ایک دن میں اور مصطفی اسٹور میں تھے کہ اس کی ایک ہمسائی کا فون آیا کہ مصطفی کی امی بلڈنگ کی سیڑھیوں سے گر گئی ہیں۔ ہم دونوں فوراً اس کے گھر گئے۔ بلڈنگ میں مصطفی کے ایک انکل بھی رہتے تھے جو اس کے ابو کے دیرینہ دوست بھی تھے۔ ہمیں پتا چلا کہ وہ اپنی گاڑی میں امی کو ہاسپٹل لے گئے ہیں۔ مصطفی اس بات پر حیران ہوا کیوں کہ اس کی امی سہیل انکل سے اسے سلام بھی نہیں کرنے دیتی تھیں۔ ہم دونوں ہاسپٹل پہنچے تو ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ بے ہوش ہیں اور ان کے دماغ پر گہری چوٹ آئی ہے کی وجہ سے ان کا آپریشن کرنا ہو گا۔ مصطفی کے تو جیسے ہوش ہی اڑ گئے۔ ایک اپنی امی کی تکلیف کا خیال اور دوسرا یہ کہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کیسے کرے۔ میں نے اسے تسلی دی کہ میرے پاس میری امی کے زیورات ہیں ہم انہیں بیچ دیتے ہیں۔ ابھی ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ انکل سہیل جو کہ قریب کھڑے ہماری باتیں سُن رہے تھے۔ انہوں نے مصطفی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ”بیٹا فکر نہ کرو پیسے میں دے دوں گا۔” مصطفی نے تشکر بھری نظروں سے سہیل انکل کی طرف دیکھا۔
اگلا پورا دن بلڈ کے انتظام اور ڈاکٹروں کے ساتھ میٹنگ میں ہی گزر گیا۔ مصطفی ہاسپٹل سے ملحقہ مسجد میں جا کر بار بار نوافل ادا کرتا اور بہت روتا۔
اگلے دن شام چار بجے آپریشن تھا۔ اس رات میں مصطفی کے ساتھ ہی تھی۔ رات کو دس بجے کے قریب پتا چلا کہ آپریشن کام یاب نہیں ہوا۔ ہم دونوں ہی بہت پریشان تھے۔ کچھ دیر پہلے سہیل انکل بھی وہاں آگئے۔ مصطفی اس رات بہت رویا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ان کا ایک اور آپریشن کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب رقم درکار تھی۔ ہم دونوں تو وہ تھے کہ جن کے پاس مہینے کے آخر میں سو دو سو روپے بھی مشکل سے بچتے۔ لاکھوں کا انتظام… اور وہ بھی اتنا جلد۔
خیر پھر مصطفی کے کہنے سے پہلے ہی سہیل انکل نے خود ہی رقم دینے کی حامی بھر لی، مگر افسوس ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ مصطفی کی امی دوسری بار آپریشن کے بعد رات کو دو بجے کے قریب فوت ہو گئیں۔ بلاشبہ مصطفی کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا، مگر اس سے بھی بڑا صدمہ اُسے اور مجھے تب ہوا جب سہیل انکل اگلے ہی ہفتے اس کے گھر اپنے پیسوں کا مطالبہ کرنے آگئے۔ مصطفی نے کچھ مہلت مانگی تو انہوں نے کہا تمہارے باپ کی وجہ سے میں تین سال جیل کاٹ کر آیا تھا۔ دفتر میں سارے لوگ ہی رشوت لیتے تھے لیکن تمہارے باپ پر بس ایمان داری کا بھوت سوار رہتا تھا اس نے میری شکایت کر دی۔میں اس کو کبھی معاف نہیں کروں گا، بڑی مشکل سے تم میرے ہاتھ آئے ہو۔
مصطفی نے مجھے فون کیا۔ پھر میں نے بھی ان کی منت سماجت کی، مگر وہ نہیں مانے۔ انہوں نے کہا پندرہ دن کے بعد میں پولیس کے ساتھ آئوں گا۔ بے شک وہ دن بہت مشکل تھے۔ مصطفی کو تسلی دینے کے لیے بھی میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔
ہمارے اسٹور کے مالک کو ایک ماہ کے لیے چائنا جانا پڑا۔ ملیحہ جو کہ ان کی اکلوتی بیٹی تھی، اس نے اپنے والد کی غیرموجود گی میں سٹور آنا شروع کر دیا۔ وہ زیادہ تر مصطفی کے ساتھ اکائونٹس کا کام دیکھتی۔ ایک دن وہ دونوں کام کر رہے تھے کہ میں نے مصطفی کو عام سا میسج کیا جو کہ اکثر ہم کام کے دوران کرتے ہی رہتے تھے۔ ملیحہ نے یہ بات جب ایک دوبار نوٹ کی تو اس نے مصطفی سے میرے متعلق پوچھا کہ تم دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ جس پر مصطفی نے اسے بتایا کہ ہم دوست ہیں۔ پھر پتا نہیں کیوں ملیحہ کو جیسے مجھ سے چِڑ سی ہو گئی۔ وہ مصطفی کے زیادہ قریب ہونے کی کوشش کرنے لگی۔ سارہ جو کہ مجھ سے پہلے سے وہاں کام کر رہی تھی اس نے بتایا کہ ملیحہ کو طلاق ہو چکی ہے۔ آج سے تقریباً دس سال پہلے اس کی شادی ہوئی تھی تو اس کا خاوند کسی اور لڑکی کو پسند کرتا تھا۔ اس نے ایک سال کے اندر ہی اس کو طلاق دے دی۔ اس کا ایک بیٹا بھی ہے۔ مجھے سمجھ آگئی کہ وہ اب کسی کو بھی محبت کرتا نہیں دیکھ سکتی۔
اکثر ذاتی کاموں کے لیے بھی مصطفی سے ہی کہتی کہ میرے بیٹے کو اسکول سے پک کر آئو یا مجھے ڈراپ کر آئو۔ وہ بچہ بھی مصطفی کے قریب ہونے لگا۔ یہ سب کچھ میری برداشت سے باہر تھا۔ اب میں اکثر مصطفی سے ناراض رہتی۔ مجھے یہ اعتراض تھا کہ تم اس کو یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں عائزہ سے شادی کرنے والا ہوں۔مصطفی مجھے سمجھاتا کہ اس کی ضرورت نہیں، یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ جب مجھے وہ یہ کہتا کہ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا میرے سامنے کوئی حور بھی آجائے تو وہ تمہاری جگہ نہیں لے سکتی، مرتے دم تک میں تمہارا ہوں، تو مجھے وقتی طور پر تسلی ہو جاتی مگر پھر بھی مصطفی کو کھو دینے کے ڈر سے میں خوف زدہ رہتی۔
پھر وہی ہو ا جس کا مجھے ڈر تھا۔ ایک دن مصطفی نے بتایا کہ آج میں نے ویسے ہی باتوں باتوں میں سہیل انکل کے بارے میں ملیحہ میڈم کو بتایا، تو انہوں نے کہا مصطفی تم اکیلے ہو میں تمہاری ہر طرح سے مدد کرنے کو تیار ہوں تم میرے ساتھ شادی کر لو۔ ابھی مصطفی نے یہ کہا ہی تھا کہ میرے تو جیسے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
”تم نے اسے میرے بارے میں بتایا جو نہیں تھا اس لیے تو وہ سمجھی ہے کہ تم اکیلے ہو اور مجھے لگتا ہے تم بھی یہی چاہتے ہو۔” میں نے بھڑکتے ہوئے اسے کہا۔
”عائزہ تم میری روح کا حصّہ بن چکی ہو تم کوئی چیز نہیں ہو۔” مصطفی میری بات سن کر حیرانی سے بولا۔ اس کے لہجے کی سچائی کے آگے میں کچھ بھی نہ کہہ سکی بس مُسکرا کر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
”مگر ہم سہیل انکل کی رقم کیسے واپس کریں گے؟” پھر کچھ سوچ کر بولی۔ میں نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا اور پھر وہی آفر دہرائی۔ ”میں امی کی جیولری سیل کر دیتی ہوں اس سے ڈیڑھ دو لاکھ تو مل ہی جائیں گے۔ پھر آگے مہلت لے لیں گے، بس تم فکر نہ کرو۔” میں نے اسے مسئلے کا حل نکالتے ہوئے تسلی دی۔
”کیسے فکر نہ کروں؟ وہ کہتا ہے کہ ایک روپیہ بھی کم نہیں ہونا چاہیے ورنہ پولیس کے حوالے کر دوں گا۔” وہ بے بسی سے بولا۔وہ رات تو جیسے میری آنکھوں ہی میں گزر گئی۔ ایک طرف ملیحہ کا مسئلہ تھا، ان حالات میں اگر مصطفی شادی سے انکار کر دیتا، توو ہ ہم دونوں کو ہی نوکری سے نکال دے گی۔
اگلے دن میں نے مصطفی سے کہا کہ تم ملیحہ سے یہ رقم لے لو اور شادی کے لیے اس کو کچھ عرصہ ٹالتے رہو ہم اپنی تنخواہ سے یہ رقم کٹواتے رہیں گے۔
”پاگل ہو تم؟ جتنی ہماری تنخواہ ہے ہمارے بچے بھی اس کی قسط دیتے رہیں گے تو یہ رقم پوری نہ ہو گی۔” یہ سن کر وہ تقریباً چیختے ہوئے بولا۔ ہم بس سے اتر کر اسٹور کی طرف جا رہے تھے۔
”مصطفی تم ابھی اُسے انکار نہ کرنا ہم دوسری جاب ڈھونڈ لیں پھر انکار کر دینا۔” میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”جو حکم۔” مصطفی نے بڑے پیار سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
مصطفی کی محبت میرا غرور تھی۔
”آج شام کو میرے بیٹے کی برتھ ڈے پارٹی ہے گھر پر، مصطفی آج تم میرے ساتھ گھر جا سکتے ہو۔” ملیحہ نے ہمارے ڈیپارٹمنٹل سٹور پہنچتے ہی پوچھا۔
”ٹھیک ہے میڈم اگر آپ برُا نہ منائیں تو میں عائزہ کو بھی ساتھ لے لوں۔”
ملیحہ عمر میں مصطفی سے کافی بڑی تھی مگر پیسے نے اپنے الگ ہی رنگ اس کے چہرے پر بکھیرے ہوئے تھے۔
”نہیں پھر یہاں لوگ کم ہو جائیں گے۔ عائزہ کو رہنے دو” ملیحہ نے خفگی سے مصطفی کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے مجھے اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلایا۔ ملیحہ سائے کی طرح اس وقت اس کے ساتھ تھی کہ وہ میرے ساتھ کوئی بات نہ کر لے۔ میں خاموشی سے اپنا کام کرنے لگی۔ وہ دن بھی میرے لیے بہت مشکل تھا۔ میں نے مصطفی کو کوئی میسج بھی نہیں کیا اور نہ ہی اس نے کیا۔