میں نے شجاع سے کہا کہ وہ اگلے کچھ دنوں میں فاطمہ کی روٹین معلوم کرے، وہ کتنے بجے یونیورسٹی جاتی ہے، کس روٹ سے جاتی ہے اور اسی طرح اس کی واپسی کے بارے میں بھی۔ فاطمہ کے بارے میں کچھ ضروری تفصیلات میں نے اسے بتا دی تھیں اور کزن کی شادی پر کھینچی جانے والی اس کی ایک تصویر بھی اسے دے دی تھی۔
شجاع نے اگلے کچھ دنوں میں پورا پلان ورک آؤٹ کر کے مجھے دے دیا مگر میں فوری طور پر ابھی اس کا اغوا نہیں چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا، کچھ دن اور گزر جائیں۔ میرے پرپوزل والا ایشو اچھی طرح دب جائے پھر میں اپنے پلان پر عمل کروں۔
کچھ عرصہ اسی طرح گزرا اور پھر اچانک مجھے پتا چلا کہ احتشام اور فاطمہ کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے۔ اب مجھے جو کچھ کرنا تھا، وہ اس سے پہلے پہلے کرنا تھا کیونکہ ایک بار فاطمہ گھر بیٹھ جاتی تو ہمارا سارا پلان خراب ہو جاتا۔
جس دن اس منصوبے پر عمل ہونا تھا، اس دن میں نے ایک ریسٹورنٹ میں اپنے چند دوستوں کو چھوٹی سی پارٹی دی تھی اور یہ پارٹی ٹھیک اس وقت تھی، جب فاطمہ کو اغوا کیا جا رہا تھا۔ میں بہت محتاط تھا۔ کسی قسم کے شک و شبے سے بچنے کے لیے یہ اقدام ضروری تھا کیونکہ اگر پولیس تحقیق شروع کرتی تو پھر ہو سکتا ہے، مجھ پر شبے کا اظہار کیا جاتا اور اس وقت میری کوئی ایسی مصروفیت ضروری تھی جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ مجھے دیکھتے اور بعد میں میرے حق میں گواہی دے سکتے۔
پارٹی میں شامل کسی بھی دوست کو فاطمہ کے اغوا کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ دراصل وہ فاطمہ کے اغوا کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے تھے۔ میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ مجھے کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئی اور جب ہوئی تو میں نے اسے ممکنہ حد تک اپنے دوستوں سے چھپا کر رکھنے کی کوشش کی۔ پوری پارٹی کے دوران میں نہ چاہتے ہوئے بھی بے حد نروس تھا۔ میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ جہاں مجھے ایک طرف یہ فکر تھی کہ پتا نہیں منصوبے پر ٹھیک طرح سے عمل ہوتا ہے یا نہیں، وہاں یہ بھی پریشانی تھی کہ فاطمہ بخیریت ہو حالانکہ میں بار بار شجاع سے کہہ چکا تھا پھر بھی مجھے یہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں وہ اس کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہ کر بیٹھے۔
پارٹی چار بجے ختم ہوئی اور پارٹی ختم ہونے کے بعد میں گھر چلا آیا مگر اس سے پہلے میں ایک پی سی او سے شجاع کو فون کر چکا تھا۔ اس نے مجھے اطلاع دی کہ منصوبہ پوری طرح سے کامیاب ہوا ہے اور وہ فاطمہ کو اغوا کر چکا ہے۔ فاطمہ کو اغوا کرنے کے بعد وہ اپنے ایک بنگلے میں لے آیا تھا اور چوری کی وہ گاڑی جس پر فاطمہ کا اغوا ہوا تھا وہ بھی شہر کے ایک بارونق علاقے میں چھوڑی جا چکی تھی۔ میں نے ایک بار پھر شجاع کو ہدایت کی کہ فاطمہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ وہ ابھی بے ہوش تھی اور میں اس لیے بھی زیادہ فکرمند تھا۔
”یار، تمھیں ایک بار میری بات پر اعتبار کر لینا چاہیے۔میں قول کا اتنا کچا نہیں ہوں۔” شجاع نے ایک بار پھر مجھے دلاسا دیا۔ میں اسے کچھ اور ہدایات دے کر گھر چلا آیا۔
”تمھارے ابو کو تمھارے سب سے چھوٹے چچا نے کچھ دیر پہلے فون کیا تھا، وہ کافی پریشانی میں گئے ہیں۔” امی نے گھر پہنچتے ہی مجھے اطلاع دی۔ میں بے اختیار کچھ نروس ہو گیا۔
”کیوں سب خیریت تو ہے نا وہاں؟ کوئی بیمار تو نہیں ہے؟” میں نے بڑی بے نیازی سے پوچھا۔
”یہ تو مجھے نہیں پتا۔”
”تو آپ فون کر کے پوچھ لیتیں۔” میں نے مشورہ دیا۔
”میں نے فون کیا تھا مگر تمھارے ابو نے کچھ بتانے کے بجائے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ جب تم گھر آؤ تو تمھیں بھی چچا کے گھر بھیج دوں۔” میرا دل امی کی بات پر ایک دم دھڑک اٹھا مگر بظاہر نارمل نظر آتے ہوئے میں نے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ میں چلا جاتا ہوں، پتا نہیں کیا بات ہے؟ کوئی جھگڑا نہ ہو گیا ہو۔” میں نے کہا۔
”تم وہاں جا کر فون کر کے مجھے بتانا کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ اتنی پرُاسراریت کیوں برتی جا رہی ہے؟” امی نے پرتجسس انداز میں کہا، میں سر ہلاتا ہوا باہر آ گیا۔
گاڑی کو حتیٰ المقدور آہستہ اسپیڈ سے چلاتے ہوئے میں نے آدھے گھنٹے کا راستہ ایک گھنٹے میں طے کیا اور حویلی پہنچ گیا۔ گیٹ پر پولیس کی ایک موبائل کھڑی تھی۔میرے دل کی دھڑکن یک دم اور تیز ہو گئی۔ چند لمحے میں خود کو نارمل کرتا رہا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے چہرے پر کوئی ایسے تاثرات ہوں جن سے مجھ پر شبہ ہو سکے کیونکہ اندر نہ صرف مجھے پورے خاندان کا سامنا کرنا تھا بلکہ پولیس والوں کے سامنے بھی جانا تھا اور ان کی نظروں کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔
گھر کے اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے میرا جس سے سامنا ہوا تھا، وہ احتشام تھا۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ میں نے بہت نارمل نظر آنے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے علیک سلیک کی۔
”ابو نے کہا تھا کہ میں فوراً یہاں پہنچ جاؤں۔ سب خیریت تو ہے نا۔ باہر موبائل بھی کھڑی ہے۔ کسی کا جھگڑا تو نہیں ہو گیا؟” میں نے سلام کرتے ہی اس سے پوچھنا شروع کر دیا۔
”فاطمہ کو یونیورسٹی سے کسی نے اغوا کر لیا ہے۔” اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”کیا؟” میں یک دم چلایا۔ ہر ڈرامے اور فلم میں شدید حیرت کا اظہار اسی طرح کیا جاتا ہے۔ ”کیا کہہ رہے ہو احتشام۔” میں نے اپنے چہرے پر شاک کی کیفیت پیدا کرتے ہوئے کہا۔
”میں سچ بتا رہا ہوں۔”
”لیکن یہ ہوا کیسے؟”
”یونیورسٹی سے پہلے فون آیا پھر انھوں نے ہی ایف آئی آر لکھوا دی، ہمیں تو انہی لوگوں سے پتا چلا ہے سب کچھ۔”
”مگر فاطمہ کو کون اغوا کر سکتا ہے؟ کیا چچا کی کسی کے ساتھ دشمنی تھی؟”
”نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے اسی لیے تو ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کسی نے فاطمہ کو کیوں اغوا کیا ہے، وہ ایسی لڑکی نہیں ہے کہ…”
”ہو سکتا ہے، اسے کسی اور لڑکی کی غلط فہمی میں اغوا کیا گیا ہو۔” میں نے فوراً اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
”اگر ایسا ہوتا تو بھی اب تک وہ لوگ اسے چھوڑ چکے ہوتے مگر وہ اب تک گھر نہیں آئی۔” وہ بے حد پریشان نظر آ رہا تھا اور اس کی پریشانی سے مجھے بڑی خوشی ہو رہی تھی۔ اگر وہ فاطمہ کی زندگی میں نہ آیا ہوتا تو فاطمہ کو اس پریشانی سے گزرنا پڑتا، نہ ہی مجھے یہ قدم اٹھانا پڑتا۔ یہ سب احتشام کی وجہ سے ہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہوئے سارا الزام اس کے سر رکھ دیا۔
پھر اسی کے ساتھ میں اندر گیا۔ بڑے چچا کے ڈرائنگ روم میں خاندان کے سارے مردوں کے ساتھ چند پولیس والے بھی موجود تھے۔ میں حتیٰ المقدور پرُسکون چہرے کے ساتھ اندر داخل ہوا تھا مگر چہرے پر کچھ رنجیدگی کے تاثرات ضرور تھے۔ خاصی گہری نظروں سے میرا جائزہ لیا گیا تھا پھر ابو میری طرف لپکے تھے۔
”یہ سب کیا ہوا ہے ابو، احتشام مجھے بتا رہا تھا کہ…” ابو نے میری بات کاٹ دی۔
”ہاں فاطمہ کو اغوا کر لیا گیا ہے اور ابھی تک اس کا کچھ پتا نہیں چلا۔ تم کہاں تھے، میں نے اتنی دیر کا پیغام چھوڑا ہوا ہے، تمھارے لیے۔”
”ابو، میں کچھ دوستوں کے ساتھ ہوٹل میں لنچ کر رہا تھا۔ ابھی گھر پہنچا تو امی نے ادھر بھیج دیا۔” میں نے انھیں بتایا۔
وہ مجھے ساتھ لیے چھوٹے چچا کے پاس چلے گئے جو صوفے پر بیٹھے نڈھال نظر آ رہے تھے۔ میں بھی ان کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میں نے انھیں تسلی دینی شروع کی۔
”چھوٹے چچا، آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ فاطمہ کو کچھ نہیں ہوگا۔ وہ مل جائے گی۔ ہو سکتا ہے، اسے کسی دوسری لڑکی کے دھوکے میں اغوا کر لیا گیا ہو ورنہ فاطمہ تو بہت اچھی لڑکی ہے۔” میری باتوں سے ان کی رنجیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا مگر انھوں نے سر ہلا دیا۔ میں پولیس والوں کی نظروں کو مسلسل خود پر محسوس کر رہا تھا مگر مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ پولیس والے ایسے موقع پر ہر ایک کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
”یہ کون ہیں؟” ایک پولیس والے نے میرے بارے میں استفسار کیا۔
”یہ میرے سب سے بڑے بھائی کا اکلوتا بیٹا ہے۔” چھوٹے چچا نے پھیکے لہجے میں کہا۔
”اچھا، کیا کرتے ہیں؟” اس بار عقابی نظروں سے میرا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا گیا۔
میں نے مختصراً اپنا تعارف کروایا۔
”اس وقت آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟”
”دوستوں کے ساتھ ایک ہوٹل میں لنچ تھا، وہاں سے گھر آیا تو ابو کا پیغام ملا کہ یہاں آ جاؤں۔” میری بات پرچھوٹے چچا نے مداخلت کی۔
”آپ اظفر سے اس طرح چھان بین کیوں کر رہے ہیں، یہ تو میرے بیٹے جیسا ہے۔”
”نہیں چھوٹے چچا، کوئی بات نہیں، ان کا کام ہی تفتیش کرنا ہے، انھیں اپنا کام کرنے دیں۔” میں نے بڑی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس انسپکٹر کو اپنا کام جاری رکھنے کے لیے کہا۔ اس نے مجھ سے چند اور سوال کیے اور اس کے بعد باقی پولیس والوں کے ساتھ اٹھ کر چلا گیا۔
جوں جوں اندھیرا چھا رہا تھا حویلی میں ایک سوگ کی کیفیت بڑھتی جا رہی تھی۔ اگر فاطمہ کو میں نے اغوا نہ کیا ہوتا تو شاید اس وقت میں بھی ان لوگوں کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے اتنی ہی تکلیف کا شکار ہوتا مگر اب اس کو اغوا کرنے کے بعد میں جانتا تھا کہ وہ میرے پاس ہے اس لیے میں مصنوعی پریشانی کے تاثرات لیے چچا اور ان کے گھر والوں کو تسلیاں دیتا رہا۔ میری امی بھی وہاں آ چکی تھیں بلکہ پورا خاندان ہی وہاں جمع تھا۔ لوگ طرح طرح کے مشورے دے رہے تھے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں، ایسے موقع پر لوگوں کو اپنے دل کا غبار نکالنے کا اچھا موقع مل جاتا ہے۔ لوگوں کو مسئلے کے حل میں اتنی دلچسپی نہیں ہوتی جتنی مشورہ دینے میں۔ وہاں موجود سب لوگ بھی یہی کرنے میں مصروف تھے اور میں بڑے اطمینان سے وہاں موجود لوگوں کے تاثرات سے ان کے دلوں کا حال جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔
رات گئے میں اپنے والدین کے ساتھ واپس گھر آ گیا۔ گھر آنے کے بعد میں نے نہ تو شجاع کو فون کرنے کی کوشش کی، نہ ہی اس کے پاس جانے کی کوشش کی۔ یہ دونوں چیزیں میرے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی تھیں کیونکہ ہو سکتا تھا، پولیس نے مجھ پر نظر رکھی ہوئی ہوتی اور میرا فون ٹیپ ہو رہا ہوتا یا میرا پیچھا کیا جاتا اس لیے میں اطمینان کے ساتھ گھر پر ہی رہا مگر رات کو میں کچھ بے چین ضرور تھا۔
اگلے دن صبح ہی صبح میں نے ایک پی سی او سے شجاع کو فون کیا اور اس سے فاطمہ کے بارے میں پوچھا۔
”یار، تمہاری کزن عجیب لڑکی ہے۔ نہ اس نے کوئی رونا دھونا مچایا ہے، نہ ہی کوئی ہنگامہ کھڑا کیا ہے، بس خاموش ہے۔ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ میں نے کس کے کہنے پر اسے اغوا کیا ہے۔ میرے نہ بتانے پر اس نے پوچھنے پر اصرار نہیں کیا۔” وہ مجھے فاطمہ کے بارے میں بتا رہا تھا۔ میں جانتا تھا، وہ ایسی ہی لڑکی ہے مگر شجاع یہ نہیں جانتا تھا۔ اسے فاطمہ کے بارے میں کچھ اور ہدایات دے کر میں واپس گھر آ گیا۔
گھر پر ابو بے حد پریشان تھے۔ بھائیوں سے ان کے تعلقات پہلے جیسے نہ سہی مگر بہرحال نواز چچا ان کے بھائی تھے اور فاطمہ ان کی بھتیجی ان کی پریشانی فطری تھی۔ میری امی بے حد مطمئن تھیں بلکہ شاید شکر کر رہی تھیں کہ فاطمہ سے میری نسبت طے نہیں ہوئی تھی ورنہ شاید آج ہم لوگ بھی اسی پریشانی سے گزر رہے ہوتے۔ اب یہ انھیں کون بتاتا کہ اگر فاطمہ کی نسبت مجھ سے طے ہو جاتی تو پھر فاطمہ کے اغوا کی نوبت ہی نہیں آتی۔
وہ سارا دن بھی میں نے حویلی میں ہی گزارا۔ احتشام کے گھر جانے سے پہلے میں اپنے ایک دوست کے گھر چلا گیا۔ وہ میرے اس کارنامے سے واقف نہیں تھا۔ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کے فون کو استعمال کرتے ہوئے شجاع سے بات کی اور اس سے ہونے والی گفتگو نے مجھے کچھ اضطراب میں گرفتار کر دیا۔
”یار، تمہاری کزن نے تو آج مجھے پریشان ہی کر دیا۔” شجاع نے فون ملتے ہی کہا۔ میں کچھ بے چین ہو گیا۔
”کیوں کیا ہوا؟”
”ہونا کیا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ مجھے کس نے اغوا کیا ہے؟” شجاع کی بات پر ایک لمحے کے لیے میرا سانس رک گیا۔
”کیا؟” میں نے بے اختیار کہا۔
”گھبراؤ مت، میں بھی ایسے ہی پریشان ہو گیا تھا پھر اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے میرے کزن نے اغوا کیا ہے۔” شجاع کی اگلی بات پر میرے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا، وہ اس قدر ذہین تھی کہ مجھے بوجھ لیتی۔ مجھے اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا نظر آنے لگا تھا۔
”میں نے اس سے پوچھا، کون سے کزن نے؟ تو اس نے کہا احتشام نے؟” شاید مجھے 440 وولٹ کا کرنٹ بھی لگتا تو مجھے اتنا شاک محسوس نہیں ہو سکتا تھا، جتنا مجھے شجاع کی اس بات سے محسوس ہوا تھا۔
”یہ احتشام کون ہے اظفر؟” اب شجاع مجھ سے پوچھ رہا تھا۔ جبکہ میرا ذہن غوطے کھا رہا تھا کہ اس نے احتشام کا نام اس سلسلے میں کیوں لیا۔
”تمھیں یقین ہے، اس نے احتشام کا ہی نام لیا تھا؟” میں نے کچھ بے یقینی سے پوچھا۔
”ہاں یار، مجھے کوئی دھوکا کیسے ہو سکتا ہے؟” وہ کچھ برا مان گیا۔ ”اور اس نے یہ بھی فرمائش کی ہے کہ جب اسے رہا کیا جائے تو بے ہوش نہ کیا جائے بلکہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جایا جائے اب تم بتاؤ کہ اس کی بات مانی جائے یا نہیں۔” شجاع مجھ سے پوچھ رہا تھا، جبکہ میں ابھی تک الجھا ہوا تھا اور اسی الجھن میں، میں نے اسے اجازت دے دی کہ وہ فاطمہ کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے رہا کرے۔
مگر اصل جھٹکا تو ابھی میرا منتظر تھا۔ فاطمہ کو اگلے دن دوپہر کے بعد رہا کرنا تھا اور میں اس وقت اپنے گھر چلا گیا تاکہ شجاع مجھے اس کی رہائی کی اطلاع دے سکے۔ دوپہر کے بعد شجاع نے فون پر مجھے انفارم کر دیا تھا کہ میں نے فاطمہ کو کس علاقے میں چھوڑا ہے۔ میں مطمئن ہو کر گھر سے نکلنے ہی والا تھا، جب ملازم نے مجھے کسی لڑکی کے فون کی اطلاع دی۔ میں کچھ حیران ہو کر فون کی طرف آیا کیونکہ میرے کسی لڑکی سے اتنے اچھے اور قریبی تعلقات نہیں تھے کہ وہ میرے گھر فون کرتی مگر فون پر فاطمہ کی آواز سن کر مجھے یوں لگا تھا، جیسے میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔ اس سے زیادہ حیران کن بات کیا ہو سکتی تھی کہ رہا ہونے کے بعد گھر جانے کے بجائے یا گھر فون کرنے کے بجائے وہ مجھے فون کر رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا۔
”فاطمہ، تم کہاں سے بات کر رہی ہو؟”
”میں ایک پی سی او سے بات کر رہی ہوں۔” مجھے اس نے روتے ہوئے بتایا تھا۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا مگر یہ سچ ہے کہ اس وقت اسے اس طرح روتے ہوئے بات کرنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ مجھے تکلیف ہو رہی تھی حالانکہ یہ سب کچھ میرا ہی کیا دھرا تھا پھر بھی میں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”فاطمہ دیکھو پلیز، خاموش ہو جاؤ۔ روؤ مت، مجھے اس پی سی او کا پتا بتاؤ، میں وہاں آ جاتا ہوں۔” میری بات کے جواب میں اس نے جو کہا تھا، اس نے حقیقی معنوں میں میرے وجود کو برف کی طرح سرد کر دیا تھا۔ اس نے بلند آواز میں روتے ہوئے کہا۔
”اظفر ان لوگوں نے میرے ساتھ… میرے ساتھ بہت بدتمیزی کی ہے۔” چند لمحوں کے لیے میں کچھ بولنے کے قابل نہیں رہا۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میری ہدایات کے باوجود شجاع… اگر فاطمہ کو کچھ… میں نے تقریباً چلاتے ہوئے اس سے پوچھا۔