اصل میں میری خالہ نے احتشام کے ٹاپ کرنے پر میری امی سے کہا تھا کہ وہ ان کی بیٹی کے لیے احتشام کے والد یعنی میرے چچا سے بات کریں۔ امی نے اس سلسلے میں ان سے بات کی تھی مگر منجھلے چچا نے دوٹوک انکار کر دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ خاندان میں لڑکیوں کے ہوتے ہوئے وہ خاندان سے باہر کبھی نہیں جائیں گے اور ویسے بھی احتشام شروع سے ہی فاطمہ کو پسند کرتا تھا اس لیے کہیں اور رشتہ کرنے کی تو گنجائش ہی نہیں تھی۔ امی کو منجھلے چچا سے اس قسم کے کورے جواب کی توقع نہیں تھی اس لیے ان کا غصہ کچھ اور بھی زیادہ ہو گیا تھا۔ ناراضگی انھیں صرف منجھلے چچا سے نہیں تھی بلکہ سب سے چھوٹے چچا سے بھی تھی کیونکہ انھوں نے بھی میری امی کی خواہش جاننے کے باوجود منجھلے چچا کے بیٹے سے اپنی بیٹی کی نسبت طے کر دی تھی۔ اب ظاہر ہے، ایسی باتوں پر میری امی چراغ پا نہ ہوتیں تو کیا کرتیں۔ کچھ بھی تھا، وہ اس خاندان کے بڑوں میں سے تھیں لیکن پھر بھی ان کی بات کو اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ خیر چند ماہ امی کا پارا آسمان پر رہا پھر آہستہ آہستہ وہ نارمل ہوتی گئیں۔
میں احتشام اور فاطمہ دونوں سے ذاتی طور پر زیادہ واقف تھا۔ ان سے ملاقات کبھی کبھار ہی ہوتی تھی اور وہ بھی سلام دعا سے زیادہ نہیں بڑھتی تھی۔ احتشام ویسے بھی مجھے تقریبات میں کم ہی نظر آتا تھا۔ جہاں تک فاطمہ کا تعلق تھا تو اس سے بھی میری شناسائی بہت محدود سی تھی۔ وہ ان دنوں یونیورسٹی میں پڑھا کرتی تھی، کو ایجوکیشن میں اور یہ بات مجھے ویسے ہی ناپسند تھی۔ خاندان کی باقی لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کر رہی تھیں لیکن کسی نے بھی یونیورسٹی تک جانے کی ہمت نہیں کی تھی اور یہ ہمت اگر کسی نے کی بھی تو صرف فاطمہ نے اور یقینا چھوٹے چچا کی شہ پر۔ میں ان دنوں تعلیم یافتہ لڑکیوں کو زیادہ پسند نہیں کرتا تھا اور خاص طور پر کو ایجوکیشن میں پڑھنے والی لڑکیوں کو۔ آپ خود ہی بتائیں ،آخر لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ٹھیک ہے، تھوڑا بہت پڑھ لیں، جتنا ضروری ہے لیکن لمبی چوڑی ڈگریوں کی انھیں کیا ضرورت ہے؟ کیا میں یہاں وہی جملہ دہراؤں کہ آخر کو تو انھیں ہانڈی چولہا ہی… خیر اگر وہ تعلیم حاصل کرنا ہی چاہتی ہیں تو پھر کو ایجوکیشن میں پڑھنا تو خاصا نامناسب کام ہے۔
فاطمہ کا یونیورسٹی میں داخلہ لینا، ہماری خاندانی روایات سے کھلم کھلا انحراف تھا اور اس بات پر میری امی اور ابو نے کافی اعتراضات بھی کیے تھے مگر کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ چھوٹے چچا نے خاموشی سے ان کی باتیں سنیں اور بس۔ بہرحال فاطمہ کے بارے میں میری رائے کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی اور یہی حال میرے گھر والوں کا تھا۔ خاص طور پر امی کبھی بھی اس کا ذکر اچھے لفظوں میں نہیں کرتی تھیں۔
زندگی میں کچھ واقعات بڑے عجیب ہوتے ہیں اور وہ واقعات زندگی میں بہت اہم بھی ہوتے ہیں۔ اب پتا نہیں، وہ عجیب ہونے کی وجہ سے اہم ہوتے ہیں یا اہم ہونے کی وجہ سے عجیب۔ محبت بھی ایک ایسا ہی عجیب واقعہ ہوتا ہے اگرچہ میں تعلیمی میدان میں کچھ زیادہ نمایاں نہیں تھا مگر اس ایک خامی کے علاوہ میرے اندر کوئی دوسری خامی نہیں پائی جاتی تھی۔ میں کسی بری صحبت کا بھی شکار نہیں تھا اگرچہ روپیہ خرچ کرنا پسند کرتا تھا مگر بہرحال اس کو اندھا دھند نہیں لٹاتا تھا، خاص طور پر فیکٹری سنبھالنے کے بعد اور آپ کو یقین آئے یا نہ آئے لیکن یہ صحیح ہے کہ مجھے کسی زمانے میں بھی لڑکیوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ عشق و محبت تو بڑے دور کی بات تھی۔ اس اعتبار سے آپ مجھے ایک اچھے کردار کا بندہ کہہ سکتے ہیں۔ اصل میں لڑکیوں کے بارے میں اس عدم دلچسپی کی بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی شاید یہ تھی کہ مجھے شروع سے ہی کچھ دوسری چیزوں کا جنون کی حد تک شوق رہا تھا، مثلاً سیر و تفریح، سپورٹس اور شاپنگ اور یہ صرف میرے شوق نہیں تھے، میرے جنون تھے۔ جب آپ زندگی اس طرح کی سرگرمیوں میں گزارتے رہے ہوں تو پھر کسی اور سرگرمی کا خیال ذرا مشکل سے ہی ذہن میں آتا ہے۔ جب ان سرگرمیوں سے فراغت نصیب ہوتی تو پھر والدین کو خوش کرنے کے لیے کتابیں اٹھائے پھرتا میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ انھیں شروع سے ہی مجھے بیرون ملک تعلیم دلوانے کا بہت شوق رہا تھا اور اس شوق نے میری زندگی کو خاصا محدود کر دیا تھا۔ جب تعلیم سے فارغ ہوا تو پھر فیکٹری کی ذمے داری کندھوں پر آ گئی۔ اس میں تبدیلیاں لانے میں میرے باقی شوق یا جنون بھی کم ہو گئے۔ ہمیشہ کے لیے نہ سہی مگر فیکٹری سنبھالنے کے دو تین سال بعد تک میں نے فیکٹری کے سوا اور کوئی مصروفیت نہیں پالی۔ فیکٹری ان دنوں میرے حواس پر سوار تھی اور ظاہر ہے، اس طرح کی زندگی گزارنے والا بندہ عشق و محبت کے روگ کیسے پال سکتا ہے، سو ایک لمبے عرصے تک میں بھی ان تمام روگوں سے بچا رہا مگر آخر کب تک…
اس دن ابو نے مجھے کسی کام سے بڑے چچا کے پاس بھیجا تھا۔ چچا اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ چچی نے مجھے یہ کہہ کر بٹھا لیا کہ وہ بس آنے ہی والے ہیں ،میں کچھ دیر انتظار کر لوں۔ میں نے کوشش کی کہ میں انتظار کرنے کے بجائے وہاں سے نکل آؤں لیکن میری کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ چچی نے اتنا اصرار کیا کہ مجھے بیٹھنا ہی پڑا۔
وہ میرے لیے چائے کا انتظام کرنے کچن میں چلی گئیں۔ میں اندر ڈرائنگ روم میں بیٹھے رہنے کے بجائے باہر لان کی طرف نکل گیا۔ برآمدے میں کھڑے ہو کر میں دالان میں لگے ہوئے پودوں کو دیکھ رہا تھا اور تبھی میں نے چھوٹے چچا کے گھر والے حصے سے اسے نکلتے دیکھا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ بچپن یہیں ان لوگوں کے ساتھ کھیلتے گزارا تھا اور اب بھی کبھی کبھار کسی تقریب میں اس پر نظر پڑ ہی جاتی تھی مگر پتا نہیں، اس دن وہ مجھے اتنی مختلف کیوں لگی۔ شاید اس کی وجہ وہ مختلف قسم کی باتیں اور تاثرات تھے جو میں اپنے گھر والوں سے اس کے بارے میں سنتا اور سوچتا رہا تھا۔ لاشعوری طور پر میں اس کو دیکھتا رہا۔ پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ وہ خاصی دراز قد تھی۔ سیاہ قمیض اور سفید شلوار میں ملبوس سفید دوپٹہ بے پروائی سے گلے میں ڈالے ہوئے کندھوں سے نیچے تک لٹکتے ہوئے سیاہ چمک دار بالوں کو ہیئر بینڈ میں لپیٹے ہوئے وہ منجھلے چچا کے گھر کی طرف جا رہی تھی۔ اس نے ابھی تک مجھے نہیں دیکھا تھا اور پتانہیں کیوں لیکن میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس وقت میری طرف متوجہ ہو۔ بعض لمحے قبولیت کے ہوتے ہیں۔ شاید وہ لمحہ بھی تھا۔ منجھلے چچا کے برآمدے تک پہنچتے پہنچتے اس نے ایک سرسری نظر بڑے چچا کے حصے کی طرف ڈالی تھی اور پھر اس کے قدم ٹھٹک گئے تھے۔ کچھ دیر تک وہ شاید یہ فیصلہ کرتی رہی تھی کہ اسے میری طرف آنا چاہیے یا نہیں لیکن پھر وہ جیسے کسی فیصلے پر پہنچ گئی تھی۔ میں نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا۔ پتا نہیں کیوں لیکن بے اختیار میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔ اس نے گلے میں پڑا ہوا دوپٹہ اب اپنے کندھوں پر پھیلا لیا تھا۔
”السلام علیکم، کیسے ہیں آپ؟” وہ بالکل میرے سامنے آ کر رک گئی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں؟” میں نے اپنے دل کی دھڑکن پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا۔
”میں بھی بالکل ٹھیک ہوں۔ اکیلے آئے ہیں؟” اس نے مجھ سے پوچھا تھا۔
”ہاں اکیلا ہی آیا ہوں، اصل میں ابو نے بھیجا ہے، بڑے چچا کے پاس ایک کام کے سلسلے میں۔” میں نے اسے بتایا۔
”بڑے چچا تو ابھی شاید آفس سے واپس نہیں آئے ہوں گے۔”
”ہاں، چچی کہہ رہی ہیں کہ ابھی تھوڑی دیر میں آ جائیں گے۔ میں انہی کا انتظار کر رہا ہوں۔” پتا نہیں کیوں میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اس سے باتیں کرتا رہوں۔
”ٹھیک ہے۔ آپ انتظار کریں، مجھے ذرا منجھلے چچا کی طرف کام ہے۔” اس نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا اور پھر واپس مڑنے لگی۔
”آپ آئیں نہ کبھی ہماری طرف۔” وہ میری بات پر مڑتے مڑتے رک گئی تھی۔ میں نے اس کے چہرے پر یک دم حیرانی دیکھی پھر لمحوں میں وہ نارمل ہو گئی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
”آپ کی شادی ہو رہی ہے کیا؟” میں اس کی بات پر گڑبڑا گیا۔
”مطلب؟”
”اصل میں آپ لوگوں کی طرف سے ہمیں صرف کسی شادی پر ہی بلایا جاتا ہے اور اب اپنے گھر میں صرف آپ ہی بچے ہیں تو میں نے سوچا شاید…” فوری طور پر میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اس کی بات کا کیا جواب دوں۔
”نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے گھر آنے کے لیے کم از کم آپ لوگوں کو کسی تقریب کی ضرورت نہیں ہے۔ جب آپ کا دل چاہے، آپ آ جائیں۔” میں نے بالآخر اپنی شرمندگی پر قابو پا لیا تھا۔
”چلیں ٹھیک ہے، اب آپ نے انوائٹ کیا ہے تو ضرور آئیں گے۔” میں نے اسے ایک بار پھر مسکراتے ہوئے دیکھا تھا اور پھر وہ مڑ کر منجھلے چچا کے گھر کی طرف چلی گئی تھی۔
میں اس وقت تک اسے دیکھتا رہا، جب تک وہ دروازہ بند کر کے میری نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔ ضروری نہیں ہوتا کہ اگر انسان نظروں سے اوجھل ہو جائے تو ذہن سے بھی اوجھل ہو جائے جس طرح اس دن وہ میرے ذہن سے اوجھل نہیں ہوئی تھی۔
پہلی بار میں کسی صنف مخالف سے متاثر ہوا تھا اور پہلی بار ہی مجھے یہ احساس بھی ہوا تھا کہ وہ بہت خوبصورت تھی۔
خوبصورتی کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک خوبصورتی وہ ہوتی ہے جو آپ کو بے اختیار کچھ کہنے پر مجبور کر دے۔ ایک خوبصورتی وہ ہوتی ہے جو اس وقت آپ کو مسحور کر دے مگر بعد میں آپ اسے بیان کر سکیں مگر ایک خوبصورتی وہ ہوتی ہے جو ہمیشہ آپ کو مسحور کیے رکھتی ہے، نہ آپ اس وقت کچھ کہہ پاتے ہیں، نہ بعد میں ہی اس کو بیان کر پاتے ہیں۔ ایسی خوبصورتی آنکھوں کو خیرہ نہیں کرتی، اندر کہیں کسی چیز پر جا کر لگتی ہے اس طرح کہ بعد میں بندہ کسی قابل ہی نہیں رہتا، جیسے اس دن میرے ساتھ ہوا تھا۔ وہ کیا کہتے ہیں
اسیر حسن تھا یا تھا مقید شہر
کوئی تو بات تھی ایسی کہیں گیا نہ گیا
بہرحال اس ملاقات کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ چوتھے ہی دن میں بغیر کسی ارادی کوشش کے سب سے چھوٹے چچا کے گھر موجود تھا۔ میری وہاں آمد سب کے لیے بے حد حیران کن تھی۔ میں دوپہر کو وہاں گیا تھا اور شام کو وہاں سے واپس آیا، وہ بھی اس لیے کہ فاطمہ کو اپنے کسی ٹیسٹ کی تیاری کرنا تھی اور وہ معذرت کر کے شام کو اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ ظاہر ہے، اس کے بعد میں وہاں بیٹھ کر کیا کرتا۔
پہلی دفعہ ان دنوں میری سمجھ میں یہ آیا تھا کہ اگر بندے کو محبت میرا مطلب ہے، واقعی محبت ہو جائے تو پھر اس کا دل کسی اور چیز میں کیوں نہیں لگتا۔ ان دنوں اٹھتے بیٹھتے اگر کوئی چہرہ میرے سامنے رہتا تھا تو وہ فاطمہ کا چہرہ تھا۔ اگر کوئی آواز کانوں میں گونجتی تھی تو وہ بھی اسی کی آواز تھی۔ جتنی غلطیاں ان چند دنوں میں، میں نے فیکٹری میں کی تھیں، شاید پچھلے دو سال میں کبھی نہیں کی تھیں۔ مجھے حیرانی تھی کہ مجھے فاطمہ پہلے کبھی نظر کیوں نہیں آئی۔ پہلے کبھی مجھے اس سے محبت کیوں نہیں ہوئی۔ اب ہی یہ سب کچھ کیوں ہوا تھا مگر آپ کیا کر سکتے ہیں، بہت سی چیزیں زندگی میں بس ہو جاتی ہیں۔ کیوں، کب اور کیسے کی تو شاید کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
فاطمہ کے گھر جانے کے بعد میں پھر کسی طرح کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھا کہ اس سے میری ملاقات ہو جاتی یا کم از کم میں اسے دیکھ ہی لیتا۔ میں دوبارہ فاطمہ کے گھر نہیں گیا کیونکہ میرا اس طرح آنا جانا انھیں بہت عجیب لگتا۔ میں مہینوں میں کبھی وہاں کا ایک چکر لگایا کرتا تھا، وہ بھی کسی کام سے اور اب ایک ہی ہفتے کے بعد دوبارہ وہاں جانا سب کی نظروں میں کھٹکتا۔
اگلے ہفتے میں نے بہت اصرار کر کے اپنے گھر میں میلاد کروایا اور امی کو مجبور کیا کہ وہ تمام چچاؤں کو اس تقریب میں بلائیں۔ امی کو کچھ حیرت ہوئی تھی کہ اچانک مجھے میلاد کی کیا سوجھی اور پھر چچاؤں کے لیے اتنی محبت کہاں سے امڈ آئی۔ بہرحال انھوں نے ہامی بھر لی۔ تمام چچاؤں کو دعوت دینے میں امی کے ساتھ خود گیا تھا۔ چھوٹے چچا کے گھر سے واپس آتے ہوئے میں کچھ لمحوں کے لیے رک گیا تھا اور میں نے اس سے کہا تھا۔
”میرا خیال ہے، اب آپ ضرور ہمارے گھر آئیں گی۔ اب تو شادی کی کوئی تقریب نہیں ہے۔” اس نے میری بات پر ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا تھا۔
”شادی کی تقریب نہیں ہے مگر بہرحال تقریب تو ہے۔ آنے کاوعدہ نہیں کرتی البتہ کوشش ضرور کروں گی۔” وہ کہہ کر اندر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی اور میں اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔
میلاد کی محفل میں وہ نہیں آئی تھی۔ وہ اور اس کی ایک بہن گھر پر رک گئی تھیں۔ مجھے بہت مایوسی ہوئی تھی۔ مجھے توقع تھی کہ وہ آ جائے گی مگر… میں اسی وقت ابو کو ایک کام سے جانے کا کہہ کر اس کی طرف گیا تھا۔ دروازے پر مجھے دیکھ کر وہ بہت حیران ہوئی تھی۔ میں نے اس کے نہ آنے کا شکوہ کیا تھا اور اس سے پیشتر کہ میں کچھ اور کہتا اس کی بہن وہاں آ گئی پھر میں اس سے کچھ بھی نہیں کہہ سکا بس یہ کہہ کر نکل آیا کہ مجھے ان دونوں کے نہ آنے پر مایوسی ہوئی ہے۔ واپس گھر آ کر میں بہت بے چین تھا۔ تقریباً باقی سارا خاندان ہی وہاں موجود تھا مگر مجھے سب کچھ بالکل بیکار لگ رہا تھا۔ میں نے سب کچھ اس کے لیے کیا تھا مگر وہ…
اس دن پہلی بار احتشام سے ملتے ہوئے میں نے اس کا تفصیلی جائزہ لیا تھا اور پتا نہیں کیوں، اس سے بات کرتے ہوئے میں بہت روکھا ہو گیا تھا، شاید اس نے میری اس بات کو محسوس کر لیا تھا مگر مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی۔ تعلیم کے علاوہ اس بندے میں اور ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو اسے اہم بناتی یا وہ دوسروں سے برتر نظر آتا۔ مجھے پہلی بار وہ اپنا رقیب لگا تھا۔ اس دن میں بار بار ایک ہی بات سوچ رہا تھا۔ کیا یہ بندہ اس قابل ہے کہ فاطمہ جیسی لڑکی اس کی بیوی بنے، وہ اپنی ساری زندگی اس کے ساتھ گزارے۔ جوں جوں میں ان دونوں کے رشتے کے بارے میں سوچتا گیا، میرے غصے اور جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہوا گیا اور اسی دن میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں یہ شادی کسی صورت ہونے نہیں دوں گا۔ کم از کم میری زندگی میں تو یہ نہیں ہو سکتا تھا۔
اس تقریب کے تیسرے دن میں یونیورسٹی پہنچ گیا تھا۔ وہ پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کر رہی تھی اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں تھا۔ میں جانتا تھا، وہ یونیورسٹی پوائنٹ کے ذریعے گھر جاتی تھی اور میں بہت دیر تک سٹاپ سے کچھ فاصلے پر اس کا انتظار کرتا رہا پھر میں نے اسے وہاں نمودار ہوتے دیکھا تھا۔ اسے پہچاننے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی۔ میں اپنی گاڑی اسٹارٹ کر کے سٹاپ کے پاس رک گیا تھا اور پھر میں نے اسے اپنی جانب متوجہ ہوتے دیکھا۔ پہلی بار اپنی مسکراہٹ کے جواب میں، میں نے اس کے ماتھے پر کچھ شکنیں دیکھی، تاہم چند لمحوں کی ہچکچاہٹ کے بعد وہ میری طرف آ گئی تھی۔
”میں ادھر سے گزر رہا تھا، آپ کو دیکھا تو گاڑی روک لی۔ آئیں، آپ کو گھر ڈراپ کر دوں۔” میں اس کی سنجیدگی سے ذرا متاثر نہیں ہوا تھا۔
”آپ کا شکریہ لیکن بس آنے والی ہے، میں چلی جاؤں گی۔”
”پلیز آپ آ جائیں۔ میں آپ کے گھر ہی کی طرف جا رہا ہوں۔” میں نے اپنی بات پر اصرار کیا تھا۔ سٹاپ پر کھڑے سارے ہی لوگ ہماری جانب متوجہ تھے۔
اس نے چند لمحے بہت عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر کار کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ میں نے راستے میں اس سے گفتگو کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ ہر بار ہوں ہاں کے علاوہ اور کچھ نہیں بولی، اس کے گھر کے دروازے کے پاس جب میں نے گاڑی روکی تو اس نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
”اب آپ اندر آ جائیں تاکہ اس محلے کے لوگوں کو یہ پتا چل جائے کہ میں جس کی گاڑی میں آئی ہوں، اس سے میرے گھر والے واقف ہیں۔”
میں کسی معمول کی طرح اس کے پیچھے اندر چلا گیا تھا۔ ”یہ یونیورسٹی کی طرف سے گزر رہے تھے، سٹاپ پر مجھے دیکھا تو گاڑی روک دی۔ آج میں انہی کے ساتھ آئی ہوں۔ امی میرے سر میں درد ہو رہا ہے، میں سونے جا رہی ہوں، مجھے دو تین گھنٹے سے پہلے نہ اٹھائیں۔”
اس نے گھر کے اندر آتے ہی چچی کو دو مختلف باتیں ایک ہی جملے اور لہجے میں بتائی تھیں اور مجھ سے مزید کچھ کہے بغیر سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ مجھے اس کے بگڑے ہوئے تیوروں کا اندازہ ہو گیا تھا پھر بھی مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ مجھے اس بری طرح نظر انداز کرے گی۔ میں کھسیانا سا ہو کر دس پندرہ منٹ چچی کے پاس بیٹھا رہا اور پھر ان کے کھانے پر روکنے کے باوجود وہاں سے چلا گیا۔
میں نے دوبارہ کبھی یونیورسٹی جانے کی ہمت نہیں کی۔ میں نہیں چاہتا تھا، وہ میرے بارے میں کچھ غلط سوچے۔ وہ مجھے نظر انداز کرے یا وہ مجھے ناپسند کرے۔ میری مسکراہٹ کے جواب میں اس کے ماتھے پر شکنیں آئیں۔ اگلے کئی ہفتے میں اس سے ملنے کی ہمت نہیں کر پایا مگر وہ میرے ذہن سے معدوم نہیں ہوئی۔ وہ ہر وقت میرے پاس رہتی تھی اور رہی بھی۔
ڈیڑھ ماہ بعد… پورے ڈیڑھ ماہ بعد میں نے اسے بڑے چچا کی بیٹی کی مہندی پر دیکھا تھا۔ مجھے نہیں معلوم باقی لوگوں کو اس تقریب میں کیا نظر آ رہا تھا مگر مجھے تو صرف وہ نظر آ رہی تھی اور میرے لیے بس اتنا ہی کافی تھا۔ اسی تقریب میں جب میرا اس کا سامنا ہوا تو اس نے مجھے بڑی گرم جوش مسکراہٹ سے نوازا تھا۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی تھی۔ اس کا مطلب ہے، اس کے دل میں میرے لیے کوئی میل نہیں آیا تھا۔
اسی تقریب میں وہ کھانا کھا رہی تھی، جب میں اس کے پاس گیا اور اسے ایک ضروری بات سننے کے لیے کہا۔ وہ کچھ حیرانی اور الجھن کے عالم میں میرے ساتھ آ گئی تھی۔ ایک ویران گوشے میں لے جا کر میں نے اسے کہا تھا۔
”پتا نہیں جو بات میں آپ سے کہنے والا ہوں، وہ آپ کو اچھی لگتی ہے یا نہیں مگر وہ سچ ہے۔ ہو سکتا ہے، وہ بات آپ کو نامناسب بھی لگے مگر فاطمہ… میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔” میں ایک لمحہ کے لیے رکا اور اس کے چہرے کو دیکھا۔ فق رنگت کے ساتھ وہ ہکا بکا مجھے دیکھ رہی تھی۔ شاید اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ”ہو سکتا ہے، آپ کو میری باتوں پر یقین نہ آ رہا ہو اور آپ اسے مذاق سمجھ رہی ہوں مگر فاطمہ یقین کریں، یہ سچ ہے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی سے محبت کی ہے اور وہ آپ ہیں اور آپ کے سوا…”
”آپ اپنا منہ بند کر لیں۔ آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔” اس نے یک دم بلند آواز سے میری بات کاٹ دی۔ وہ جیسے اپنے حواس میں آ گئی تھی۔
”فاطمہ میرا دماغ خراب نہیں ہے، مجھے آپ سے…” میں نے ایک بار پھر اس سے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی۔