مدیر سے پوچھیں
پرویز بلگرامی
٭ اپنی کہانی کے بارے میں بتائیں، آپ اس فیلڈ میں کب سے ہیں؟ کیسے آنا ہوا اس فیلڈ میں؟
پرویز بلگرامی: جہاں تک لکھنے کا سوال ہے تو کم عمری سے لکھنا شروع کر دیا تھا لیکن چھپنے کی ابتدا روزنامہ جنگ کے نونہال لیگ یعنی بچوں کے صفحہ سے ہوئی پھرماہنامہ چاند میں لکھا.لیکن جب پروفشنلی لکھنے کا آغاز کیا تو ڈائجسٹوں کے دفاتر میں آنا جانا بڑھ گیا۔اسی دوران میں شمیم نوید صاحب سے قربت بڑھی اور ان کے مشورے پر سچی کہانیاں جوائن کر لیا۔اس وقت وہ اس پرچے کے مدیر تھے ۔لیکن کچھ ہی عرصہ بعد میں نے سچی کہانیاں چھوڑ دیااور پھر سے فری لانسنگ کرنے لگا۔شمیم نوید کے بعد سلیم فاروقی صاحب سچی کہانیاں کے مدیر بنے تو میں دوبارہ سے سچی کہانیاں میں آگیا۔اس وقت سچی کہانیاں ۔دوشیزہ کی ٹیم میں تمام لوگ کو آپریٹیو تھے۔سیما غزل تھیں۔مصطفیٰ ہاشمی تھے۔دانش دیروی تھے ۔سلیم آزر تھے۔ثمینہ یاسمین تھیں۔خوب وقت گزرا۔1994میں سلیم فاروقی سچی کہانیاں چھوڑ گئے تو میں نے ادارت سنبھال لی۔تب سے 2008 تک سچی کہانیاں کو سجاتا سنوارتا رہا پھر جاسوسی ڈائجسٹ پبلیکشن کے ماہ نامہ سرگزشت میں آگیا۔تب سے یہیں ہوں۔
٭ ایک مہینے میں آپ کو اوسطاً کتنے مسودے موصول ہوتے ہیں؟ اور آپ کا تحریروں کی چناؤ کا کیا معیار ہوتاہے؟
پرویز بلگرامی : سچی کہانیاں میں نئے مصنفین کو اولیت دی جاتی تھی۔وہاں کام کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔نئے مصنفین کا آئیڈیا لے کر ہم لوگ کہانیاں لکھ دیتے تھے اور اسے شائع کیا جاتا اسی مصنف کے نام سے جس کی وجہ سے پرچے کی خریداری بھی بڑھتی اور نئے لکھنے والے کو حوصلہ بھی ملتا۔وہاں جو لوگ لکھتے تھے ان سے باضابطہ خط و کتابت کیا کرتا تھا۔انہیں ان کی کہانیوں کی خامیاں بتاتا۔لکھنے کا انداز سمجھاتا یہی وجہ ہے کہ سچی کہانیاں سے شروعات کرنے والوں میں سے کچھ اب نامور بن چکے ہیں۔اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔لیکن سرگزشت ذرا تیڑھا پرچہ ہے۔اس میں لکھنے کے لیے مصنف کا مطالعہ وسیع ہونا ضروری ہے کیونکہ سرگزشت انفورمیٹیو میگزین ہے۔لیکن اس کا ایک حصہ ایسا ہے جس میں نئے مصنف لکھ سکتے ہیں۔جن کی کہانیاں آتی ہیں اور اس میں کوئی ہلکی پھلکی خامی نظر آتی ہے تو مصنف کو اطلاع دے دیتا ہوں کہ اپنی کہانی کو اپنے مسودے سے ملا کر دیکھیں کہ کون کون سی تبدیلی ہوئی ہے پھر بلا جھجک پوچھ لیں کہ وہ تبدیلی کیوں کی ہے۔جو لوگ فون کرتے ہیں ان کو جواب دیتا بھی ہوں اور کہانیوں کے سلسلے میں مشورے بھی دیتا ہوں۔در اصل یہ طریقہ شمیم نوید کا تھا اور پھر سلیم فاروقی نے اختیار کیا ۔ اپنے دو سینئر کو جس راہ پر چلتے دیکھا اسی راستے پر میں بھی چلنے لگا۔یہی وجہ ہے کہ نئے مصنفین مجھ سے بہت زیادہ قریب ہیں۔میں پابندی سے ہر نئے لکھنے والے کو تاکید کرتا رہتا ہوں کہ وہ جملوں کی بندش پر خصوصی توجہ دیں۔جس طرح دریا کی لہریں اٹھتی ہیں اسی طرح جملوں میں روانی رہنا چاہیے تا کہ پڑھنے والے کو لطف آئے۔پھر کہانی کو آگے بڑھانے کا صحیح انداز اپنائیں ۔معروف مصنفین کی تحریر کو بہ نظر غور دیکھیں کہ وہ کہانی کو کس طرح آگے بڑھا رہے ہیں۔وہی انداز اپنائیں ۔خاص کر تجسس پیدا کرنے کی ضرور کوشش کریں تا کہ قاری اگلا صفحہ ضرور پڑھے۔جملوں کی ساخت آسان رکھیں تا کہ ایک کم پڑھا لکھا بھی بہ آسانی سمجھ لے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔کہانی آہستہ آہستہ اٹھائیں اور پرت پرت کھولیں۔نہ زیادہ سست رکھیں اور نہ بہت تیز بھگائیں۔کہانی کو آگے بڑھانے کی رفتار پر مکمل کنٹرول رکھیں۔اختتام ایسا ہو کہ قاری چونک جائے لیکن غیر فطرتی نہ لگے۔
٭ہ کون سی چند چیزیں ہیں جن کا خیال ایک نئے لکھنے والے کو اپنا کام آپ کو بھیجتے ہوئے رکھنا چاہیے؟
پرویز بلگرامی :مصنفین کو کہانی بھیجنے کے پہلے کم سے کم تین بار ضرور پڑھنا چاہیے۔اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کہانی لکھ کر ایک طرف رکھ دیں پھر دوسری کہانی شروع کر دیں۔اسے مکمل کر کے الگ رکھ دیں اور تیسری کہانی شروع کر دیں۔اسے مکمل کر کے پہلی کہانی کو پڑھیں۔اس طرح اس کہانی کی خامیاں سامنے آتی جائیں گی۔اسے ایڈیٹ کر کے الگ رکھ دیں اور دوسری کو پڑھیں۔اس کی خامی درست کر کے تیسری کو نکال لیں۔اسے درست کرنے کے بعد پھر پہلی کہانی کو پڑھیں۔اگر ایک کہانی کو آپ نے تین بار پڑھ کر درست کر لیا تو یقینا وہ کہانی خامیوں سے بہت حد تک مبرا ہو جائے گی۔ہر نئے مصنف کو ابتدا میں اس طریقہ کو ضرور اپنا نا چاہیے۔لیکن لکھنے والے کو زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہیے۔اگر وہ دن بھر میں اس کام کو دس گھنٹے دیتا ہے تو اسے لکھنے کے لیے صرف دوگھنٹے صرف کرنا چاہیے۔اس سے اسے لکھنے کے لیے مواد بھی ملے گا اور جملوں کو برتنے کا صحیح انداز بھی علم میں آتا جائے گا۔
٭بطور مدیر کیا آپ ایسے موضوعات پر کام کرتے ہیں جو risky ہوں؟
پرویز بلگرامی : ادارتی کام ہوتا ہی رسکی ہے۔ذرا سی نظر چوکی اور غلط مواد چھپ گیا۔خود میرے ساتھ ایک بار ہو چکا ہے۔لکھنے والا خاصہ تجربے کار۔منجھا ہوا لکھاری۔ایک ایسا مضمون لکھ گیا جس پر محکمے حرکت میں آگئے۔بعد میں اس مضمون کو پڑھا تو سر پیٹ لیا اس لیے کہ اس میں کئی ایسی باتیں تھیں جو پرنٹ نہیں ہونا چاہیے تھا۔مصنف سے سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ یہ معلومات نیٹ سے لیا ہے۔نیٹ پر سچ کے علاوہ جھوٹ بھی بھرا پڑا ہے۔سچ اور جھوٹ کی اگر مدیر کو پرکھ نہ ہو تو ایسی باتیںہوجانا تعجب خیز نہیں۔ویسے نئے تجربے کے لیے رسک لینا ضروری ہے۔جس مدیر کے اندر نیا کچھ کرنے کی امنگ نہ ہو اس کا پرچہ لکیر کا فقیر ہوتا ہے۔
٭ نئے موضوعات پر کام کرنے کے لیے زیادہ موزوں کون ہوتا ہے؟ نئے رائٹرز یا پرانے رائٹرز؟
پرویز بلگرامی: پرانے لکھاری نسبتاً بہتر انداز میں نئے موضوع کو برت سکتے ہیں۔نئے لکھاری کے جملوں بے ساختگی نہیں ہوتی۔بے ساختگی تجربے سے آتی ہے۔پرانے لکھاری الفاظ کا صحیح استعمال کرتے ہیں۔مثلاً نیا لکھاری لکھے گا” چچا جان کی شیو بڑھ آئی تھی۔”جب کے پرانا لکھاری لکھے گا”شیو نہ کرنے کی وجہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ چچا جان کے گالوں پر چیونٹیوں کے انڈے سینکڑوں کی تعداد میں بکھرے ہوئے ہیں۔” اس سے سطر بھی بڑھی اور پڑھنے والے کو جملے کے بڑے ہونے کا اندازہ بھی نہیں ہوا۔
٭نئے لکھنے والوں میں آپ کی رائے میں کون ہے جو اچھا کام کررہا ہے؟
پرویز بلگرامی: ڈائجسٹوں میں جن کی تحریریں چھپ رہی ہیں ان نئے مصنفیں میں ناصر ملک ۔ندیم اقبال۔محمد فاروق انجم۔ڈاکٹرعبدالرب بھٹی کے علاوہ بھی چار پانچ مصنف بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔
٭ دنیا بھر کے لکھنے والوں میں آپ کا پسندیدہ رائٹر کون ہے؟
پرویز بلگرامی :دنیا بھر کے رائٹرز میں کسی ایک یا دو کا نام لینا میرے خیال سے صحیح نہیں ہے۔اس لیے کہ ہر رائٹر کا ایک دو کام ہی ایسا ہوتا ہے جو اس کی پہچان بن جاتا ہے۔اگر پسندیدگی کی نظر سے دیکھوں تو مجھے جاپانی مصنف جیرو اکاگاوا کے جتنے ترجمے پڑھے ہیں سب پسند آئے ہیں۔زبردست مسٹری ۔اسی طرح بنگلہ کے نہار رنجن گپت۔امریکا کے اسٹیفن کنگ پسند آئے ہیں۔لیکن جب ہم اردو کی طرف آتے ہیں تو ابن صفی پر سوئی رک جاتی ہے۔لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ مجھے آگ کا دریا یا علی پور کا ایلی پسند نہیں آیا۔در اصل ہر ایک کی پسند ایک خاص نکتے کے گرد گردش کرتی ہے۔ورنہ تو اردو میں جتنے اچھے ناول لکھے گئے ہیں اس کی مثال مشکل ہے کیونکہ عالمی زبانوں میں سب سے نئی زبان اردو ہی ہے۔چائنیز جاپانی فرنچ جرمن انگلش کے مقابلے میں اردو کی عمر بہت کم ہے لیکن فیکشن رائٹنگ میں اردو کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہے ۔
٭ آپ کی پسندیدہ صنف کون سی ہے؟
پرویز بلگرامی: کہانیوں کی ہر صنف پڑھنے میں اچھی لگتی ہے جہاں تک لکھنے کا تعلق ہے تو میں نے ہر قسم کی کہانیاں لکھی ہیں۔رومانی۔خوفناک۔تھرل سسپنس لیکن جہاں تک ڈوب کر لکھنے کا تعلق ہے مجھے ہارر لکھنے میں زیادہ مزہ آتا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ تھریل زیادہ لکھا ہے۔لیکن جب چھاپنے کی بات آتی ہے تو میں معاشرتی مسائل کی کہانیاں پرچے میں شامل کرنے پر زور دیتا ہوں۔کیونکہ عام قاری اپنے مسائل کو پڑھنا پسند کرتا ہے۔بشرطیکہ لکھنے والا پیش کرنے کا فن جانتا ہو۔
٭ کہانی کی کون سی ایسی صنف ہے جو آپ کو غیر دلچسپ لگتی ہے؟
پرویز بلگرامی : مجھے ایسی کہانیاں بالکل پسند نہیں جن میں انسانی نفسیات کے نام پر جنس زبردستی ڈالی جائے یا اوچھے جملے لکھ کر قاری کو بھٹکانے کی کوشش کی جائے۔منٹو کے پاس الفاظ کا ذخیرہ تھا۔وہ کہانی کو الفاظ سے ملفوف کر کے پیش کرتے تھے لیکن تسکینی انداز میں نہیں بلکہ نشتر بنا کریہی وجہ ہے کہ میں جنس زدہ کہانیوں کو فوراً رد کر دیتا ہوں۔
٭ آپ نے اب تک ماشااللہ بہت کام کیا ہے، کوئی ایسا پراجیکٹ جو آپ کے دل کے بہت قریب ہو؟
پرویز بلگرامی : مجھے اپنے دو ناول کا پلاٹ بہت پسند ہے ”جرمِ مسلماں” اور ” دوسرا جنم”لیکن یہ بھی خود سے شکواہ ہے کہ میں جس انداز میں وہ دونوں ناول لکھنا چاہتا تھالکھ نہیں پایا کیونکہ جس ڈائجسٹ میں وہ کہانی قسط وار چھپ رہی تھی اس کے ریڈر میں جیسا چاہتا تھا اس انداز میں اسے پسند نہیں کرتے۔مجبورا پرچے کے قارئین کو ذہن میں رکھ کر لکھنا پڑا۔اپنے دل کی اس چبھن کو مٹانے کے لیے میں ان دونوں ناول کو دوبارہ لکھوں گا۔ایک اور طویل کہانی” میری منزل میرا رستہ”اور سرگزشت کے ١٩٩١ کے کسی شمارے میں بعنوان ”ایک کہانی”کا پلاٹ مجھے