عینل کے شب وروز اسی کشمکش میں گزر رہے تھے کہ عماد کی خاموشی سے وہ کیا معنی اخذ کرے۔ باتیں تو پہلے بھی نہیں ہوتی تھیں مگر اب جو خاموشی تھی وہ بڑی معنی خیز تھی۔ ثنا سے بھی نہیں پوچھ سکتی تھی۔ ہوسکتا ہے عماد نے کچھ بتایا ہی نہ ہو اسے تو جتنے لوگ اس واقعے سے انجان رہتے ہی اتنا بہتر تھا۔
رمضان کی مبارک ساعتوں میں ہر گھڑی رب سے یہی دعا کی کہ اے اللہ! عماد کے دل میں کوئی شک پیدا نہ ہو اور آج چاند رات کو جب سب عید کی تیاریوں میں مصروف تھے تو وہ اپنی سوچوں میں گم اداس سی بیٹھی پچھلی تلخیوں کو سوچ رہی تھیں۔ حالاں کہ غم زدہ تکلیف دہ کل گزر گیا، اسے سوچ کر آج غم زدہ ہونے سے کیا فائدہ؟ مگر اس کے اس تلخ ماضی میں آج کا درد بھی موجود تھا۔ کیا سلمان کی طرح عماد بھی مجھے چھوڑ دیں گے؟ اس کی عماد سے دلی وابستگی تو نہ تھی، پر وہ گھٹیا الزام جو اس کے کردار سے منسلک کیا جاتا، اس کی تکلیف وہ خود سہنے کے لئے تیار تھی پر اس سے ماما پاپا کو جو اذیت پہنچتی، اس کا ازالہ کیسے ہوتا؟
“ہائے! کیسی ہو؟” سے آگے بات جہاں تک جاتی ہے اس کا اندازہ تھا اسے۔
“اور کیا ہورہا ہے؟” “پڑھائی کیسی جارہی ہے؟” وہ اس سے آگے سلمان کو بڑھنے ہی نہ دیتی۔ اس کے والدین تنگ ذہنیت کے مالک نہیں تھے، جانتے تھے آج کل کے حالات کو سو ان کی طرف سے کوئی پابندی نہیں تھی۔ مگر وہ اپنے ان نظریات کا کیا کرتی جو اردگرد سے، دوستوں کے قصہ کہانیوں اور کچھ ناولز پڑھ کر اس کے ذہن میں پختہ ہوگئے تھے، کہ منگنی ہونے سے پہلے ہی وہ عہد کرچکی تھی کہ اپنے منگیتر سے رابطہ نہیں رکھے گی۔ ایک تو وہ نامحرم ہی ہوتا ہے۔ دوسرا منگنی کے بعد ہی اگر سب ڈسکس کرلیا جائے تو بعد کے لیے کیا رہ جائے گا؟ وہ ہر چیز کو اپنے وقت پر انجوائے کرنے کی قائل تھی۔
٭…٭…٭
مگر وہ جانتی نہیں تھی اس کا یہ عہد منگنی کے پہلے روز ہی ٹوٹ جائے گا۔ پہلی رات جب اس کا میسج آیا، عینل نے سوچا یہ صرف ایک دن کی بات ہے، صرف مبارک باد ہی تو دی ہے، پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا۔ شروع شروع میں وہ ”ہوں ہاں” میں جواب دے دیتی۔ صاف کہتے اسے ایک جھجھک ہوتی کہ “اگر وہ برا مان گیا تو؟” دل بھی راضی نہیں تھا کہ اس سے بات کی جائے۔ اسی لئے ایک دن جب اس نے بے رخی کی شکایت کی تو اس نے اپنا نظریہ بیان کردیا۔
“یار کون سا ناول پڑھا ہے تم نے اب؟” اس کا دل بری طرح سے دکھا تھا۔ اور پھر فوراً ہی دوسرا میسج آیا۔
“یہ اکیسویں صدی ہے تم اب تک دقیانوسی دور کے خیالات رکھتی ہو۔”
“بس یہی میرے خیالات ہیں۔”
“اپنی سوچ کو بدلو یار، نیا دور ہے اب کوئی ایسا نہیں سوچتا انجوائے کرو ان لمحات کو۔”
دن گزرتے گئے۔ روز مسئلہ یہی ہوتا، بس مکالمہ اور الفاظ نئے ہوتے تھے۔ اب وہ بھی بیزاری محسوس کرنے لگی تھی، بے تکی گفتگو سے۔ اس بات سے انجان کے وہاں سلمان اس کے رویوں سے کچھ اور ہی اندازے لگا رہا ہے اور آخر ایک دن اس نے اپنے سوچوں کو الفاظ کا رنگ دے دیا۔
“تم کسی اور کو پسند کرتی ہو تو صاف کہہ دو تمہارا گریز تو یہی بتاتا ہے۔”
پھر اپنے دوستوں کی مثالیں دینے لگا کہ ان کی منگیتر ہر وقت کانٹیکٹ میں رہتی ہیں، ملنے بھی آتی ہیں جب کہ تمہیں بات کرنے میں بھی مسئلہ ہے۔
“وہ لاکھ صفائیاں دیتی، مگر انسان کے دل میں ایک بار شک کے جالے بن جائیں تو پھر ان کی صفائی ممکن نہیں رہتی۔
“مسلسل بے رخی سے یہ تعلق ٹوٹ جائے گا تمہیں پہلے بتایا تھا کہ نظر انداز مت کرنا”
پھر ایک دن سلمان کا یہ میسج آیا اور ان کے گھر والوں کی طرف سے رشتہ ختم کردیا گیا۔ اس دن وہ بہت روئی تھی۔ تکلیف اپنے کردار پر انگلی اٹھانے کی تھی مگر اس سے ذیادہ تکلیف اپنے ماں باپ کے لئے تھی کہ ان کی تربیت پر انگلی اٹھائی گئی تھی حالاں کہ اس کے ماما پاپا کو اس پر پورا اعتبار تھا۔ پر بیٹیوں کے لئے کوئی برے الفاظ کہے تو دل کو ٹھیس تو لگتی ہے اور گزرے دنوں کے اس درد کو ابھی بھی اس کی آنکھیں آنسوؤں کے راستے باہر نکال رہی تھی۔
“یہاں آنسو کس خوشی میں بہائے جارہے ہیں؟ ابھی رخصت تھوڑی کررہے ہیں تمہیں۔ ابھی تو صرف ملنے آئے ہیں تمہارے سسرال والے، شاید تمہاری عیدی دینے۔ “زینی کی اس بات نے اسے ماضی سے حال میں پہنچایا اور ساتھ ہی عماد کے گھر والوں کی آمد کی اطلاع بھی دی۔
“چلو کن سوچوں میں گم ہو؟ بلا رہے ہیں تمہیں۔”
“میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، جاکر کہہ دو میں سو رہی ہوں۔” عینل نے فوراً چادر تان لی۔
” یہ کوئی وقت ہے سونے کا؟” زینی بحث کے موڈ میں تھی۔
“تم سے جو کہا ہے صرف وہ کرو۔” چادر سے آواز برآمد ہوئی۔
“او ہو! ابھی سے مزاج نہیں مل رہے محترمہ کے تو۔” زینی کی ذومعنی بات اس کے سر سے گزر گئی پر وہ نظر انداز کرکے سوتی بن گئی۔
٭…٭…٭
مسلسل بجتی فون کی بیل سے اس کی آنکھ کھلی، اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو “عماد کالنگ” لکھا آرہا تھا۔ اسے لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ اچھی طرح آنکھیں مل کر پھر دیکھا، فون بج بج کر خاموش ہوچکا تھا۔ ابھی افسوس بھی نہیں کر پائی تھی کہ پھر بیل بجنے لگی۔ اب کی بار اس نے دیر نہیں کی، فوراً بٹن دبا کر موبائل کان سے لگا لیا۔
“السلام علیکم” جلدبازی میں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ تھوڑی دیر پہلے تک کتنی بد گمان تھی ۔
“وعلیکم اسلام، کیسی طبیعت ہے اب آپ کی؟ امی بتا رہی تھیں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔”
“جی اب ٹھیک ہے۔” عینل کی آواز اب قدرے دھیمی تھی، حواس لوٹنے کے ساتھ پرانے خیالات بھی لوٹ رہے تھے۔
“عینل مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے، آپ کو معلوم ہے آج امی کیوں آئی تھیں؟”
عینل نے صرف “نہیں” کہنے پر اکتفا کیا۔
“پہلے میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں، ثنا کی دوست ہونے کے حوالے سے آپ کا ذکر بہت ہوتا تھا گھر میں، آپ اس کے لئے آئیڈیل تھیں کہ کسی پابندی کے نہ ہونے کے باوجود آپ اپنے منگیتر سے بات نہیں کرتیں مجھے بھی حیرت ہوتی تھی۔ خیر جیسے بھی حالات ہوئے اور ہم ایک رشتے میں بندھ گئے۔ اس میں میری مکمل رضامندی شامل تھی “عینل کا دل ”تھی” میں اٹک گیا۔
“پر کبھی خدشہ ہوتا تھا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ آج کے دور میں موقع ملنے کے باوجود لڑکی اپنے منگیتر سے لاتعلق رہے اور اس خدشے کو ختم کرنے میں اس دن سلمان سے ملاقات نے اہم کردار ادا کیا۔ میرے دل میں اس رشتے کی ابتدا سے ہی آپ کے لئے مختلف احساسات تھے یا شائد اس سے بھی پہلے سے، مگر تب ہمارا ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا اور رشتہ تو خیر اب بھی پائیدار نہیں ہے آپ کے نقطۂ نظر سے۔” کچھ دیر کے لئے معنی خیز خاموشی چھا گئی۔
عینل نے اس کی آخری بات میں موجود طنز کو کافی محسوس کیا۔ وہ کہنا چاہتی تھی میرے نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ معاشرتی اور دینی لحاظ سے بھی یہ پائیدار رشتہ نہیں ہوتا پر ابھی وہ اسے اور سننا چاہتی تھی تو اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگی۔
“عینل میں نے کافی سوچا اس بارے میں، آپ سے دور رہنا مشکل لگتا ہے اب۔” عینل کو لگا عماد کی باتیں اسی نہج پر جا رہی ہیں جن سے وہ بچنے کی کوشش کرتی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ ٹوکتی، عماد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
“اس کا واحد حل یہ ہے کہ ہم ایک شرعی رشتے میں بندھ جائیں پر مسئلہ یہ ہے مجھے ایک سال کے لئے کمپنی کی طرف سے برطانیہ بھیجا جا رہا ہے۔ اب میں ایک سال کے لئے نہ تمہیں لے جاسکتا ہوں اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ شادی کے فوراً بعد چلا جاؤں یہ زیادہ ظلم ہوجائے گا” عماد شوخ ہونے لگا اور وہ بے چینی سے پہلو بدلنے لگی۔
“اس سے پہلے کہ تم اب غصّے میں فون بند کردو یا مجھے ہی کھری کھری سنا دو، میں جلدی سے اصل مقصد پر آتا ہوں۔” مطلب وہ اسے جاننے لگا تھا۔
” آج امی ہمارے نکاح کی بات کرنے کے لئے آئی تھیں کہ عید کے تیسرے دن نکاح کردیا جائے، رخصتی ایک سال بعد میرے واپسی پر ہوگی، ویسے تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟”
“جی” عینل کے منہ سے نکلا بھی تو کیا۔
“اوہ جی! تو آپ کو اعتراض ہے کوئی؟” عماد لگتا تھا آج شوخی کے سارے ریکارڈ توڑنے کے موڈ میں تھا۔
“عینل میں صرف یہ چاہتا ہوں جب میں ایک غیر ملک میں کام سے تھک کر کسی خاص شخص کو سوچوں، اسے یاد کروں تو وہ میرا محرم رشتہ ہو جس کے بارے میں سوچتے ہوئے میں گناہ گار نہ ہوں اور وہ بھی جب مجھ سے بات کرے تو پورے اعتماد سے اپنے دل کی رضا مندی سے کرے، نکاح کے بعد تو بات کرسکتی ہو نا تم مجھ سے؟” وہ پھر پٹڑی سے اترنے لگا تھا۔
“میں فون بند کرنے لگی ہوں عماد۔” شرم کے مارے اسے اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔
“اچھا چلو تم بھی کیا یاد کروگی، اب ہم تم محرم بن جائیں گے اس کے بعد بات ہوگی،اور مجھے اس دن کا انتظار رہے گا، اللہ حافظ”
عماد فون بند کرچکا تھا۔ مگر اب تک عینل کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس نے اتنی دیر تک عماد سے گفت گو کی ہے۔ اس کے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہوگیا تھا اسے خوشی اس بات کی تھی کہ جس شخص سے اس کا مستقبل وابستہ ہے، وہ بے جا شک کرنے کہ بہ جائے نہ صرف اس کے خیالات کا احترام کرتا ہے، بلکہ انہیں اہمیت بھی دیتا ہے اور اس سے زیادہ کی کسی لڑکی کو خواہش بھی نہیں ہوتی۔ اس کے لئے محبت سے زیادہ شریک سفر کی آنکھوں میں اپنے لئے عزت دیکھنا اہم تھی۔