مات ہونے تک — عمیرہ احمد

”انھوں نے تمھارے ساتھ کیا کیا ہے فاطمہ؟”
”میں نہیں بتا سکتی، بس میں نہیں بتا سکتی۔ میں اب مر جانا چاہتی ہوں۔” وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا، میں شجاع کے ٹکڑے کر کے کتوں کے سامنے پھینک دوں۔ میں نے اس سے کہا تھا پھر بھی اس نے، آپ تو جان ہی گئے ہوں گے، میں کیا سمجھ رہا تھا۔ میں اس قدر بوکھلایا ہوا تھا کہ جب بات کرتے کرتے اس نے کہا کہ وہ میرے گھر آ رہی ہے اور اسے مجھ سے ایک پسٹل چاہیے جس سے وہ احتشام کو شوٹ کر سکے تو میں اس سے کوئی بات ہی نہیں کر سکا اور جب میں بات کرنے کے قابل ہوا تو وہ فون بند کر چکی تھی۔
اس کے فون بند کرنے کے فوراً بعد میں نے تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شجاع کو فوراً فون کیا اور اس کی آواز سنتے ہی میں اس پر برس پڑا۔ میری زبان پر جتنی گالیاں آ سکتی تھیں، میں نے اسے دے ڈالیں۔ وہ حیرانی سے مجھے گالیاں بکتے ہوئے سن رہا تھا۔ وہ بار بار مجھ سے کچھ کہنے کی کوشش کرتا مگر میں نے اسے کچھ بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اس وقت میں جس ذہنی کیفیت میں تھا، اس میں میں اس کی کوئی بات نہیں سن سکتا تھا۔
”یقین کرو اظفر، میں نے تمہاری کزن کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کی۔ میں نے تو اسے بہن کی طرح رکھا ہے۔” اس نے قسم کھاتے ہوئے بالآخر کہا۔ جواب میں، میں نے اسے کچھ اور گالیاں دیں۔
”فاطمہ جھوٹ نہیں بولتی اور اس نے خود مجھے کہا ہے کہ تم لوگوں نے اس کے ساتھ… شجاع، میں تم لوگوں کو قبر میں اتار دوں گا، تم یاد رکھنا۔”
”تمہاری کزن جھوٹ بول رہی ہے۔ الزام لگا رہی ہے ہم پر۔ ہم لوگوں نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔” وہ قسمیں کھاتا رہا مگر میں نے دھمکیاں اور گالیاں دینے کے بعد فون بند کر دیا۔
اب میں فاطمہ کا انتظار کر رہا تھا۔ میں اس سے ساری تفصیلات جاننا چاہتا تھا اور اس کے بعد ہی میں طے کرنا چاہتا تھا کہ مجھے شجاع کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے۔ میں اپنی گاڑی گیٹ سے باہر نکال لایا تھا اور بے چینی سے سڑک پر چکر لگا رہا تھا، جب وہ ایک رکشے پر آئی اور مجھے دیکھتے ہی رونے لگی۔
اس کا چہرہ ستا ہوا تھا اور میری اذیت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ میں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر لے آیا پھر میں نے اس سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ شجاع نے اس کے ساتھ کیا کیا اور یہ جان کر میری جان میں جان آئی کہ بدتمیزی کا سلسلہ صرف باتوں تک ہی محدود رہا تھا، انھوں نے اسے کوئی جسمانی نقصان نہیں پہنچایا۔
”مجھے پسٹل چاہیے۔ میں احتشام کو شوٹ کرنا چاہتی ہوں۔ یہ اغوا اسی نے کروایا ہے۔” اس نے مجھ سے کہا۔
”مگر وہ تمھیں اغوا کیوں کروائے گا؟”





”میں نے تم سے ہونے والی ساری باتیں اسے بتا دی تھیں اور اس کے بعد اس کا رویہ اچانک تبدیل ہو گیا تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا، جیسے وہ مجھ سے شادی کرنا نہیں چاہتا تھا، کسی نہ کسی طرح مجھ سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں بھی تمھارے ساتھ انوالو ہو چکی ہوں۔ تم دیکھو اس نے اسی لیے شادی سے پہلے اس طرح مجھے اغوا کیا ہے تاکہ مجھ سے شادی سے انکار کر دے مگر وہ مجھ سے شادی سے انکار کیا کرے گا، میں خود اس سے شادی کیسے کر سکتی ہوں۔ جو اس طرح کے گھٹیا حربے استعمال کرے۔ اظفر، میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گی، میں اسے مار ڈالوں گی۔” وہ اس وقت جنونی ہو رہی تھی۔
آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اسے احتشام سے اس طرح بدگمان دیکھ کر میری خوشی کن انتہاؤں کو چھو رہی ہوگی مگر بظاہر میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ شاید اسے غلط فہمی ہو گئی ہو اور احتشام نے اسے اغوا نہ کروایا ہو مگر وہ میری بات پر اور مشتعل ہو گئی۔وہ گھر جانا بھی نہیں چاہتی تھی مگر میں نے کسی نہ کسی طرح سمجھا بجھا کر اسے احتشام کو شوٹ کرنے کا ارادہ بدلنے پر مجبور کر دیا اور پھر میں زبردستی اسے اس کے گھر لے آ یا۔
ذرا اندازہ لگانے کی کوشش کریں کہ اس وقت میں کن فضاؤں میں پرواز کر رہا ہوں گا۔ ایک لڑکی جس کی نظروں میں آپ کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو، ایک دم آپ اس کی نظروں میں وہ وقعت حاصل کر لیں کہ کوئی دوسرا آپ کے سامنے ٹھہر ہی نہ سکے تو بندہ کیا محسوس کرتا ہے۔ میرا ہر وار کامیاب رہا تھا۔ یہ اغوا میرے لیے بہت ہی پروڈکٹو ثابت ہوا۔ میں جان چکا تھا کہ اب فاطمہ اور احتشام کی شادی ناممکنات میں سے ہے۔میں نے ہیر رانجھا کی اس کہانی میں کیدو کا کردار بڑی مہارت سے ادا کیا تھا اور توقع سے زیادہ کامیابی حاصل کی تھی مگر نہیں شاید ابھی میرے لیے کچھ انعامات باقی تھے جو اگلے دن میرے حصے میں آنے تھے۔
کیا آپ یقین کریں گے کہ اگلے دن پورے خاندان کے سامنے فاطمہ نے احتشام کے ساتھ شادی سے انکار کر دیا، نہ صرف انکار کر دیا بلکہ اس نے مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا اور وہ بھی علی الاعلان سب لوگوں کے سامنے۔ مجھے جو سکتہ ہونا تھا، وہ تو ہوا کیونکہ میں توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کرے گی اور وہ بھی اتنا فوری اور سب کے سامنے۔ یہ ایک ایسی بات تھی جس کے بارے میں ایک دن پہلے میں نے سوچا تک نہیں تھا مگر اس وقت جب سب کے سامنے اس نے مجھ سے کہا۔
”اظفر، تم مجھ سے شادی کرو گے نا؟ تم تو مجھے مایوس نہیں کرو گے۔ میں جانتی ہوں، تم دوسروں سے مختلف ہو۔ تم احتشام نہیں ہو۔” پھر میں نے احتشام کے چہرے پر پھیلنے والی تاریکی دیکھی اور اس کے بعد میں نے اس کی آنکھوں میں سے اپنے لیے ایک ایسے اعتماد کو دیکھا جو پہلے نہیں تھا تو بے اختیار میں نے سر ہلا دیا۔
آپ خود ہی سوچیں اگر وہ لڑکی جس سے بندہ محبت کرتا ہو، جس سے شادی کی خواہش رکھتا ہو اور وہ آپ کو بری طرح دھتکار دیتی ہو، کسی طرح بھی اس سے شادی کا کوئی امکان آپ کو نظر نہیں آتا اور پھر ایک دن وہی لڑکی بہتے آنسوؤں کے ساتھ بھری محفل میں آپ کو اپنا کہے اور آپ پر اپنے اعتماد کا اظہار کرے۔ آپ کو دوسروں سے مختلف کہے اور پھر اپنے سابقہ منگیتر کی طرح نہ ہونے کا بھی کہہ دے اور پھر شادی کی خواہش کا اظہار کرے تو آپ کے پاس کیا راہ فرار رہ جاتی ہے۔ کم از کم مجھے تو اس وقت فرار کی کوئی راہ نظر نہیں آئی یا آپ یہ سمجھ لیں کہ میں فرار ہونا ہی نہیں چاہتا تھا۔ میرے پاس ہمیشہ کے لیے فاطمہ کا دل اور وجود جیتنے کا موقع آیا تھا میں اسے کیوں گنواتا۔ میرے پاس پورے خاندان میں ہیرو بننے کا موقع آیا تھا تو میں اسے ہاتھ سے کیوں جانے دیتا۔
آدھے گھنٹے کے اندر میرے ماں باپ کی ناپسندیدگی اور ناراضگی کے باوجود فاطمہ کے ساتھ وہیں میرا نکاح ہو گیا اور پھر رخصتی بھی۔ ابو شروع میں ناراض تھے پھر چچا نے انھیں اکیلے میں لے جا کر شاید ان کی منت سماجت کی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ واپس آئے تو پہلے کی طرح اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے بجائے خاموش رہے اور میری امی کو کہنے لگے کہ یہ شادی ہو جانے دیں مگر میری امی نے جتنا بولنا چاہا، بولتی رہیں اور جب انھیں اندازہ ہو گیا کہ وہ یہ شادی نہیں روک سکتی تھیں تو وہ اٹھ کر گھر چلی گئیں۔ ابو نے اس وقت تو یہ شادی ہو جانے دی اور فاطمہ کو بخوشی بہو کے طور پر قبول کر لیا مگر پتا نہیں کیوں، اگلے کئی ماہ تک وہ مجھ سے اکھڑے اکھڑے رہے۔ چند ماہ گزرے تو وہ نارمل ہو گئے تھے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں اس طرح کی شادی پر ماں باپ کا ردعمل کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
فاطمہ کا حق مہر چچا نواز نے دس لاکھ طے کیا اور میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ میں نے بخوشی یہ حق مہر ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ وہ بے چارے خوف زدہ ہوں گے کہ ان کی بیٹی جس طرح کے حالات سے گزری تھی۔ بعد میں، میں کہیں اس کو چھوڑ نہ دوں مگر میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں کوئی بے وقوف نہیں تھا جو کفران نعمت کرتا۔
فاطمہ سے شادی کیسے بھی حالات میں کیوں نہ ہوئی ہو مگر وہ میرے لیے ایک آئیڈیل بیوی ثابت ہوئی۔ ایک ایسی بیوی جس کی نظروں میں، میں دیوتا سے کم نہ تھا۔ اس کا بس چلتا تو وہ اپنی جان بھی مجھ پر قربان کر دیتی۔ بقول اس کے میں نے اس پر احسان ہی اتنا بڑا کیا تھا۔وہ دن میں کئی کئی بار مجھ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتی رہتی۔ اپنی ممنونیت کا احساس دلاتی رہتی اور پھر جب میں اس سے یہ کہتا کہ وہ اب سب کچھ بھلا دے تو وہ کہتی۔
”نہیں اظفر، ہر بات بھلانے والی نہیں ہوتی۔ کم از کم وہ سب کچھ تو ہرگز نہیں جو تم نے میرے ساتھ کیا۔” یہ بات کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں میرے لیے کتنی عقیدت ہوتی، میں آپ کو نہیں بتا سکتا۔ شاید وہ اس وقت اپنے وجود کو میرے قدموں کے نیچے بچھا دینا چاہتی ہوگی۔ میرے حصے میں ایک ایسی عورت آ گئی تھی جو جدید دور کی دیوداسی تھی۔ کیا کوئی دوسرا مرد اتنا خوش قسمت ہو سکتا ہے۔
وہ صرف مجھ پر ہی جان نثار کرنے کو تیار نہیں رہتی تھی بلکہ میرے باپ اور بہنوں کے لیے بھی اپنی بانہیں وا کیے رکھتی تھی۔ میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ میری امی نے اس شادی کو قبول نہیں کیا تھا، چنانچہ انھوں نے فاطمہ کی زندگی کو عذاب بنا کر رکھ دیا۔ میرے سامنے فاطمہ کے ساتھ ان کا سلوک جتنا برا ہوتا، میری عدم موجودگی میں اس سے بھی زیادہ برا ہوتا۔ وہ فاطمہ کو ایسی ایسی باتیں سناتیں جن کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
مجھے فاطمہ کی برداشت پر حیرت ہوتی تھی جو بڑی خاموشی سے سب کچھ سن لیتی تھی اور پھر بھی امی کی خدمت پر کمربستہ رہتی تھی۔ بعض دفعہ جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا تو وہ میرے سامنے رونے لگتی اور امی کے الفاظ میرے سامنے دہراتی جو میرا خون کھولا دیتے۔ امی اسے اس کے اغوا کے حوالے سے طعنے دیا کرتی تھیں اور یہ تو صرف میں جانتا تھا کہ یہ اغوا میں نے کروایا تھا، فاطمہ اس معاملے میں بالکل بے قصور تھی مگر امی کو یہ کون سمجھاتا۔ بعض دفعہ تو ساری ساری رات سو نہیں پاتا تھا کیونکہ امی کے الفاظ کچھ ایسے ہی ہوتے تھے۔
پھر میرا امی کے ساتھ جھگڑا ہوتا اور امی ان ساری باتوں سے مکر جاتیں اور فاطمہ… وہ اتنی خوفزدہ ہوتی تھی کہ وہ امی کے سامنے ان کی کسی بات کی تردید نہ کرتی بلکہ یہی کہتی کہ انھوں نے اسے کچھ نہیں کہا۔ یہ سلسلہ صرف امی تک محدود رہتا تو شاید میں پھر بھی کسی نہ کسی طرح صبر کر لیتا مگر میری بہنیں بھی ایسی باتوں میں پیش پیش تھیں۔ میرے سامنے وہ کوئی بات نہ کرتیں مگر میری عدم موجودگی میں وہ فاطمہ کو ہر طرح سے ذلیل کرنے کی کوشش کرتی رہتیں اور وہ… وہ پھر بھی ان کی خاطر مدارت کرتی رہتی، صرف اس لیے کہ وہ میری بہنیں تھیں اور فاطمہ میری احسان مند تھی۔ اسے مجھ سے منسوب ہر چیز سے محبت تھی۔ بعض دفعہ تو مجھے شرمندگی ہوتی کہ میں نے آخر کیوں…؟
اسی پچھتاوے کو کم کرنے کے لیے میں نے اپنا گھر اس کے نام کر دیا۔ اس رات بھی وہ میری امی کی کچھ باتوں سے دل گرفتہ تھی پھر روتے روتے وہ کھڑکی میں جا کر کھڑی ہو گئی۔ میں اسے Console کرنے کے لیے اس کے پاس آگیا۔ وہ مجھ سے بات کرنے لگی اور بات کرتے کرتے اس نے کہا۔
”جب میری منگنی ہوئی تھی، احتشام کے ساتھ تو ان دنوں ایک بار احتشام نے میری امی سے کہا تھا کہ وہ باہر سے پڑھ کر واپس آنے کے بعد اپنا گھر بنائے گا جسے وہ میرے نام کر دے گا۔ جب امی نے مجھے یہ بات بتائی تو میں نے مذاق میں بات اڑا دی مگر بعد میں جب میں نے سوچا کہ ایک الگ اور اپنا گھر کتنی خوشی اور سکون کا باعث ہوتا ہے تو مجھے احتشام پر بہت…” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی اور میرے دل پر چھریاں سی چل گئیں۔ آخر وہ کیا کہتے کہتے رکی تھی۔
”میرے ساتھ اگر یہ حادثہ نہ ہوتا اور احتشام میرے ساتھ یہ سب نہ کرتا تو شاید آج میرا بھی اپنا ایک گھر ہوتا۔” اس نے چند لمحوں کے بعد کہا۔ ”اس گھر سے بھی بڑا… پھر کوئی اس طرح میری تذلیل نہیں کر سکتا تھا۔” وہ یک دم کہہ کر تیزی سے میرے پاس سے چلی گئی اور جا کر بیڈ پر لیٹ گئی مگر میرے اوپر ایک قیامت گزر رہی تھی۔ شادی کے بعد پہلی بار میں نے احتشام کا ذکر اس کے منہ سے اس طرح کسی حسرت سے منسوب ہو کر سنا تھا ورنہ وہ اگر احتشام کا ذکر کرتی تھی تو برے لفظوں میں ہی مگر اس رات اس نے مجھے ہولا دیا تھا۔
آخر وہ کہنا کیا چاہ رہی تھی۔ کیا یہ کہ جو کچھ احتشام اس کے لیے کر سکتا تھا، وہ میں نہیں کر سکتا تھا۔ آخر اس نے یہ سوچا ہی کیوں تھا۔ احتشام کا موازنہ کیوں کیا تھا اس نے میرے ساتھ؟ میرے اندر تو جیسے ایک آگ بھڑک اٹھی تھی۔ وہ بیڈ پر سو چکی تھی اور میں سگریٹ پھونک پھونک کر کمرے کے چکر لگاتا رہا۔ رات کے پچھلے پہر میں نے اسے نیند سے جگایا اور اسے بتا دیا کہ میں اپنا گھر اس کے نام کر رہا ہوں، اس نے انکار کر دیا مگر میں ایک بار جو طے کر لیتا تھا، وہی کرتا تھا۔ میں نے اس رات اس سے بہت سے وعدے کیے تھے، شاید لاشعوری طور پر میں خود کو احتشام سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
پھر اگلے کچھ سالوں میں، میں بالکل بدل کر رہ گیا یا آپ یہ کہہ لیں کہ فاطمہ نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔ گھر کے علاوہ ہر چیز میری زندگی سے نکل گئی۔ ایک اچھی بیوی کی سب سے بڑی خوبی یہی تو ہوتی ہے کہ وہ شوہر کو گھر کے علاوہ سب کچھ بھلا دیتی ہے اور فاطمہ ایک اچھی بیوی تھی۔ میں جو دوستوں کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کا عادی تھا، آہستہ آہستہ میں نے سارے دوست چھوڑ دیے۔ میرے لیے فاطمہ، میرے بچے اور میرا گھر ہی سب کچھ تھا۔ میں اپنے والدین اور بہنوں تک کو فراموش کر چکا ہوں اور مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ وہ لوگ فاطمہ کی عزت نہیں کرتے اور جو فاطمہ کی عزت نہیں کرتا، اس سے میں کوئی تعلق رکھنے پر تیار نہیں ہوں۔
فاطمہ کے نام میں نے صرف گھر ہی نہیں کیا اور بھی بہت کچھ کیا، نہ صرف اس کے نام بلکہ اپنے بچوں کے نام بھی۔ اس سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ فاطمہ ہر گزرتے سال کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ میری احسان مند ہوتی گئی۔ اس کی نظروں میں میرا مقام اور بڑھتا گیا۔ وہ مجھے ایک ایسا شوہر سمجھتی ہے جو اس کے لیے اللہ کا خاص انعام ہے اور میں نے اپنے ہر عمل سے اس بات کو ثابت کیا ہے۔ دولت اور جائیداد کے بدلے اگر کسی کا دل اس طرح جیت لیا جائے کہ وہ تا عمر آپ کا غلام بن جائے تو سودا برا تو نہیں ہے پھر چیزیں میرے نام رہیں یا اس کے، کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم دونوں میں علیحدگی تو ہو ہی نہیں سکتی۔ میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ فاطمہ مجھ سے عشق کرتی ہے، اس نے مجھے دیوتا کا درجہ دیا ہوا ہے، احسان مند ہے وہ میری۔ میں نے اسے اتنی زنجیروں میں باندھ رکھا ہے کہ وہ چاہے بھی تو خود کو آزاد نہیں کر سکتی اور وہ خود کو آزاد کروانا بھی کیوں چاہے گی۔
تو اب تو آپ جان ہی گئے ہیں نا کہ میں نے اس پر کیا احسان کیا ہے اور یہ کہ میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں کہ مرد عورت سے زیادہ عقلمند ہوتا ہے اور عورت لاکھ چاہے مگر ذہانت کے معاملے میں وہ کسی بھی طرح مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ آپ خود ہی سوچیں، میں نے ہر بازی، ہر داؤ کتنی مہارت سے لگایا، اتنی مہارت سے کہ آج پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی فاطمہ کو احساس تک نہیں ہو سکا کہ وہ جس کی بیوی بن کر ہر وقت اس کے احسانوں کے بوجھ تلے دبی رہتی ہے، اس نے اس کے ساتھ کتنا بڑا دھوکا کیا ہے۔ وہ جس کے ہر وقت گن گاتی رہتی ہے، اس نے اسے کس طرح مات دی ہے۔ پندرہ سال گزرنے کے باوجود وہ کچھ نہیں جان سکی اور باقی زندگی بھی وہ اسی طرح میرے ساتھ ہنسی خوشی گزار دے گی، میرے گن گاتے گاتے۔
اب آپ ہی بتائیں، جب وہ اکثر عورت کی عقل مندی کے بارے میں کچھ نہ کچھ بولتی رہتی ہے تو کیا مجھے اس پر ہنسی نہیں آئے گی۔ عورت اور عقل مندی… اور پھر مرد سے زیادہ عقل مند۔ ہے نا، ہنسنے والی بات۔
میں جانتا ہوں، آپ اگر مرد ہیں تو میری طرح ہنس رہے ہوں گے اور اگر عورت ہیں تو اس وقت سکتے کے عالم میں بیٹھی ہوں گی اور شاید یہ کہانی پڑھنے کے بعد اگلے ماہ خطوط کی محفل میں اس پر تنقید کے ڈونگرے برسائیں گی۔ میں جانتا ہوں، آپ ایسا ضرور کریں گی۔ وہ کیا کہتے ہیں کھسیانی بلی۔ چلیں خیر، اس بات کو چھوڑتے ہیں کہ عورت ہونے کی حیثیت سے آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟
ہم بات کرتے ہیں فاطمہ کی۔ فاطمہ جو میری بیوی ہے اور جس سے مجھے محبت ہے، اتنی محبت کہ میں وہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہو گیاجس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یقین کریں، فاطمہ سے مجھے واقعی میں محبت ہے مگر اس محبت کے باوجود میں یہ ماننے پر تیار نہیں کہ عورت مرد سے زیادہ عقل مند ہوتی ہے۔
مرد ہر بازی دماغ سے کھیلتا ہے، بس کبھی کبھار کوئی ایک بازی ایسی ہوتی ہے جسے وہ دل سے کھیلتا ہے اور جس بازی کو وہ دل سے کھیلتا ہے، اس میں مات کبھی نہیں کھاتا کیونکہ وہ بازی انا کی بازی ہوتی ہے پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے، یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟
*****




Loading

Read Previous

کس جہاں کا زر لیا — عمیرہ احمد

Read Next

بات عمر بھر کی ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!