من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

شوکت زماں اسے پچھلے پندرہ منٹ سے گالیاں دے رہا تھا۔ پہلے پنجابی پھر اردو، اب انگریزی میں۔ وہ کچن میں مصروف تھا۔ لیکن شوکت زماں کی آواز اس تک بخوبی پہنچ رہی تھی۔ شوکت زماں کے کھانے کا وقت ہو رہا تھا۔ وہ ٹرے میں سوپ کے پیالے رکھنے لگا۔ لاؤنج عبور کر کے کمرے کے کھلے دروازے سے اندر آیا تو وہ اسے فرینچ میں گالیاں دینا شروع کر چکا تھا۔ اس کا مطلب تھا۔ وہ اب جلد ہی چپ ہونے والا تھا۔ اس کی فرنیچ اچھی تھی نہ اس میں اس کی گالیوں کا ذخیرہ الفاظ۔
شوکت زماں اب خاموش ہو کر ہانپ رہا تھا یا ہانپنے کی وجہ سے خاموش ہو گیا تھا۔ اس نے ٹرے صوفے کے پاس پڑی سینٹر ٹیبل پر رکھی اور اس میں سے پہلا پیالہ اٹھا کر بیڈ پر اس کے پاس لے آیا۔
”تو آخر جاتا کیوں نہیں یہاں سے؟ کتے کی طرح میرے گھر کیوں پڑا ہوا ہے تو کیا سمجھتا ہے میں تجھے کچھ دوں گا؟ ایک پینی تک نہیں ملے گی تجھے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ تیرے دل میں کتنا لالچ ہے۔”
گالیوں کے بعد وہ اسی طرح کی گفتگو کرتا تھا۔ اس نے حسب معمول پہلا پیالہ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ شوکت زماں نے ہمیشہ کی طرح پہلا پیالہ اٹھا کر پوری قوت سے فرش پر پھینکا۔ وہ مطمئن ہو کر واپس سینٹر ٹیبل کی طرف مڑ گیا۔
”وصیت لکھوا دی ہے میں نے وکیل کو ہر چیز خیرات میں بانٹ دی ہے میں نے، یہ گھر، میرے گیس اسٹیشن، سپراسٹور، بینک اکاؤنٹ سب کچھ، اس گھر کا فرنیچر تک میں نے اولڈ ہوم کو دے دیا ہے۔ اس کتیا، اس کے بچوں اور تیرے لیے ایک تنکا تک نہیں چھوڑا میں نے تم سب کو بھی تو پتا چلے شوکت زماں کیا چیز ہے کیا کر سکتا ہے۔”
دوسرا پیالہ اٹھاتے ہوئے اس نے شوکت زماں کو اردو میں کہتے سنا اس نے پچھلے جملے پنجابی میں کہے تھے۔




وہ دوسرا پیالہ لے کر اس کے سامنے آگیا۔ اس بار پیالہ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھنے کے بجائے اس نے اس پیالے کو کھڑے کھڑے شوکت زماں کی طرف بڑھایا۔ شوکت زماں نے پیالہ اس کے ہاتھوں سے لے کر پوری قوت سے سوپ اس کے سینے پر اچھال دیا اور پیالہ ایک بار پھر فرش پر پھینک دیا۔ وہ چھنا کے سے ٹوٹا۔ اس نے اپنے سوپ میں لتھڑے کپڑوں پر ایک نظر ڈالی اور مطمئن ہو کر ایک بار پھر سینٹر ٹیبل کی طرف بڑھا۔
”میں تم سب کو برباد کر کے رکھ دوں گا۔ پولیس کو اطلاع کروں گا تمہارے بارے میں جھوٹے مقدمے بنواؤں گا تمہارے خلاف۔ تجھے ڈی پورٹ کروا دوں گا۔ اس ملک سے یا پھر ساری عمر جیل میں گزرے گی تمہاری، تمہارا خاندان ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا، بھیک مانگتے پھریں گے سڑکوں پر۔ تجھے ابھی پتا نہیں شوکت زماں کیا کر سکتا ہے۔”
شوکت زماں اب انگلش میں حلق کے بل چلا رہا تھا۔ وہ تیسرا پیالہ اٹھا کر اس کے پاس چلا آیا، شوکت زماں نے کبھی اسے فرینچ میں نہیں دھمکایا تھا۔ وہ اسے جانتا تھا اسے فرینچ نہیں آتی، وہ فرینچ میں اسے صرف گالیاں دیتا تھا کیونکہ وہاں اپنے چار سالہ قیام کے دوران فرینچ کے جو چند لفظ اس نے سیکھے تھے۔ وہ گالیاں ہی تھیں اور وہ بھی شوکت زمان کی مدد سے۔
وہ تیسرا پیالہ لے کر اس بار شوکت زماں کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔ شوکت زماں نے پوری طاقت سے اس کے چہرے پر تھوکا۔ اس نے دائیں بازو کی شرٹ سے اسے صاف کیا، شوکت زماں نے پوری قوت سے اس کے دائیں گال پر تھپڑ مارا۔ پھر بائیں ہاتھ سے تھپڑا مارا۔ اس نے شوکت زماں کو روکنے کی کوشش کرنے کے بجائے سوپ کے پیالے کو پوری قوت سے پکڑے رکھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا۔ سوپ گر جائے پھر شوکت زماں کیا پیتا۔
پہلا تھپڑ، دوسرا، تیسرا، چوتھا دو دائیں گال پر دو بائیں گال پر پھر داہنے کندھے پر دائیں ہاتھ کا بھر پور مکا پھر بائیں کندھے پر بائیں ہاتھ کا مکا اور اب اس کے سر کے بالوں کی باری تھی۔ شوکت زماں اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے اس کے بال کھینچ رہا تھا اور وہ سوپ کے پیالے کو سنبھالے اس Sequence کو دل میں دہرا رہا تھا جس میں شوکت زماں اس کی پٹائی کر رہا تھا۔
شوکت زماں اب قدرے بے دم ہو کر ہانپ رہا تھا۔ اس نے اطمینان کے ساتھ سوپ کے پیالے سے پہلا چمچہ بھر کر شوکت زماں کے منہ کی طرف بڑھایا۔ شوکت زماں نے منہ کھول کر سوپ پی لیا۔ اس نے دوسرا چمچہ بڑھایا۔ اس نے وہ بھی پی لیا۔ اب اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ رہے تھے۔ وہ جانتا تھا اب شوکت زماں آگے کیا کرنے والا تھا۔ اس نے تیسرا چمچہ اس کے ہونٹوں کی طرف بڑھایا اس نے پیا آنسو اب اس کے گالوں پر بہنے لگے تھے اس نے چوتھا چمچہ بھی پیا وہ اب سسکیاں لینے لگا تھا پانچواں، چھٹا، ساتواں، آٹھواں، نواں چمچہ، دسواں چمچہ اس سوپ کے پیالے کا آخری چمچہ تھا۔
اور شوکت زماں نے اب بیڈ سے اٹھ کر اس کے پاؤں پکڑ لیے تھے۔ وہ بلند آواز میں زار وقطار رو رہا تھا۔
”دیکھ لے میری بات مان لے تجھے اللہ کا واسطہ… تجھے تیری ماں کا واسطہ مجھ پر ترس کھا… رحم کر… دیکھ لے تو جو کہے گا میں کروں گا بس مجھ پر ترس کھا۔”
شوکت زماں اب اس کی ٹانگوں سے چپکا گڑگڑاتا ہوا اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے بے حد رحم بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
اس نے اپنی ساری زندگی میں شوکت زماں سے زیادہ ”شریف، رحم دل، بااخلاق، بامروت، اعلا ظرف، مہذب، شائستہ اور غنی” انسان نہیں دیکھا تھا۔
ایک گہرا سانس لے کر اس نے شوکت زماں کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ شوکت زماں یک دم رونا بھول گیا۔ شاک کے عالم میں کچھ دیر وہ بے حس و حرکت اس کے قدموں میں بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اس کے پیروں سے ہاٹھ ہٹا لیے۔ مزید ایک لفظ بھی کہے بغیر وہ وہیں اس کے قدموں میں کمرے کے فرش پر کسی نوزائیدہ بچے کی طرح گھٹنے اپنے سینے تک سکیڑے کروٹ کے بل یوں فرش پر ڈھے گیا جیسے وہ مر گیا ہو۔
تھوڑی دیر بعد اس نے بیڈ پہ کھڑے ہو کر شوکت زماں کو پھلانگا۔ ابھی اسے کمرے کا فرش صاف کرنا تھا۔ اپنے کپڑے تبدیل کرنے تھے اور رات کے کھانے کے لیے سوپ کے تین پیالے تیار کرنے تھے۔
*****
کرم علی نے زندگی کا پہلا سفر سترہ سال کی عمر میں ایک جعلی شناختی کارڈ اور جعلی پاسپورٹ پر مچھلیاں پکڑنے والے ایک ٹرالر پر کیا تھا۔ وہ اسی کی دہائی کے پہلے چند سالوں میں غیر قانونی طور پر کویت پہنچنے والے پہلے تین لوگوں میں سب سے بڑا تھا۔ اس کے ساتھ دوسرے لڑکوں کی عمریں پندہ سولہ سال تھیں۔ وہ ان تینوں لڑکوں میں سب سے زیادہ صحت مند بھی تھا۔ ان میں سے ایک کو جذام دوسرے کو ٹی بی جبکہ کرم علی کو صرف برص تھا۔ اس کی کمر اور پیٹ پر سفید دھبے تھے۔ لیکن کرم علی جانتا تھا کچھ عرصہ میں وہ پورے جسم پر پھیل جائیں گے۔ اور اس کے بعد کسی عرب ملک کا سفر کرنا اور وہاں پر کام حاصل کرنا بے حد دشوار ہوتا۔ عرب برص کے مریضوں سے نفرت کرتے تھے اور 80کی دہائی میں ایشیائی ممالک میں برص کا مرض بے حد عام تھا۔
وہ اس ٹرالر پر موجود واحد ”لیگل” بندہ تھا۔ باقی کے دونوں لڑکوں کے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں تھے۔ وہ یا یہ جعلی کاغذات تیار کروا سکتے تھے یا کویت کے اس غیر قانونی سفر کے لیے ٹرالر والے کو پیسے دے سکتے تھے۔
ان دونوں لڑکوں کی طرح کرم نے بھی ٹرالر والے کو پانچ ہزار روپے دیے تھے۔ اس میں سے پندرہ سو روپے اس نے پچھلے چار سال میں صبح کے وقت اسکول جانے سے پہلے اخبار بیچ کر، سہ پہر کو پھلوں کی ریڑھی لگا کر، شام کو سگنلز پر پھولوں کے گجرے بیچ کر اور رات کو لفافے جوڑ کر جمع کیے تھے۔ ان پندرہ سو میں کچھ رقم سردیوں میں کوئلہ بیچنے، عیدوں پر غبارے بیچنے، چودہ اگست پر جھنڈیاں، جھنڈے بیچنے اور شب برات پر آتش بازی کا سامان بیچنے سے بھی حاصل ہوئی تھی۔ جمع ہونے والی یہ رقم بہت زیادہ ہوتی اگر کرم تیرہ سال کی عمر سے اپنا گھر خود نہ چلا رہا ہوتا۔ اس کے گھر میں ماں باپ سمیت آٹھ افراد تھے اور بدقسمتی سے وہ ماں باپ اور بہن بھائیوں سب سے ”بڑا” تھا۔ اس کے ماں باپ ذمہ داریوں کو اٹھانے کے اعتبار سے اس سے بعد میں آتے تھے۔
کرم علی کا باپ جہاں داد سال کے بارہ مہینے میں بارہ مختلف کام کرتا تھا اور کسی ایک کام سے بھی اسے اتنی آمدنی نہیں ہوتی تھی جسے وہ ”پان سگریٹ” کی اپنی ذاتی ضروریات پوری کرنے کے بعد گھر میں دیتا اور گھر کے اخراجات پورے ہوتے۔
شادی کے چودہ سالوں میں صرف شادی کا پہلا سال تھا جب جہاں داد باقاعدگی سے اپنی بیوی کو خرچا دیتا رہا اس کے بعد کرم علی پیدا ہو گیا اور جہاں داد بیٹے کی پیدائش کے بعد شادی کے دوسرے ہی سال جیسے ہر ذمہ داری سے آزاد ہو گیا۔ گھر میں اب اگلی نسل آگئی تھی یعنی دوسرا مرد۔
اگلے تین سال اخراجات کی ذمہ داری جہاں داد کا باپ اٹھاتا رہا۔ کیونکہ جہاں داد کی بیوی اس کی بھتیجی تھی اور اسی کے اصرار پر اس کے بھائی نے اپنی بیٹی کی شادی جہاں داد کو بے حد ناپسند کرنے کے باوجود بھی کر دی تھی۔ ان دو سالوں میں جہاں داد کے ہاں دو بیٹیوں کا اضافہ ہوا اور اس کا دل بیوی اور گھر سے مزید اچاٹ ہو گیا۔ اس کے کسی بھائی کے ہاں دو بیٹیاں نہیں تھیں اگر کسی کی دوسری بیٹی ہوئی تھی تو پیدائش کے کچھ عرصہ کے بعد مر گئی اور اب اس کے ہاں دو بیٹیاں ہو گئی تھیں۔ وہ جتنا دکھی ہوتا کم تھا۔ کرم علی پر اب دو بہنوں کی ذمہ داری بھی آگئی تھی۔ کیونکہ جہاں داد کے خاندان میں بہنوں کو ہمیشہ بڑا بھائی ہی بیاہتا تھا۔
اگلے چار سال گھر کے اخراجات جہاں داد کے باپ کی موت کے بعد اس کے بڑے دونوں بھائیوں نے اٹھائے تھے کیونکہ وہ سب ایک ہی گھر میں اکٹھے رہتے تھے۔ کھانا پینا بھی مشترکہ تھا اور جہاں داد کو لعنت ملامت کرنے کے باوجود اس کے بھائی اس کی بیوی اور بچوں کو ہر ماہ تھوڑی بہت رقم دیتے رہے۔ کرم علی کو اسی زمانے میں اس کے تایا کے بچوں کے ساتھ ایک سرکاری اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغا ز ہو چکا تھا۔ جہاں داد کے ایک بڑے بھائی کے کمرے میں بھی ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی آگیا تھا جس نے گھر کی دوسری عورتوں اوربچوں کی طرح جہاں داد کی بیوی کو بھی خواب دکھانے شروع کر دیے تھے۔ پینٹ کوٹ میں ملبوس سگار پیتا، فرفرانگریزی بولتا لمبی گاڑی سے اترنے والا اور ایک بڑے سے گھر میں رہنے والا اونچا لمبا خوب صورت، پڑھا لکھا مرد۔




Loading

Read Previous

محمدۖہمارے

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!