میں نے زندگی میں پہلی بار ایکٹنگ شروع کر دی۔ میں نے روتے ہوئے اسے فون پر بتایا کہ مجھے احتشام نے اغوا کروایا تھا اور جن لوگوں نے مجھے اغوا کیا تھا، انھوں نے میرے ساتھ بہت بدتمیزی اور بے ہودگی کی ہے۔ بہت دیر تک دوسری طرف اظفر کی آواز سنائی نہیں دی تھی۔ وہ یقینا یہ سن کر سکتے میں آ گیا ہوگا۔
”میں تمھارے گھر آ رہی ہوں۔ میں احتشام کو شوٹ کرنا چاہتی ہوں اور مجھے ایک پسٹل کی ضرورت ہے اور وہ مجھے تم ہی دے سکتے ہو۔” اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر میں نے فون بند کر دیا۔
اس کے بعد پہلے سے طے شدہ انتظامات کے تحت اظفر کے فون پر چیک رکھا گیا اور میرے فون کے بعد چند منٹ کے اندر اظفر نے جس نمبر پر کال کی، اسے نہ صرف ٹریس آؤٹ کر لیا گیا بلکہ اظفر کی کال بھی ریکارڈ کر لی گئی۔ اس نے اسی لڑکے کو کال کی تھی اور وہ اسے گالیاں دے رہا تھا، جبکہ وہ لڑکا قسمیں کھا رہا تھا کہ اس نے میرے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کی۔ اس نمبر کو ٹریس کرنے کے اگلے دس منٹ کے اندر اس جگہ کا ایڈریس بھی حاصل کر لیا گیا تھا۔ میں اپنے مہرے بڑی تیزی سے آگے بڑھا رہی تھی۔
اس کے بعد میں اظفر کے گھر پہنچ گئی۔میں نے اسے گیٹ پر پایا اور وہ بے حد پریشان تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر رونا شروع کر دیا۔ وہ اپنی گاڑی میں بٹھا کر مجھے اپنے گھر سے دور لے آیا اور پھر انتہائی پریشانی کے عالم میں اس نے مجھ سے اس بدتمیزی کی تفصیل پوچھی۔
”انھوں نے میرے ساتھ بہت بے ہودہ باتیں کیں، وہ مجھے چھیڑتے رہے۔”
”بس؟”
”تمہارا خیال ہے، یہ کچھ نہیں ہے؟” میں اس پر بگڑنے لگی۔ اس کے چہرے پر یک دم اطمینان ابھر آیا تھا۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کر دی۔
”احتشام کو شوٹ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ہو سکتا ہے، اس نے تمھیں اغوا نہ کروایا ہو، تمھیں کوئی غلط فہمی ہوگئی ہو۔” اس نے مجھ سے اس وقت کہا، جب میں نے اسے ایک پسٹل مہیا کرنے کے لیے کہا۔
”احتشام کی حمایت مت کرو۔ میں جانتی ہوں، یہ سب اس نے کروایا ہے۔ میں اس وقت تک اب اپنے گھر نہیں جاؤں گی، جب تک اسے جان سے مار نہیں دیتی۔” میں چلائی۔
وہ مجھے سمجھانے لگا کہ اس وقت میرا گھر جانا کتنا ضروری ہے اور سب لوگ کس طرح میرے لیے پریشان ہیں۔ میں تھوڑی بحث کے بعد مان گئی۔
پھر وہ مجھے گھر لے آیا۔ پندرہ سال بعد بھی مجھے آج تک گھر پہنچنے پر اپنے گھر والوں کے تاثرات نہیں بھولے۔ سب لوگ مجھے دیکھ کر جیسے خوف زدہ ہو گئے تھے۔ دو دنوں میں، میں انسان سے بھوت بن گئی تھی۔ اظفر نے میرے ملنے کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا، سوائے اس کے کہ میں احتشام پر اپنا شبہ ظاہر کر رہی ہوں مگر کسی کو بھی یہ یقین نہیں آ رہا تھا کہ مجھے کسی وجہ کے بغیر اغوا کیا گیا تھا اور کوئی نقصان پہنچائے بغیر رہا کر دیا گیا۔
میں اپنے کمرے میں آ کر خاموشی سے بیٹھ گئی تھی اور پھر میں اس وقت تک خاموش رہی، جب تک سب لوگ اپنے گھروں کو چلے نہیں گئے۔ رات کو میں نے اپنے ابو کو کمرے میں اکیلے بلوایا اور انھیں سب کچھ بتا دیا۔
”کل آپ اپنے سب بھائیوں کو بلوائیے اور ان کے سامنے میری شادی احتشام سے کرنے کا فیصلہ سنائیے۔”
میں نے انھیں اپنے اگلے لائحہ عمل کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔
اگلے دن ایک بار پھر سب اکٹھے تھے اور میری زندگی کا فیصلہ کیا جا رہا تھا، جب میں اچانک ان کے درمیان چلی گئی اور میں نے احتشام سے شادی سے انکار کر دیا۔
پورے خاندان کے لیے یہ ایک شاک تھا اور میں نے سب سے زیادہ حیرت زدہ احتشام کو دیکھا۔ شاید اسے خواب میں بھی یہ توقع نہیں تھی کہ میں اس طرح شادی سے انکار کر دوں گی اور وہ بھی اس واقعے کے بعد۔ اسی کی طرح سارے خاندان والے بھی حیران تھے کہ میں نے اتنا سب کچھ ہونے کے بعد اس بات پر شکر ادا کرنے کے بجائے کہ احتشام ابھی بھی مجھ سے شادی پر تیار تھا، اس سے شادی سے انکار کر دیا۔ بس ایک شخص تھا جس کے چہرے پر اطمینان تھا، کیوں اطمینان تھا، اس کا خیال تھا کہ یہ بات صرف وہ جانتا ہے اور یہی اس کی خوش فہمی تھی۔ آپ کو یقینا یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے نا کہ وہ شخص اظفر تھا۔
”مجھے احتشام سے شادی نہیں کرنی۔” میں نے بہ آواز بلند کہا۔ ”آپ لوگوں نے ایک غلط شخص کے ساتھ میری نسبت طے کر دی تھی۔ میں اس شخص کے ساتھ کبھی زندگی نہیں گزار سکتی۔” میں کہتی گئی۔
”کیوں احتشام کے ساتھ شادی کیوں نہیں کرنی…؟ اب تمھیں احساس ہو رہا ہے کہ تم اس کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتیں، پہلے تم نے کیوں کوئی اعتراض نہیں کیا؟”
”پہلے میں بے وقوف تھی۔ مجھے حقیقت کا پتا نہیں تھا، اب میں سب کچھ جان چکی ہوں۔” احتشام بے یقینی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ شاید اسے مجھ سے اس رویے کی توقع نہیں تھی۔
”کیا جان چکی ہو تم؟” ابو نے کہا۔
”یہ بتانا ضروری نہیں ہے، بس میں احتشام سے شادی نہیں کروں گی۔”
”احتشام سے شادی نہیں کرو گی تو کس سے شادی کرو گی؟” ابو چلائے۔ میری آنکھوں میں آنسو آئے۔ میں نے اظفر کی طرف دیکھا، وہ بھی مجھے ہی دیکھ رہا تھا اور پھر میں نے کہا۔
”اظفر سے۔” اظفر کو یقینا اس وقت 440 وولٹ کا کرنٹ لگا ہوگا۔ وہ اپنی کرسی سے دو فٹ اونچا اچھلا تھا۔ اس کے چہرے کا اطمینان، رخصت ہو چکا تھا۔ ”ماں، میں اظفر سے شادی کروں گی۔ صرف وہی ہے جو مجھے سمجھ سکتا ہے جو میرے ساتھ مخلص ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ آپ سب لوگ مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ آپ کے دلوں میں میرے لیے شک ہے۔ صرف وہ ہے جو میرے لیے ہمدردی رکھتا ہے۔” میں نے زار و قطار آنسو بہاتے ہوئے کہا پھر میں نے اظفر کی طرف دیکھا جو منہ کھولے مجھے دیکھ رہا تھا۔ ”اظفر، تم مجھ سے شادی کرو گے نا؟ تم تو مجھے مایوس نہیں کرو گے۔ میں جانتی ہوں، تم دوسروں سے مختلف ہو۔ تم احتشام نہیں ہو۔”
میں نے چند لمحوں تک اسے چپ چاپ خود کو دیکھتے پایا اور پھر اس کی گردن اثبات میں ہل گئی اور تبھی تائی امی یک دم چلاتے ہوئے کھڑی ہو گئیں۔ ان کے ساتھ ساتھ تایا بھی غضب ناک انداز میں دہاڑنے لگے۔
”ٹھیک ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو یہ نکاح اسی وقت ہوگا۔ کیوں اظفر اسی وقت نکاح کرو گے؟” میں نہیں جانتی، میرے، ابو نے کس حوصلے سے اظفر کو پکارا ہوگا، جبکہ ان کا دل چاہ رہا ہوگا کہ وہ اس کو قتل کر دیں۔ اظفر نے ایک بار پھر سر ہلا دیا۔
”میرے بھائی کو نکاح خواں کو لینے بھیج دیا گیا اور ابو تایا کو بازو سے پکڑ کر کمرے سے باہر لے گئے۔ ان سے پہلے احتشام اٹھ کر وہاں سے جا چکا تھا۔ تائی امی مجھے گالیاں دے رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ وہ اظفر سے میری شادی کبھی نہیں ہونے دیں گی اور اظفر۔ اظفر بالکل چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا اور میں… میں کیا کر رہی تھی؟ میں چیس بورڈ پر اپنے اگلے مہرے کی جگہ طے کر رہی تھی۔
دس منٹ بعد ابو کمرے میں تایا کے ساتھ داخل ہوئے۔ تایا کی دہاڑ ایک عجیب سی خاموشی میں بدل چکی تھی۔ تائی نے انھیں دیکھ کر واویلا شروع کر دیا مگر انھوں نے تائی سے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ اگر اظفر یہی چاہتا ہے تو پھر مجبوری ہے، ہمیں اس کی بات مان لینی چاہیے۔” ان کی بات پر تائی یقینا بے ہوش ہوتے ہوئے بچی تھیں۔ انھوں نے اپنا واویلا جاری رکھا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آدھے گھنٹے کے بعد میں نکاح نامے پر دس لاکھ مہر سکہ رائج الوقت کے عوض اظفر کو اپنا شوہر تسلیم کرتے ہوئے دستخط کر رہی تھی۔ دس لاکھ حق مہر پر وہ لوگ کیسے مانے۔ شاید یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تائی امی ناراض ہو کر میرے نکاح سے پہلے ہی گھر جا چکی تھیں۔ دوپہر بارہ بجے میں فاطمہ نواز سے فاطمہ اظفر بن کر اظفر کے گھر آ چکی تھی۔
آپ سب لوگ یقینا اس وقت شاک کے عالم میں بیٹھے ہوں گے۔ آپ میں سے کچھ میری حماقت پر افسوس کر رہے ہوں گے اور کچھ میری بے وقوفی پر ملامت۔ جو باقی ہوں گے، وہ شاید مجھ پر طیش کھا رہے ہوں۔ بہرحال میں نے اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اس طرح کیوں کیا۔ احتشام سے شادی سے انکار کیوں کیا؟ اظفر سے شادی کیوں کی؟ اتنا فوری اور اچانک نکاح کیوں کیا؟ پھر فوراً ہی رخصتی کیوں کروا لی؟ دس لاکھ کا مہر کیوں طے کروایا؟
”کیا میں پاگل ہو چکی تھی یا میرے حواس کام نہیں کر رہے تھے۔ حیرت ہو گی، شاید آپ کو یہ جان کر کہ اس وقت میرے حواس کسی بھی لڑکی سے زیادہ تیزی اور بہتر طریقے سے کام کر رہے تھے۔ میں نے ہر چیز سوچ سمجھ کر کی تھی۔ ہر قدم پوری احتیاط سے اٹھایا تھا۔ اپنے ہر مہرے کو آگے بڑھانے سے پہلے میں نے کم از کم دس بار سوچا تھا اور یقینا کسی چیز پر دس بار سوچنے کے بعد وہ بھی ٹھنڈے دماغ سے آپ پھر غلطی تو نہیں کر سکتے مگر شاید آپ لوگ اس وقت تک ان تمام باتوں کو جان نہیں پائیں گے، جب تک میں آپ کو ان سوالوں کے جواب نہیں دوں گی تو چلیں شروع کرتی ہوں۔
احتشام سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ میں جن حالات سے گزری تھی، اس کے بعد اگر احتشام سے میری شادی ہو بھی جاتی تب بھی ہم دونوں اچھی زندگی نہیں گزار سکتے تھے۔ مرد کے دل میں اگر ایک بار شک کا کانٹا گڑ جائے تو پھر ساری عمر وہ کانٹا گڑا ہی رہتا ہے۔ کسی طرح اسے نکال بھی دیا جائے، تب بھی یہ کانٹا اپنے پیچھے ایسا زخم چھوڑ جاتا ہے جس سے اٹھنے والی ٹیسیں نہ صرف خود اسے ساری عمر کے لیے بے حال رکھتی ہیں بلکہ عورت کو بھی لاچار کر دیتی ہیں۔
احتشام کچھ عرصہ شاید کسی نہ کسی طرح میرے ساتھ گزار لیتا مگر وہ اپنی زندگی میرے ساتھ نہیں گزار سکتا تھا۔ وہ آئیڈیلسٹ تھا۔ مجھے پسند کرنے کے باوجود وہ میرے ساتھ کبھی پرُسکون زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔ وہ اسکالر شپ پر باہر جا رہا تھا اور اس کے آگے ترقی کی ایسی راہیں کھلی ہوئی تھیں جن پر وہ میرے جیسی لڑکی کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔ اظفر کے ساتھ میں ایک اچھی اور پرُسکون زندگی گزار سکتی تھی۔ بس مجھے کچھ چیزوں کو بھلانا پڑتا اور میں وہ کرنے پر تیار تھی۔ اظفر ساری عمر اسی احساس برتری میں رہتا کہ اس نے مجھے ایک مشکل وقت میں سہارا دیا، جبکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ مشکل وقت بھی اسی کا لایا ہوا تھا اس لیے کم از کم اس کے دل میں شک نہیں ہو سکتا تھا۔ جہاں تک محبت کی بات ہے تو وہ مجھ سے تھوڑی بہت محبت ضرور کرتا تھا اور یہ محبت کبھی ختم نہیں ہو سکتی تھی اس لیے وہ بڑی آسانی سے مجھے قبول کر سکتا تھا۔
آپ ہنس رہے ہیں نا، یہ سوچ کر میں بھی بس ایک عورت ہی نکلی۔ مجبور، بے کس، آخر میں محبت کی ”ہڈی” پر سمجھوتا کر لینے والی ا و ر حالات سے کمپرومائز پر مجبور۔ آپ غلط سوچ رہے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں اظفر سے صرف اس لیے شادی پرتیار ہو گئی کہ اس اغواکے بعد وہ میرے لئے احتشام سے زیادہ اچھا اور بہتر ثابت ہو سکتا تھا اور کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ میں نے سب کچھ بھلا دیا تھا یا بھلانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو آپ واقعی عورت کو نہیں جانتے۔
کوئی مرد اگر ایک ایسی عورت سے شادی کرے جو اغوا شدہ ہو تو کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی معاشرے میں کتنی بے عزتی ہوتی ہوگی۔ اپنے دوستوں کے سامنے اسے کتنی وضاحتیں پیش کرنی پڑتی ہوں گی۔ پیٹھ پیچھے ہونے والی باتوں سے وہ کتنا خوف زدہ ہوتا ہوگا۔ میں نے اپنے چہرے پر ملی جانے والی کالک کا آدھا حصہ اظفر کے چہرے پر بھی لگا دیا تھا اور اسے اس بات کا قطعاً احساس نہیں ہوا۔ وہ چاہتا تھا کہ میری اور احتشام کی بے عزتی ہو۔ اس کا خیال ہوگا کہ مجھ سے شادی کی صورت میں احتشام کبھی خاندان میں سر اونچا کر کے نہیں چل سکے گا اور شاید وہ مجھے بھی اذیت پہنچانا چاہتا تھا مگر میں نے یہ ذلت ایک خوبصورت ہار کی شکل میں اس کی گردن میں ڈال دی تھی۔
اظفر سے فوری نکاح کی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ واپس گھر چلا جاتا تو یقینا تائی کسی نہ کسی طرح اس کا ذہن تبدیل کر دیتیں یا ہو سکتا ہے، وہ خود ہی یہ ساری باتیں سوچنے لگتا۔ میرے آنسوؤں نے اسے جذباتی کیا تھا اور میں انہی جذبات کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ فوری رخصتی کی وجہ بھی یہی تھی۔
دس لاکھ کا حق مہر اظفر نے خود لکھ کر دیا تھا۔ جب میرے ابو نے اس سے کہا تو اس نے قطعاً کوئی چوں چرا نہیں کی۔ شاید وہ اعتراض کرتا اگر تایا ابو اعتراض کرتے مگر وہ بالکل خاموش تھے، وہ کیوں خاموش تھے۔ اب کیا یہ بات بھی آپ کو بتانی پڑے گی کہ ابو جب دس منٹ کے لیے انھیں کمرے سے باہر لے کر گئے تھے تو انھوں نے کیا کیا تھا۔ انھوں نے اس ڈی ایس پی سے ان کی بات کروائی تھی۔ جس نے اظفر کا پورا کارنامہ فون پر ان کے گوش گزار کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں اظفر کی ریکارڈڈ آواز بھی سنائی اور اس جرم کے سلسلے میں جو دفعہ اظفر پر عائد ہوتی تھی اور اس کے نتیجے میں جو سزا اسے مل سکتی تھی، اس سے بھی مطلع کیا۔ تایا یہ سب کچھ جان کر سکتے میں آ گئے تھے۔ مگر یہ سکتہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہا۔ ان کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ انھوں نے ابو سے درخواست کی کہ وہ اظفر کی مجھ سے شادی کرنے پر تیار ہیں مگر وہ اس بات کو چھپائے رکھیں ورنہ تایا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ابو نے بخوشی یہ بات مان لی اور ساتھ ہی تایا سے اس بات کا حلف لیا کہ وہ بھی اظفر سے کبھی اس بات کا ذکر نہیں کریں گے کہ ان کو اس کے کارنامے کا پتا ہے۔
اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میرے ابو یہ کیوں چاہتے تھے کہ وہ اس سلسلے میں اظفر سے بات نہ کریں، صرف اس لیے کہ اگر اظفر کو یہ پتا چل جاتا کہ اس کا راز افشا ہو چکا ہے اور میں نے اسے بے وقوف بنا کر شادی کی ہے تو پھر یقینا ہم دونوں کے تعلقات پر اثر پڑتا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں نا کہ مرد کو اگر یہ احساس ہو جائے کہ عورت نے اسے بے وقوف بنا دیا ہے تو پھر وہ چوٹ کھائے ہوئے سانپ کی طرح ہو جاتا ہے۔ کبھی بھی کسی کو بھی ڈس سکتا ہے، خاص طور پر اس عورت کو جس سے اس نے چوٹ کھائی ہو۔ اظفر کے ساتھ بھی یہی ہوتا۔ تایا اس کے ساتھ بات کرتے اور پھر وہ کسی نہ کسی طرح مجھ سے جان چھڑا لیتا۔ آپ اندازہ کر ہی سکتے ہیں کہ شادی کے کچھ عرصے بعد طلاق کی صورت میں، میں اگر اظفر کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرنا چاہتی تو اس کی کیا حیثیت رہ جاتی۔ ایک عورت شادی سے پہلے کیے گئے اغوا کے سلسلے میں اپنے ہی شوہر پر مقدمہ کرتی تو عدالت کی کس حد تک حمایت حاصل کر سکتی تھی۔ عدالت تو سب سے پہلے یہ پوچھتی کہ اگر اس نے مجھے اغوا کیا تھا تو پھر میں نے اس سے شادی کیوں کی اور تب یقینا یہ سب دلائل جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہی ہوں، بوگس قرار دے دیے جاتے… تو اظفر سے سب کچھ چھپانے کی یہی وجہ تھی۔
آپ میں سے بہت سے احتشام کے لیے اپنے دل میں ہمدردی محسوس کر رہے ہوں گے اور اس الجھن میں گرفتار ہوں گے کہ میں نے اظفر کے سامنے اس اغوا کا الزام احتشام کے سر کیوں ڈالا۔ یہ ضروری تھا، اظفر، احتشام کو ناپسند کرتا تھا اور میرے اس الزام نے اس کی انا کی خاصی تسکین کی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ میں احتشام سے مکمل طور پر بدگمان ہو گئی ہوں اور اسے اس بات کا یقین دلانا اس لیے ضروری تھا کیونکہ رہائی پاتے ہی میں طے کر چکی تھی کہ اب مجھے احتشام سے نہیں بلکہ اظفر سے شادی کرنا ہے اور پھر ظاہر ہے، مجھے احتشام کے بارے میں اظفر سے کچھ نہ کچھ تو ایسا کہنا تھا جس سے اسے یہ یقین ہو جاتا کہ میں اب احتشام کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ میرا مطلب ہے، اپنے اغوا کنندہ کے بارے میں۔
اس کے بعد کیا ہوا؟ آپ کا کیا خیال ہے، کیا ہوا ہوگا؟ اظفر مجھ سے شادی پر بہت خوش تھا۔ میں نے اسے یہ یقین دلا دیا تھا کہ میں اس کی بہت زیادہ احسان مند ہوں کیونکہ اس نے زندگی کے ایسے لمحات میں میری مدد کی تھی، جب کوئی عام مرد میری مدد کبھی نہ کرتا۔ میں یہ ساری باتیں دن میں کئی کئی بار اس سے کہتی۔ اتنی بار کہ شاید وہ تنگ آ جاتا ہوگا اور پھر جب وہ مجھے کہتا کہ میں سب کچھ بھول جاؤں تو میں اس سے کہتی۔
”نہیں اظفر، ہر بات بھلانے والی نہیں ہوتی۔ کم از کم وہ سب کچھ تو ہرگز نہیں جو تم نے میرے ساتھ کیا۔” اس کا چہرہ اس وقت یوں روشن ہو جاتا، جیسے کسی نے اس پر 1000 ووٹ کا بلب لگا دیا ہو اور میں اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچتی۔ ”اور جو کچھ تم نے میرے ساتھ کیا ہے، وہ تمھیں کتنا مہنگا پڑے گا۔ کاش اس کا تم کبھی اندازہ کر سکتے۔” میری باتوں نے بیٹھے بٹھائے اسے راجہ اندر بنا دیا تھا اور میں چاہتی تھی، وہ خود کو راجہ اندر سمجھتا رہے، کم از کم اس وقت تک، جب تک وہ اپنا تخت و تاج میرے نام نہیں کر دیتا۔
تائی اماں نے میرے آنے پر خاصا ہنگامہ کھڑا کیا تھا مگر میں نے ان کے سامنے ایک فرمانبردار اور تابعدار بہو کا رول انتہائی مہارت سے ادا کیا۔ وہ مجھ سے جتنا خار کھاتیں، میں ان کی اتنی خاطریں کرتی۔ خاص طور پر تب جب اظفر اور تایا گھر پر ہوتے۔ شاید اس وقت کوئی مجھے دیکھتا تو ”ستی” سے کم کا درجہ نہ دیتا اور تایا اور اظفر نے مجھے یہی درجہ دے دیا تھا مگر میں ”ستی” نہیں تھی اور نہ ہی مجھے ایسا کوئی شوق تھا۔ تائی میرے بارے میں جو بے ہودہ بات کہتیں،میں اس کے ساتھ دس اس سے زیادہ بے ہودہ باتیں شامل کرتی اور اظفر کے سامنے روتے ہوئے سارے دن کی روداد سنا دیتی۔
”امی نے آج مجھ سے کہا کہ میں نے یونیورسٹی میں جن لڑکوں کے ساتھ دوستی کی تھی، انہی لڑکوں کے ساتھ عیاشی کرنے میں گھر سے چلی گئی تھی۔” میں اندرونی اطمینان اور بیرونی اضطراب کے ساتھ موٹے موٹے آنسوؤں کے ساتھ اظفر کو بتاتی۔ اس کا پارا ہائی ہو جاتا۔
”تم امی کی باتوں پر دھیان مت دیا کرو۔ انھیں فضول باتیں کرنے کی عادت ہے۔” وہ مجھے تسلی دینے کی کوشش کرتا۔ میں اس کوشش کے جواب میں ایک اور من گھڑت بات سنا دیتی، وہ اپنا غصہ پیتے ہوئے ایک بار پھر میرے آنسو خشک کرنے کی سعی کرتا۔ میں ردعمل کے طور پر اسے ان چند اور خوبصورت اقوال سے نواز دیتی جو میں تائی سے منسوب کرتی مگر وہ میری اپنی ذہنی اختراع ہوتے پھر یہ سلسلہ دراز ہو جاتا اور اس کا اختتام کچھ اس طرح ہوتا کہ میں اطمینان سے بیڈ پر لیٹ کر چادر سے اپنے چہرے کو ڈھانپ کر لمبی تان کر سو جاتی، جبکہ اظفر کمرے کے چکر لگاتے ہوئے سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہتا۔
اگلے دن صبح ناشتے کی میز پر وہ تائی اماں سے بات کرتا، نہ ہی ان کے ہاتھ سے کوئی چیز لیتا اور بھرپور کوشش کرتا کہ ہر ضرورت کی چیز مجھ سے لے۔ اس کے جانے کے بعد تائی سارا دن پریشان پھرتی رہتیں اور میں اطمینان سے اپنے کمرے میں رہتی۔
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ میری بتائی ہوئی کسی جھوٹی بات پر اظفر تائی سے بات کرنے پہنچ جاتا اور جب تائی اماں یہ کہتیں کہ انھوں نے یہ بات کہی ہی نہیں اور پھر جھڑک کر مجھ سے پوچھتیں تو میں بے بسی سے اظفر کو دیکھتے ہوئے کہہ دیتی کہ ہاں، انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اظفر سوچتا، میں تائی سے خوف زدہ ہوں اس لیے کچھ نہیں بتا رہی جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ کچھ اور بھڑک جاتا پھر اس کے اور تائی کے درمیان خاصا جھگڑا ہوتا جس میں تائی میرے بارے میں اپنے دلی جذبات اور خیالات کا خاصے اونچے انداز میں اظہار کرتیں اور اظفر کو یقین ہو جاتا کہ جو کچھ میں وقتاً فوقتاً اسے بتاتی رہتی تھی، وہ بالکل درست تھا جبکہ تائی یہی سمجھتیں کہ میں ان کے بیٹے کو ان کے خلاف بھڑکا رہی ہوں۔ (وہ بالکل ٹھیک سمجھتی تھیں، میں ایسا ہی کر رہی تھی)
میں نے اس سلسلے کو صرف تائی امی تک محدود نہیں رکھا بلکہ میں نے اظفر کی بہنوں سے منسوب کردہ باتیں بھی اس کے گوش گزار کرنے کا فریضہ لگن اور دل جمعی سے ادا کیا۔ نتیجہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اظفر صرف چار ماہ میں اپنی تینوں بہنوں سے اتنا متنفر ہو گیا کہ وہ ان کی شکل دیکھنے کا روادار نہیں تھا اگر وہ گھر میں آتیں تو ان کے پاس بیٹھنے کے بجائے سیدھا کمرے میں آ جاتا اور پھر تب تک وہیں رہتا، جب تک وہ چلی نہ جاتیں اور میں… میں اس وقت اپنی نندوں کی خاطر مدارت کر رہی ہوتی جس پر اظفر چڑتا تھا۔ (جبکہ میری نندیں اسے میرا فریب سمجھتی تھیں۔ وہ ٹھیک ہی سمجھتی تھیں، یہ فریب ہی تھا)
”تم ان کی ملازمہ نہیں ہو کہ اس طرح ان کی خدمتیں کرتی پھرتی ہو۔” اظفر مجھ سے کہتا اور میں جواب میں کہتی۔
”وہ تمہاری بہنیں ہیں اظفر۔ وہ مجھے پسند نہیں کرتیں مگر میں انھیں اس لیے چھوڑ نہیں سکتی کیونکہ ان کا رشتہ تم سے ہے اور تم سے منسوب ہر چیز سے مجھے محبت ہے۔” میری بات پر وہ کتنی ہی دیر مجھے دیکھتا رہتا۔
شادی کے صرف چھ ماہ کے اندر اندر میں نے اس گھر پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ لفظی قبضہ نہیں ہے، میں نے واقعی اس گھر پر قبضہ کر لیا تھا۔ میرا مطلب ہے کہ میں نے وہ گھر اپنے نام کروا لیا تھا۔ آپ کو جھٹکا لگا ہے نا، اس کہانی میں آپ کو ایسے ہی جھٹکے لگ رہے ہوں گے اور آگے چل کر بھی لگیں گے۔ بہرحال میں آپ کو بتا رہی تھی کہ میں نے وہ گھر اپنے نام کروا لیا تھا اور یہ میں نے کیسے کیا تھا چلیں اس کا احوال بھی سن لیں۔
تایا کا گھر اظفر کے نام تھا، جب تایا حویلی سے وہاں منتقل ہوئے تھے تو انھوں نے وہ گھر اظفر کے نام کر دیا تھا۔ کیونکہ اظفر ان کی اکلوتی دیرینہ اولاد تھی۔ یہ بات میں جانتی تھی اور چیس بورڈ پر اگلی چال میں نے گھر کے لیے چلی تھی۔ جب میں نے اظفر کو اچھی طرح سے اس کی ماں اور بہنوں سے متنفر کر دیا تو ایک شام تائی کے ساتھ ہونے والے جھگڑے کے بعد جب اظفر اپنے کمرے میں آیا تو حسب معمول جھنجلایا ہوا تھا۔ میں حسب معمول خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی۔ اس نے حسب معمول مجھے خاموش کروانے کی کوشش کی۔ میں نے حسب معمول اپنے آنسوؤں کی مقدار اور رفتار میں اضافہ کر دیا۔ وہ حسب معمول مجھے بہلانے لگا اور حسب معمول بہلنے کے بجائے میں اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کی طرف چلی گئی۔ وہاں جا کر میں کھڑکی سے باہر لان میں جھانکنے لگی۔ وہ میرے پاس آ گیا۔
”امی غلط نہیں کر رہی ہیں، جو عورت گھر کی مالک ہو، اسے حق ہوتا ہے کہ وہ اس گھر میں رہنے والوں کے ساتھ جیسا چاہے کرے۔” میں نے اپنی آواز کو حسب مقدور غمگین بناتے ہوئے کہا۔
”یہ گھر امی کا نہیں، میرا ہے اور میری بیوی ہونے کے حوالے سے تم اس کی مالک ہو۔” اس نے قدرے بلند آواز میں کہا۔
”نہیں اظفر اس طرح کوئی بھی مالک نہیں ہوتا۔” میں نے ایک لمبا وقفہ دیتے ہوئے بات جاری رکھی۔ ”جب میری منگنی ہوئی تھی تو احتشام نے ان دنوں میری امی سے کہا تھا کہ وہ باہر سے پڑھ کر واپس آنے کے بعد اپنا گھر بنائے گا جسے وہ میرے نام کر دے گا۔ جب امی نے مجھے یہ بات بتائی تو میں نے مذاق میں بات اڑا دی مگر بعد میں جب میں نے سوچا کہ ایک الگ اور اپنا گھر کتنی خوشی اور سکون کا باعث ہوتا ہے تو مجھے احتشام پر بہت…” میں نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی۔ ”میرے ساتھ اگر یہ حادثہ نہ ہوتا اور احتشام میرے ساتھ یہ سب نہ کرتا تو شاید آج میرا بھی اپنا ایک گھر ہوتا۔ اس گھر سے بھی بڑا پھر کوئی اس طرح میری تذلیل نہیں کر سکتا تھا۔” میں تیزی سے کہہ کر اپنے بیڈ کی طرف آ گئی تھی۔ شادی کے بعد میں نے پہلی بار احتشام کا اس طرح ذکر کیا تھا ورنہ میں ہمیشہ اسے برے لفظوں میں ہی یاد کرتی تھی اور میں جانتی تھی، اب اظفر کے اندر جوار بھاٹے اٹھ رہے ہوں گے۔ میں اطمینان سے بیڈ پر آ کر سو گئی۔
رات کے تین بجے کسی نے مجھے جھنجھوڑ کر اٹھایا۔ میں کچھ گھبرا کر اٹھی تھی۔ ”فاطمہ، میں صبح یہ گھر تمھارے نام کر رہا ہوں۔” مجھے یہ جملہ صبح سننے کی توقع تھی، وہ رات کے اس پہر سنا رہا تھا۔ اب وہ میری طرف اس بچے کی طرح دیکھ رہا تھا جو کوئی اچھا کام کر کے داد کا منتظر ہو اور میں نے وہ داد اسے دینی شروع کر دی۔
”نہیں اظفر، آخر تم میرے لیے کیا کیا کرو گے؟”
”جو کر سکتا ہوں، وہ کروں گا۔ مجھے صرف یہ بتاؤ، تم میرے ساتھ خوش ہو نا؟”
”تمہارا ساتھ میرے لیے جس احساس کا باعث ہے، وہ خوشی سے بہت بڑا ہے مگر یہ گھر میں نہیں لوں گی۔ میں تمہاری چیز لینا نہیں چاہتی۔”
”جی میں خود تمہارا ہوں تو میری ہر چیز بھی تمہاری ہو جاتی ہے۔” اس نے کہا تھا اور اس کے بعد اس نے مجھ سے بہت سی باتیں کہی تھیں۔ خیر تو گھر میرا ہو گیا۔ اس کے بعد کیا تھا؟
اس کے بعد آہستہ آہستہ میں نے ہر ایک چیز کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دیا۔ تائی اماں نے گھر میرے نام کرنے پر واویلا کیا تھا مگر اظفر کے سامنے وہ کیا کر سکتی تھیں اور پھر تایا ابا تھے جو میری طرف داری کیا کرتے تھے۔ میرے لیے سب کچھ آسان سے آسان تر ہو گیا۔ اگلے کچھ سالوں میں، میں نے اظفر کو اس کے دوستوں سے بالکل کاٹ کر رکھ دیا۔ میرے بچوں کی پیدائش نے اس کام میں اور بھی آسانی کر دی۔ میں نے اظفر کو بچوں کی ذمے داریوں اور کاموں میں پوری طرح الجھا دیا۔ اس کا فارغ وقت بچوں کو سیر و تفریح کروانے اور ان کے ساتھ کھیلنے میں صرف ہوتا تھا۔ میں چاہتی ہی نہیں تھی، وہ گھر سے باہر کہیں اور کچھ وقت گزارے، کہیں اور آئے جائے۔
تینوں بچوں کی پیدائش پر میں اظفر سے فیکٹری کے کچھ شیئرز ان کے نام لگواتی رہی اور اب حال یہ ہے کہ گھر میرے نام ہے۔ فیکٹری میرے بچوں کے نام ہے۔ یہی حال اس کے بنک اکاؤنٹس اور باقی جائیداد کا ہے۔
پندرہ سال بعد آج میں اس پوزیشن میں ہوں کہ چاہوں تو اظفر کو اس کے اپنے گھر اور بزنس سے بے دخل کر دوں، اسے اس کے بچوں سے ملنے نہ دوں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اظفر نے مجھے یہ قانونی اختیار دے رکھا ہے کہ اگر کبھی ہماری علیحدگی ہو گئی تو بچے میرے پاس رہیں گے اور وہ ان کی تحویل کا مطالبہ نہیں کرے گا۔
پندرہ سال پہلے میں نے چیس بورڈ پر بنے ہوئے مہروں کے ساتھ ایک ایسی بازی شروع کی تھی جس میں ہر خانے پر ایک بڑی مات میری منتظر تھی اور مجھے دیکھنا تھا کہ پٹے ہوئے مہروں کے ساتھ میں اس مات سے کیسے بچتی ہوں۔ آج پندرہ سال بعد میں اظفر اعزاز کو اپنی جگہ لے آئی ہوں۔ مجھ میں اور اس میں فرق بس یہ ہے کہ مجھے پتا تھا کہ میرے چاروں طرف مات ہے اور اظفر یہ نہیں جانتا۔
مگر میں اظفر کو چیک میٹ کبھی نہیں دوں گی۔ پھانسی پر کسی کو لٹکانے سے بہتر ہے کہ آپ اس بندے کو پھانسی کے تختے پر کھڑا کر دیں اور تختے کا لیور اپنے ہاتھوں میں رکھیں پھر اطمینان سے زندگی گزارتے رہیں۔ آپ خود سوچیں اگر زندگی میں اب کبھی اظفر کو یہ پتا چلتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کتنے بڑے فریب میں گزاری ہے تو وہ کیا کرے گا۔ اپنے گناہ سے انکار کیسے کرے گا۔ پولیس سٹیشن میں ریکارڈ شدہ ٹیپ اب بھی میرے پاس ہے۔ اگر آج میں وہ ٹیپ اسے سنا دوں تو پھر وہ مجھ سے اور اپنے بچوں سے نظر کیسے ملائے گا اور پھر اگر میں اس کی مکمل تباہی کی خواہش کروں تو میں اسے سڑک پر لا سکتی ہوں۔ وہ صرف مالی طور پر بھی تباہ نہیں ہوگا ذہنی اور جذباتی طور پر بھی تباہ ہو جائے گا مگر میں نے آپ سے کہا نا کہ ایسا کر کے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ مجھے ایک شوہر کی اور میرے بچوں کو ایک باپ کی ضرورت ہے اور اس لیے میں اظفر کو استعمال کر رہی ہوں، جھوٹے لفظوں کے فریب دے کر۔ کیا برا ہے اگر بندہ سال میں چار، چھ بار کسی کے سامنے جھوٹی تعریفوں کے پل باندھ دے۔ ایسے پل جن پر لوگوں کو چڑھانے کے بعد آپ جب چاہیں لوگوں کے پیروں تلے سے زمین کھینچ سکیں۔ میں بھی اظفر کے ساتھ یہی کرتی ہوں، وقتاً فوقتاً اس کی تعریفیں کرتی ہوں اور پھر وہ وہی کرتا ہے جو میں چاہتی ہوں اور ساتھ ساتھ خود کو میرا نجات دہندہ سمجھ کر خوش بھی ہوتا رہتا ہے۔ اظفر کے ساتھ میں کوئی ایسی بری زندگی نہیں گزار رہی ہوں بلکہ سچ مانیے تو مجھے اس سے تھوڑی بہت محبت بھی ہو گئی ہے۔ ہو ہی جاتی ہے اگر ایک بندہ آپ کا اتنا تابعدار ہو پھر آپ کا شوہر ہو اور پھر آپ کے بچوں کا باپ بھی ہو۔ آپ ہی بتائیں، کیا تھوڑی بہت محبت ہونے کے لیے اتنی دلیلیں کافی نہیں ہیں اور پھر آپ یہ بھی تو سوچیں کہ ماضی کے بارے میں سوچ سوچ کر میں خود کو پاگل کس لیے کرتی۔ اگر مرد کبھی پچھتاوے کا شکار نہیں ہوتا تو پھر عورت کیوں ہو۔ اگر مرد ہر حال میں زندگی انجوائے کر سکتا ہے تو پھر عورت کیوں انجوائے نہ کرے۔ ٹھیک ہے؟
تو میں آپ کو بتا رہی تھی کہ کچھ دیر پہلے اخبار میں شائع ایک خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے جب میں نے اپنے شوہر سے یہ کہا کہ عورت مرد سے زیادہ عقلمند ہوتی ہے تو میرے شوہر کا دل بے اختیار ہنسنے کو چاہنے لگا اور پھر میرے باہر آ جانے کے بعد یقینا وہ بہت دیر تک اس بات پر ہنستا رہا ہوگا۔ اب تو یقینا آپ جان ہی چکے ہوں گے کہ اس کی ہنسی کی وجہ کیا ہے اور میں عورت کو مرد سے زیادہ عقل مند کیوں سمجھتی ہوں، اس کی وجہ بھی آپ سے مخفی نہیں ہے۔
عورت ہر بازی دل سے کھیلتی ہے مگر کبھی کبھار کوئی ایک بازی ایسی ہوتی ہے جسے وہ دماغ سے کھیلتی ہے اور اس وقت کم از کم اس بازی میں کوئی اس کے سامنے کھڑا رہ سکتا ہے، نہ اسے چت کر سکتا ہے۔ اور وہ بازی… وہ بازی بقا کی بازی ہوتی ہے۔
*****