مات ہونے تک — عمیرہ احمد

ابھی کچھ دیر پہلے میں اپنے شوہر کے پاس سے اٹھ کر باہر آ گئی ہوں، صرف اس لیے تاکہ وہ اخبار لپیٹ کر معمول کے مطابق میری ایک بات پر قہقہہ مار کر ہنس سکے۔
پچھلے پندرہ سال سے یہی ہو رہا ہے۔ میں جتنی دفعہ یہ جملہ دہراتی ہوں، وہ اتنی ہی بار اس سے محظوظ ہوتا ہے۔ میرے سامنے وہ میری کہی ہوئی اس بات پر ہنس ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے، اس کے بعد اسے لمبی چوڑی وضاحتوں سے گزرنا پڑے گا اس لیے وہ ہمیشہ میرے جانے کے بعد ہی ہنستا ہے اور میں بھی یہ بات کہنے کے بعد اس کے پاس سے فوراً اٹھ جاتی ہوں تاکہ وہ جی کھول کر میری بات پر ہنس سکے۔
ہو سکتا ہے، آپ لوگوں کا خیال ہو کہ شاید میں اپنے شوہر کو کوئی لطیفہ وغیرہ سناتی ہوں جو اسے اتنا پسند آتا ہے کہ وہ ہر بار ہنستا ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کو خود سوچنا چاہیے۔ کیا شوہر بیویوں کے سنائے ہوئے لطیفوں پر ہنستے ہیں؟ میرا خیال ہے، ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔
اور پھر یہ بھی تو سوچیں کہ بار بار ایک ہی لطیفے پر ہنسی کیسے آ سکتی ہے اس لیے واضح کر دوں کہ میں اسے کوئی لطیفہ نہیں سناتی لیکن میرا خیال ہے کہ میرے شوہر کو میری بات کسی لطیفے سے کم نہیں لگتی ہوگی۔
اب آپ یقینا یہ جاننے کے لیے بے تاب ہو رہے ہوں گے کہ میں اپنے شوہر سے ایسی کون سی بات کہتی ہوں جس پر اس کا ردعمل یہ ہوتا ہے تو چلیں، آپ کو بتا ہی دیتی ہوں۔
میں نے ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے شوہر سے کہا تھا۔
”خیر اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عورت، مرد سے زیادہ عقل مند ہوتی ہے۔” میرا شوہر اس وقت اخبار پڑھ رہا تھا اور یہ بات ایک خبر سننے کے بعد میں نے اپنے تبصرہ میں کہی تھی۔ میں اس وقت نیل فائل سے اپنے ناخنوں کو رگڑ رہی تھی اور اس کے ساتھ کن انکھیوں سے میں اپنے شوہر کے تاثرات کا جائزہ بھی لے رہی تھی۔
میرے جملے پر ہمیشہ کی طرح اس نے محظوظ ہو کر مجھے دیکھا اور پھر کافی دیر وہ میرے چہرے کو ہی دیکھتا رہا۔ اس وقت وہ دل ہی دل میں میری خوبصورتی کو سراہنے کے ساتھ ساتھ یقینا اپنی ہنسی کو ضبط کرنے کے لیے بے تحاشا کوشش کر رہا تھا۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ میں یہ بات کہتی اور وہ اپنی ہنسی کو ضبط کرتے کرتے میرا چہرہ دیکھنے لگتا اور پھر کافی دیر میرا چہرہ دیکھتا رہتا پھر مجھے اس پر ترس آ جاتا اور میں اس کے پاس سے اٹھ جاتی تاکہ وہ چند منٹ اچھی طرح ہنس لے۔
آپ لوگ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ میں بھی عورتوں کی نام نہاد برتری کی قائل، عورتوں کے کسی گروپ سے تعلق رکھتی ہوں۔ جو بات بے بات عورتوں کی آزادی، پھر برابری اور پھر برتری کے حوالے سے بیان دیتی رہتی ہیں۔ آپ اگر یہ سوچ رہے ہیں تو غلط سوچ رہے ہیں۔ میں ایک مکمل ہاؤس وائف ہوں۔ اپنے گھر، بچوں اور شوہر کے سوا مجھے اور کسی چیز میں دلچسپی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے میری زندگی کا دائرہ کار خاصا محدود ہے۔
ہو سکتا ہے، اب آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ پھر میں ان عورتوں میں سے ہوں گی جنھیں شوہر کی بے التفاتی اور بے رخی کی شکایت رہتی ہے اور وہ ہمیشہ اپنے شوہروں سے بحث میں الجھی رہتی ہیں۔ آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو ایک بار پھر غلط سوچ رہے ہیں۔ مجھے شوہر سے بحث کرنے کی عادت ہے، نہ دلچسپی اور نہ ہی کبھی اس کی ضرورت پیش آئی ہے کیونکہ میرا شوہر آئیڈیل نہ سہی مگر پھر بھی شوہروں کی اس قسم سے تعلق رکھنا ہے جو بہت نایاب ہوتی ہے۔
اظفر کے لیے فیکٹری اور گھر کے درمیان اور کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جو اسے اپنی جانب کھینچ سکے۔ صبح ٹھیک نو بجے وہ گھر سے نکل جاتا ہے اور رات کو ٹھیک آٹھ بجے وہ دوبارہ گھر میں داخل ہوتا ہے۔ یہ ٹائمنگ صرف انہی دنوں کچھ بدلتی ہے، جب فیکٹری میں کام زیادہ ہو اور ایسا صرف سال کے کچھ خاص مہینوں میں ہی ہوتا ہے۔ گھر آنے کے بعد اس کا سارا وقت میرے اور میرے بچوں کے لیے ہوتا ہے۔
شادی سے پہلے اس کے دوستوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ شادی کے بعد ان پندرہ سالوں میں، میں نے جو اہم کام کیے ہیں، ان میں اظفر کے دوستوں سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ہے۔ شاید آپ کو یہ سن کر حیرت ہو کہ اس وقت اظفر کا کوئی دوست نہیں ہے، کاروباری دوستوں کے علاوہ… اور یقینا کاروباری دوستوں کے ساتھ آپ اپنا فارغ وقت گزارنا پسند نہیں کرتے۔ اظفر کی دوستیاں چھڑوانے میں مجھے وقت لگا لیکن بہرحال میں نے یہ کام کیا اور یہ کام کرنے میں مجھے کچھ ایسی حرکتیں بھی کرنی پڑیں جو شاید کسی دوسرے مرد سے شادی کی صورت میں، میں کبھی نہ کرتی۔ میں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گی۔
تومیں آپ سے کہہ رہی تھی کہ میں ان عورتوں میں بھی شامل نہیں ہوں جنھیں شوہر کی بے التفاتی کا گلہ ہو تو پھر ایسا بیان؟ اس کی ایک وجہ ہے اور جب میں آپ کو وہ وجہ بتاؤں گی تو پھر مرد ہونے کے باوجود آپ میرے بیان پر یقین کرنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگائیں گے۔
میں اظفر کے ساتھ شادی کر کے بہت خوش اور مطمئن ہوں اور مجھے اظفر سے شادی کرنے سے نفرت تھی پھر بھی یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ یہ شادی میرے اصرار پر ہو گئی تھی۔ نہیں… یہ لو میرج نہیں تھی مگر اظفر مجھ سے بے حد محبت کرتا تھا، ہاں مگر جب میں اس سے شادی کرنا چاہتی تھی تو وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں جانتی ہوں، آپ کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہے ہوں گے تو پھر آئیں ہر چیز کو ذرا تفصیلاً دیکھتے ہیں۔
*****





میرے والد ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھے۔ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ ہی رہتے تھے بلکہ اب بھی وہ ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ وہ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور ان کی طرح میرے سارے تایا بھی سرکاری ملازم تھے، ہاں البتہ سب سے بڑے تایا نے سرکاری ملازمت نہیں کی بلکہ اپنا بزنس کیا اور اس بزنس میں کامیاب ہونے کے لیے وہ سارے ہتھکنڈے اور حربے استعمال کیے جو میرے والد اور دوسرے تایا کبھی استعمال نہیں کر سکے۔ نتیجہ وہی ہوا جو ایسے حالات میں ہوتا ہے، میرے تایا نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی اور اس ترقی کے بعد ان کے حالات ہی نہیں نظریں اور ذہنیت بھی تبدیل ہو گئی۔
میرے بچپن میں ہی وہ جوائنٹ فیملی سسٹم چھوڑ کر اپنے الگ گھر میں شفٹ ہو گئے۔ ان کے اس طرح چلے جانے کا ان کے علاوہ سب کو ملال ہوا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ نارمل ہوتا گیا۔
میں اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد تھی۔ مجھ سے چھوٹا طلحہ تھا اور پھر تین بہنیں۔ میں نے آپ کو بتایا ہے تاکہ میرے والد ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے، نہ صرف ملازم بلکہ ”ایماندار ملازم” اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے اور میرے گھر والوں نے خاصی مشکل زندگی گزاری لیکن اس مشکل یا تنگ دستی کی زندگی نے ہماری ویلیوز ختم نہیں کیں، نہ ہی ہم میں مایوسی اور ڈپریشن جیسی چیزوں کو جنم دیا۔ ہمارے والدین نے ہمیں تنگ دستی کے ساتھ اچھا خاصا ایڈجسٹ کر دیا تھا۔
اس زمانے میں ہماری سب سے بڑی دولت ہماری تعلیم تھی اور کم از کم اس معاملے میں ہم بڑے سے بڑے دولت مند کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ میرے والدین شاید زندگی کی دوسری آسائشات ہمیں دینے کے لیے جدوجہد نہ کر سکے لیکن انھوں نے تعلیم کے معاملے میں ہمیں کسی سے پیچھے نہیں رکھا۔ جتنا ان سے ہو سکا، وہ ہماری تعلیم پر خرچ کرتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہم لوگ اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنے لیے دیکھے جانے والے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر سکیں۔ مجھے چھوڑ کر ان کی باقی ساری اولاد کے لیے یہ خیال بالکل ٹھیک ثابت ہوا۔ میرا بھائی آج کل امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے اور میری سب سے چھوٹی بہن اسی کے پاس سرجری میں اسپیشلائزیشن کر رہی ہے۔ باقی دو بہنوں میں سے ایک مقامی کالج کی وائس پرنسپل ہے اور دوسری ماحولیات کے بارے میں ایک بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر منسلک ہے۔
اپنے والدین کی ساری اولاد میں سے صرف میں ہوں جو ماسٹرز نہیں کر سکی۔ شاید میرے حوالے سے میرے والدین نے سب سے زیادہ خواب دیکھے ہوں گے مگر بعض دفعہ خواب صرف خواب ہی رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اگر میری زندگی میں وہ حادثہ نہ ہوا ہوتا تو شاید میں بھی اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرف کسی نہ کسی بڑے عہدے پر کام کر رہی ہوتی مگر خیر… ایسا نہیں ہے کہ میں پچھتاوں کا شکار ہوں، پچھتاوا تو آپ کو تب ہوتا ہے، جب آپ نے زندگی میں بہت سی غلطیاں یا حماقتیں کی ہوں اور میرے ساتھ جو کچھ ہوا، اس میں میری کسی غلطی یا حماقت کا کوئی دخل نہیں تھا اس لیے کسی پچھتاوے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں مگر بعض دفعہ تھوڑی بہت اداسی ضرور ہوتی ہے۔
میں آپ کو بتا رہی تھی کہ مالی مشکلات کے باوجود ہم لوگ ایک پرُسکون زندگی گزار رہے تھے، جب ہماری زندگی میں ایک طوفان آیا تھا، اظفر کی صورت میں۔
ان دنوں میں پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کر رہی تھی اور میری احتشام کے ساتھ نئی نئی منگنی ہوئی تھی۔ آپ یک دم حیران ہو گئے ہیں کہ ابھی میں اظفر کا ذکر کر رہی تھی اور اب میں احتشام پر پہنچ گئی ہوں۔ دراصل مجھے پہلے ہی آپ کو احتشام سے متعارف کروا دینا چاہیے تھا۔ میں نے آپ کو بتایا ہے تاکہ ہم لوگ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے۔ احتشام میرے چھوٹے تایا کا بیٹا تھا۔ ہم لوگ بچپن سے ایک ساتھ رہتے آ رہے تھے۔ وہ عمر میں مجھ سے تین سال بڑا تھا مگر اس کے باوجود ہم دونوں میں کمال انڈر اسٹینڈنگ تھی بلکہ شاید ہم سب کزنز کی آپس میں بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ وہ اسٹڈیز میں خاندان میں سب سے اچھا تھا اور یہ اس کی سب سے بڑی خوبی تھی جس کی وجہ سے وہ سراہا جاتا تھا۔ شکل و صورت کے اعتبار سے وہ بہت خوبصورت نہ سہی مگر بہت برا بھی نہیں تھا۔ خوش لباسی اس کی ایک اور اہم خصوصیت تھی مگر مجھے اس کی جو بات سب سے زیادہ پسند تھی۔ وہ سنجیدگی اور کم گوئی تھی۔ میری طرح اسے بھی اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا، خاص طور پر اکنامکس سے متعلق کیونکہ یہ اس کا مضمون تھا۔ میری طرح وہ بھی بہت اچھے آرٹیکلز لکھا کرتا تھا لیکن شاید ہم میں سب سے بڑی مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ ہم دونوں ڈبیٹر تھے۔ دونوں اچھے ڈبیٹر تھے مگر میں نے ڈبیٹس میں اتنے جھنڈے نہیں گاڑے تھے ،جتنے احتشام نے گاڑے تھے، وہ مجھ سے بہت بہتر ڈبیٹر تھا۔
جب دو لوگوں میں اتنی بہت سی خصوصیات مشترکہ ہوں تو پھر انھیں ان کا احساس ہو یا نہ ہو، دوسرے لوگوں کو ضرور ہو جاتا ہے۔ ہم دونوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ احتشام نے شان دار نمبروں کے ساتھ اکنامکس میں ماسٹرز کیا اور پھر فوراً ہی اسے بنک میں ایک بہت اچھی جاب مل گئی۔
جاب ملنے کے چند ہی دنوں بعد اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی، جب اس کی امی میرا رشتہ مانگنے کے لیے ہمارے گھر آ گئیں۔ گھر کیا آپ یہی سمجھیں، ہمارے حصے میں آ گئیں۔ میرے لیے یہ ایک حیران کن بات تھی۔ احتشام کے بارے میں ،میں نے کبھی اس طرح نہیں سوچا تھا مگر تائی نے امی کو بتایا تھا کہ وہ احتشام کی خواہش پر یہ رشتہ لے کر آئی ہیں۔ میرے والدین نے اسی وقت مجھ سے اس رشتے کے بارے میں پوچھا۔ مجھے یقینا کیا اعتراض ہو سکتا تھا اس لیے میں نے اپنی رضامندی دے دی، چنانچہ احتشام سے میری نسبت طے کر دی گئی اور یہ میری زندگی کے خوشگوار ترین واقعات میں سے ایک تھا۔ مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ کسی کے ساتھ منسوب ہو جانے کے بعد آپ کی اس شخص کے بارے میں فیلنگز بالکل بدل جاتی ہیں، میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
میں یہ نہیں جانتی کہ احتشام کو مجھ سے محبت کب ہوئی مگر مجھے احتشام سے محبت منگنی کے بعد ہوئی اور میرا خیال ہے، یہ محبت احتشام کی محبت سے زیادہ شدید تھی۔ منگنی کے بعد میرا اور احتشام کا آپس میں میل جول تقریباً ختم ہو گیا کیونکہ نہ تو شادی سے پہلے اس طرح کا میل جول ہمیں پسند تھا، نہ ہی یہ ہماری خاندانی روایات کے مطابق تھا۔ میں اس سے پردہ تو نہیں کرتی تھی مگر کوشش کرتی تھی کہ جہاں وہ ہو، وہاں جانے سے گریز کروں۔ یہی سب وہ بھی کرتا تھا مگر اگر کبھی آمنا سامنا ہو ہی جاتا تو ہم دونوں بڑے مہذب انداز میں ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے اور پھر اپنی راہ ہو لیتے۔
زندگی بڑے پرُسکون انداز میں گزر رہی تھی۔ ایم اے کے فوراً بعد میری شادی ہو جانی تھی کیونکہ احتشام کو ایم فل کے لیے بیرون ملک ایک سکالر شپ ملا تھا اور وہ مجھے ساتھ لے جاناچاہتا تھا۔ ان دنوں میں نے کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میرے لیے اللہ تعالیٰ کچھ اور پلان کر رہے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ پلان کرتا ہے، وہی دراصل آپ کی تقدیر ہوتی ہے اور اس تقدیر کے سامنے ہم سب بے بس ہوتے ہیں۔ خبر میں آپ کو بتا رہی تھی کہ میں ان دنوں احتشام کے ساتھ اپنی آنے والی زندگی کے منصوبے بنایا کرتی تھی کیونکہ میرے تو وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ کوئی چیز میرے اور احتشام کے درمیان رکاوٹ بن سکتی ہے مگر اظفر کی صورت میں وہ رکاوٹ سامنے آ ہی گئی۔
میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ میرے سب سے بڑے تایا بہت امیر تھے اور وہ میرے بچپن میں ہی جوائنٹ فیملی سسٹم سے الگ ہو گئے تھے۔ اظفر میرے انہی تایا کا بیٹا تھا، چونکہ وہ بچپن میں ہی اپنے الگ گھر شفٹ ہو گیا تھا اس لیے بہت کم ہی وہ ہمارے گھر آیا کرتا تھا۔ اگر آتا بھی تو سارا وقت بڑی تائی کے پاس بیٹھا رہتا۔ ہم سب کزنز اس کے جانے کے بعد اس کا خاصا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ ہمیں اس کی وضع قطع اور عادت کچھ ایسی ہی احمقانہ لگتی تھی۔ تائی امی کا سارا غرور ان کے بیٹے میں جھلکتا تھا۔ تائی امی کو کبھی بھی ہم لوگ اچھے نہیں لگتے تھے۔ تایا کے ساتھ وہ بہت کم ہی حویلی میں آتی تھیں اور اگر آتی تھیں تو ہر بار کسی نہ کسی چیز پر اعتراض ضرور کرتیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی کہ جتنی جلدی ہو سکے وہ تایا کو وہاں سے لے جائیں اور اکثر وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی رہتی تھیں۔
ہر بار وہ جب بھی آتیں، حویلی کی کسی نہ کسی چیز میں مین میخ ضرور نکالتیں اور ان کی باتیں میری امی سمیت دونوں تائیوں کا دل جلا دیتی تھیں۔
مجھے یاد ہے، ایک بار وہ ہمارے ہاں آئی تھیں اور ہم نے انھیں ہمیشہ کی طرح ڈرائنگ روم میں بٹھایا تھا مگر انھوں نے صوفے پر بیٹھتے ہی صوفے کے گھسے ہوئے کپڑے کو دیکھ کر کہا۔
”صوفیہ، تم نیا صوفہ کیوں نہیں خرید لیتیں کچھ زیادہ نہیں بس آٹھ دس ہزار ہی کی بات ہے۔” میری امی ان کی بات پر جل کر رہ گئی تھیں کیونکہ وہ جتنی رقم کی بات کر رہی تھیں، اتنی رقم تو میرے ابو کو تنخواہ بھی نہیں ملتی تھی پھر وہ جتنی دیر ہمارے ہاں بیٹھی رہیں، میری امی کو شہر کے فرنیچر کی بڑی بڑی دکانوں کے نام بتاتی رہیں جہاں سے جدید ڈیزائن کا انتہائی معیاری اور ”مہنگا” صوفہ بڑے آرام سے خریدا جا سکتا تھا۔ ان کے جانے کے بعد میری امی نے جوں توں کر کے صوفے کا کپڑا تبدیل کروا لیا تھا مگر اس تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ اگلے دو ماہ تک ہم لوگ گوشت نہیں کھا پائے تھے۔
مجھے بڑی تائی سے ان کی ایسی ہی حرکتوں کی وجہ سے چڑ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بہت صاف گو ہیں اسی لیے وہ یہ حق رکھتی ہیں کہ جس کو جب جی چاہے جو مرضی چاہے کہہ دیں اور پھر اگر ان کی بات پر کوئی ناراض ہوتا تو انھیں اس پر بھی اعتراض ہوتا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کی سچی بات پر کسی کو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ خود وہ کسی کی سچی بات سننے کی روادار نہیں تھیں۔ کیونکہ اپنے بارے میں سچی باتوں کو وہ دوسروں کا بغض اور حسد قرار دیتی تھیں۔ اگرچہ وہ حویلی میں بہت کم آیا کرتی تھیں لیکن ہم سب لوگوں کے بارے میں ”سچ” پھیلانے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔
اظفر ان کا بگڑا ہوا اکلوتا بیٹا تھا اور کسی کو بھی اس بات پر حیرت نہیں ہوتی تھی کیونکہ بڑی تائی کی اولاد سلجھی ہوئی کسی طور بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ اظفر بہت کم ہماری طرف آیا کرتا تھا۔ اس لیے اس سے میرا آمنا سامنا بھی بہت کم ہی ہوتا تھا بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس سے میرا آمنا سامنا شادی وغیرہ جیسے مواقع پر ہی ہوتا تھا۔ بڑے تایا کی اولاد سے ملنے میں ویسے بھی ہمیں دلچسپی کم ہی تھی۔ اگرچہ وہ حویلی نہیں آتا تھا مگر اس کے بارے میں اڑتی اڑتی خبریں ہم تک ضرور پہنچتی رہتی تھیں۔ مثلاً یہ کہ اسے پڑھائی میں دلچسپی نہیں ہے اور تایا اور تائی کی ”بھرپور کوشش” کے باوجود اسے پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ بی اے میں دو بار فیل بھی ہوا اور تیسری بار بھی وہ تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوا تھا۔
میرے کچھ کزن بھی اسی کالج میں پڑھتے تھے جس میں وہ پڑھتا تھا اور وہ اکثر بتاتے رہتے تھے کہ وہ کالج کے بجائے دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح والی جگہوں پر زیادہ پایا جاتا ہے پھر پتا چلا کہ اس نے بی اے کے بعد تعلیم چھوڑ دی ہے اور تایا کے ساتھ فیکٹری جانا شروع کر دیا ہے۔ اس کے بعد یہ بھی سنا کہ تائی اس کے لیے لڑکیوں کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہیں۔
اگرچہ ہمارے خاندان میں رشتے باہر نہیں کیے جاتے تھے مگر اس روایت کو توڑنے کا فریضہ بھی تائی نے ہی سرانجام دیا۔ انھوں نے اپنی تینوں بیٹیوں کی شادیاں خاندان سے باہر کیں اور جب انھوں نے یہ کیا تو خاندان یہ جان گیا کہ اب وہ بیٹے کی شادی بھی خاندان سے باہر ہی کریں گی اس لیے کسی نے اظفر کے ساتھ اپنی کسی بیٹی کا مقدر پھوڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ یہ ”سعادت” میرے حصے میں لکھی گئی ہے۔ اظفر سے میرا میل جول کس حد تک تھا، یہ میں آپ کو بتا ہی چکی ہوں، اب ایسے میل جول کے باوجود بھی اسے مجھ سے عشق ہو گیا اور وہ بھی تب، جب کہ میری احتشام سے منگنی ہو چکی تھی تو آپ خود ہی ایسے شخص کی ذہنی ابتری کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اظفر اکثر مجھے بتاتا رہتا کہ اسے مجھ سے محبت کب ہوئی تھی اور میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ کاش، میں اس دن کبھی اس کے سامنے نہ جاتی۔
یہ احتشام کے ساتھ منگنی کے کئی ہفتے بعد کا ذکر ہے، جب ایک دن میں سہ پہر کے وقت اپنے گھر سے نکل کر چھوٹے تایا کے گھر کی طرف جا رہی تھی۔ ہم سب کا دالان مشترکہ تھا اور ایک دوسرے کے حصوں میں جانے کے لیے ہمیں وہیں سے گزرنا پڑتا تھا۔ تایا کے گھر کی طرف جاتے جاتے اچانک میری نظر چھوٹے تایا کے برآمدے کی طرف اٹھی تھی اور وہاں میں نے اظفر کو کھڑا دیکھا۔ وہ بھی میری ہی طرف متوجہ تھا۔ اسے وہاں دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی تھی کیونکہ ایسا بہت کم ہوتا کہ وہ حویلی آتا مگر بہرحال آج وہ وہاں کھڑا تھا اور نہ صرف کھڑا تھا بلکہ مجھے دیکھ بھی چکا تھا۔
میں نے پہلے تو اظفر کو نظرانداز کر کے گزرنا چاہا مگر پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے، بڑی تائی بھی اظفر کے ساتھ آئی ہوں اور ظاہر ہے پھر تھوڑی دیر بعد وہ لوگ ہمارے گھر بھی آئیں گے اور یوں نظر انداز کر کے گزر جانا مجھے خاصا مہنگا پڑ سکتا تھا۔ اگر اظفر بڑی تائی سے اس کا ذکر کر دیتا تو کیونکہ بڑی تائی دوسروں کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں اور ان کے بیٹے سے بعیدنہیں تھا کہ وہ اپنی ماں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا اس لیے میں نے اسے نظر انداز کرنے کا ارادہ ترک کیا اور اس کی طرف آ گئی۔ اس کے پاس آ کر میں نے اس کا حال احوال پوچھا اور پھر تائی کے بارے میں دریافت کیا۔ یہ جان کر مجھے بڑی مسرت ہوئی تھی کہ تائی تشریف نہیں لائیں، اس کا مطلب تھا کہ اب ان کی خاطر مدارات اور تنقید سے ہم لوگ بچے رہتے۔
مجھے اس وقت شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا، جب اظفر نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور وہ بھی مسکرا کر۔ اظفر ہمیشہ بہت روکھے انداز میں سب سے مخاطب ہوتا تھا اس لیے اس کا یہ نرم لہجہ مجھ سے ہضم نہیں ہوا پھر میں نے اسے یہ بات جتا دی کہ اس کے گھر ہمیشہ ہم لوگوں کو شادی کی دعوت پر ہی بلایا جاتا ہے، ویسے نہیں اور میں نے اظفر سے پوچھا تھا۔
”کیا آپ کی شادی ہے؟’ اس کے بعد اس کے چہرے پر بے پناہ شرمندگی ابھر آئی تھی اور میں اسے شرمندہ کرنا نہیں چاہتی تھی اس لیے میں اس کی دعوت قبول کرنے کا کہہ کر تایا کے گھر چلی گئی۔
اس واقعے کے چند دن بعد اس وقت سب کی حیرت کی انتہا نہیں رہی، جب تایا نے میلاد کی محفل اپنے گھر منعقد کروائی اور اس میں پورے خاندان کو انوائٹ کیا، یہ ایک ایسا عجیب واقعہ تھا جس نے پورے خاندان کو حیرت کے بہت سے غوطے دیے۔ تایا اور تائی نے اوّل تو کبھی میلاد کی محفل منعقد کروائی ہی نہیں تھی کیونکہ تائی کا خیال بلکہ فرمان تھا کہ عقیدت دل میں ہوتی ہے، اس کا اظہار ضروری نہیں ہوتا اور اگر کبھی انھوں نے ایسی کسی دعوت کا اہتمام کیا بھی تو اس میں ہمارے خاندان کو بلانے کی زحمت نہیں کی۔ وہ ایسی تقریبات میں صرف اپنے میکے والوں کو بلایا کرتی تھیں۔ اب یک دم جب سب کو اس تقریب کے لیے بصد اصرار بلایا گیا تو حیرت تو ہونی ہی تھی۔
اس حیرت میں اس وقت کچھ اور بھی اضافہ ہو گیا۔ جب اظفر بھی تائی کے ساتھ اس تقریب کی دعوت دینے آیا اور اس نے میری اس دن کی بات جتاتے ہوئے کہا کہ اب تو مجھے اس کے گھر آنا ہی چاہیے۔
اظفر صاحب کی اس کایا پلٹ پر میں کافی حیران ہوئی تھی۔ کہاں یہ عالم کہ وہ بات کرنے پر تیار نہیں اور کہاں یہ عالم کہ اپنے گھر آنے کے لیے اصرار کیا جا رہا ہے۔ اس وقت تو میں نے اسے ایک Good will gesture کے طور پر لیا اور اظفر سے یہی کہا کہ میں میلاد میں آؤں گی مگر میرا وہاں جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ان دنوں میرے سمسٹر ہو رہے تھے اور میرے پاس اتنی فرصت نہیں تھی کہ میں پڑھائی کے علاوہ کسی اور جانب توجہ دیتی۔
مگر میرے لیے ابھی حیرانی کے بہت سے جھٹکے باقی تھے۔ میں میلاد والے دن اپنی ایک بہن کے ساتھ گھر پر ٹھہر گئی۔ امی کو تایا کے گھر گئے ابھی صرف ایک گھنٹا ہی ہوا تھا، جب دروازے پر دستک ہوئی اور دروازہ کھولنے پر میں نے اظفر صاحب کو وہاں موجود پایا۔
”آپ ہمارے گھر کیوں نہیں آئیں؟” میرے دروازہ کھولتے ہی اس نے کہا تھا۔
مجھے اظفر کو دیکھ کر جتنی حیرت ہوئی تھی، اس کے سوال کو سن کر اس سے زیادہ حیرت ہوئی۔
”کیا یہ صرف یہ پوچھنے آیا ہے کہ میں میلاد پر کیوں نہیں آئی اور اگر ایسا ہے تو آخر کیوں؟” اس سے پہلے کہ میں اپنے ذہن میں ابھرنے والا یہ سوال دہراتی میری بہن وہاں آ گئی۔




Loading

Read Previous

کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

Read Next

بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!