھے بغیر باہر نکل گیا۔ اس نے زہرہ کا سامان یا حفصہ کو پکڑنے میں اس کی مدد کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔
”جاؤ بیٹا! بہن کو رکشہ تک چھوڑ آؤ۔” ضیاء نے سلمان سے کہا۔
سلمان نے زہرہ کا سامان اٹھا لیا اور وہ اس کے ساتھ صحن کا دروازہ کراس کر گئی۔ زینب اسی طرح صحن کے وسط میں کھڑی دروازے کو دیکھتی رہی جسے اب ضیاء بند کر رہے تھے۔
”کیا ہوا زینی؟” ضیاء نے دروازہ بند کر کے صحن کے وسط میں گم صم کھڑی زینب سے کہا۔
”کچھ نہیں۔” وہ چونک گئی۔ صحن میں اب صرف وہ اور نفیسہ تھے۔
”اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ کہ اس نے نعیم کے دل میں نیکی ڈال دی۔” نفیسہ نعیم کے اس رویے کے باوجود زہرہ کو آکر لے جانے پر اس کی شکر گزار تھیں۔
ضیاء کچھ کہنے کے بجائے تخت پر بیٹھ کر وہ ٹھنڈا سالن چپاتی کے ساتھ کھانے لگے جس کا گھی تک جم چکا تھا۔
”میں اسے گرم کر دیتی ہوں۔”زینی نے آگے بڑھ کر برتن اٹھانے کی کوشش کی۔
”کیوں اسے کیا ہوا؟” ضیا نے بے حد غائب دماغی کے عالم میں چونک کر ٹھنڈے سالن کودیکھا۔
”کھانا ٹھنڈا ہو گیا ہے۔”
”کوئی بات نہیں زینی! بس چند لقمے ہی تو رہ گئے ہیں جاؤ بیٹا! تم اپنا کام کرو۔” ضیا نے ہاتھ کے اشارے سے اسے نرمی سے ٹوک دیا۔
”میں بھی سوچ رہی تھی یہ آکیسے گئے لینے؟” ربیعہ نے تلخی سے برتن دھوتے ہوئے کہا تھا۔
زینب ابھی باورچی خانہ میں داخل ہوئی تھی۔
”شیراز بھائی نے ہی سمجھایا ہو گاانہیں بھی اور پھوپھو کو بھی اور ان لوگوں نے سوچا ہو گا کہ ایک افسر کی بات کیسے ٹالیں۔ افسر کے ساتھ تو بنا کر رکھنی چاہیے۔ زہرہ آپا کو گھر رکھیں گے تو افسر کے ساتھ دوہری رشتہ داری ہو جائے گی۔ بڑی خوش قسمت ہو تم زینی…! روز شکرانے کے نفل پڑھا کرو خاندان میں آ یسی قسمت کسی بھی لڑکی کی نہیں ہے۔ تمہارے ہونے والے میاں کی افسری کی وجہ سے ہم لوگوں کی بھی عزت ہو جائے گی خاندان میں۔ تمہیں کیا ہوا؟”
ربیعہ کو یک دم احساس ہوا کہ زینی نے اس کی کسی بات کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا۔ اس نے گردن موڑ کر باورچی خانے کے ایک کونے میں چوکی پر گم صم بیٹھی زینب کو دیکھا۔
”کچھ نہیں۔” اس نے بے حد مدھم آواز میں کہا۔
”خوش نہیں ہو کہ آپا واپس چلی گئیں۔ آج کمرے میں ہم اپنے اپنے بستر میں آرام سے سوئیں گے۔”
”خوش؟ پتا نہیں۔” زینی اپنا ناخن کاٹ رہی تھی، وہ بے حد الجھی ہوئی نظر آرہی تھی۔
”پریشان کیوں ہو؟” ربیعہ کو تشویش ہوئی۔
زینی کچھ دیر اسی طرح اپنے ناخن کاٹتی رہی پھر اس نے کہا۔ ”انسان کے پاس پیسہ ضرور ہونا چاہیے۔ غربت بہت بڑا عیب ہے۔”
”عیب ہے نہیں، ہم سب نے بنا دیا ہے۔” ربیعہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”جو بھی ہے بہت ذلت ہے غربت۔ بہت زیادہ۔” وہ بے حد الجھی ہوئی تھی۔ ”کوئی بھی منہ اٹھا کر کچھ بھی کہہ دے۔ آپ کیا کہہ سکتے ہیں۔ کیا کر سکتے ہیں۔ پیسہ پاس ہوتو اور کچھ نہیں، آپ کسی کے منہ پر مار کر منہ بند کر سکتے ہیں۔”
”لگتا ہے ۔ شیراز بھائی کے کسی لیکچر کا اثر ہو رہا ہے۔”